دیہی مہاراشٹر میں کہیں بھی آپ کو پیروں کے نیچے سبز گھاس کی چادر، اوپر کھلا آسمان، چاروں طرف سرسبز درخت اور جنگل سے بہتے پانی کے چشمے دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔

حالانکہ، رکئے…گیتا کچھ کہنا چاہتی ہیں۔ چشمے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’ہم عورتیں بائیں طرف جاتی ہیں، اور مرد دائیں طرف۔‘‘ ان کی بستی (کالونی) کے لوگ جب رفع حاجت کے لیے جاتے ہیں، تو یہی پیٹرن اپناتے ہیں۔

گیتا (۴۰ سال) آگے بتاتی ہیں، ’’جب بارش ہوتی ہے، تو رفع حاجت کے لیے ہمیں ٹخنے تک بھرے پانی میں چھاتا لے کر بیٹھنا پڑتا ہے۔ حیض کے دوران تو حالت اور بھی بدتر ہو جاتی ہے۔‘‘

پونہ ضلع کے شیرور تعلقہ میں واقع کرولی گاؤں کے باہری علاقے میں آباد ۵۰ گھروں کی ان کی کالونی میں بھیل اور پاردھی خاندان رہتے ہیں۔ یہ دونوں برادریاں مہاراشٹر میں درج فہرست ذاتوں میں شامل ہیں اور ریاست کی سب سے غریب اور حاشیہ پر پڑی برادریوں میں سے ایک ہیں۔

گیتا کا تعلق بھیل برادری سے ہے اور وہ کھلے میں رفع حاجت کی اپنی پریشانی کے بارے میں کھل کر بتاتی ہیں۔ ’’جہاں ہم بیٹھتے ہیں وہاں گھاس چبھتی ہے، مچھر کاٹتے ہیں اور سانپ کے کاٹنے کا ڈر بھی بنا رہتا ہے۔‘‘

بستی کے لوگوں کو ہر قدم پر چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خاص کر، عورتوں کے لیے مسئلہ تھوڑا زیادہ سنگین ہوتا ہے، جنہیں جنگل کے راستے میں حملے کا شکار ہونے کا ڈر بھی رہتا ہے۔

The stream where residents of the Bhil and Pardhi vasti near Kuruli village go to relieve themselves.
PHOTO • Jyoti Shinoli
The tree that was planted by Vithabai
PHOTO • Jyoti Shinoli

بائیں: وہ چشمہ، جہاں کرولی گاؤں کے پاس بھیل اور پاردھی بستی کے لوگ رفع حاجت کے لیے جاتے ہیں۔ دائیں: وہ درخت جسے ویٹھا بائی نے لگایا تھا

سواتی (۲۲ سال)، جو بھیل برادری سے ہیں، کہتی ہیں، ’’ہم صبح چار بجے گروپ بنا کر رفع حاجت کے لیے جاتے ہیں۔ لیکن، ہمیں ہمیشہ یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ کوئی حملہ نہ کر دے…‘‘

ان کی بستی کرولی گرام پنچایت کے تحت آتی ہے، جو وہاں سے دو کلومیٹر دور ہے۔ مقامی ادارہ سے کی گئی کئی اپیلوں اور درخواستوں کے باوجود، کالونی میں اب بھی بجلی، پینے کا پانی اور بیت الخلاء کی سہولت نہیں ہے۔ تقریباً ۷۰ سال کی ویٹھا بائی کہتی ہیں، ’’وہ [پنچایت] ہمارے مسائل پر کبھی توجہ نہیں دیتے۔‘‘

ایک الگ تھلگ پڑی بستی کے محروم باشندے، ریاست کے درج فہرست قبائل کی ۳۹ فیصد آبادی میں آتے ہیں، جن کے پاس بیت الخلاء کی سہولت نہیں ہے۔ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے ۲۱-۲۰۱۹ ( این ایف ایچ ایس۔۵ ) کے مطابق، دیہی مہاراشٹر میں ۲۳ فیصد کنبوں کے پاس ’’صفائی کی سہولیات دستیاب نہیں ہیں؛ وہ رفع حاجت کے لیے کھلی جگہوں یا کھیتوں میں جاتے ہیں۔‘‘

حالانکہ، سووچھ بھارت مشن (گرامین) کے اعداد و شمار نے سب کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ اس کے مطابق، ’’ایس بی ایم (جی) نے دیہی علاقوں میں ۱۰۰ فیصد صفائی کی سہولیات کے ناممکن کام کو ممکن کر دکھایا اور پہلے مرحلہ (۲۰۱۹-۲۰۱۴) کے دوران مقررہ مدت کے اندر ہندوستان کو کھلے میں رفع حاجت سے پاک کیا ہے۔‘‘

ویٹھا بائی نے اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ کرولی کی سرحد پر واقع بستی میں گزارا ہے۔ وہاں وہ ہمیں ایک درخت دکھاتے ہوئے کہتی ہیں، ’’یہ درخت میں نے لگایا تھا۔ اب آپ میری عمر کا حساب لگا سکتی ہیں۔ اور، اس بات کا اندازہ لگا سکتی ہیں کہ میں کتنے برسوں سے رفع حاجت کے لیے وہاں [جنگل میں] جا رہی ہوں۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Jyoti Shinoli is a Senior Reporter at the People’s Archive of Rural India; she has previously worked with news channels like ‘Mi Marathi’ and ‘Maharashtra1’.

Other stories by Jyoti Shinoli
Editor : Vinutha Mallya

Vinutha Mallya is a journalist and editor. She was formerly Editorial Chief at People's Archive of Rural India.

Other stories by Vinutha Mallya
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique