یہ رہنمائی والی ہجرت ہے۔ جس میں انسان بھینسوں
کے جھُنڈ کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ اڈیشہ کے جگت سنگھ پور ضلع کے گوالے (مویشیوں سے
دودھ نکالنے والے) ہر سال، بھینسوں کے ایک بڑے جھُنڈ کو دیوی ندی سے پار کراتے
ہیں۔ یہ شدید گرمی کے موسم میں تب ہوتا ہے، جب انھیں ندی کے اُس پار نئے چراگاہوں
کی تلاش ہوتی ہے۔ اس کے بعد یہ تیر کر واپس آ جاتے ہیں۔ یہ سیرینگیٹی نیشنل پارک
کی ہجرت تو نہیں ہے، لیکن پورا نظارہ دیکھنے لائق ہوتا ہے۔
میں نے اس نظارہ کو ایک دن نہرانا گرام پنچایت کے قریب دیکھا۔ یہ گاؤں دیوی ندی کے کنارے واقع ہے۔ یہ ندی ساحلی اڈیشہ کے جگت سنگھ پور اور پوری ضلعوں سے ہوکر گزرتی ہے اور مہاندی میں جاکر مل جاتی ہے۔
نہرانا گرام پنچایت کے گنڈاکل گاؤں کے قریب دیوی ندی کے
کنارے۔ دائیں جانب واقع مٹی کا ڈھیر منوڈیہہ ہے
نہرانا گرام پنچایت کے آس پاس کے گاؤوں میں ماہی
گیروں کی کئی برادریاں رہتی ہیں۔ دیوی ندی ان کا ایک بڑا ذریعہ معاش ہے۔ اس ساحلی
علاقہ میں بڑی تعداد میں دودھ کا کاروبار کرنے والے گوالے بھی رہتے ہیں۔ بہت سے
دوسرے گھروں میں بھی مویشی پالے جاتے ہیں، جو اِن کنبوں کی اضافی آمدنی کا ذریعہ
ہیں۔
اڈیشہ اسٹیٹ کوآپریٹو مِلک پروڈیوسرس فیڈریشن یہاں اچھا کام کر رہا ہے۔ یہاں کے گوالوں اور گائے و بھینس پالنے والے دوسرے لوگوں کو اپنا سامان بیچنے کے لیے بازار تلاش کرنے کی ضرورت اس لیے نہیں پڑتی، کیوں کہ فیڈریشن ان سے یہ سامان خرید لیتی ہے۔
دیوی ندی کھارے پانی کی مچھلیوں کا گہوارہ ہے، جہاں ماہی
گیر جال سے مچھلیاں نکالنے میں مصروف ہیں
ندی کا دہانہ نہرانا سے مشکل سے ۱۰ کلومیٹر کی
دوری پر واقع ہے، اور چونکہ ندی کا یہ دہانہ کافی چوڑا ہے، اس لیے گاؤوں میں بہت
سے ڈیلٹا بن چکے ہیں۔ ندی کے کٹاؤ کی وجہ سے جن مقامی کسانوں کے کھیت اس میں مل
گئے، وہ ان ڈیلٹاؤں پر کھیتی باڑی کرتے ہیں اور کہیں کہیں انھوں نے کچھ وقت کے لیے
جھونپڑیاں بھی بنا لی ہیں۔ ان ڈیلٹاؤں میں ہرے بھرے چراگاہ بھی موجود ہوتے ہیں۔
پاس کی برامُنڈلی گرام پنچایت کے پاتر پاڑہ گاؤں میں گوالوں کی ایک فیملی اپنے ذریعہ پالی گئی ۱۵۰ بھینسوں کے دودھ بیچتی ہے۔اس قسم کے کنبوں کے لیے، جو روایتی طور پر زمینوں کے مالک نہیں ہیں، اتنی ساری بھینسوں کے لیے جھونپڑیاں بنانا یا ان کے لیے چراگاہ تلاش کرنا آسان نہیں ہوتا۔ ایسے میں دیوی ندی کے کنارے اور ڈیلٹا ان کے لیے غنیمت کا کام کرتے ہیں۔ اپنی بھینسوں کو اِن ڈیلٹا کی سبز چراگاہوں پر چرانے کے لیے گوالے چراگاہوں کے مالکوں کو سالانہ ۲ لاکھ روپے ادا کرتے ہیں۔ رات میں بھینسیں، ندی کے کنارے جنگلی جھاؤ کے درختوں کے نیچے آرام کرتی ہیں اور دن میں ندی پار کرکے ڈیلٹا کی طرف چرنے چلی جاتی ہیں۔ یہ سلسلہ مانسون سے پہلے اس وقت تک چلتا رہتا ہے، جب ان ڈیلٹاؤں پر تازہ پانی جمع نہیں ہو جاتا، جسے پی کر بھینسیں اپنی پیاس بجھاتی ہیں۔
درج ذیل تصویریں بھینسوں کے روزانہ کے معمول میں شامل چراگاہ کی جانب جاتے ہوئے ایک طرف کے سفر کی عکاسی کر رہی ہیں۔
بھینسیں جھاؤ کے درختوں سے نکل کر چلنا شروع کرتی ہیں
وہ وہاں تک یونہی چلتی رہتی ہیں، جہاں سڑک اور ڈیلٹا کے
درمیان دوری کم ہے، تاکہ انھیں تیرتے وقت کم دوری طے کرنی پڑے
بھینسیں سڑک سے نیچے اتر رہی ہیں تاکہ ندی کو پار کر سکیں۔
ان میں سے کچھ پانی میں داخل ہونے سے کتراتی ہیں، لیکن کچھ اپنی مرضی سے اس میں
کود جاتی ہیں
تین دن کا ایک بچھڑا اپنی ماں کے ساتھ چلتا ہوا
بھینسیں جھنڈ میں تیرتی ہیں۔ انہیں چرانے والے ان کے پیچھے
موٹر بوٹ سے چلتے ہیں
وہ خود کو محفوظ رکھنے کے لیے جھنڈ میں تیرتی ہیں، تاکہ
بچھڑوں جیسے اپنے سے کمزوروں کو بچا سکیں۔ کم تیرنے والی بھینسیں دوسروں کے اوپر
جھک جاتی ہیں، تاکہ آسانی سے تیر کر پار ہو سکیں
ندی کے بیچ میں دوسروں کی مدد سے پہنچنے کے بعد تین دن کے
بچھڑے کی مشق رُک جاتی ہے۔ وہ بڑی بھینسوں جتنی تیزی سے نہیں تیر سکتا اور وہیں
پھنس جاتا ہے۔ اس کی ماں بھی بے سہارا محسوس کرتی ہے
جھنڈ کا مالک بوٹ سے اس کے پاس پہنچتا ہے اور بچھڑے کو اوپر
کھینچ لیتا ہے
ایسا لگتا ہے کہ بچھڑے کو چین آ گیا، لیکن وہ اب بھی پریشان
ہے
وہ اپنی ماں کو متوجہ کرنے کے لیے مسلسل آواز نکال رہا ہے
اس کی ماں، بھینس بوٹ اور بچھڑے کو تاکتی رہتی ہے، جب کہ
بقیہ بھینسیں تیرنے میں لگی ہوئی ہیں
جب کنارہ آتا ہے، تو بچھڑا باہر کودنے کے لیے کھڑا ہو جاتا
ہے، جلدی سے اپنی ماں کے پاس پہنچنا چاہتا ہے
جھنڈ منو ڈیہہ کے پاس پہنچنے والا ہے
بچھڑے کو سب سے پہلے بوٹ سے باہر نکالا جاتا ہے
بچھڑے کی ماں جذباتی ہوکر اس کے پاس پہنچ جاتی ہے
بقیہ بھینسیں ڈیلٹا پر پہنچتے ہی چرنے میں مصروف ہو جاتی ہیں
یہ موٹا تگڑا بھینسہ جھنڈ سے الگ ہوکر اطمینان سے چرنے میں
لگا ہوا ہے
ماں بھینس گھاس کے میدان کی طرف جا رہی ہے اور بچھڑا اس کے
پیچھے پیچھے آتا ہوا
بھینسوں کو بحفاظت ڈیلٹا پر پہنچانے کے بعد، گوالے اپنے
گاؤں کی طرف واپس چلے جاتے ہیں