ماں اپنی بالکنی میں تلسی کے پودے کے بغل میں ایک چھوٹا سا دیا (چراغ) جلا کر رکھتی ہیں۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے، ہر شام انہیں ایسا کرتے ہوئے دیکھتی ہوں۔ اب ان کی عمر ۷۰ سال پار کر چکی ہے، ان کے پیر اور ہاتھ پارکنسن نامی مرض کی وجہ سے کانپتے رہتے ہیں، دماغ کہیں گم رہتا ہے، وہ اپنے دیے کو اندھیرا سمجھتی ہیں۔ اپارٹمنٹ کی دوسری بالکنیوں میں جیسے دیوالی کی روشنی پھیلی ہے۔ انہیں تعجب ہوتا ہے، کیا آج دیوالی ہے؟ ان کی یادداشت پر اب بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن، اب سب کچھ پھر سے اندھیرے میں ڈوب چکا ہے، پہلے کے مقابلے زیادہ گہرے اندھیرے میں۔ انہیں کچھ منتر سنائی دیتے ہیں جن سے وہ شاید واقف ہیں؛ کچھ سننے میں گایتری منتر کی طرح لگتے ہیں۔ یا کوئی ہنومان چالیسہ پڑھ رہا تھا؟ کیا ابھی ابھی کسی نے ’پاکستان مردہ آباد‘ کا نعرہ لگایا؟

وہ تاروں سے خالی آسمان کو دیکھتی ہیں اور کانپ اٹھتی ہیں۔ اچانک انہیں کچھ آوازیں سنائی دیتی ہیں، اور یہ آوازیں انہیں پریشان کر رہی ہیں۔ آوازیں انہیں وارننگ دیتی ہیں کہ مسلم بیکری والے، لوگوں کو خراب اور گندے بریڈ فروخت کر رہے ہیں۔ آوازیں کہتی ہیں کہ مسلم سبزی والوں کا بائیکاٹ ہونا چاہیے، کیوں کہ وہ بیماری پھیلانے کے لیے سبزیوں پر تھوک کر خریداروں کو بیچ رہے ہیں۔ آوازیں اتحاد کی علامت کے طور پر دیے جلانے کے لیے کہہ رہی ہیں۔ کہیں کہیں سڑکوں پر بھوکے پیٹوں کی آوازیں چیختی ہیں، مگر انہیں سننے والا کوئی نہیں۔ محبت اور رحمدلی کی بات کرنے والی مذہبی کتابوں کی ٹوٹتی آوازیں ہیں کہیں۔ اندھیری ہواؤں کی آوازیں ان کے دیے کو بجھا دیتی ہیں۔ انہیں چکر آ رہا ہے، اور وہ اپنے بستر پر جا کر لیٹنا چاہتی ہیں، لیکن اتنے گہرے اندھیرے میں واپس لوٹنا مشکل ہے۔ ان کی کانپتی انگلیاں دیا جلانے کی کوشش کرتی ہیں، ایک بار پھر…

سدھنوا دیش پانڈے کی آواز میں یہ نظم سنیں

PHOTO • Rahul M.

اندھیری روشنی کا چراغ

میں نے ایک چھوٹا سا چراغ کیا جلایا
اور گہرا اندھیرا سامنے آکر کھڑا ہو گیا!
ایسا کیسے؟
گھات لگائے کیسے چھپا تھا چپ چاپ
اب تک
گھر کے اُس چھوٹے سے کونے میں
اور اب تانڈو کر رہا ہے
میری آنکھوں کے سامنے
چاروں طرف!
میں نے بند کر دیا تھا اسے
تہہ خانے میں
اس سے بھی نیچے
دھمکیاں اور وارننگ دے کر۔
لوہے سے بھی بھاری شرم کا سانچہ
رکھ دیا تھا
میں نے اس کی پیشانی پر
سازشیں روکنے کو۔
زبان پر لگا دیا تھا تالا
یاد سے
اس کے منہ پر
بند کر دیا تھا دروازہ بھی۔
پھر یہ باہر کیسے چھوٹا؟
پابندیوں کا کیا ہوا؟
اندھیرا کیسے گھوم سکتا ہے یوں
بے شرم اور ننگا؟
چھوٹی، دھندلی
پیار کی جلتی روشنی کے درمیان
کر رہا در اندازی
ہر ایک روشنی کو بنا رہا
اندھیرا، سیاہ،
زہریلا سرخ
بدعنوان، اور خونی
وہ روشنی جو تھی
گرم، زرد، اور اُجلی
اس کی پیشانی سے کس نے ہٹایا
وزن
کُنڈی کس نے کھولی؟
کس نے ہٹایا تالا
اس کی زبان سے؟
کون جانتا تھا
دیا جلانے کا مطلب
ہوگا
اندھیرا بلانا؟

آڈیو: سدھنوا دیش پانڈے، جن ناٹیہ منچ سے جڑے فنکار اور ہدایت کار ہیں۔ ساتھ ہی، وہ لیفٹ ورڈ بکس کے ایڈیٹر بھی ہیں۔

فوٹو: راہل ایم

مترجم: محمد قمر تبریز

Pratishtha Pandya

Pratishtha Pandya is a Senior Editor at PARI where she leads PARI's creative writing section. She is also a member of the PARIBhasha team and translates and edits stories in Gujarati. Pratishtha is a published poet working in Gujarati and English.

Other stories by Pratishtha Pandya
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique