دسمبر ۲۰۲۰ میں، سریندر کمار اتر پردیش اور دہلی کی سرحد پر واقع غازی پور میں احتجاج کر رہے کسانوں کے لیے کھانا بنانے کے لیے ہفتہ میں ایک دن چار گھنٹے نکال رہے تھے۔ یہ گھنٹے آہستہ آہستہ بڑھ کر آٹھ ہو گئے اور اب سریندر ہفتہ میں تقریباً ۱۲ گھنٹے احتجاجیوں کے لیے کھانا بنانے میں گزارتے ہیں۔
’’مجھے روزانہ اتنے گھنٹے تک کھانا بنانا پڑ سکتا ہے،‘‘ ۵۸ سالہ سریندر، غازی پور کے احتجاج میں شامل ہونے والے مغربی یوپی کے کسانوں کی بڑھتی تعداد کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں۔
سریندر ایک حلوائی ہیں، جن کی یوپی کے مظفر نگر ضلع کے شوروں گاؤں (یا سورم) میں ایک دکان ہے۔ ’’ہم یہاں [گاؤں میں] کھانا بناتے ہیں اور ٹریکٹر اور کار سے سرحد پر بھیجتے ہیں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ گاؤں کے لوگ ہفتہ میں ایک بار غازی پور کھانا پہنچاتے ہیں۔
’’پہلے، مغربی یوپی کے کسان وہاں پر بڑی تعداد میں نہیں تھے۔ اس لیے میں اپنی دکان سنبھالنے کے ساتھ ساتھ ہر ہفتہ کچھ گھنٹے [کھانا پکانے کے لیے] دے سکتا تھا۔ لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ بوجھ بڑھ رہا ہے،‘‘ سریندر کہتے ہیں۔
غازی پور، شوروں سے تقریباً ۹۵ کلومیٹر دور، دہلی کی سرحد پر واقع اُن تین اہم مقامات میں سے ایک ہے، جہاں نئے زرعی قوانین کے خلاف ۲۶ نومبر، ۲۰۲۰ کو کسانوں کا احتجاجی مظاہرہ شروع ہوا تھا۔ بھارتیہ کسان یونین (بی کے یو) کے لیڈر، راکیش ٹکیت کی جذباتی اپیل پر، یوپی کے کسانوں کے بڑے گروہوں نے جنوری کے آخر سے احتجاج کے مقام پر پہنچنا شروع کر دیا تھا۔
۲۸ جنوری کو، ریاستی حکومت کے ذریعہ احتجاجیوں کو وہاں سے چلے جانے کا ایک الٹی میٹم جاری کرنے کے بعد، یوپی پولیس غازی پور میں احتجاجی مقام کو خالی کرانے کے لیے پہنچی تھی۔ پولیس کی پر تشدد کارروائی کے امکان کے مد نظر، راکیش ٹکیت کیمرہ کے سامنے رو پڑے اور کسانوں کو احتجاجی مظاہرہ کی حمایت کرنے کے لیے غازی پور آنے کی اپیل کی۔ ٹکیت، کسانوں کی ٹریکٹر ریلی کے دوران ۲۶ جنوری کو دہلی میں ہوئے تشدد کے واقعات سے متعلق ابتدائی اطلاعی رپورٹ (ایف آئی آر) میں نامزد کسان لیڈروں سے میں سے ایک تھے۔
ٹکیت کی اپیل نے آندولن میں دوبارہ جان ڈال دی اور بڑی تعداد میں کسان غازی پور سرحد پر پہنچنے لگے۔ مغربی یوپی کے مختلف حصوں میں بھی دھرنا شروع ہو گیا، جہاں ان کا کافی اثر و رسوخ ہے۔
شاہ پور بلاک میں واقع شَوروں گاؤں، بالیان کھاپ کا ایک حصہ ہے – ۸۴ گاؤوں کا ایک گروپ جو عہد وسطیٰ میں جاٹ برادری کے کشیَپ قبیلہ کے ماتحت تھا۔ آج بھی، ٹکیت کی فیملی کی سربراہی والی بالیان کھاپ کا اِن گاؤوں پر اثر ہے، جو اب یوپی، ہریانہ اور راجستھان میں پھیلے ہوئے ہیں۔ شَوروں، بالیان کھاپ کے کئی گاؤوں میں سے ایک ہے، جو اِس آندولن کو جاری رکھے ہوئے ہے۔
’’ہم ۷-۸ لوگ ہیں، جو ہر ہفتے ایک ہزار سے زیادہ لوگوں کے لیے کھانا بناتے ہیں،‘‘ سریندر کہتے ہیں۔ ’’ہم حلوہ، کھیر، آلو پوڑی، کھچڑی، پکوڑا اور دیگر چیزیں بناتے ہیں۔ ہم پکے ہوئے کھانے کے ساتھ ساتھ راشن اور پھل بھی بھیجتے ہیں۔‘‘ ان کا اندازہ ہے کہ تقریباً ۱۵۷۰۰ کی آبادی والے اس گاؤں (مردم شماری ۲۰۱۱) سے تقریباً ۱۵۰ لوگ غازی پور میں ہیں۔
شوروں میں، احتجاجیوں کے لیے کھانا پکانے کا تقریباً سارا کام مرد کر رہے ہیں۔ وہ اس کے بارے میں تفصیل سے بتانا چاہتے ہیں، لیکن پانچ ایکڑ میں گنّے کی کھیتی کرنے والی چنچل بالیان اس سے زیادہ متاثر نہیں ہیں۔ ’’ہمیشہ ہم [عورتیں] ہی کھانا بناتے ہیں۔ اس میں بڑی بات کیا ہے؟‘‘ ۴۵ سالہ کسان مذاق میں کہتی ہیں۔
گاؤں کے کاشتکار، جو عام طور سے گنّے کی کھیتی کرتے ہیں، وسائل جمع کر رہے ہیں۔ ’’کسانوں نے غذائی اشیاء کے لیے پیسے دیے ہیں۔ ہم گیہوں، دال اور اناج بھی بطور عطیہ دیتے ہیں، جسے ہم اپنے کھیتوں میں اُگاتے ہیں،‘‘ چنچل کہتی ہیں۔ ’’کچھ کسان سرحد پر جسمانی طور پر احتجاج کر رہے ہوں گے۔ لیکن پورا گاؤں ان کے پیچھے کھڑا ہے۔ ہم سبھی ایک ساتھ ہیں۔‘‘
احتجاجی مظاہرہ کے لیے اپنی پیداوار اور پیسے عطیہ کرنے والے کئی کسان خود قرض میں ڈوبے ہوئے ہیں یا اپنی گنّے کی فصل کے لیے چینی صنعت سے ادائیگی کا انتظار کر رہے ہیں۔ شوروں میں دو ایکڑ کھیت کے مالک، ۵۷ سالہ رام سنگھ نے ۲۰۱۹-۲۰ کے سیزن میں جو گنّے فروخت کیے تھے، اس کے ۱۸ ہزار روپے کی ادائیگی انہیں اب تک نہیں کی گئی ہے۔ ’’پھر بھی میں کچھ اناج سے تعاون کرتا ہوں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
’’۲۰۱۹-۲۰ کے سیزن میں میرے گنّے کے ایک لاکھ روپے کی ادائیگی اب تک نہیں کی گئی ہے،‘‘ چار ایکڑ کھیت کے مالک، ۸۰ سالہ وجے پال کہتے ہیں، جو باقاعدگی سے راشن دیتے ہیں۔ پال کو اپنے کسان کریڈٹ کارڈ سے تقریباً اتنی ہی رقم قرض لینی پڑی تھی۔ ’’ہم کیا کر سکتے ہیں؟ ہم بھوکے نہیں مر سکتے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
پال فروری کے دوسرے ہفتہ میں کھانا لیکر غازی پور گئے تھے، اور کچھ دنوں تک احتجاج کے مقام پر قیام کیا تھا۔ ’’اس عمر میں، میں لمبے عرصے تک وہاں نہیں رک سکتا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ان زرعی قوانین نے مغربی یوپی کے کسانوں کو سرکار کی پالیسیوں کے تئیں بیدار کر دیا ہے، وہ کہتے ہیں۔
کسانوں کی آمدنی ۲۰۲۲ تک دو گنا کرنے کے لیے، فروری ۲۰۱۶ میں اعلان کردہ مرکزی حکومت کی اسکیم کا حوالہ دیتے ہوئے پال کہتے ہیں، ’’اس میں صرف ایک سال بچا ہے۔ اس کا کیا ہوا؟ یہ قانون ہماری حالت کو مزید خستہ کر دیں گے۔‘‘
کسان جن قوانین کی مخالفت کر رہے ہیں، وہ ہیں زرعی پیداوار کی تجارت و کاروبار (فروغ اور سہل آمیزی) کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ کاشت کاروں (کو با اختیار بنانے اور تحفظ فراہم کرنے) کے لیے قیمت کی یقین دہانی اور زرعی خدمات پر قرار کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ اور ضروری اشیاء (ترمیمی) قانون، ۲۰۲۰ ۔
کسان ان قوانین کو اپنے معاش کے لیے تباہ کن سمجھ رہے ہیں کیوں کہ یہ قوانین بڑے کارپوریٹ کو کسانوں اور زراعت پر زیادہ اختیار فراہم کرتے ہیں۔ نئے قوانین کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی)، زرعی پیداوار کی مارکیٹنگ کمیٹیوں (اے پی ایم سی)، ریاست کے ذریعہ خرید وغیرہ سمیت، کاشتکاروں کی مدد کرنے والی بنیادی شکلوں کو بھی کمزور کرتے ہیں۔ ان قوانین کی اس لیے بھی تنقید کی جا رہی ہے کیوں کہ یہ ہر ہندوستانی کو متاثر کرنے والے ہیں۔ یہ ہندوستان کے آئین کی دفعہ ۳۲ کو کمزور کرتے ہوئے تمام شہریوں کے قانونی چارہ جوئی کے حق کو ناکارہ کرتے ہیں۔
ریاست میں ۲۰۰۶ میں اے ایم پی سی کو ختم کرنے کے بعد، بہار کے کسانوں کا تجربہ اس بات کا اشارہ ہے کہ آنے والے دنوں میں تمام کسانوں کے ساتھ کیا ہونے والا ہے، ۳۶ سالہ اجندر بالیان کہتے ہیں۔ ’’بہار کے کسان تب سے جدوجہد کر رہے ہیں۔ دیگر ریاستوں کے کسانوں کی حالت اب وہی ہوگی،‘‘ وہ کہتے ہیں، اور ماضی میں موجودہ سرکار کی حمایت کرنے پر پشیمانی کا اظہار کرتے ہیں۔ ’’ہمارے بڑوں نے ہمیں وارننگ دی تھی، لیکن ہم پروپیگنڈہ کے شکار ہو گئے تھے۔‘‘
شوروں سے غازی پور میں کھانے کی سپلائی کسانوں کے عزم پر ٹکی ہے۔ لیکن یہ مالی طور پر عملی نہیں ہے۔ ’’کوئی کام دستیاب نہیں ہے۔ ہمارے بچوں کی اسکول فیس ادا کرنا یا موٹر سائیکل رکھنا بھی مشکل ہو رہا ہے،‘‘ شوروں کے سابق پردھان، ۶۰ سالہ سدھیر چودھری کہتے ہیں۔ ’’یہ افسوس کی بات ہے کہ کسانوں کو احتجاج کے مقام پر قیام کرنا پڑ رہا ہے۔‘‘
کچھ کسان زندہ رہنے کے لیے مویشیوں کا دودھ فروخت کر رہے ہیں، چودھری کہتے ہیں۔ ’’ہم نے پہلے کبھی دودھ نہیں بیچا۔ اب ہم اضافی پیسے کمانے کے لیے [دودھ کی] بالٹی کے ساتھ ساتھ گھر گھر جاتے ہیں۔ پھر بھی، ہم لڑ رہے ہیں کیوں کہ یہ ہمارے معاش کی لڑائی ہے۔‘‘
ان مشکلات کے باوجود، ان کے عزم میں کوئی کمی نہیں آئی ہے، شوروں میں چھ ایکڑ کھیت کی مالک، ۶۶ سالہ سایندری بالیان کہتی ہیں۔ سرکار کو تینوں زرعی قوانین کو واپس لے لینا چاہیے، وہ زور دیکر کہتی ہیں۔ ’’تب تک، ہم کھانا اور راشن سرحد پر بھیجتے رہیں گے۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز