انجن گاؤں کے پاس ایک مقدس پہاڑی، زعفرانی اور سفید پرچم سے بھری ہوئی ہے۔ سفید پرچم قدرت (نیچر) کی پوجا کرنے والے سرنا آدیواسی برادریوں کے ہیں۔ یہ جھارکھنڈ کے گملا ضلع کے اوراؤں آدیواسیوں کے پرچم ہیں۔ زعفرانی پرچم ان ہندوؤں کے ہیں جنہوں نے ۱۹۸۵ میں پہاڑی کی چوٹی پر ایک ہنومان مندر بنوایا تھا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ ہندو بھگوان ہنومان کی جائے پیدائش ہے۔

بانس کے گیٹ پر لگے دو بڑے بینر عقیدت مندوں کا استقبال کرتے ہیں۔ ان پر دو کمیٹیوں کے نام لکھے ہوئے ہیں۔ محکمہ جنگلات اور انجن گاؤں کے لوگوں کے ذریعے مشترکہ طور پر چلائی جانے والی فاریسٹ مینجمنٹ کمیٹی (سنیُکت گرام ون پربندھن سمیتی)۔ یہ مشترکہ طور پر ۲۰۱۶ سے تیرتھ استھل (پوجا کی جگہ) اور پارکنگ کا انتظام سنبھالتی ہے۔ سال ۲۰۱۹ میں قائم کی گئی ہندوستانیوں کی کمیٹی ’’انجن دھام مندر وکاس سمیتی‘‘ مندر کا انتظام دیکھتی ہے۔

استقبالیہ دروازے کے ٹھیک اندر ہمارے سامنے دو سیڑھیاں ہیں، جو اوپر کی طرف جاتی ہیں۔ دونوں پوجا کے الگ الگ مقامات کی طرف جاتی ہیں۔ ایک آپ کو سیدھے پہاڑی کی چوٹی پر واقع ہنومان مندر کی طرف لے جاتی ہے۔ دوسری سیڑھی دو غاروں کی طرف لے جاتی ہے، جن میں آدیواسی پاہن ہندو مندر کے وجود میں آنے سے پہلے سے ہی پوجا کرتے آ رہے ہیں۔

دو الگ الگ پوجا کے مقامات کے قریب، الگ الگ ڈونیشن باکس، دو الگ الگ دیوتاؤں کے خدمت گاروں کے ذریعے الگ الگ مقاصد کے لیے رکھے گئے ہیں۔ ایک غار کے سامنے، ایک مندر کے اندر۔ تیسرا ڈونیشن باکس آنگن میں ہے، جو بجرنگ دل کا ہے۔ اس ڈونیشن باکس کے پیسے کا استعمال منگل کے بھنڈارے کے لیے کیا جاتا ہے، جس میں عقیدت مند سادھوؤں کے لیے کھانے کا انتظام کیا جاتا ہے۔ اور انجن گاؤں کے پاس، پہاڑی کے دامن میں ایک اور ڈونیشن باکس ہے، جس میں جمع ہوئی رقم سے گاؤں کے آدیواسیوں کو پوجا کا سامان یا پرساد خریدنے میں مدد ملتی ہے۔

’’یہ پوری طرح سے آدیواسی علاقہ ہے۔ انجن گاؤں میں پہلے کوئی پنڈت نہیں تھا۔‘‘ گاؤں کے سابق پردھان، رنجے اوراؤں (۴۲ سالہ) اس مذہبی مقام میں پوجا کے انتظام کے بارے میں مجھے بتا رہے ہیں۔ ’’حال ہی میں بنارس سے پنڈت اس علاقے میں آئے ہیں۔ یہاں کے اوراؤں آدیواسی برسوں سے قدرت کی دیوی انجنی کی پوجا کرتے آ رہے ہیں، لیکن ہم کبھی نہیں جانتے تھے کہ انجنی کا تعلق ہنومان سے تھا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

رنجے کے مطابق، ’’پنڈت آئے اور انہوں نے یہ کہانی پھیلانی شروع کر دی کہ انجنی دراصل ہنومان کی ماں تھی۔ انجن کو ہنومان کی مقدس جائے پیدائش قرار دیا گیا اور اس سے پہلے کہ کوئی کچھ سمجھ پاتا، پہاڑی کے ٹھیک اوپر ایک ہنومان مندر بن گیا۔ اور اس جگہ کو انجن دھام قرار دے دیا گیا۔‘‘

Left: The main entrance of Anjan Dham from where two staircases, one on the right and the other on the left, lead one to two different worship places up the mountain.
PHOTO • Jacinta Kerketta
Right: White flags on the mountain belong to the nature worshipping Sarna tribals. The saffron flag represents the Hindus, who also have a temple on the top of the hill
PHOTO • Jacinta Kerketta

بائیں: انجن دھام کا مرکزی دروازہ، جہاں سے دو سیڑھیاں (ایک دائیں طرف اور دوسری بائیں طرف) پہاڑ پر واقع الگ الگ پوجا کے مقامات تک جاتی ہیں۔ دائیں: پہاڑ پر لگے سفید پرچم قدرت کی پوجا کرنے والے سرنا آدیواسیوں کے ہیں۔ زعفرانی پرچم ہندوؤں کی ترجمانی کرتا ہے، جن کا مندر بھی پہاڑی کی چوٹی پر بنا ہوا ہے

انہوں نے بتایا کہ آدیواسیوں نے کبھی مندر کا مطالبہ نہیں کیا تھا؛ یہ اقتدار اور ایک انتظامی افسر کی پہل پر ہوا۔ تب جھارکھنڈ، بہار کا حصہ ہوا کرتا تھا۔

انجن کے ہنومان مندر کے پنڈت کیدار ناتھ پانڈے کے پاس مندر کی تعمیر سے جڑی ایک دلچسپ کہانی ہے۔ مندر کی دیکھ بھال کرنے والے دو پنڈت خاندانوں میں سے ایک سے تعلق رکھنے والے ۴۶ سالہ کیدار ناتھ یہ کہتے ہیں، ’’میرے دادا جی منک ناتھ پانڈے نے ایک بار خواب میں دیکھا کہ ہنومان کی پیدائش اس پہاڑی کے ایک غار میں ہوئی ہے۔‘‘

وہ کہتے ہیں کہ اس خواب کے بعد ان کے دادا جی نے پہاڑی پر جانا اور پرارتھنا کرنا، رامائن پڑھنا شروع کر دیا۔ ’’انجنا رشی گوتم اور ان کی بیوی اہلیا کی بیٹی تھی۔‘‘ وہ ہمیں وہ کہانی سناتے ہیں جو انہوں نے اپنے دادا جی سے سنی تھی۔ ’’اسے بد دعا دی گئی تھی جس کے بعد وہ اس نامعلوم پہاڑ پر آئی تھی۔ انہی کے نام پر اس جگہ کا نام انجنا پہاڑی پڑا۔ وہ شیو کی بھکت تھی۔ ایک دن شیو ان کے سامنے ایک بھکشو (فقیر) کی شکل میں نمودار ہوئے اور انہیں شراپ (بد دعا) سے نجات دلانے کے لیے ان کے کان میں ایک منتر پھونکا۔ منتر کی طاقت سے ہی ہنومان کا جنم ان کی کوکھ سے نہیں، بلکہ ان کے زانو سے ہوا تھا۔

’’ان دنوں رگھو ناتھ سنگھ گملا کے ایس ڈی او تھے۔ اور وہ میرے والد کے گہرے دوست تھے۔ ان دونوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ پہاڑی پر ایک ہنومان مندر بننا چاہیے۔ شروع میں آدیواسیوں نے اس کی مخالفت کی اور پہاڑی پر جا کر بکرے کی قربانی دی۔ لیکن آخرکار مندر بنا ہی دیا گیا اور اسے انجن دھام قرار دے دیا گیا،‘‘ وہ بے پرواہ ہو کر ساری بات کہتے ہیں۔

انجن گاؤں کا نام انجنی ماں کے نام پر رکھا گیا ہے – ایک آدیواسی دیوی، قدرت کی ایک طاقت، جس کے بارے میں گاؤں والوں کا ماننا ہے کہ وہ گاؤں کے آس پاس کی پہاڑیوں میں قیام کرتی ہے۔ سینکڑوں برسوں سے وہ غاروں میں دیوی کی باقاعدہ پرارتھنا کرتے آئے ہیں۔

گاؤں کے ایک رہائشی مہیشور اوراؤں (۵۰ سالہ) کہتے ہیں، ’’بہت سالوں سے لوگ پہاڑی پر پتھروں کی پوجا کرتے تھے۔ اور یہ قدرت کی پوجا تھی۔ ہنومان جی کے اس پہاڑ پر جنم لینے کی کہانی بہت بعد میں مشہور ہو گئی۔‘‘

The cave on the mountain where pahans, traditional priests of the Adivasis, from Anjan village perform puja
PHOTO • Jacinta Kerketta

پہاڑ پر واقع وہ غار جہاں انجن گاؤں کے پاہن، جو آدیواسیوں کے روایتی پجاری ہیں، پوجا کرتے ہیں

The Hanuman temple on the mountain that is now called Anjan Dham
PHOTO • Jacinta Kerketta

پہاڑ پر بنا ہنومان مندر، جسے اب انجن دھام کہا جاتا ہے

گاؤں کے پردھان بِرسا اوراؤں (۶۰ سالہ) نے اپنی زندگی میں انجن میں ہنومان مندر کو بنتے دیکھا ہے۔ وہ پوری وضاحت سے کہتے ہیں کہ آدیواسی قدرت کے پجاری ہیں، ’’آدیواسی ہندو نہیں ہیں۔ انجن گاؤں اوراؤں آدیواسیوں کی اکثریت والا گاؤں ہے اور اوراؤں آدیواسی سرنا مذہب کو مانتے ہیں۔ سرنا مذہب میں قدرت کی پوجا ہوتی ہے – پیڑ، پہاڑ، ندی، جھرنے سب کچھ کی۔ ہم قدرت کی ان سبھی چیزوں کی پوجا کرتے ہیں جو ہمیں زندہ رکھنے میں معاون ہیں۔‘‘

اسی گاؤں کی ۳۲ سالہ خاتون رمنی اوراؤں کہتی ہیں کہ اصل میں گاؤں کے لوگ سرنا مذہب کے ہی پیروکار ہیں۔ یہ پوری طرح سے قدرت کی پوجا ہے۔ ’’ہمارے لوگ آج بھی قدرت سے جڑے تہوار جیسے سرہُل [وسنت کا تہوار]، کرم [فصل کٹائی سے جڑا تہوار] دھوم دھام سے مناتے ہیں۔ مندر بننے سے پہلے ہم نے پہاڑی پر ہنومان کے جنم لینے کی بات نہیں سنی۔ ہم لوگ پہاڑ کی پوجا کرتے تھے۔ پہاڑ کی غار پر کچھ پتھر تھے، ہم اس کی پوجا کرتے تھے۔ بعد میں ہنومان مشہور ہو گئے۔ مندر بن گیا۔ چاروں طرف سے لوگ یہاں پوجا کرنے آنے لگے۔ تب کچھ آدیواسی بھی وہاں پوجا کرنے جانے لگے۔‘‘

جھارکھنڈ کے مشہور ناول نگار اور افسانہ نگار رنیند کمار (۶۳ سالہ) کے مطابق، انجن میں آدیواسیوں کی پوجا کے مقام پر ایک ہندو مندر کے قبضے کی کہانی نہ تو نئی ہے اور نہ ہی حیرت انگیز۔ مثال کے طور پر، وہ بتاتے ہیں، ’’کئی آدیواسی خواتین دیویوں کو شروعات میں ہی ویدک سماج کا حصہ بنا دیا گیا تھا۔‘‘

’’شروع میں بودھوں نے آدیواسیوں کی خواتین دیویوں کو اپنے قبضے میں لے لیا اور بعد میں وہ سبھی ہندو مذہب کا حصہ بن گئیں۔ چھتیس گڑھ کی تارا، وجر ڈاکنی، دنتیشوری جیسی دیویاں سبھی آدیواسی دیویاں تھیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’جھوٹی یکسانیت کی تشہیر کے ذریعے آدیواسیوں کو اب ہندو مذہب میں شامل کیا جا رہا ہے۔‘‘

جھارکھنڈ میں کڈوکھ زبان کے پروفیسر، ڈاکٹر نارائن اوراؤں بتاتے ہیں کہ جبراً ثقافتی شمولیت کا عمل آج بھی جاری ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’مٹی کی چھوٹی شکلیں اور مڑئی (جھونپڑی)، مذہبی تقریبات کے لیے کھلی جگہیں دیوی منڈپوں میں بدل دی گئیں یا ہندوؤں کے لیے مندروں میں۔‘‘ اور ایک بار مندر بن جانے کے بعد، ان جگہوں پر عقیدت مندوں کا بڑا مجمع اکٹھا ہوتا ہے۔ تب آدیواسیوں کے لیے اپنی مذہبی رسومات کو جاری رکھنا ناممکن ہو جاتا ہے۔

’’اکثر وہ مندروں میں جانے لگتے ہیں۔ رانچی میں پہاڑی مندر، ہرمو مندر، ارگوڑا مندر، کانکے مندر، مورہابادی مندر اس کی مثالیں ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’آج بھی ان مندروں کے بغل میں آدیواسی پوجا کے مقام کی باقیات دیکھی جا سکتی ہیں۔ وہ میدان جہاں آدیواسیوں کے ذریعے اجتماعی جشن اور پرارتھنائیں کی جاتی تھیں، جیسے جترا یا منڈا جترا، اب ان کا استعمال یا تو دُرگا پوجا یا میلہ بازار لگانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ جیسے، رانچی میں ارگوڑا کے پاس کا میدان، جہاں اوراؤں منڈا لوگ پوجا کرتے تھے اور اپنے تہوار مناتے تھے۔‘‘

گنجل ایکر مُنڈا ہمیں رانچی کے پاس بنڈو میں ایک دیوڑی مندر کے بارے میں بھی بتاتے ہیں، جہاں پہلے کوئی مندر نہیں تھا لیکن ان کے رشتہ دار پاہن کے طور پر طویل عرصے سے آدیواسیوں کے لیے پوجا کرتے تھے۔ ’’وہاں صرف ایک پتھر ہوا کرتا تھا اور برسوں سے مُنڈا آدیواسی وہاں پوجا کرتے تھے۔ مندر بننے کے بعد بڑی تعداد میں ہندو پوجا کرنے آنے لگے اور اس جگہ پر اپنا دعویٰ کرنے لگے۔ اس کے بعد معاملہ عدالت میں گیا اور اب عدالت کے حکم کے مطابق، دونوں عقیدوں کی پیروی ایک ہی جگہ ہونے لگی ہے۔ ہفتے میں کچھ دن آدیواسیوں کے لیے پاہن پوجا کراتے ہیں اور بقیہ دنوں میں پنڈت ہندوؤں کے لیے پوجا کرتے ہیں۔

PHOTO • Manita Kumari Oraon


پہاڑی پر پوجا کے دو الگ الگ مقامات ہیں۔ آدیواسی پاہن دو غاروں میں پوجا کرتے ہیں اور پہاڑی کی چوٹی پر واقع ہنومان مندر میں ہندو پنڈت پوجا کرتے ہیں

حالانکہ، یہاں ہمیں جو نظر آتا ہے بات اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔

اگر کوئی تاریخ کی گہرائی میں جائے، تو یہ پتہ چلے گا کہ آدیواسیوں کو مرکزی ہندو گروپ میں لانے کا یہ عمل بہت خفیہ طریقے سے جاری ہے۔ دیوی پرساد چٹوپادھیائے اپنی کتاب ’لوکایت‘ میں ایک بہت ہی اہم سوال پوچھتے ہیں – اگر ۱۸۷۴ میں ویدک مذہب کو ماننے والوں کی آبادی کل آبادی کا محض ۱۰ فیصد تھی، تو اس ملک میں ہندو اکثریت کا درجہ کیسے حاصل کرتے رہے؟ اس کا جواب ایک اور کہانی میں چھپا ہو سکتا ہے – مردم شماری۔

سال ۱۸۷۱ سے ۱۹۴۱ کے درمیان ہندوستان کی مردم شماری نے آدیواسیوں کے مذہب کو مختلف عنوان کے تحت پہچانا۔ مثال کے طور پر، آدیواسی، انڈیجنس (قدیم مقامی باشندے)، اینمسٹ (جانور نواز)۔ لیکن ۱۹۵۱ میں آزاد ہندوستان کی پہلی مردم شماری نے سبھی متنوع روایات کو قبائلی مذہب نام کے ایک نئے زمرہ میں ضم کر دیا۔ سال ۱۹۶۱ میں اسے بھی ہٹا دیا گیا اور ہندو، عیسائی، جین، سکھ، مسلم اور بودھ کے ساتھ ’دیگر‘ کالم کو شامل کر لیا گیا۔

نتیجہ کے طور پر، سال ۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق صفر اعشاریہ ۷ فیصد ہندوستانیوں نے خود کو ’’دیگر مذاہب اور مسلک‘‘ کے تحت قرار دیا، جو سرکاری طور پر ملک میں زمرہ بند درج فہرست قبائل ۶ء۸ فیصد کی آبادی کے تناسب سے بہت کم ہے۔

بہت پہلے ۱۹۳۱ کی سینسس رپورٹ میں ہندوستانی مردم شماری کے کمشنر جے ایچ ہٹن آدیواسی مذاہب کے تحت اعداد و شمار سے متعلق اپنی تشویش کے بارے میں لکھتے ہیں، ’’جب بھی کوئی آدمی کسی تسلیم یافتہ مذہب کی رکنیت سے انکار کرتا ہے، تو بغیر کسی پوچھ گچھ کے ہندو مذہب میں داخل ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ سوچنے کا عمل کچھ اس طرح ہے: اس سرزمین کو ہندوستان کہا جاتا ہے اور یہ ہندوؤں کا ملک ہے، اور اس میں رہنے والے سبھی لوگوں کو ہندو ہونا چاہیے، جب تک کہ وہ یقینی طور پر کسی دوسرے تسلیم یافتہ مذہب کا دعویٰ نہ کریں۔‘‘

*****

One of the caves called ' Chand gufa'. In the caves sacred stones are being worshipped by the Adivasis for centuries before the temple came into existence
PHOTO • Jacinta Kerketta

دونوں غاروں میں سے ایک کو ’چاند گپھا‘ کہا جاتا ہے۔ مندر کے وجود میں آنے سے پہلے سے ہی، آدیواسی صدیوں سے غاروں میں مقدس پتھروں کی پوجا کرتے آ رہے ہیں

’’مردم شماری میں ہم آدیواسی خود کو کہاں درج کریں؟‘‘

انجن گاؤں کے ۴۰ سالہ پرمود اوراؤں پوچھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہم قدرت کی پوجا کرتے ہیں۔ ہمارا نقطہ نظر زیادہ کھلا اور قابل قبول ہے۔ اس میں انتہا پسندی کی جگہ نہیں ہے۔ اسی لیے، جب ہم میں سے کچھ لوگ ہندو مذہب یا اسلام یا عیسائی مذہب اختیار کر لیتے ہیں، تب بھی ہم کبھی بھی مذہب کے نام پر قتل نہیں کرتے ہیں۔ اگر ہمارے لوگ پہاڑی پر جاتے ہیں اور ہنومان کی پوجا کرتے ہیں، تو ہم انہیں ہندو نہیں کہتے ہیں۔‘‘

’’کالم چلا گیا ہے۔ ہم میں سے کئی لوگ مردم شماری میں خود کو ہندو کے طور پر درج کرتے ہیں۔ لیکن ہم ہندو نہیں ہیں۔ ذات پر مبنی نظام ہندو مذہب کی بنیاد میں ہے، لیکن ہم خود کو اس میں شامل نہیں مانتے ہیں۔‘‘

انجن گاؤں کے برسا اوراؤں کہتے ہیں کہ ’’آدیواسی بہت لچکدار اور کھلے ذہن کے ہیں۔ ان کے عقائد اور فلسفہ کو کوئی لینا چاہے، تو کوئی بات نہیں۔ اس سے کوئی بھی جڑے انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لوگ ان کا احترام ہی کریں گے۔ اب انجن دھام میں کئی ہندو ہنومان کی پوجا کرنے آتے ہیں، مسلم بھی دھام کے درشن کرنے آتے ہیں، سبھی کے لیے دروازہ کھلا ہے۔ کئی آدیواسی اب دونوں کی پوجا کرتے ہیں – پہاڑ پر واقع غار میں، اور ہنومان مندر – دونوں کی۔ لیکن وہ اب بھی خود کو آدیواسی مانتے ہیں، ہندو نہیں۔‘‘

ہنومان پوجا کا سوال پیچیدہ ہے۔

گاؤں کے مہیشور اوراؤں بتاتے ہیں، ’’آدیواسی یہاں رام اور لکشمن کی پوجا نہیں کرتے ہیں، لیکن لوگ مانتے ہیں کہ ہنومان اونچی برادری سے نہیں تھے۔ وہ آدیواسی برادری سے تھے۔ انہیں ایک طرح کا انسانی چہرہ دے کر، لیکن ساتھ میں جانور کی طرح دکھا کر، اونچی برادریاں آدیواسیوں کا مذاق اڑا رہی تھیں، جیسے انہوں نے ہنومان کا بھی مذاق اڑایا۔‘‘

Left: Hills near Anjan village where people believe Anjani Ma, an Adivasi goddess, resides.
PHOTO • Jacinta Kerketta
Right: After the Hanuman temple came up the place was declared Anjan Dham
PHOTO • Jacinta Kerketta

بائیں: انجن گاؤں کے پاس کی پہاڑیاں۔ لوگوں کا ماننا ہے کہ انجنی ماں، جو کہ ایک آدیواسی دیوی ہیں، ان پہاڑیوں میں قیام کرتی ہیں۔ دائیں: ہنومان مندر بننے کے بعد، اس جگہ کو انجن دھام قرار دے دیا گیا

رنجے اوراؤں کے مطابق، لوگوں نے پنڈتوں کے دعوے کو اس لیے قبول کر لیا، کیوں کہ آدیواسیوں کے لیے ہنومان اونچی برادری کے نہیں تھے۔ وہ کہتے ہیں، ’’اگر وہ ان میں سے ایک ہوتے، تو ان کی پونچھ نہیں ہوتی۔ انہیں ایک جانور کے طور پر دکھایا گیا ہے، کیوں کہ وہ ایک آدیواسی ہیں۔ اور اسی لیے جب انہوں نے دعویٰ کیا کہ انجنی ماں کا رشتہ ہنومان سے تھا، تو علاقے کے لوگوں نے اسے تسلیم کر لیا۔‘‘

گاؤں کی ۳۸ سالہ مکھیا کرمی اوراؤں اس وقت کو یاد کرتی ہیں، جب پورا گاؤں سال میں ایک بار پہاڑ پوجا کے لیے جاتا تھا۔ وہ کہتی ہیں، ’’اس وقت وہاں صرف غار ہوا کرتی تھی۔ لوگ وہاں جاتے تھے اور بارش کے لیے پرارتھنا کرتے تھے۔ آج بھی ہم اسی روایت کی پیروی کرتے ہیں۔ اور دیکھئے کہ ہمارے ذریعے اجتماعی پوجا کرنے کے بعد اس علاقے میں ہمیشہ بارش کیسے ہوتی ہے۔‘‘

’’آج کل لوگ مندر کی پریکرما (طواف) بھی کرتے ہیں کیوں کہ یہ اسی پہاڑی پر واقع ہے۔ کچھ آدیواسی مندر کے اندر بھی پوجا کر لیتے ہیں۔ ہر کوئی وہاں جانے کے لیے آزاد ہے جہاں انہیں سکون ملتا ہے،‘‘ وہ مزید کہتی ہیں۔

گاؤں کی دیگر خواتین کا بھی کہنا ہے کہ وہ خود کو ہندو کے طور پر نہیں دیکھتیں۔ لیکن ان میں سے کچھ لوگ مندر میں بھگوان کی پوجا بھی کرتے ہیں۔ ’’جب کوئی مندر پہاڑی پر ہوتا ہے، تو وہ بھی اس پہاڑ کا ہی ایک حصہ ہو جاتا ہے۔ پہاڑ کی پوجا کرنے والے لوگ ہنومان کی اندیکھی کر سکتے ہیں؟ اگر دو دیوتا مل کر کام کرتے ہیں، اور ہمارے لیے اچھی بارش لاتے ہیں، تو اس میں نقصان کیا ہے؟‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Jacinta Kerketta

Jacinta Kerketta of the Oraon Adivasi community is an independent writer and reporter from rural Jharkhand. She is also a poet narrating the struggles of Adivasi communities and drawing attention to the injustices they face.

Other stories by Jacinta Kerketta
Illustration : Manita Kumari Oraon

Manita Kumari Oraon is a Jharkhand based artist, working with sculptures and paintings on issues of social and cultural importance to Adivasi communities.

Other stories by Manita Kumari Oraon
Editor : Pratishtha Pandya

Pratishtha Pandya is a Senior Editor at PARI where she leads PARI's creative writing section. She is also a member of the PARIBhasha team and translates and edits stories in Gujarati. Pratishtha is a published poet working in Gujarati and English.

Other stories by Pratishtha Pandya
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique