یومیہ اجرت پر کام کرنے والی ۵۴ سالہ مزدور کہتی ہیں، ’’میں یہ کام [زرعی مزدوری] بچپن سے ہی کر رہی ہوں، جب میں نو سال کی بھی نہیں ہوئی تھی۔‘‘ سمن کبھی اسکول نہیں گئیں۔ والد کے انتقال کے بعد انہوں نے اپنے ماموں کے کھیت میں کام کرنا شروع کردیا تھا۔

وہ بتاتی ہیں، ’’جس سال [۱۹۸۴] آنجہانی اندرا گاندھی کا انتقال ہوا تھا، میری شادی اُسی سال ہوئی تھی۔ مجھے صحیح سے عمر یاد نہیں ہے لیکن اتنا خیال ہے کہ شادی کے وقت میری عمر ۱۶-۲۰ سال کے درمیان رہی ہوگی۔‘‘ ان کی شادی بنڈو سامبرے سے ہوئی تھی، جن کے ساتھ انہوں نے تعمیراتی مزدور کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ سمن کہتی ہیں، ’’میں نے حمل کے دوران بھی کام کیا ہے۔‘‘

جب پانچ سال پہلے ان کے شوہر کی موت ہوگئی، تو انہوں نے تعمیراتی کام چھوڑ دیا اور زرعی مزدوری میں واپس آگئیں۔ اب وہ اپنے پانچ بچوں – آنمبرتا (۱۵)،کویتا (۱۷)، گرو (۱۲)، تلشا (۲۲)، سلوینا (۲۷) کے ساتھ رہتی ہیں۔ سمن کی ماں نندا بھی ان کے ساتھ پالگھر ضلع کے امیلا گاؤں میں رہتی ہیں۔

سمن کہتی ہیں، ’’میں کام کرتی ہوں کیونکہ مجھے یہ کرنا ہی ہے اور کوئی چارہ نہیں ہے۔‘‘ اس خاندان کا تعلق ملہار کولی برادری سے ہے (جو مہاراشٹر میں درج فہرست قبائل کے طور پر درج ہے)۔

Suman harvesting the vaal (lima beans) in a field close to her home in Umela
PHOTO • Naomi Fargose
Suman harvesting the vaal (lima beans) in a field close to her home in Umela.
PHOTO • Naomi Fargose

سُمن، امیلا میں اپنے گھر کے قریب ایک کھیت میں وال (سیم کی پھلیاں) کی کٹائی کر رہی ہیں

Left: Suman has done daily wage work all her life.
PHOTO • Naomi Fargose
Right: Suman carrying the harvested vaal to her employer before going home.
PHOTO • Naomi Fargose

بائیں: سُمن نے ساری زندگی یومیہ اجرت پر کام کرنے والی ایک مزدور کے طور پر کام کیا ہے۔ دائیں: گھر جانے سے پہلے سمن کٹی ہوئی وال کو اپنے آجر کے پاس لے جا رہی ہے

مارچ کی ایک گرم دوپہر کو وہ دو کلومیٹر دور وال (سیم کی پھلیوں) کے کھیت میں کام کر رہی ہے۔ وہ صبح ۸ بجے گھر سے نکلتی ہیں اور اپنے ساتھ صرف ایک ترپال کا تھیلا، ایک پانی کی بوتل اور دو درانتیاں لے کر آتی ہیں۔

تیز دھوپ سے بچنے کے لیے انہوں نے اپنے سر کو تولیہ سے ڈھانپ رکھا ہے۔ وہ وال کی نازک پھلیوں کو احتیاط سے چنتی ہیں اور اپنی کمر کے گرد بندھے ہوئے دوپٹہ میں اسے منتقل کرتی ہیں، جو ایک تھیلے کی طرح دگنا ہوتا جاتا ہے۔

وہ اس پورے عمل کے بارے میں بتاتی ہیں، ’’جب یہ اوٹی [تھیلا] بھر جاتا ہے، تو میں پھلیاں ٹوکری میں منتقل کر دیتی ہوں اور جب وہ بھر جاتی ہے، تو میں انہیں بوری میں رکھ دیتی ہوں۔‘‘ بعد میں وہ خشک پھلیوں کو چھلکوں سے الگ کر دیں گی۔

دوپہر کا کھانا عام طور پر ان کے لیے دن کا پہلا کھانا ہوتا ہے۔ کبھی کبھی، ان کی سیٹھانی (آجر) انہیں کھانا دیتی ہے اگر وہ گھر سے کھانا لے کر نہیں آتیں، یا وہ کھانا کھانے کے لیے گھر واپس چلی جاتی ہے، لیکن جلد ہی واپس آجاتی ہیں اور غروب آفتاب تک کام کرتی ہیں۔ ان کی سب سے چھوٹی بیٹی، آنمبرتا کبھی کبھی دوپہر میں ان کے لیے چائے لے کر آتی ہے۔

’’سورج کی تمازت برداشت کرنے کے بعد مجھے ۳۰۰ روپے ملتے ہیں۔ اتنی معمولی رقم میں کیا ملے گا؟‘‘ سمن سوالیہ انداز میں پوچھتی ہیں اور مزید کہتی ہیں، ’’مجھے ہر روز کام نہیں ملتا۔‘‘ ان کا کام زراعت کے لیے معقول موسم اور دستیاب مزدوروں کی تعداد پر منحصر ہے۔ ’’اس کھیت کی کٹائی مکمل کرنے کے بعد، مجھے آٹھ دن تک کوئی کام نہیں ملے گا۔‘‘

Left: Suman with her daughters Namrata Bandu Sambre (left) and Kavita Bandu Sambre (right), and the cats in her home.
PHOTO • Naomi Fargose
Right: Suman peeling raw mangoes for lunch, usually her first meal of the day.
PHOTO • Naomi Fargose

بائیں: سمن اپنی بیٹیوں نمبرتا بنڈو سامبرے (بائیں) اور کویتا بنڈو سامبرے (دائیں) اور اپنے گھر میں بلیوں کے ساتھ ۔ دائیں: سُمن دوپہر کے کھانے کے لیے کچے آم چھیل رہی ہیں، جو عام طور پر ان کا دن کا پہلا کھانا ہوتا ہے

Outside their home in Umela village. Suman’s mother, Nanda (right) making a broom from dried coconut palm leaves.
PHOTO • Naomi Fargose
Outside their home in Umela village. Suman’s mother, Nanda (right) making a broom from dried coconut palm leaves.
PHOTO • Naomi Fargose

امیلا گاؤں میں ان کے گھر کے باہر۔ سمن کی ماں نندا (دائیں) ناریل کے خشک پتوں سے جھاڑو بنا رہی ہیں

جن دنوں سمن کو کام نہیں ملتا، وہ گھر میں لکڑیاں جمع کرنے، کھانا پکانے اور اپنی کچی جھونپڑی کو دوبارہ بنانے میں مصروف رہتی ہیں۔ وہ اپنے اگلے کام (مزدوری) کے بارے میں بھی فکرمند ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہر چیز کی قیمت بڑھتی جا رہی ہے!‘‘

سمن کے دو بچوں تلشا اور سلوینا نے حال ہی میں ایک مینوفیکچرنگ فیکٹری میں کام کرنا شروع کیا ہے۔ یہ دونوں خاندان کی آمدنی میں اضافہ کر رہے ہیں۔ اس سے سمن کو تھوڑی بہت مدد مل جاتی ہے۔

اپنے شوہر کو کھونے کے چند سال بعد، ان کے بڑے بیٹے سنتوش سامبرے نے اکتوبر ۲۰۲۲ میں اپنی جان لے لی۔ سنتوش (۳۰) اُس وقت منڈپ (اسٹیج) ڈیکوریٹر کا کام کرتا تھا۔ وہ اس واقعہ سے پہلے کی رات کو یاد کرتی ہیں۔ ’’میرا دوسرا بیٹا تلشا، ہماری بلیوں کی دیکھ بھال کر رہا تھا کہ اسی دوران سنتوش نے غصے میں آکر تلشا سے کہا کہ وہ اسے تنگ کرنا بند کردے۔‘‘ اس کے بعد سنتوش باہر نکل گیا۔

وہ مزید کہتی ہیں، ’’میں نے سوچا کہ شاید وہ اپنے دوستوں کے ساتھ ہوگا۔ میں اس کی تلاش میں رات میں کئی بار سڑک پر گئی۔‘‘

Left: The nick-names of Suman’s kids, Namrata, Kavita, and Guru, written on a wall in the kitchen.
PHOTO • Naomi Fargose
Right: Framed photos of Santosh (left), and Bandu along with a cricket trophy won by Guru and a deity they worship.
PHOTO • Naomi Fargose

بائیں: سمن کے بچوں نمبرتا، کویتا اور گرو کے مختصر نام باورچی خانے کی دیوار پر لکھے ہوئے ہیں۔ دائیں: سنتوش (بائیں) اور بنڈو کی فریم شدہ تصاویر کے ساتھ گرو کی جیتی ہوئی کرکٹ ٹرافی اور ایک دیوتا جس کی وہ پوجا کرتے ہیں

Suman outside her home in Palghar's Umela village
PHOTO • Naomi Fargose
Suman outside her home in Palghar's Umela village.
PHOTO • Naomi Fargose

سمن، پالگھر کے امیلا گاؤں میں اپنے گھر کے باہر

وہ کہتی ہیں کہ جب وہ وال کے کھیتوں میں کام کر رہی ہوتی ہیں، تو وہ یہی سوچتی ہیں۔ ’’میرا بیٹا [گرو] زیرلب بڑبڑاتا رہتا ہے کہ بابا [باپ] نے خود کو مار ڈالا، اسی طرح دادا [بھائی] نے بھی اپنی جان لے لی۔ میں بھی یہی کروں گا،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ان کے خاندان میں خودکشیوں کی تاریخ انہیں بہت زیادہ پریشان کرتی ہے۔

وہ کہتی ہیں، ’’مجھے نہیں معلوم کہ کیا سوچوں، میں یہاں ہر روز محض کام کرنے آتی ہوں۔ میرے پاس آہ و بکا کرنے کا وقت نہیں ہے۔‘‘

اگر آپ کو خودکشی کے خیالات آ رہے ہیں یا آپ ایسے کسی شخص کو جانتے ہیں جو ذہنی طور پر پریشان ہے تو براہ کرم کرن کو، نیشنل ہیلپ لائن 1800-599-0019 (24/7 ٹول فری) پر یا اپنے قریب کی ان ہیلپ لائنوں میں سے کسی پر کال کریں۔ دماغی صحت کے پیشہ ور افراد اور ان کی خدمات سے فائدہ اٹھانے کے لیے اور دیگر معلومات کے لیے، براہ کرم ایس پی ایف آئی کی مینٹل ہیلتھ ڈائریکٹری دیکھیں۔

مترجم: سبطین کوثر

Student Reporter : Naomi Fargose

Naomi Fargose has just completed her master’s degree in English Literature from SNDT Women’s University, Mumbai. She wrote this story during her internship with PARI in 2023.

Other stories by Naomi Fargose
Editor : Sanviti Iyer

Sanviti Iyer is Assistant Editor at the People's Archive of Rural India. She also works with students to help them document and report issues on rural India.

Other stories by Sanviti Iyer
Translator : Sibtain Kauser

Sibtain Kauser is a Delhi based journalist and translator. He has also worked with central news agency and many reputed TV and news networks, digital media platforms.

Other stories by Sibtain Kauser