ہماچل پردیش سفید برف سے ڈھکی پہاڑوں کی چوٹیوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ لیکن کانگڑا ضلع کے پالم پور شہر میں ایک الگ ہی طرح کا پہاڑ بڑھ رہا ہے – یہ کچرے کا پہاڑ ہے۔

سیاحوں کی توجہ کا ایک بڑا مرکز ہونے کے سبب سال ۲۰۱۹ میں ہماچل پردیش میں کل ۱۷۲ لاکھ سیاح آئے، جب کہ سال ۲۰۱۱ میں یہ تعداد ۱۴۹ لاکھ تھی۔ اس کا انکشاف نیشنل گرین ٹربیونل کی ایک رپورٹ سے ہوا ہے۔ سیاحت کا ریاست کی معیشت میں ایک اہم رول ہے، اور اکیلے کانگڑا ضلع میں تقریباً ۱۰۰۰ ہوٹل اور ہوم اسٹے ہیں۔ سیاحوں کا یہ بھاری دباؤ ہی کسی زمانے میں بالکل صاف ستھری اور پاک صاف رہی اس زمین اور یہاں کے دریائی ساحلوں کو کچرے کے انبار میں بدلنے اور اس پہاڑی شہر کے نازک حیاتیاتی نظام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کے لیے ذمہ دار ہے۔

’’کسی زمانے میں یہ جگہ ایک کھلا میدان ہوتی تھی اور یہاں بچے کھیلا کرتے تھے،‘‘ ۷۲ سالہ گلورا رام یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ وہ اس لینڈ فل (کچرا پھینکنے والی جگہ) سے چند منٹ کے فاصلہ پر رہتے ہیں۔

’’یہ پورا علاقہ سرسبز اور درختوں سے بھرا ہوا کرتا تھا،‘‘ شیشو بھاردواج (بدلا ہوا نام) کہتے ہیں۔ وہ اپنی چائے کی دکان سے، سامنے دور تک پھیلے لینڈ فل کو دکھاتے ہیں۔ شیشو (۳۲) بتاتے ہیں، ’’انہوں نے [میونسپل کارپوریشن والوں نے] نیچے دور دور تک درخت کاٹ دیے، تاکہ بڑھتے ہوئے کچرے کے لیے زیادہ سے زیادہ جگہ بنائی جا سکے۔ اس سے کافی بدبو آتی ہے! اور، یہاں ہر وقت مکھیوں کے جھنڈ بھنبھناتے رہتے ہیں۔‘‘

ان کی دکان پالم پور لینڈ فل کے ٹھیک بغل میں ہے۔ کچرا پھینکنے والی یہ جگہ تقریباً پانچ ہیکٹیئر رقبے میں پھیلی ہوئی ہے۔ کچرے کے اس انبار میں چیتھڑے، پلاسٹک بیگ، ٹوٹے ہوئے کھلونے، بیکار گھریلو سامان اور کپڑے، باورچی خانہ کا کچرا، صنعتی کچرا، نقصاندہ میڈیکل کچرا اور دوسری چیزیں بھری ہوئی ہیں، جس کے ارد گرد مکھیوں کے جھنڈ لگاتار منڈلاتے رہتے ہیں۔

جب شیشو نے ۲۰۱۹ میں اپنی دکان کھولی تھی، تب اس علاقے میں ایک ری سائیکلنگ پلانٹ ہوا کرتا تھا، جہاں تین پنچایتوں سے آئے کچرے کی چھنٹائی کرنے کے بعد انہیں ری سائیکل کیا جاتا تھا۔ وبائی مرض کے دوران اور اس کے بعد سے سبھی وارڈوں کا تمام کچرا اسی جگہ پر جمع ہونے لگا ہے اور چھنٹائی کا کام بھی دہاڑی مزدوروں سے کرایا جانے لگا ہے۔

Left : Waste dump as visible from Shishu Bhardwaj's tea shop in Palampur, Kangra.
PHOTO • Sweta Daga
Right: (In the background) Ashish Sharma, the Municipal Commissioner of Palampur and Saurabh Jassal, Deputy Commissioner Kangra, surveying the dumpsite
PHOTO • Sweta Daga

بائیں: کانگڑا کے پالم پور میں شیشو بھاردواج کی چائے کی دکان سے دکھائی دے رہا کچرے کا انبار۔ دائیں: پالم پور کے میونسپل کمشنر آشیش شرما (پیچھے کی طرف کھڑے) اور کانگڑا کے ڈپٹی کمشنر سوربھ جسّل لینڈ فل کا معائنہ کر رہے ہیں

حال ہی میں میونسپل کمشنر نے کچرے کی چھنٹائی کرنے والی نئی مشینیں لگوائی ہیں اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ ری سائیکلنگ کا کام جلد ہی دوبارہ شروع ہوگا۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں کچرے کی اس دھماکہ خیز آمد کو مقامی انتظامیہ کے ذریعے ماحولیات کے تحفظ کے نقطہ نظر سے سائنسی طریقے سے نمٹانے کی کوئی پہل نہیں کی گئی ہے، تاکہ ماحولیات اور ترقی کے درمیان توازن بنایا جا سکے۔ کچرا پھینکنے کی موجودہ جگہ خطرناک طریقے سے نیوگل ندی کے پاس ہے، جو بیاس ندی سے ملتی ہے۔ بیاس اس علاقے اور نچلے علاقے میں رہنے والے لوگوں کے لیے پینے کے پانی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔

یہ چھوٹا سا پہاڑی شہر اوسط سمندری سطح سے تقریباً ۱۰۰۰ سے ۱۵۰۰ میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ اتفاق سے ہماچل پردیش میں اسی سال (۲۰۲۳) اگست کے مہینہ میں ہوئی ۷۲۰ ملی لیٹر موسلا دھار بارش کا معمولی سا حصہ ہی پالم پور کو مل سکا۔ لیکن لوگوں کی تشویش ہے کہ یہ صرف ایک عارضی راحت ہے۔

’’اتنی تیز بارش کچرے سے ہونے والی آلودگی اور بیماریوں کو بڑھا سکتی ہے اور ندیاں اور مٹی اس کی سیدھی چپیٹ میں آ سکتی ہے،‘‘ کانگڑا سٹیزنس رائٹس فورم کی رکن فاطمہ چپل والا اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں۔ وہ یہاں ممبئی سے آئی ہیں اور اب کنڈ باری گاؤں میں رہتی ہیں، جو یہاں سے تقریباً ۱۲ کلومیٹر دور ایک چھوٹی سی بستی ہے۔ فاطمہ اور ان کے شوہر محمد نے یہاں مقامی باشندوں کے ساتھ کئی سالوں تک مل کر کچرے کے بڑھتے مسئلہ پر کام کیا ہے۔

’’تمام طرح کی گندگی اور کچرا یہیں بھرا جاتا ہے۔ تقریباً دو تین سالوں سے انہوں نے یہاں زیادہ مقدار میں کچرا پھینکنا شروع کر دیا ہے،‘‘ لینڈ فل سے تقریباً ۳۵۰ میٹر دور واقع بستی، اُوَرنا کے رہائشی گلورا رام کہتے ہیں۔ ’’ہم لوگ یہاں بیماریوں کے شکار ہو رہے ہیں۔ بدبو کی وجہ سے بچے اُلٹیاں کرتے رہتے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کچرے کی جگہ کو مزید بڑھانے سے لوگ زیادہ بیمار پڑنے لگے ہیں۔ ’’بچوں نے اپنے اسکول بدل دیے ہیں، کیوں کہ وہ اسکول جاتے وقت کچرے والی اس جگہ کو پار نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے اسکول جانے کا واحد راستہ یہی ہے۔‘‘

Cloth waste, kitchen waste, industrial waste, hazardous medical waste and more lie in heaps at the garbage site
PHOTO • Sweta Daga

چیتھڑے، باورچی خانہ کے کچرے، نقصاندہ میڈیکل کچرے اور دوسری بہت سی بیکار چیزیں اس جگہ پر پھینکی جاتی ہیں

*****

مانشی اشر کہتی ہیں کہ بڑے قدرتی آفات کی طرف لوگوں کی توجہ فوراً چلی جاتی ہے، لیکن تھوڑا تھوڑا روز پڑنے والی اس آفت کی طرف عموماً کسی کی توجہ نہیں جاتی ہے – لوگوں کی نظر میں یہ صرف ندی کے کنارے یوں ہی پھینک دی گئیں بیکار چیزیں ہیں۔ ایک مقامی ماحولیاتی تنظیم ’ہِم دھارا‘ میں بطور محقق کام کرنے والی مانشی کہتی ہیں، ’’اگر آپ کے پاس ندی کے قریب کچرے کے بندوبست کی سہولیات ہیں، تو یہ ندی میں کوڑا کرکٹ میں اضافہ ہی کریں گی، اور آخرکار اس سے ندی کی صفائی پر ہی برا اثر پڑے گا۔‘‘

’’عام طور پر دیہی پہاڑی ریاستوں میں شہر سے آیا کچرا ندی کی سطح، جنگل اور چراگاہوں میں پھیل کر ان کی تباہی کا سبب بنتا ہے،‘‘ وہ مزید کہتی ہیں۔ آلودہ کچرا مٹی کے ذریعے رستا ہوا زیر زمین پانی کی سطح تک پہنچتا ہے۔ زیادہ تر لوگ پینے کے پانی کے لیے زمین کے نیچے کے اسی پانی پر منحصر ہیں، اور یہی پانی ندیوں کے راستے پنجاب تک جاتا ہے اور فصلوں کی سینچائی کے کام آتا ہے۔

مرکزی آلودگی کنٹرول بورڈ اپنی ۲۰۲۱ کی رپورٹ میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ ہماچل پردیش میں ۵۷ لینڈ فل ہیں، لیکن ایک بھی سینیٹری لینڈ فل نہیں ہے جہاں کچرے کو خطرناک کیمیکل اور دیگر کیمیاوی اشیاء سے پوری طرح پاک کیا جا سکے۔ ڈمپ سائٹ (کچرا پھینکنے کے لیے بنایا گیا گڑھا) کے برعکس سینیٹری لینڈ فل ایک اوپری ڈھکن اور ’لائنر اور لیچٹ کلکشن سسٹم‘ کی تکنیک کے ساتھ بنایا گیا ہوتا ہے، تاکہ دیگر حفاظتی طریقوں کے ساتھ ساتھ زیر زمین پانی کو آلودہ ہونے سے روکا جا سکے۔ ساتھ ہی اس پر کلوزر اور پوسٹ کلوزر پلان کے ساتھ عمل درآمد ہونا چاہیے۔ اسی رپورٹ کے مطابق، کچرے کے بندوبست کے تجزیہ میں ہماچل پردیش ۳۵ میں سے ۱۸ویں مقام پر ہے۔ اکتوبر ۲۰۲۰ میں ۱۵ وارڈوں والے نئے پالم پور میونسپل کارپوریشن کی ۱۴ پنچایتوں کو ایک ساتھ جوڑا گیا۔ محمد چپل والا، کانگڑا سٹیزنس رائٹ فورم کے ایک رکن ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’پالم پور کے میونسپل کارپوریشن بننے سے پہلے زیادہ تر پنچایتیں اپنے کچرے کو نمٹانے کی ذمہ داری خود ہی نبھاتی تھیں، لیکن جب سے یہاں میونسپل کارپوریشن بنا ہے، تب سے یہاں کچرے کی آمد میں بہت تیزی آ گئی ہے۔ زیادہ تر کچرا جس میں اسپتال کا کچرا بھی شامل ہے، ایک ہی جگہ پر اکٹھا کیا جا رہا ہے۔‘‘

شہری ترقیات کی وزارت کے تحت ۲۰۱۶ میں شائع ٹھوس کچرے کے بندوبست کے کتابچہ کے مطابق، کسی لینڈ فل سائٹ کی تعمیر کے لیے ایک شہری لوکل باڈی (یو ایل بی) کو درج ذیل رہنما خطوط پر عمل کرنا ہوگا: ’’لینڈ فل سائٹ حکومت ہند کی شہری ترقیات کی وزارت اور مرکزی آلودگی کنٹرول بورڈ کے رہنما خطوط کے مطابق بنا ہونا چاہیے۔ لینڈ فل سائٹ کو ندی سے ۱۰۰ میٹر، تالاب سے ۲۰۰ میٹر اور شاہراہ، رہائشی علاقہ، عوامی پارک اور پانی کی سپلائی کے کنووں سے ۲۰۰ میٹر دور ہونا چاہیے…‘‘

The landfill sprawls across an estimated five hectares of land
PHOTO • Sweta Daga

لینڈ فل تقریباً پانچ ہیکٹیئر رقبے میں پھیلا ہوا ہے

Left: Waste being unloaded at the dump site.
PHOTO • Sweta Daga
Right: Women waste workers sorting through trash for recyclable items
PHOTO • Sweta Daga

بائیں: لینڈ فل کے قریب کچرے کو اتارا جا رہا ہے۔ دائیں: کچرا بیننے والی عورتیں ری سائیکلنگ کے لیے کچرے سے سامانوں کی چھنٹائی کر رہی ہیں

پچھلے سال، مقامی باشندوں نے سرگرم تعاون کے مقصد سے ہمیں اپنی مہم میں شامل ہونے کے لیے آمادہ کیا تھا، اس لیے ہم نے ایک آر ٹی آئی (حق اطلاع) کے لیے درخواست دینے کا فیصلہ کیا۔ محمد کے مطابق، کمشنر کے دفتر نے ۱۴ مارچ ۲۰۲۳ کو ایک آر ٹی آئی نوٹس موصول کیا، جس کا جواب دفتر نے ۱۹ اپریل کو دیا تھا۔ لیکن ان کا جواب پوری طرح سے واضح نہیں تھا۔ ’’انہوں نے ہمارے بہت سے سوالات کے جواب کو خالی چھوڑ دیا تھا،‘‘ وہ مزید بتاتے ہیں۔

اس بات کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے کہ کل کتنا کچرا پیدا ہوتا ہے۔ ’’جب کبھی میں یہ دیکھنے آتا ہوں، مجھے کچرے کا پہاڑ پہلے سے بڑا دکھائی دیتا ہے۔ یہ نیوگل ندی کے ٹھیک سامنے ہے اور کچرا اب ندی کے پانی میں جانے لگا ہے،‘‘ محمد کہتے ہیں۔

لینڈ فل میں حالیہ دنوں سات مشینیں لگائی گئی ہیں، جو کچرے کی چھنٹائی کریں گی، اور مقامی صحافی روندر سود بتاتے ہیں کہ ان میں سے پانچ مشینیں کام کرنے لگی ہیں۔ ان میں ایک شریڈر مشین بھی ہے جو خشک کچرے کی کٹائی کرتی ہے۔

بہرحال، اس پوری تبدیلی کو اپنی چائے کی دکان سے قریب سے دیکھنے والے بھاردواج کہتے ہیں، ’’مشینیں تو آ گئی ہیں، لیکن بارش کی وجہ سے ان میں سے ایک بھی ابھی کام نہیں کر رہی ہے، اور حالات ابھی بھی پہلے جیسے ہی ہیں۔ ابھی بھی ویسی ہی بدبو پھیلی ہوئی ہے، وہی بیماری ہے اور وہی آلودگی ہے۔‘‘ ان کے پڑوسی رام، ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں، ’’ہم بس یہی چاہتے ہیں کہ کچرا کہیں اور پھینکا جائے، تاکہ ہماری زندگی، ہمارے بچوں کی زندگی بچ سکے۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Sweta Daga

Sweta Daga is a Bengaluru-based writer and photographer, and a 2015 PARI fellow. She works across multimedia platforms and writes on climate change, gender and social inequality.

Other stories by Sweta Daga
Editors : PARI Desk

PARI Desk is the nerve centre of our editorial work. The team works with reporters, researchers, photographers, filmmakers and translators located across the country. The Desk supports and manages the production and publication of text, video, audio and research reports published by PARI.

Other stories by PARI Desk
Editors : Shaoni Sarkar

Shaoni Sarkar is a freelance journalist based in Kolkata.

Other stories by Shaoni Sarkar
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique