مہندرا کی ڈھلائی کے لیے خاص طور پر تیار کی گئی گاڑی – ایم آئی ایچ ۳۴ اے بی ۶۸۸۰ – ایک گاؤں کے مصروف چوراہے پر رکتی ہے، جو ۲۹۲۰ میگاواٹ والے سپر تھرمل پاور اسٹیشن، کوئلہ دھلائی کے کارخانہ، راکھ کے ڈھیر اور ٹیلوں اور چندر پور کے سرحدی علاقوں کے جھاڑی دار جنگل کے درمیان واقع ہے۔

گاڑی کے دونوں طرف رنگ برنگے اور خوبصورت پوسٹر چپکے ہوئے ہیں، جن پر تصویریں بنی ہیں اور نعرے لکھے ہوئے ہیں۔ سال ۲۰۲۳ کے اکتوبر ماہ کی ابتدا میں، ایک اتوار کی یہ ایک سُست صبح ہے، اور گاڑی پر چسپاں ان پوسٹروں نے بچوں کے علاوہ عورتوں اور مردوں کو بھی اپنی جانب متوجہ کیا ہے۔ وہ سب کے سب لپک کر گاڑی کی طرف یہ دیکھنے کے لیے بڑھتے ہیں کہ کون آیا ہے۔

گاڑی سے وٹھل بدکھل باہر نکلتے ہیں۔ پیشہ سے وہ ایک ڈرائیور اور ہیلپر ہیں۔ ستر سال سے زیادہ عمر کے ہو چکے اس بزرگ نے اپنے دائیں ہاتھ میں ایک مائیکروفون اور بائیں ہاتھ میں ایک بھورے رنگ کی ڈائری پکڑی ہوئی ہے۔ ان کے جسم پر ایک سفید دھوتی، سفید کرتا اور سر پر ایک نہرو ٹوپی ہے۔ وہ مائیک پر بولنا شروع کرتے ہیں، جس کا تار گاڑی کے اگلے دروازے پر بندھے لاؤڈ اسپیکر سے جڑا ہے۔

وہ یہاں آنے کی وجہ بتاتے ہیں۔ ان کی آواز ۵۰۰۰ کی آبادی والے اس گاؤں کے کونے کونے تک پہنچ رہی ہے۔ یہاں زیادہ تر لوگ کسان اور پاس کی کوئلہ کانوں یا دیگر چھوٹی موٹی صنعتوں میں دہاڑی مزدوری کرنے والے لوگ ہیں۔ ان کا بولنا پانچ منٹ تک چلتا رہتا ہے اور جیسے ہی وہ اپنی بات مکمل کرتے ہیں، گاؤں کے دو بزرگ مسکراتے ہوئے ان کا استقبال کرتے ہیں۔

’’ ارے ماما، نمسکار۔ یا بسا [ارے ماما! آپ کا استقبال ہے۔ آئیے، یہاں بیھٹئے،‘‘ ۶۵ سال کے کسان ہیم راج مہادیو دِوسے کہتے ہیں، جو گاؤں کے مرکزی چوراہے پر پنساری کی ایک چھوٹی سی دکان چلاتے ہیں۔

’’نمسکار جی،‘‘ بدکھل ماما ہاتھ جوڑتے ہوئے جواب دیتے ہیں۔

Vitthal Badkhal on a campaign trail in Chandrapur in October 2023. He is fondly known as ‘Dukkarwale mama ’ – ran-dukkar in Marathi means wild-boar. He has started a relentless crusade against the widespread menace on farms of wild animals, particularly wild boars. His mission is to make the government acknowledge the problem, compensate and resolve it.
PHOTO • Sudarshan Sakharkar
Hemraj Mahadev Diwase is a farmer who also runs a grocery shop in Tadali village. He says the menace of the wild animals on farms in the area is causing losses
PHOTO • Sudarshan Sakharkar

بائیں: چندر پور میں اکتوبر ۲۰۲۳ میں تشہیری مہم میں نکلے وٹھل بدکھل۔ لوگ انہیں پیار سے ’ڈکّر والے ماما‘ کہہ کر بلاتے ہیں۔ مراٹھی میں ران ڈکّر کا مطلب جنگلی سؤر ہوتا ہے۔ انہوں نے بڑے پیمانے پر جنگلی جانوروں، خاص طور پر جنگلی سؤروں کے ذریعہ کھیتوں کو تباہ کیے جانے کے خلاف باقاعدہ لڑائی کی شروع کی تھی۔ ان کا مقصد حکومت کی توجہ اس بڑے مسئلہ کی جانب مبذول کرنا، اس کا نمٹارہ کرنا اور متاثرہ کسانوں کو اس کا مناسب معاوضہ دلانا تھا۔ دائیں: ہیم راج دِوسے ایک کسان ہیں اور وہ بھی تڈالی گاؤں میں پنساری کی ایک دکان چلاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ جنگلی جانوروں کے حملے سے اس علاقہ میں کسانوں کو اپنی فصل کا بڑا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے

گاؤں کے لوگوں سے گھرے ہوئے وہ خاموشی کے ساتھ پنساری کی دکان کی طرف بڑھتے ہیں اور گاؤں کے چوراہے کی طرف منہ کرتے ہوئے ایک پلاسٹک کی کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کے پیچھے دکان میں ان کے میزبان دِوسے بیٹھ جاتے ہیں۔

سفید سوتی کے ایک ملائم تولیہ سے اپنے چہرے کا پسینہ پونچھتے ہوئے ’ماما‘ – جیسا اس علاقے میں انہیں احتراماً کہا جاتا ہے، لوگوں کو خاموشی سے بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر اپنی اپیل سننے کے لیے کہتے ہیں۔ یہ اپیل دراصل ۲۰ منٹ تک چلنے والی ان کی ٹریننگ کی طرح ہے۔

اس کے بعد، وہ کسانوں کو کھیتوں میں جنگلی جانوروں کے حملے سے فصل کو ہونے والے نقصان، سانپ کے ذریعہ کاٹنے جانے کے واقعات میں اضافہ اور شیر (ٹائیگر) کے حملوں سے ہونی والی موت کے واقعات پر معاوضے کا دعویٰ کرنے کے طریقہ کے بارے میں سلسلہ وار طریقے سے سمجھاتے ہیں۔ معصوم اور الجھن کے شکار کسانوں کے لیے پیچیدہ اور مشکل طریقے کو آسان کر کے سمجھایا جاتا ہے۔ وہ مانسون کے دنوں میں کھیتوں میں کام کرتے وقت ژالہ باری کے واقعات سے بچنے کے طریقوں کے بارے میں بھی بتاتے ہیں۔

’’ہمیں جنگلی جانوروں، شیروں، سانپوں اور ژالہ باری کے سبب شدید بحران سے گزرنا پڑتا۔ ہم سرکار کے کانوں تک اپنی بات کیسے پہنچائیں؟‘‘ بدکھل کھانٹی مراٹھی میں اپنی بات کہتے ہیں۔ خود اعتمادی سے بھرا ان کا لہجہ سامعین کو اپنی اپنی جگہ بیٹھنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ ’’جب تک ہم حکومت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹائیں گے، تب تک سرکار کیسے جاگے گی؟‘‘

اپنے ہی سوالوں کا جواب دینے کے لیے وہ چندر پور کے ارد گرد کے گاؤوں میں گھومتے رہتے ہیں، تاکہ کسانوں کو بیدار کر سکیں اور جنگلی جانوروں کے حملے کے سبب فصلوں کا نقصان ہونے کی حالت میں انہیں معاوضہ کا دعویٰ کرنے کا طریقہ بتا سکیں۔

وہ انہیں بھدراوتی شہر میں جلد ہی ہونے والی کسانوں کی ایک ریلی کے بارے میں بتاتے ہیں۔ ’’آپ سب وہاں ضروری آئیے،‘‘ وہ گاؤں والوں سے گزارش کرتے ہیں اور اس کے بعد اپنی گاڑی پر سوار ہو کر وہ دوسرے گاؤں کی طرف نکل جاتے ہیں۔

*****

نوجوان طلباء انہیں ’گروجی‘ یعنی اپنی استاد کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ ان کے حامی انہیں ’ماما‘ کہتے ہیں۔ کسانوں کی ان کی اپنی جماعت میں وٹھل بدکھل کو لوگ پیار سے ’ڈُکّر والے ماما‘ کہہ کر بلاتے ہیں۔ مراٹھی میں ’رَن – ڈُکّر‘ کا مطلب جنگلی سؤر ہوتا ہے۔ لوگ انہیں اس نام سے اس لیے بلاتے ہیں کیوں کہ کھیتوں میں بڑے پیمانے پر جنگلی جانوروں، خاص طور پر جنگلی سؤروں کے حملے کے سبب ہوئی تباہی کے خلاف انہوں نے مسلسل سرگرم مہم چلائی۔ ان کا مشن مسئلہ کو سرکار تک پہنچانے، معاوضہ دلوانے اور اس کا حل نکلوانے کا ہے۔

Women farmers from Tadali village speak about their fear while working on farms which are frequented by wild animals including tigers.
PHOTO • Sudarshan Sakharkar
Vitthal Badkhal listens intently to farmers
PHOTO • Sudarshan Sakharkar

تڈالی گاؤں کی خاتون کسان کھیتوں میں کام کرنے کے وقت شیروں اور دیگر جنگلی جانوروں سے اپنے خوف کے بارے میں بتاتی ہیں۔ دائیں: وٹھل بدکھل غور سے کسانوں کی باتیں سنتے ہیں

بدکھل اپنی مہم کا سارا کام اکیلے کرتے ہیں۔ وہ فصلوں کے نقصان کے عوض معاوضہ کا مطالبہ کرنے کے لیے کسانوں کو متحد کرتے ہیں اور انہیں جگہ کے معائنہ سے لے کر درخواست جمع کرانے تک کے پیچیدہ طریقوں سمیت دعویداری کے مختلف مراحل کے بارے میں بتاتے ہیں۔

ان کا دائرہ کار تاڈوبا اندھاری ٹائیگر ریزرو (ٹی اے ٹی آر) کے ارد گرد کا پورا چندر پور ضلع ہے۔

ایسے دعویداروں کی کمی نہیں ہے، جن کا یہ کہنا ہے کہ اس مسئلہ کی طرف سرکار کی توجہ کھینچنے کا کام انہوں نے کیا ہے۔ لیکن بنیادی طور پر اسی شخص کے ذریعہ چلائی گئی مہم کے سبب حکومت مہاراشٹر کو اسے ایک بڑے مسئلہ کے طور پر تسلیم کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔ سال ۲۰۰۳ میں حکومت نے تجویز پیش کرتے ہوئے جنگلی جانوروں کے حملے سے ہوئے فصلوں کے نقصان کو ’ایک نئی قسم کی خشک سالی‘ مانتے ہوئے کسانوں کے لیے مالی معاوضہ کے انتظام کو منظوری دی۔ بدکھل بتاتے ہیں کہ ان کے ذریعہ ۶-۵ سالوں تک کسانوں کو تربیت دینے اور متحد کرنے، اور لگاتار دھرنا اور احتجاجی مظاہرہ کرنے کے بعد ہی اس معاوضے کو منظوری ملی۔

سال ۱۹۹۶ میں جب کوئلہ اور خام لوہے کے کان بھدراوتی کے ارد گرد کے علاقوں میں پھلے پھولے، تب ان کی پوری کی پوری قابل کاشت زمین کو پبلک سیکٹر کی ایک ذیلی کمپنی ’ویسٹرن کول فیلڈ لمیٹڈ‘ (ڈبلیو سی ایل) کے ذریعہ شروع کی گئی کان نے اپنی تحویل میں لے لیا۔ تیلواسا اور ڈھورواسا، جہاں سے بدکھل کا تعلق ہے – یہ دونوں گاؤں کانوں کے سبب اجاڑ دیے گئے۔

اس وقت تک جنگلی جانوروں کے ذریعہ کھیتوں کو تباہ کرنے کے واقعہ نے خطرناک صورت اختیار کر لی تھی۔ دو تین دہائیوں میں جنگل میں ہوئی تبدیلی، ضلعوں میں تیزی سے پھلتے پھولتے کانکنی کے نئے پروجیکٹ اور تھرمل پاور پلانٹوں کی تعداد میں اضافہ نے جنگلی جانوروں اور انسانوں کے درمیان تصادم کو بڑھانے کا کام کیا، وٹھل بتاتے ہیں۔

سال ۲۰۰۲ کے آس پاس وٹھل نے اپنی بیوی مندا تائی کے ساتھ بھدراوتی میں مستقل سکونت اختیار کر لی اور خود کو پوری طرح سماجی مقاصد کے لیے وقف کر دیا۔ وہ نشہ خوری اور بدعنوانی کے خلاف مہم چلانے والے سماجی مصلح کے طور پر بھی سرگرم ہیں۔ ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہیں اور تینوں ہی شادی شدہ ہیں۔ ان کے بچے اپنے والد کے برعکس ایک پرسکون زندگی بسر کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔

اپنے خود کے معاش کے لیے ’ماما‘ ایک چھوٹے سے زرعی کاروبار پر منحصر ہیں۔ وہ ہلدی اور مرچ کا پاؤڈر، نامیاتی گڑ اور دیگر مسالے بیچتے ہیں۔

Badkhal with farmers in the TATR. He says, gradual changes over two or three decades in the quality of forests, an explosion of new mining projects all over the district and expansion of thermal power plants have cumulatively led to the aggravation of the wild-animal and human conflict
PHOTO • Sudarshan Sakharkar

بدکھل ٹی اے ٹی آر کے کسانوں کے ساتھ۔ وہ کہتے ہیں کہ دو یا تین دہائیوں میں جنگل میں ہوئی تبدیلیوں، پورے ضلع میں کانکنی کے پروجیکٹوں میں تیزی سے اضافہ اور تھرمل پاور پلانٹوں کی تعداد بڑھنے سے جنگلی جانوروں اور انسانوں کے درمیان تصادم میں بہت تیزی آئی ہے

گزشتہ کئی سالوں سے ’ماما‘ نے مویشیوں اور سبزی خور جانوروں کے ذریعہ فصلوں کے بھاری نقصان اور گوشت خور جانوروں کے حملے میں انسانوں کے مارے جانے کے واقعات کے خلاف معاوضہ کے لیے سرکار سے بجٹ کی رقم کو بڑھانے کے لیے کسانوں کو متحد کرنے کا کام کیا ہے۔

سال ۲۰۰۳ میں جب پہلی بار یہ تجویز پیش کی گئی تھی، تو معاوضہ کی رقم صرف کچھ سو روپے تھی۔ لیکن اب یہ بڑھا کر ۲۵ ہزار روپے فی ہیکٹیئر سالانہ کر دی گئی ہے۔ ایک فیملی کو یہ رقم زیادہ سے زیادہ دو ہیکٹیئر زمین کے عوض قابل ادائیگی ہے۔ یہ کافی نہیں ہے، لیکن اس بات کے مدنظر کہ ریاستی حکومت نے معاوضہ کی رقم بڑھا دی ہے، یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ حکومت نے مسئلہ کی سنگینی کو سمجھا ہے، ایسا بدکھل ماما کہتے ہیں۔ ’’اصل مسئلہ یہ ہے کہ ریاست میں معاوضے کا دعویٰ کرنے والے کسانوں کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ابھی ان کا مطالبہ یہ ہے کہ معاوضہ کو بڑھا کر ایک فیملی کے حساب سے ۷۰ ہزار روپے فی ہیکٹیئر سالانہ دیا جائے، کیوں کہ ’’یہی مناسب معاوضہ ہے۔‘‘

مہاراشٹر میں محکمہ جنگلات مویشیوں کے مرنے، فصل کے نقصان اور بڑے گوشت خور جانوروں کے حملے میں انسانوں کی ہلاکتوں کے معاوضہ کے طور پر ۸۰ سے ۱۰۰ کروڑ روپے کے بجٹ کا انتظام کرتی ہے۔ یہ بات مارچ ۲۰۲۲ میں پاری سے غیر رسمی بات چیت کرتے ہوئے اُس وقت کے پرنسپل چیف کنزرویٹر آف فاریسٹس (جنگلاتی دستہ کے سربراہ) سنیل لمیے نے بتائی تھی۔

’’یہ بھیک دینے کے برابر ہے،‘‘ ماما کہتے ہیں۔ ’’اکیلے بھدراوتی [ان کی تحصیل] کو فصل کے معاوضہ کے طور پر سالانہ اوسطاً ۲ کروڑ روپے کا معاوضہ ملتا ہے، کیوں کہ اس تحصیل کے کسان زیادہ تعداد میں معاوضہ کے لیے درخواست دیتے ہیں۔ یہ ان کی بیداری کے سبب ممکن ہوا ہے اور وہ دوسروں سے کہیں زیادہ تربیت یافتہ ہیں،‘‘ وہ بتاتے ہیں، ’’دوسری جگہوں پر اس مسئلہ پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی ہے،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔

’’میں اس کام میں گزشتہ ۲۵ سالوں سے لگا ہوں،‘‘ بات چیت اور ہنسی مذاق میں اپنے ٹھیٹھ دیسی انداز میں چندرپور ضلع کے بھدراوتی شہر کے اپنے گھر میں بیٹھے وہ بتاتے ہیں، ’’میں اپنی باقی ماندہ زندگی میں بھی یہی کروں گا۔‘‘

آج بدکھل ماما کی مانگ پورے مہاراشٹر میں ہے۔

Badkhal mama is in demand all over Maharashtra. 'I’ve been doing it for 25 years... I will do it for the rest of my life,' says the crusader from Bhadravati town in Chandrapur district
PHOTO • Jaideep Hardikar

بدکھل ماما کی مانگ پورے مہاراشٹر میں ہے۔ ’میں اس کام میں گزشتہ ۲۵ سالوں سے لگا ہوں… باقی ماندہ زندگی میں بھی یہی کروں گا،‘ چندرپور ضلع میں بھدراوتی شہر کے ماما کہتے ہیں

حکومت مہاراشٹر نے معاوضہ کی رقم بڑھا دی ہے۔ بدکھل کہتے ہیں کہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت مسئلہ کی سنگینی کو سمجھتی ہے۔ لیکن ریاست میں ایسے بہت سے کسان ہیں، جو معاوضہ کا دعویٰ بھی نہیں کرتے ہیں۔ وہ اس رقم کو مزید بڑھانے جانے کی مانگ کر رہے ہیں

*****

فروری ۲۰۲۳ کے ایک ٹھنڈے اور ہوادار دن پاری کی ٹیم بھی ٹی اے ٹی آر کے مغربی علاقوں میں بھدراوتی تحصیل کے پڑوس کے گاؤوں میں ان کے سفر میں شامل ہوتی ہے۔ اس موسم میں زیادہ تر کسان ربیع فصل کی کٹائی میں مصروف ہیں۔

چار پانچ گاؤوں میں گھومنے کے بعد متاثرہ کسانوں کی مایوسی واضح طور پر نظر آنے لگتی ہے۔ ان میں تمام ذاتوں کے چھوٹے بڑے کسان شامل ہیں، اور ان سب کا بس ایک ہی سر درد ہے – جنگلی جانوروں کے حملے کے سبب فصلوں کی تباہی۔

’’اسے دیکھئے،‘‘ ایک کسان اپنے سبز چنے کی فصل کے درمیان کھڑا ہو کر کہہ رہا ہے، ’’اب اس میں میرے لیے کیا بچا ہے؟‘‘ پورے کھیت کو پچھلی رات سؤروں نے تباہ کر دیا ہے۔ کسان بتاتا ہے کہ سؤروں نے پچھلی رات ایک حصہ کی پوری فصل ہی چبا ڈالی تھی۔ آج رات تک وہ دوبارہ ضرور آئیں گے، اور جو بچی ہوئی فصل ہے اسے بھی چٹ کر جائیں گے۔ ’’میں کیا کروں ماما؟‘‘ وہ بے بسی سے پوچھتا ہے۔

بدکھل ماما فصل کے نقصان کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں، اور غیر یقینی سے اپنا سر ہلاتے ہیں۔ پھر وہ کہتے ہیں، ’’میں ایک آدمی کو کیمرے کے ساتھ بھیجوں گا۔ اسے تصویریں اور ویڈیو لینے دینا۔ وہی تم سے معاوضہ کی درخواست کو بھروانے کے بعد اس پر تمہارے دستخط لے گا۔ ہمیں مقامی رینج فاریسٹ آفیسر کے یہاں معاوضہ کا دعویٰ کرنے کی ضرورت ہوگی۔‘‘

Manjula helps farmers with the paperwork necessary to file claims. Through the year, and mostly during winters, she travels on her Scooty (gearless bike) from her village Gaurala covering about 150 villages to help farmers with documentation to apply for and claim compensation.
PHOTO • Jaideep Hardikar
Vitthal Badkhal visiting a farm
PHOTO • Jaideep Hardikar

بائیں: منجولا نقصان کی تلافی کا دعویٰ کرنے کے عمل میں کسانوں کی مدد کرتی ہیں۔ وہ سال بھر، زیادہ تر جاڑے کے دنوں میں اپنی اسکوٹی پر سفر کرتی ہیں، اور نقصان کی تلافی سے متعلق درخواست کرنے میں کسانوں کی کاغذی مدد کرنے کے لیے اپنے گاؤں گورالا سے ۱۵۰ گاؤوں میں جاتی ہیں۔ دائیں: کھیت کا جائزہ لیتے ہوئے وٹھل بدکھل

یہ سبھی کام جو کرتی ہیں وہ ۳۵ سالہ منجولا بدکھل ہیں، جو گورالا گاؤں کی ایک بے زمین خاتون ہیں۔ وہ کپڑوں کا ایک چھوٹا سا کاروبار کرتی ہیں اور ساتھ ہی کسانوں کو یہ اضافی خدمت فراہم کرتی ہیں۔

وہ سال بھر، خاص طور پر جاڑے کے موسم میں اپنی اسکوٹی کے ذریعہ ۱۵۰ گاؤوں میں جاتی ہیں، تاکہ نقصان کی تلافی کے لیے درخواست کرنے میں متاثرہ کسانوں کی کاغذی مدد کر سکیں۔

’’میں تصویریں لیتی ہوں، ان کی درخواستوں کو بھرتی ہوں، ضرورت پیش آنے پر ان کا حلف نامہ بنواتی ہوں اور فیملی کے ان تمام ممبران کی رضامندی حاصل کر لیتی ہوں، جن کا اس کھیت میں حصہ ہوتا ہے۔

سال میں کتنے کسان ہو جاتے ہیں؟

’’اگر آپ ایک گاؤں کے ۱۰ کسانوں کو ہی لے لیں، تو تقریباً ۱۵۰۰ کی تعداد ہو جاتی ہے،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ اپنی خدمت فراہمی کی فیس کے طور پر وہ ہر ایک کسان سے ۳۰۰ روپے لیتی ہیں، جن میں ۲۰۰ روپے سفر، فوٹو کاپی کرانے اور دوسرے مدوں میں خرچ ہو جاتے ہیں۔ اپنی محنت کے نام پر وہ ۱۰۰ روپے ہی لیتی ہیں، اتنی رقم دینے میں کسی بھی کسان کو اعتراض نہیں ہوتا ہے، وہ مزید بتاتی ہیں۔

The 72-year-old activist resting at Gopal Bonde’s home in Chiprala, talking to him (left) and his family about filing claims
PHOTO • Jaideep Hardikar

بہتر سال کے سماجی کارکن چپرالا میں گوپال بونڈے کے گھر پر آرام کرتے وقت ان سے (بائیں) اور ان کی فیملی سے معاوضہ کا دعویٰ کرنے کے بارے میں بات چیت کر رہے ہیں

اس درمیان ماما کسانوں کو سمجھانے کا کام جاری رکھتے ہیں۔ وہ ان سے کہتے ہیں کہ وہ پنچ نامہ یا ’اسپاٹ انسپیکشن‘ (زمین کی جانچ) کرنے کے لیے ملازمین کے آنے کا انتظار کریں، تاکہ کسان کے دعویٰ کی تصدیق کی جا سکے۔ ایک تلاٹھی (جنگل کا محافظ) اور زرعی معاون آ کر کھیت کی جانچ کریں گے، وہ بتاتے ہیں۔ ’’تلاٹھی‘‘ کھیت کی چوہدی ناپے گا، زرعی معاون جانوروں کے ذریعہ کھائی گئی فصل کا بیورہ لکھے گا اور محکمہ جنگلات کا ملازم ہی یہ بتائے گا کہ تمہاری فصل کو کس جنگلی جانور نے تباہ کیا ہے۔‘‘ وہ تفصیل سے سمجھاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہی ضابطہ ہے۔

’’تم کو تمہارا معاوضہ مل جائے گا۔ اگر نہیں ملتا ہے، تو ہم اس کے لیے لڑیں گے،‘‘ بدکھل ان کو پر اعتماد لہجے میں یقین دلاتے ہیں۔ کسان ان کی باتوں سے نہ صرف خوش ہو جاتا ہے، بلکہ اس کے چہرے پر ایک تسلی اور خود اعتمادی بھی جھلکنے لگتی ہے۔

’’اگر ملازم جانچ کے لیے نہیں آئے تب؟‘‘ کسان فکرمند لہجے میں پوچھتا ہے۔

بدکھل ماما اسے تحمل کے ساتھ سمجھانے لگتے ہیں۔ دعویٰ ہر سال میں واقعہ کے ۴۸ گھنٹوں کے اندر داخل ہو جانا چاہیے۔ اس کے بعد شکایت درج ہونی چاہیے، اور تفتیشی ٹیم کو سات دن کے اندر آپ کے کھیت کی جانچ پڑتال کے لیے آ کر جانچ رپورٹ ۱۰ دنوں میں جمع کر دینا ہوتا ہے۔ کسان کو ہر حال میں اس کے نقصان کی تلافی کے لیے ۳۰ دنوں کے اندر مل جانا چاہیے۔ وہ پورا طریقہ اعتماد کے ساتھ سمجھانے لگتے ہیں۔

’’اگر وہ اپنے دعویٰ کرنے کے ۳۰ دنوں کے اندر نہیں آتے ہیں، تب ضابطہ کہتا ہے کہ ہماری اپنی جانچ کے کاغذ اور تصویروں کو محکمہ ثبوت کے طور پر قبول کر لے گا،‘‘ بدکھل اسے سمجھاتےہیں۔

’’ ماما، ماہئی بھست تمچیاور ہائے [دیکھو ماما، میری قسمت آپ کے ہی ہاتھوں میں ہے]،‘‘ کسان ہاتھ جوڑ کر گڑگڑاتے ہوئے کہتا ہے۔ ماما اس کے کندھوں کو تھپتھپاتے ہوئے اسے تسلی دیتے ہیں، ’’تم فکر مت کروں۔‘‘

وہ کہتے ہیں، ان کی ٹیم ایک بار یہ کام کر دے گی۔ لیکن اگلی بار سے اس کسان کو یہ کام خود ہی کرنا پڑے گا۔

Vitthal Badkhal inspecting the farm of one of his close volunteers, Gopal Bonde in Chiprala village of Bhadravati tehsil , close to the buffer area of the TATR. The farm is set for rabi or winter crop, and already wild animals have announced their arrival on his farm
PHOTO • Jaideep Hardikar

بٹھل بدکھل بھدراوتی تحصیل کے چپرالا گاؤں میں رہنے والے اپنے ایک قریبی کارکن گوپال بونڈے کے کھیت کا معائنہ کر رہے ہیں، جو ٹی اے ٹی آر کے مضافات میں واقع ہے۔ کھیت جاڑے کی فصل ربیع کے لیے تیار ہے۔ لیکن اس سے پہلے ہی جنگلی جانوروں نے فصل کی بربادی کی دستک دے دی ہے

معائنہ کے لیے اس ذاتی سفر کے برعکس، ماما اپنی مہم کے دوران بغیر کسی سابقہ پلاننگ کے ورکشاپ کا اہتمام کرتے ہیں۔ وہ گاؤں والوں کو نقصان کی تلافی کا درخواست نامہ بھی مہیا کراتے ہیں۔

’’میرے پرچوں کو غور سے پڑھیں،‘‘ اکتوبر ۲۰۲۳ میں ایک بیداری مہم کے دوران وہاں جمع ہوئے لوگوں کے درمیان پرچہ بانٹتے ہوئے وہ تڈالی کے لوگوں سے کہتے ہیں۔

’’اگر کسی کو کسی بھی قسم کی الجھن ہو تو مجھ سے ابھی پوچھ لو۔ میں ان کی وضاحت کر دوں گا۔‘‘ ان کا دیا ہوا مراٹھی درخواست نامہ پڑھنے میں آسان ہے۔ اس میں نجی بیورہ، زمین کی چوہدی، فصل کی قسموں وغیرہ کے بارے میں بتایا گیا ہے۔

’’اس درخواست کے ساتھ ساتھ آپ کو اس کے ساتھ اپنا سات بارہ [زمین کا ریکارڈ] کی کاپیوں، آدھار کارڈ، بینک سے متعلق جانکاری اور کھیت کی تصویریں، جس میں جانوروں کے کھائے جانے کے بعد فصلوں کی تباہی صاف صاف دکھائی دے رہی ہو، کو بھی منسلک کرنے کی ضرورت ہوتی ہے،‘‘ بدکھل کہتے ہیں۔ ’’آپ کو شکایت اور نقصان کا تلافی کا دعویٰ ایک ساتھ جمع کرنا ہوتا ہے، اور ان میں کوئی غلطی نہیں ہونی چاہیے۔ اور آپ کو یہ کام ایک سال میں بار بار کرنا پڑے، تو آپ کو یہ کرنا ہی ہوگا،‘‘ وہ زور دے کر کہتے ہیں، ’’معاوضہ حاصل کرنے کے لیے آپ کو محنت کرنی ہی پڑے گی،‘‘ وہ کھری کھری کہتے ہیں۔

حکومت کے ذریعہ فراہم کردہ رقم کو نکالنے میں تقریباً سال بھر کا وقت لگتا ہے، حالانکہ قانون کے مطابق یہ کام ۳۰ دنوں میں ہو جانا چاہیے۔ ’’پہلے محکمہ جنگلات کے ملازم اس کام کے لیے رشوت مانگا کرتے تھے،‘‘ وہ بتاتے ہیں، ’’اس لیے اب ہم پیسے کو سیدھے بینک میں ٹرانسفر کرنے کی مانگ کرتے ہیں۔‘‘

Badkhal at his home in Bhadravati tehsil of Chandrapur district
PHOTO • Jaideep Hardikar

چندرپور ضلع کی بھدراوتی تحصیل میں واقع اپنے گھر میں بدکھل ماما

چونکہ کھیت میں جنگلی جانور کے ذریعہ فصل برباد کیے جانے کی حالت سے نمٹنے کے لیے روک تھام کی کوئی مستقل ترکیب نہیں ہے، اس لیے نقصان کو کم کرنے کا ایک واحد طریقہ کسان کو نقصان کے پیسے ادا کرنا ہی بچتا ہے۔ نقصان کے تخمینہ اور نقصان کی تلافی کے دعویٰ کا طریقہ موجودہ قانون کے تحت ایک پیچیدہ اور مشکل معاملہ ہے۔ اس لیے زیادہ تر کسان اس میں دلچسپی نہیں لے پاتے ہیں۔

مگر بدکھل ماما کہتے ہیں، ’’لیکن اگر یہی طریقہ ہے، تو اسے ہر حال میں کرنا ہوگا۔‘‘ اور انہیں یقین ہے کہ اس کا سب سے بہتر طریقہ لاعلمی کو درکنار کر کے ضابطوں سے باخبر لوگوں کے مشوروں پر عمل کرنا ہے۔

ماما کے فون کی گھنٹی ہمیشہ بجتی رہتی ہے۔ پورے ودربھ کے لوگ انہیں مدد کے ارادے سے فون کرتے رہتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کئی بار ان کے پاس مہاراشٹر کے دوسرے حصے، یہاں تک کہ دوسری ریاستوں سے بھی فون آتے ہیں۔

سب سے بڑا مسئلہ نقصان کے تخمینہ کا ہے۔ کئی بار جانچ کے وقت اصلی حالت سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ مثال کے طور پر، ’’آپ ایسی حالت میں نقصان کا تخمینہ کیسے لگائیں گے، جب جنگلی جانور کپاس کے گولے یا سویابین تو کھا جاتے ہیں، لیکن پودوں کو صحیح حالت میں چھوڑ دیتے ہیں؟‘‘ محکمہ جنگلات کے ملازم جانچ کے لیے آتے ہیں، پودوں کو ہرا بھرا اور سلامت دیکھتے ہیں، اور اپنے دفتر پہنچ کر رپورٹ کرتے ہیں کہ کوئی نقصان نہیں ہوا ہے، جب کہ کسان کو زبردست نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

’’نقصان کی تلافی کے ضابطوں میں ترمیم کرکے اسے کسانوں کے حق میں کرنے کی ضرورت ہے،‘‘ بدکھل ماما مطالبہ کرتے ہیں۔

*****

فروری ۲۰۲۲ سے یہ رپورٹر ٹی اے ٹی آر کے ارد گرد کے گرد و غبار والے علاقوں میں آباد متعدد گاؤوں کے سفر کے دوران بدکھل ماما کے ساتھ رہا ہے۔

بیداری مہم کے دنوں میں روزانہ صبح ۷ بجے ان کا دن شروع ہو جاتا ہے، جو شام ۷ بجے تک جاری رہتا ہے۔ ایک دن میں وہ ۵ سے ۱۰ گاؤوں تک کا سفر کرتے ہیں۔ ان کی مہم کے اخراجات چندہ دینے والے سخی لوگوں، کسانوں اور ان کے بہی خواہوں کے ذریعے پورے کیے جاتے ہیں۔

Alongwith Badkhal on the campaign trail is a Mahindra vehicle in which he travels to the villages
PHOTO • Sudarshan Sakharkar

بدکھل ماما کے ساتھ ان کی بیداری مہم کا ساتھی، مہندرا کی ایک سواری گاڑی ہے جس میں وہ گاؤوں کے دورے کرتے ہیں

بدکھل ہر سال مراٹھی میں ۵۰۰۰ کیلنڈر چھپواتے ہیں، جس کے پچھلے صفحہ پر کسانوں کی سہولیات کے لیے سرکاری تجویزوں، اسکیموں، فصلوں کے نقصان کی تلافی کے طریقوں سے متعلق معلومات اور پروسیس وغیرہ کی جانکاری ہوتی ہے۔ یہ کیلنڈر بھی چندے کے پیسوں سے ہی چھپ کر آتے ہیں۔ کسان کارکنوں کی ان کی ٹیم معلومات کو پھیلانے اور صلاح و مشورہ کے لیے سوشل میڈیا کی مدد لیتی ہے۔

تقریباً ایک دہائی قبل انہوں نے ’شیتکری سنرکشن سمیتی‘ کی بنیاد رکھی تھی، تاکہ چندرپور اور آس پاس کے علاقوں میں اس مہم کو صحیح سمت دی جا سکے۔ اس کام میں ان کی مدد کے لیے فی الحال تقریباً ۱۰۰ کارکن شامل ہیں جو خود بھی کسان ہیں۔

ضلع کے تمام زرعی مراکز یا زرعی سامان کی دکانوں میں آپ کو معاوضہ کا دعویٰ کرنے کے لیے ایک رسمی درخواست نامہ ملتا ہے، اور ان کے ساتھ ہی منسلک کرنے والے دوسرے کاغذات بھی وہاں دستیاب ہیں۔ ہر ایک کسان زرعی مرکز پر آتا ہے اور زرعی مرکز بھی کسانوں پر ہی منحصر ہیں۔ اس لیے یہ مہم اپنی توسیع کے لیے ان زرعی مراکز کی مدد لیتی ہے۔ زرعی مراکز بھی بخوشی اس کے لیے تیار رہتے ہیں۔

بدکھل ماما کے پاس دن بھر فکرمند کسانوں کے فون آتے رہتے ہیں۔ ان میں سے کئی کسانوں کو فوری مدد چاہیے ہوتی ہے۔ کئی بار کسان غصے سے بھی بول جاتے ہیں۔ بہرحال، زیادہ تر فون کرنے والے ان کی مدد چاہتے ہیں۔

’’ایک طرف کسان ہیں۔ ایک طرف جنگلی حیات ہے۔ ایک طرف کسانوں کے لیڈر ہیں۔ ایک طرف جنگلی حیات سے محبت کرنے والے لوگ ہیں۔ اور ایک طرف سرکار ہے۔ جنگل ہیں، زراعت اور محکمہ محصولات کے ملازم اور عہدیدار ہیں۔ بحران کو دور کرنے کے لیے کوشاں لوگ ہیں، تو ایسے لوگ بھی ہیں جو معاملے کو ہمیشہ کے لیے لٹکائے رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘ بدکھل ماما اپنی بات جاری رکھتے ہیں، ’’کسی کے پاس بھی حل نہیں ہے۔‘‘

Pamphlets and handbills that Badkhal prints for distribution among farmers.
PHOTO • Jaideep Hardikar
He is showing calendars that he prints to raise awareness and educate farmers about the procedure to claim compensation
PHOTO • Jaideep Hardikar

بائیں: پوسٹر اور پرچے، جنہیں بدکھل ماما نے کسانوں کے درمیان بانٹنے کے لیے چھپوایا ہے۔ بدکھل ماما کیلنڈر (دائیں) دکھا رہے ہیں، جنہیں انہوں نے معاوضہ کا دعویٰ کرنے کے طریقوں کے بارے میں کسانوں میں بیداری پھیلانے اور ان کو ٹریننگ دینے کے ارادے سے چھپوایا ہے

ہر کسی کے لیے سب سے بڑی بات یہی ہے کہ اسے معاوضہ کی رقم مل جائے، کیوں کہ یہی واحد دستیاب راحت ہے۔

اور اسی طرح، ماما اپنی گاڑی یا بس یا کسی کے ساتھ موٹر سائیکل پر بیٹھ کر ارد گرد کے گاؤوں میں گھومتے رہتے ہیں، اور کسانوں سے مل کر انہیں متحد ہونے کے لیے آمادہ کرتے رہتے ہیں۔

’’جیسے ہی وسائل دستیاب ہوں گے، میں اپنے گاؤں جانے کا منصوبہ بناؤں گا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

یہ مہم ۲۰۲۳ کی جولائی سے اکتوبر کے مہینہ تک چلی، اور اس مدت میں اکیلے چندر پور ضلع میں ۱۰۰۰ گاؤوں کا دورہ کیا گیا۔

’’اگر ایک گاؤں سے پانچ کسان بھی محکمہ جنگلات سے معاوضہ کا دعویٰ کرتے ہیں، تو یہ مہم اپنے مقصد میں کامیاب ثابت ہوگی،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

بدکھل ماما کہتے ہیں، اپنے مفادات کے لیے ہی کسانوں کو ایک ساتھ لانا مشکل کام ہے۔ لوگوں میں گڑگڑانے کی عادت ہے، لڑنے کی نہیں۔ گڑگڑانا اور سرکار پر الزام لگانا آسان کام ہے، وہ کہتے ہیں۔ لیکن حقوق کے لیے لڑنا، انصاف کی مانگ کرنا، اور ایک بڑے مقصد کے لیے آپس کی نا اتفاقیوں کو بھلا دینا مشکل کام ہے۔

'Even if five farmers in every village submit a compensation claim to the forest department, this campaign would have accomplished its objective,' he says
PHOTO • Jaideep Hardikar
'Even if five farmers in every village submit a compensation claim to the forest department, this campaign would have accomplished its objective,' he says
PHOTO • Jaideep Hardikar

’اگر ایک گاؤں سے پانچ کسان بھی محکمہ جنگلات سے معاوضہ کا دعویٰ کرتے ہیں، تو یہ مہم اپنے مقصد میں کامیاب ثابت ہوگی،‘ وہ کہتے ہیں

جنگلی حیات کے محافظین، جانوروں کے شائقین، ماہرین اور شیر کو پسند کرنے والوں کا ایک گروپ جنگلی حیات کے مفادات کی حفاظت کرنے کے مقصد سے ٹی اے ٹی آر کے آس پاس کے علاقوں میں سرگرم ہے، لیکن ان کی سوچ میں اجتماعی اور کثیر رخی تشویشوں کی کمی صاف دکھائی دیتی ہے۔ اس لیے مسائل دن بہ دن بڑھتے جا رہے ہیں۔ بدکھل ماما کی یہی شکایت ہے۔

ان کی تحریک مداخلت کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں انہوں نے کسانوں کے لیے اپنی آواز اٹھانے کی پوری کوشش کی ہے۔

’’جنگلی حیات کے تحفظ کے حامیوں کو ہمارا نظریہ پسند نہیں بھی آ سکتا ہے،‘‘ بدکھل ماما کہتے ہیں، ’’لیکن انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ مقامی لوگوں کے سامنے یہ جینے مرنے کا سوال ہے۔‘‘

اور اپنے کھیتوں پر وہ اس سوال سے ہر سال اور ہر روز لڑ رہے ہیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Jaideep Hardikar

Jaideep Hardikar is a Nagpur-based journalist and writer, and a PARI core team member.

Other stories by Jaideep Hardikar
Photographs : Sudarshan Sakharkar

Sudarshan Sakharkar is a Nagpur-based independent photojournalist.

Other stories by Sudarshan Sakharkar
Photographs : Jaideep Hardikar

Jaideep Hardikar is a Nagpur-based journalist and writer, and a PARI core team member.

Other stories by Jaideep Hardikar
Editor : Priti David

Priti David is the Executive Editor of PARI. She writes on forests, Adivasis and livelihoods. Priti also leads the Education section of PARI and works with schools and colleges to bring rural issues into the classroom and curriculum.

Other stories by Priti David
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique