دشہرہ کے دن طلبہ
آج دشہرہ ہے۔ طلبہ پوجا اور دعائیہ گانے کے لیے اسکول کے مین ہال میں جمع ہیں۔
کٹئی کٹو گروکولم، تمل ناڈو کے کانچی پورم ضلع کا ایک رہائشی تھیٹر اسکول ہے۔ یہاں طلبہ کو کٹئی کٹو کی ٹریننگ دی جاتی ہے، جو کہ اس ریاست میں رائج تھیٹر کی ایک دیہی شکل ہے، ساتھ ہی یہاں ۱۲ویں کلاس تک باقاعدہ اسکولی تعلیم کا نظام بھی ہے۔ اسکول کے زیادہ تر بچے محروم اور اقتصادی طور پر پس ماندہ گھروں کے ہیں۔
یہ اسکول روزانہ صبح ساڑھے ۷ بجے سے شام کے ۵ بجے تک چلتا ہے اور کلاسوں میں روایتی تعلیم کے ساتھ ساتھ کٹئی کٹو کی ٹریننگ اور موسیقی کے سبق بھی پڑھائے جاتے ہیں۔ یہ پنجارا سنٹنکل گاؤں کا یہ اسکول چنئی سے ۸۵ کلومیٹر دور ہے اور کانچی پورم شہر سے آٹورکشہ سے یہاں تک پہنچنے میں ۳۵ منٹ لگتے ہیں۔ اسکول سبزہ سازوں سے گھرا ہوا ہے۔
صبح کے اوقات میں طلبہ کی کلاسز لگتی ہیں، جب کہ دوپہر کے بعد عام طور پر دوسرے اسکولوں کی طرح ہی ٹیم کی شکل میں کھیل کود ہوتے ہیں۔
ہفتہ کی صبح کھو کھو کا کھیل
اس اسکول کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہاں پر طلبہ کو کٹئی کٹو آرٹسٹ بننے کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ انھیں گانا گانے، موسیقی کے ساز بجانے، رقص، اداکاری اور اسٹیج پر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ انھیں میک اَپ کرنا، ڈراما کے مختلف کرداروں کے چہرے پر پینٹ کرنا بھی سکھایا جاتا ہے، جو کہ عام طور پر رامائن اور مہابھارت جیسی داستانوں پر مبنی ہوتے ہیں۔
پی ششی کمار موکاوینئی بجاتے ہوئے
روایتی طور پر کٹئی کٹو میں اب تک صرف مرد اداکار حصہ لیتے رہے ہیں، لیکن اس اسکول میں لڑکیوں کو بھی اس فن کی ٹریننگ دی جا رہی ہے۔ لڑکے اور لڑکیاں دونوں باہم مل کر مختلف کرداروں کے رول ادا کرتے ہیں۔
عورتوں کی ایک جماعت اسکول میں اس آرٹ سے متعلق منعقدہ ایک ورکشاپ میں شرکت کر رہی ہیں، وہ دیکھ رہی ہیں کہ کیسے ٹیچرس اور بچے آپس میں مل کر مہابھارت کے حصہ کی ادا کاری کر رہے ہیں۔ نویں کلاس میں پڑھنے والی شیو رنجنی وِکرنا کا رول کر رہی ہے، جو کہ کورووں میں سب سے چھوٹے ہیں اور واحد ایسے شخص ہیں جنہوں نے دروپدی کے دفاع میں اپنے بھائیوں کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔
ایک مرد کا کردار کرتے ہوئے وہ کیسا محسوس کرتی ہے؟ ’’مجھے ڈر لگ رہا تھا،‘‘ وہ بتاتی ہے، ’’کیوں کہ سامعین کے سامنے میری یہ پہلی اداکاری ہے۔‘‘
کے شیو رنجنی، وکرنا کے رول میں، جو کورووں میں سب سے چھوٹے اور دروپدی کے دفاع میں بولنے والے واحد شخص تھے
پی راج گوپال، پرنسپل ٹیچر اور اسکول کے بانی، دشہرہ کے دن پوجا اور دعائیہ گانوں کے بعد چھوٹی سی تقریر کرتے ہیں۔ طلبہ پوری توجہ سے ان کی بات کو سن رہے ہیں۔
ایک طالب علم دشہرہ کے دن ٹیچر کی بات کو غور سے سنتے ہوئے
دوپہر کے مزیدار کھانے کے بعد اب طلبہ کے لیے مہابھارت سے ماخوذ دروپدی کوراوَنچی ایکٹ کرنے کا وقت ہے اور اس کے لیے پہلا کام ہے اداکاروں کے چہروں کو پینٹ کرنا۔ طلبہ کے درمیان سے ہی میک اَپ آرٹسٹ اداکاروں کو تیار کر رہے ہیں۔ بارہ سے چودہ سال کی عمر کے ان بچوں کی لگن دیکھنے لائق ہے، کیوں کہ میک اَپ کا یہ کام ایک گھنٹہ تک چلتا ہے۔ سب سے پہلے وہ فاؤنڈیشن کی تہہ لگاتے ہیں، لڑکیوں کے لیے سبز اور لڑکوں کے لیے گلابی، جس کی اس اداکاری میں ضرورت ہے۔ اس کے بعد، آنکھوں، پلکوں، ہونٹوں، مونچھوں، پیشانی، گال اور جبڑوں کی رنگائی۔
اداکار کے چہرے کی پینٹنگ
ایس سریمتھی، بھارتھی کے چہرے کو پینٹ کر رہی ہے
کچھ نوجوان طلبہ غور سے دیکھ رہے ہیں، میک اَپ کی نزاکت اور تکنیک کو سیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ایک نوجوان طالب علم چہرہ پینٹ کرنے کی بہتر تکنیک کو سیکھ رہا ہے
این کارتھی کا جب چہرہ پینٹ ہو جاتا ہے اور اس کے سر پر مُکُٹ سجا دیا جاتا ہے، تو وہ ہال سے باہر اپنا مخصوص لباس پہننے چلا جاتا ہے۔
چہرے اور سر کی سجاوٹ کا کام مکمل ہوا
لباس اتنا ہی رنگین ہے جتنا کہ دُشاسن کی خوفناک اداکاری، یہ کورو بھائیوں میں نمبر دو پر تھا۔
خوفناک اداکاری اور لباس
این کارتھی دُشاسن کے کردار میں
جِپسی عورت، کوراتی کے بھیس میں دروپدی کا کردار ادا کرتی اے بھارتھی
کٹئی کٹو گاؤوں میں رات بھر کھیلا جاتا ہے۔ کوئی بھی اداکاری کامیڈی کے بغیر پوری نہیں ہوتی۔ ڈرامے کی اس شکل کے ایک اہم حصہ جوکر ہیں، کیوں کہ یہ طنز و مزاح کو ہنسی کے انداز میں پیش کرتے ہیں۔ وہ طنز کرتے ہیں، فقرے کستے ہیں اور اداکاری میں مزیدار رنگ بھرتے ہیں، یہ غریبوں کا ساتھ دیتے ہوئے طاقتور لوگوں کا مذاق اڑاتے ہیں، یہ کمزور سوشل پوزیشن سے بڑوں پر وار کرتے ہیں۔ یہ گاؤں میں رہنے والے لوگوں کی زندگیوں کو ان ماورائی کہانیوں میں لاتے ہیں اور انھیں بھی اس داستان کا حصہ بناتے ہیں۔ رات بھر چلنے والی اس اداکاری میں، جوکر کہانی کے سیاہ عناصر سے لوگوں کو راحت پہنچاتے ہیں۔
اے ویلن جوکر کی شکل میں، پرنسپل ٹیچر پی راج گوپال پیچھے بیٹھے ہوئے ہیں
کوراتی کی شکل میں دروپدی جوکر (ایم انبراسن) کے درد بھرے ہاتھوں میں دوا لگا رہی ہے
جوکر اپنی حرکتوں سے موسیقاروں کو بھی ہنسا دیتے ہیں۔
ہارمونیم پر آر بالاجی اور موکاوینائی پر پی ششی کمار قہقہہ لگاتے ہوئے
ایک سُر میں گانا کٹئی کٹو کا حصہ ہے۔ گانے میں بہت سارے طلبہ شریک ہو جاتے ہیں، جب کہ دوسرے ہارمونیم، موکاوینائی اور مِردنگم بجا رہے ہیں۔
بھارتھی اور شیو رنجنی: گانے میں بہترین تال میل