سکندر غلام نبی شیخ نے کہا، ’’ہندوستان کے صدر کو بھی پیٹ بھرنے کے لیے کھانا چاہیے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کے پاس کتنے پیسے ہیں۔ آپ پیسے نہیں کھا سکتے، آپ کو کھانا چاہیے۔‘‘ انہوں نے سوال کیا، ’’اور آپ کے لیے کھانے کا انتظام کون کرتا ہے؟‘‘

ڈومبیولی میں رہائش پذیر ۳۶ سالہ شیخ ایک آٹورکشہ ڈرائیور ہیں۔ ۲۶  نومبر  ۲۰۱۸ کو اتوار کے دن وہ کلیان- ڈومبیولی کے جڑواں شہروں (وسطی ممبئی میں دادر سے ۴۵ کلومیٹر دور) کے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہندوستان کے کسانوں کے لیے شہری حمایت حاصل کرنے کی غرض سے ایک پٹیشن مہم میں شامل ہوئے۔

یہ تمام ڈرائیور ڈومبیولی (مشرقی) اسٹیشن کے باہر رام نگر رکشہ اسٹینڈ پر صبح ۱۰ بجے سے دوپہر ۲ بجے تک اور مرکزی رکشہ اسٹینڈ پر شام ۴ بجے سے رات ۹ بجے تک جمع ہوئے تھے۔ ۷ سے ۸ رکشہ ڈرائیوروں کی ایک ٹیم، ان کے دوستوں اور یونین کے کارکنوں نے ’نیشن فار فارمرز‘ کی ایک ہورڈنگ وہیں زمین پر نصب کی تھی جس میں پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

جو دوسرے لوگ تھے وہ ایک میز پر ہندی، انگریزی اور مراٹھی میں پمفلٹ اور پٹیشن کی کاپیاں لے کر بیٹھے تھے۔ ہندوستان کے صدر کو مخاطب کر کے اس پٹیشن میں ملک میں مسلسل جاری زرعی بحران کے ساتھ ساتھ دیگر مزدور گروپوں کے بڑھتے ہوئے مسائل پر بحث کے لیے پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

ڈومبیولی اسٹیشن ممبئی سب اربن ریلوے نیٹ ورک کی مرکزی لائن پر واقع ہے۔ اس اسٹیشن سے ٹرینیں روزانہ ہزاروں مسافروں کو ممبئی کے وسیع میٹروپولیٹن علاقے میں لے جاتی اور لے آتی ہیں۔ دیگر مضافاتی اسٹیشنوں کی طرح ڈومبیولی ایسٹ کے باہر بھی ملبوسات، زیورات، اسٹیشنری اور دیگر اشیاء فروخت کرنے والی دکانوں کے ساتھ ساتھ بینک کے اے ٹی ایم اور پرنٹنگ سروسز بھی موجود ہیں۔ سڑک کے کنارے ریہڑی والے موبائل فون کور، پھل، سبزیاں اور متعدد دیگر اشیاء فروخت کرتے ہیں۔ یہاں چائے کی دکانیں اور کوچنگ کلاسز بھی ہیں۔

یہاں چہل پہل کے درمیان لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کے لیے، آپ کو پرزور انداز میں اپنی بات کہنی ہوتی ہے۔

PHOTO • Siddharth Adelkar
PHOTO • Siddharth Adelkar

رکشہ ڈرائیوروں اور کارکنوں کی ایک ٹیم نے زمین پر ’نیشن فار فارمرز‘ کی ہورڈنگ نصب کی ہے۔ دوسرے افراد پٹیشن کی کاپیاں لے کر میز پر بیٹھے ہیں

جب شیخ اور ان کے دوست میگا فون کے ذریعہ کسانوں کے مسائل بیان کرتے تھے، تو لوگ انہیں سنتے تھے۔ ان کے تیزی سے بڑھتے قدم رک جاتے اور وہ ہورڈنگ پر لکھی عبارت پڑھنے لگتے۔ کچھ ایسے بھی تھے جو میز پر بیٹھے رضاکاروں سے کچھ سوالات بھی پوچھ رہے تھے۔ ان میں سے بہتوں نے میز تک جاکر پوچھا، ’’میں کہاں دستخط کروں؟‘‘

کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا سے منسلک لال باوٹا آٹورکشہ یونین سے وابستہ ڈومبیولی کے تقریباً ۱۰۰۰ آٹو رکشہ ڈرائیور وہاں جمع ہوئے تھے۔ ریلوے اسٹیشن کی اس مہم سے ایک ہفتہ قبل ۱۷ نومبر کو اسٹیشن سے تقریباً ایک کلومیٹر دور، تلک چوک پر یونین کے دفتر میں نیشن فار فارمرز کی ڈومبیولی اکائی تشکیل دی گئی تھی۔

وی دیون نے کہا، ’’کسان لانگ مارچ کا قومی سیاست پر گہرا اثر پڑا تھا۔ جب اس مارچ کے منتظمین نے اس مہم کو شہر کے لوگوں تک لے جانے کی اپیل کی، تو میں نے اس میں شرکت کرنا اپنا فرض سمجھا۔‘‘

مارچ ۲۰۱۸ میں جب تقریباً ۴۰ ہزار کسانوں نے ناسک سے ممبئی تک ۱۸۰ کلومیٹر کا مارچ کیا تھا ، تو ممبئی اور تھانے کے متوسط طبقے کے باشندوں نے ان کی حمایت کی تھی۔ یہ ایک حوصلہ افزا بات تھی۔ پچھلے کئی ہفتوں کے دوران اورنگ آباد، بنگلورو، چنئی، دہلی، حیدرآباد، کولکاتا، ناگپور اور پونے سمیت کئی شہروں اور قصبوں میں نیشن فار فارمرز (این ایف ایف) گروپ وجود میں آئے ہیں۔ ڈومبیولی کے این ایف ایف گروپ کی طرح ان گروپوں نے بھی شہریوں سے صدر جمہوریہ کے نام جاری پٹیشن پر دستخط کرنے کی اپیل کی ہے۔

یہ کوششیں آل انڈیا کسان سنگھرش کوآرڈینیشن کمیٹی کی ۳۰-۲۹ نومبر کو دہلی میں پارلیمنٹ تک مارچ کے لیے اپیل کا ایک حصہ ہیں۔ اس مارچ کی حمایت تقریباً ۲۰۰ کسان گروپوں اور دیگر تنظیموں نے کی ہے۔

ڈومبیولی کی این ایف ایف گروپ کو فعال رکھنے کی کوششوں کے سلسلے میں آٹورکشہ یونین کے صدر، دیون اور کالو کوماسکر نے اپنے دوستوں، رکشہ والوں اور ساتھی کارکنوں کی ایک میٹنگ طلب کی تھی۔ دیون اصل میں کیرالہ کے تریشور ضلع کے ایرنجلا کڈا شہر سے تعلق رکھتے ہیں اور ۳۸ سال سے ڈومبیولی میں رہائش  پذیر ہیں۔ وہ مشین کے ساز و سامان کا ایک چھوٹا کاروبار چلاتے ہیں۔

’’میں نے مہاراشٹر میں خودکشی کرنے والے ایک کسان کی خبر دیکھی تھی۔ اس کے اہل خانہ کے چہروں کو دیکھ کر میں رو پڑی تھی،‘‘ دیون کی دعوت قبول کرنے والی ایک جذباتی ٹیچر سجاتا کھیرنار کہتی ہیں۔ ’’اگر ہم میں کسانوں کی تکلیف کی سمجھ نہیں ہے، تو ہمیں کم از کم ان کے گھر والوں کے بارے میں سوچنا چاہیے۔‘‘

president of the autorickshaw union,
PHOTO • Himanshu Chutia Saikia
PHOTO • Siddharth Adelkar

بائیں: آٹورکشہ یونین کے صدر کالو کوماسکر نے آگے کی تیاریوں کے لیے اپنے دوستوں، رکشہ والوں اور ساتھی کارکنوں کی ایک میٹنگ طلب کی ہے۔ دائیں: نیشن فار فارمرز، ڈومبیولی کی شروعات کرنے والے وی دیون  ڈیسک پر ڈومبیولی کے لوگوں کو پٹیشن پر دستخط کرنے میں مدد کرتیں سجاتا کھیرنار اور ان کی ٹیم کے ممبران کو دیکھ رہے ہیں

اس میٹنگ میں کوماسکر نے مشورہ دیا کہ کسانوں کے لیے متوسط طبقہ کی حمایت حاصل کرنے کی غرض سے ان آٹورکشہ ڈرائیوروں کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں جنہوں نے بڑی تعداد میں شہری مسافروں کے ساتھ تبادلہ خیال کیا تھا۔ ۲۳ نومبر کو کوماسکر اور این ایف ایف کی ایک چھوٹی ٹیم نے زرعی بحران کے بارے میں کئی رکشہ اسٹینڈوں پر ڈرائیوروں سے بات چیت کی۔ بہت سے رکشہ ڈرائیور خود کسان گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، اور انہوں نے فوری طور پر اس مہم کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔

مثال کے طور پر ۵۲ سالہ آٹو ڈرائیور جلِندر بھوئیر نے کہا، ’’میں کسان کا بیٹا ہوں۔ ڈومبیولی کے دیہی مضافات میں ہمارے پاس اب بھی زمین کا ایک چھوٹا ٹکڑا ہے جہاں ہم چاول اگاتے ہیں۔ آج میرا ساتھی کسان، میرا ’بالی راجہ‘ [ایک اساطیری کسان بادشاہ]  خطرے میں ہے۔ خودکشی کی تعداد دوگنی ہو گئی ہے۔ ایسا غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ میں اپنی ہر سواری کو اس بحران سے آگاہ کروں گا۔ میں یہ کام پورے جوش اور جذبے کے ساتھ کروں گا۔ یہ میرا فرض ہے۔ مجھے پختہ یقین ہے کہ ڈومبیولی کے باشندے ہمارا ساتھ دیں گے۔‘‘

چنانچہ اتوار ۲۵ نومبر کو آٹورکشہ یونین کی قیادت میں این ایف ایف کی ٹیم ڈومبیولی اسٹیشن پر دو بڑے رکشہ اسٹینڈز کے سامنے جمع ہوئی، اور وہاں سے گزرنے والے لوگوں کو پٹیشن پر دستخط کرنے کی گزارش کی۔

اور جیسا کہ بھوئیر نے پیشن گوئی کی تھی، لوگوں نے اس میں دلچسپی لی۔ مہم کے پہلے دن صدر جمہوریہ کو انفرادی طور پر دستخط شدہ تقریباً ۱۰۰۰ درخواستیں جمع ہو گئی تھیں۔ پیر کے روز اتنی ہی تعداد میں دستخط جمع کیے گئے۔

دستخط کنندگان میں ۴۸ سالہ دکاندار دیپک گپتا بھی شامل تھے۔ ’’کسان قرضوں میں ڈوبتے ہیں اور تکلیف اٹھاتے ہیں۔ یہ سب ان کی محنت کی وجہ سے چل رہا ہے،‘‘ انہوں نے چمچماتے بورڈز، ریستوراں اور دکانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’انہیں اپنی پیداوار کی صحیح قیمت ملنی ہی چاہیے۔‘‘

ویڈیو دیکھیں: ’زرعی بحران آج ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے‘

’میں اپنی ہر سواری کو اس بحران سے آگاہ کروں گا۔ میں یہ کام پورے جوش اور جذبے کے ساتھ کروں گا۔ یہ میرا فرض ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ڈومبیولی کے باشندے بھی ساتھ دیں گے‘

اس شام اسٹیشن کی چہل پہل میں ۸۰ سالہ شانتا بائی واگھری بھی شامل تھیں، جو ۶۰ سال سے ڈومبیولی کی سڑکوں پر سبزیاں اور پھول بیچ رہی ہیں۔ ’’ہماری نسل اس شہر کی سڑکوں پر کام کر رہی ہے۔ حکومت نہ کسانوں کے ساتھ تعاون کرتی ہے، نہ مزدوروں کے ساتھ اور نہ ہی تنخواہ داروں کے ساتھ۔ میں حکومت سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ کسانوں کی مدد کرے، انہیں پانی اور بیج دے کر کاشتکاری اور پیداوار میں مدد کرے اور اپنے اچھے شہریوں کی فلاح کے لیے کام کرے۔‘‘

پٹیشن پر دستخط کرنے والے بہت سے لوگوں کا تعلق کسان گھرانوں سے تھا، یا ان کے والدین کبھی کسان تھے۔ مثال کے طور پر کلیان کی ۲۵ سالہ دیپالی وارے، جو ڈومبیولی میں آنند پریم کریڈٹ کوآپریٹو سوسائٹی میں کام کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’میری فیملی پونے ضلع کے بھور میں چاول کی کھیتی کرتی تھی۔ میں کسانوں کی مکمل حمایت کرتی ہوں۔‘‘

ان کی ساتھی ۲۱ سالہ سواتی مورے کہتی ہیں، ’’ہم کسانوں کی حالت زار کے بارے میں کافی عرصے سے سن رہے تھے۔ کام سے گھر لوٹتے ہوئے ہم نے یہ بورڈ دیکھا اور اپنے آپ سے کہا کہ ہمیں اس کے بارے میں خود کو آگاہ کرنا چاہیے۔‘‘

’’ہم نے اپنی زمین کھو دی ہے…‘‘ سانگلی ضلع کے کرلوسکر واڑی سے تعلق رکھنے والی سیما راجن جوشی کہتی ہیں۔ وہ ۳۰ سال سے ڈومبیولی میں مقیم ہیں اور بطور باورچی کام کرتی ہیں۔ ’’میں کسانوں کے ساتھ جڑنے پر بہت فخر اور خوشی محسوس کر رہی ہوں۔ کسانوں کو ان کی فصل کی مناسب قیمت یا قرض سے نجات ملنی چاہیے۔‘‘

PHOTO • Siddharth Adelkar
a labourer
PHOTO • Siddharth Adelkar

نوکری کی تلاش میں بھاگ دوڑ کرنے والے جالنہ ضلع کے کسان نند کشور ارگڑے (بائیں) نے کہا، ’صرف کسان ہی جانتا ہے کہ وہ کن حالات سے گزر رہا ہے۔‘ اورنگ آباد ضلع کے ایک مزدور اشوک گروڈ (دائیں) نے کہا، ’میں کسانوں کے ساتھ دہلی جانا چاہتا ہوں، لیکن میری فیملی کو پیسوں کی ضرورت ہے۔ ابھی تک مجھے پیسے نہیں ملے ہیں‘

پٹیشن پر ستخط کرنے والوں میں ۲۸ سالہ نند کشور ارگڑے بھی شامل ہیں۔ وہ جالنہ ضلع کے امبڈ تعلقہ میں اپنے پانچ ایکڑ کھیت میں کپاس اگاتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’صرف کسان ہی جانتا ہے کہ وہ کن حالات سے گزر رہا ہے۔ پانی نہیں ہے۔ چار سال سے بارش نہیں ہوئی ہے۔ ہم پر ڈیڑھ لاکھ روپے کا قرض ہے۔ ہم نے درخواست دی ہے، لیکن قرض سے نجات نہیں ملی اور نہ ہی کوئی مدد۔‘‘ نند کشور نوکری کی تلاش میں شہر کا چکر کاٹ رہے ہیں۔ ’’کل میرا انٹرویو ہے اور رہنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ میں آج رات ممبئی کے سی ایس ٹی اسٹیشن پر سوؤں گا۔‘‘

اورنگ آباد ضلع کے خلد آباد تعلقہ کے دھامنگاؤں کے اشوک گروڑ کو ریلوے اسٹیشن پر ٹن کی چھتیں ڈالنے کے کام کے لیے ڈومبیولی میں ایک ٹھیکیدار لے کر آیا تھا۔ وہ اپنے گاؤں میں پانچ ایکڑ میں باجرے اور کپاس کی کاشت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سال کپاس کی پیداوار گلابی بول کیڑے کی وجہ سے تباہ ہو گئی ہے۔ ان پر ایک کوآپریٹو بینک اور ایک نجی ساہوکار کے ۷۰ ہزار روپے قرض ہیں۔ وہ پچھلے ایک ہفتہ سے اسٹیشن پر کام کر رہے ہیں، انہوں نے کہا، ’’میں کسانوں کے ساتھ دہلی جانا چاہتا ہوں، لیکن میری فیملی کو پیسوں کی ضرورت ہے۔ مجھے ابھی تک پیسے نہیں ملے ہیں۔ مجھے کام کرنا ہے۔‘‘

کالو کوماسکر کہتے ہیں کہ پٹیشن مہم ’’ڈومبیولی کے شہریوں کو ساتھ لانے کا پہلا قدم تھا۔ ہم اسے مزید وسعت دیں گے۔ ہمارا ہر ڈرائیور ان پٹیشنوں کو روزانہ اپنی سواریوں تک پہنچائے گا۔ وہ زرعی بحران پر بات کریں گے اور ان پر زور دیں گے کہ دستخط شدہ پٹیشن براہ راست صدر کو بھیجیں۔‘‘

لیکن ہزاروں دستخط شدہ پٹیشنوں کا کیا ہوگا؟ ’’وہ اتنے وزنی ہیں کہ انہیں پوسٹ کرنا بہت مشکل ہے،‘‘ دیون کہتے ہیں۔ ’’یہ ممکن ہے کہ جب ہم ۲۹ اور ۳۰ نومبر کو دہلی میں کسانوں کے ساتھ مارچ کریں، تو ہم ذاتی طور پر انہیں ہندوستان کے صدر کے حوالے کر دیں گے۔‘‘

مترجم: شفیق عالم

Siddharth Adelkar

Siddharth Adelkar is Tech Editor at the People’s Archive of Rural India.

Other stories by Siddharth Adelkar
Editor : Sharmila Joshi

Sharmila Joshi is former Executive Editor, People's Archive of Rural India, and a writer and occasional teacher.

Other stories by Sharmila Joshi
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam