میں آرائشی سامان بنانے کے لیے شولاپیٹھ [ ایشینومین ایسپیرا ایل پودے کے کارک] کا استعمال کرتا ہوں۔ یہ کثیر استعمال والا مواد ہے، جسے الگ الگ سائزوں اور ڈیزائن میں کاٹا جا سکتا ہے، اور یہ وزن میں بھی ہلکا ہوتا ہے۔ اوڈیشہ میں ہم اسے شولاپیٹھ کام کہتے ہیں۔

اس کی مدد سے میں گلے کا ہار (گلوبند)، دشہرہ کے لیے گل کاری، پھول اور دوسرے آرائشی سامان بنا سکتا ہوں، لیکن میرا بنایا ٹاہیا سب سے زیادہ مقبول ہے ۔اسٹیج پر رقص کرتے وقت اوڈیسی ڈانسر سر پر جو سجاوٹی تاج پہنتے ہیں اسے ہی ٹاہیا کہتے ہیں۔

بازار میں پلاسٹک کے تاہیا بھی ملتے ہیں، لیکن ان سے رقص کرنے والوں کو پیشانی کی جلد میں دقت محسوس ہوتی ہے، اس لیے اسے دیر تک پہننا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، پلاسٹک سے بہت زیادہ ڈیزائن بھی نہیں بنائے جا سکتے ہیں۔

کئی ماہر کاریگروں نے اب ٹاہیا بنانا چھوڑ دیا ہے، لیکن مجھے یہ بنانا پسند ہے۔

Left: Upendra working on a lioness carved from sholapith
PHOTO • Prakriti Panda
Equipment and tools used for making tahias
PHOTO • Prakriti Panda

بائیں: اوپندر، شولاپیٹھ سے شیرنی کی مورتی بنا رہے ہیں۔ دائیں: ٹاہیا بنانے میں استعمال کیے جانے والے آلات اور اوزار

Left: Rolled shola is uniformly cut to make flowers.
PHOTO • Prakriti Panda
Thin shola strips are used to make flowers
PHOTO • Prakriti Panda

بائیں: پھول بنانے کے لیے شولا کے رول کو یکساں طور پر کاٹا جاتا ہے۔ دائیں: شولا کی پتلی پٹیوں سے پھول بنائے جاتے ہیں

پہلے کے کلاسیکی ڈانسر بالوں میں پھولوں سے بنے سجاوٹی تاج پہنتے تھے۔ عظیم اوڈیسی ڈانسر کیلو چرن مہاپاتر کے دوست کاشی مہاپاتر کے ذہن میں یہ خیال آیا تھا کہ اس کی جوہ شولاپیٹھ سے بنا ٹاہیا پہنا جائے۔ میں نے ان کے ڈیزائن پر کام کیا۔

ٹاہیا بنانے کے لیے شولاپیٹھ کے علاوہ آپ کو بُکرم [سخت سوتی کپڑا]، تار، فیوی کول (گوند)، کالا دھاگہ، چونا، سیاہ اور سبز رنگ کا کاغذ چاہیے ہوتا ہے۔ اگر کوئی کاریگر اکیلے ہی ٹاہیا بنائے، تو وہ ایک دن میں دو سے زیادہ ٹاہیا نہیں بنا پائے گا۔ لیکن، اسے بنانے کے عمل میں الگ الگ کاموں کے لیے کئی لوگ ہوتے ہیں – کبھی کبھی چھ سے سات لوگ بھی ہوتے ہیں۔

ناگیشور [ہندوستانی گلاب شاہ بلوط] اور سیبتی [گل داؤدی]، ٹاہیا بنانے میں استعمال ہونے والے دو اہم پھول ہیں۔ دوسرے پھولوں کے مقابلے، سیبتی کے پھول تقریباً آٹھ دن چلتے ہیں، جب کہ ناگیشور کے پھول ۱۵ دن تک صحیح سلامت رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ٹاہیا بنانے کے لیے پہلے انھیں پھولوں کا استعمال کیا جاتا تھا۔ ہم شولاپیٹھ کے ذریعے ان کی نقل تیار کرتے ہیں۔

Upendra using sholapith flower buds to create the spokes for the crown worn by a Odissi dancer
PHOTO • Prakriti Panda
The second strip of sholapith being added to the crown
PHOTO • Prakriti Panda

بائیں: اوپندر، شولاپیٹھ کی بنی کلیوں سے اوڈیسی ڈانسر کے تاج کے لیے تیلیاں تیار کر رہے ہیں۔ دائیں: تاج میں شولاپیٹھ کی دوسری پٹی لگائی جا رہی ہے

Zari wrapped around sholapith to make a pattern
PHOTO • Prakriti Panda
Zari wrapped around sholapith to make a pattern
PHOTO • Prakriti Panda

شولاپیٹھ کے چاروں طرف زری لپیٹ کر ڈیزائن بنایا جا رہا ہے

پھول کی کلیوں، خاص کر مَلّی [چنبیلی] کا استعمال کرکے ٹاہیا کے تاج والے حصہ میں ڈیزائن بنایا جاتا ہے۔ کلیاں عام طور پر کھلنے سے پہلے سفید ہوتی ہیں، اس لیے جب ہم ٹاہیا بناتے ہیں، تو اسے بھی سفید ہی رکھا جاتا ہے۔

کئی بار کوئی ڈیزائن بنانے کے لیے کچھ کلیوں کی نوک کو دبایا جاتا ہے۔ اس نازک کام کو عام طور پر عورتیں کرتی ہیں۔

ایسا کہا جاتا ہے کہ پوری میں بھگوان جگن ناتھ کی پوجا کے لیے شولاپیٹھ کا کام شروع کیا گیا تھا۔ اب ہوٹلوں میں، اور محتلف مواقع پر اور تقاریب میں شولاپیٹھ سے بنے مقامی ڈیزائنوں سے سجاوٹ کی جاتی ہے۔

جب ہم کام شروع کرتے ہیں، تو اس کے ختم ہونے کا کوئی مقررہ وقت نہیں ہوتا۔ ہم چاہے صبح ۶ بجے اٹھیں یا ۷ بجے، یا صبح ۴ بجے ہی کام شروع کر لیں، کام آدھی رات کے ۱ یا ۲ بجے جا کر ختم ہوتا ہے۔ ایک ٹاہیا بنانے کے لیے ایک کاریگر کو ۱۵۰۰ سے ۲۰۰۰ روپے تک مل جاتے ہیں۔

Shola flowers of six different varieties
PHOTO • Prakriti Panda
Upendra showing a peacock made from sholapith , usually used for decoration in Puri hotels
PHOTO • Prakriti Panda

بائیں: چھ الگ الگ قسم کے شولا پھول۔ دائیں: اوپندر، شولاپیٹھ سے بنا مور دکھا رہے ہیں، جسے اکثر پوری کے ہوٹلوں میں سجاوٹ کے لیے رکھا جاتا ہے

سال ۱۹۹۶ میں جب میں اوڈیشہ کے سمبل پور میں سرت موہنتی سے ٹریننگ حاصل کر رہا تھا، تب مجھے اس کاریگری کے لیے ایک انعام بھی ملا تھا۔

’’ کلاکار جما کہری سمپتی نوہے۔ کلا ہین ایپری سمپتی، نیجے نیجا کتھا کوہے۔ [کاریگر کی کوئی قیمت یا دولت نہیں ہوتی۔ ہنر ہی دولت کا ذریعہ ہوتا ہے، اور اپنے بارے میں خود ہی بولتا ہے۔]‘‘

اوپندر کمار پروہت کہتے ہیں، ’’۳۷ سال پرانا میرا ہنر ہی میری دولت ہے۔ اسی لیے میرے گھر والوں کو بھوکے پیٹ نہیں سونا پڑتا۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Student Reporter : Anushka Ray

Anushka Ray is an undergraduate student at XIM University, Bhubaneshwar.

Other stories by Anushka Ray
Editors : Aditi Chandrasekhar

Aditi Chandrasekhar is a journalist and former Senior Content Editor at People’s Archive of Rural India. She was a core member of the PARI Education team and worked closely with students to publish their work on PARI.

Other stories by Aditi Chandrasekhar
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique