رخسانہ خاتون کو لگا تھا کہ اب انہیں اپنی فیملی کا پیٹ بھرنے کے لیے زیادہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ نومبر ۲۰۲۰ کا مہینہ تھا اور تقریباً دو سال کے اندر تیسری بار کوشش کرنے کے بعد، انہیں ابھی ابھی راشن کارڈ ملا ہی تھا کہ وبائی مرض والے سال کا سب سے برا دور شروع ہو گیا۔

یہ قومی غذائی تحفظ قانون (این ایف ایس اے)، ۲۰۱۳ کے تحت ایک ’ترجیحی گھریلو‘ راشن کارڈ تھا، جس کے لیے اہلیت رکھنے والے مستفیدین کی نشاندہی ریاستی حکومتیں کرتی ہیں۔

اس میں ان کے گاؤں والے گھر کا پتہ درج تھا، جہاں وہ اُس وقت رہ رہی تھیں۔ ان کا گاؤں حال ہی میں بہار کے دربھنگہ ضلع میں ایک میونسپل کونسل کے علاقے میں شامل کر لیا گیا تھا۔ اور آخرکار، رخسانہ کو اپنی سات رکنی فیملی کے لیے سبسڈی والا راشن مل ہی گیا۔

اس کے بعد، جب وہ اگست ۲۰۲۱ میں واپس دہلی گئے، تو ایک بار پھر فیملی کو اپنے قانونی حق کا اناج حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑی۔

مرکزی حکومت کی وَن نیشن، وَن راشن کارڈ (او این او آر سی) اسکیم کے تحت، این ایف ایس اے کے مستفیدین، جنہیں ’ترجیحی گھروں‘ اور ’خط افلاس کے نیچے‘ والے زمرے میں رکھا گیا ہے، وہ کسی بھی سستی قیمت کی دکان سے اناج کا اپنا کوٹہ لینے کے حقدار ہیں۔ ان دکانوں کو آدھار کارڈ سے جڑی بایو میٹرکس تصدیق کا استعمال کرکے، عوامی تقسیم کے نظام (پی ڈی ایس) کے تحت راشن تقسیم کرنے کے لیے لائسنس دیا گیا ہے۔ لیکن رخسانہ جب بھی اپنے ماہانہ کوٹے کے راشن کے لیے، مغربی دہلی کے شادی پور مین مارکیٹ علاقے میں نزدیک کی سستی قیمت والی دکان پر جاتی تھیں، تو الیکٹرانک پوائنٹ آف سیل (ای پی او ایس) مشین میں لکھا آتا تھا: ’آئی ایم پی ڈی ایس میں راشن کارڈ نہیں ملا‘۔

جب کہ مرکزی حکومت کے ذریعے پی ڈی ایس کے تحت تقسیم کے لیے، ریاستوں کو اناج دیا جاتا ہے۔ عوامی تقسیم کے نظام کا مربوط انتظام ( آئی ایم پی ڈی ایس ) سال ۲۰۱۸ میں قائم کیا گیا تھا، تاکہ اہل مہاجر مزدور او این او آر سی اسکیم کے تحت ملک میں کہیں سے بھی اپنا راشن حاصل کر سکیں۔

Rukhsana Khatoon and her eldest children Kapil and Chandni in their rented room in Shadipur Main Bazaar area of West Delhi.
PHOTO • Sanskriti Talwar
PHOTO • Sanskriti Talwar

بائیں: رخسانہ خاتون اور ان کے سب سے بڑے بچے – کپل اور چاندنی – مغربی دہلی کے شادی پور مین مارکیٹ علاقے میں اپنے کرایے کے کمرے میں بیٹھے ہیں۔ دائیں: رخسانہ کی گود میں ان کی سب سے چھوٹی بیٹی آسیہ ہیں، وہیں ان کی تین سال کی بیٹی، جم جم ان کے فون سے کھیل رہی ہے

اکتوبر ۲۰۲۰ میں پاری نے ایک اسٹوری رپورٹ کی تھی، جس میں سامنے آیا تھا کہ دہلی میں گھر گھر جا کر کام کرنے والی رخسانہ راشن پانے کی جی توڑ کوشش کر رہی تھیں، اور کووڈ۔۱۹ لاک ڈاؤن کے بعد ان کی فیملی کی مالی حالت خستہ ہو گئی تھی۔ انہیں مفت تقسیم ہو رہے کھانے کے لیے قطار میں کھڑا ہونا پڑا، اور کام نہ ملنے کی صورت میں اور پی ڈی ایس کے تحت اناج نہ مل پانے کی وجہ سے، آخرکار اپنے بچوں کے ساتھ دربھنگہ لوٹنا پڑا۔

پاری کے ذریعے ان کی کہانی شائع کرنے کے بعد، بہار میں عہدیداروں نے رخسانہ کے گھر کا دورہ کیا، فیملی کے آدھار کارڈ کی تصدیق کی اور انہیں راشن کارڈ جاری کیا۔

رخسانہ بتاتی ہیں، ’’بہار میں، گھرکے کسی بھی رکن کو اپنا انگوٹھا [فنگر پرنٹ اسکینر کے ذریعے چلائی جانے والی ای پی او ایس مشین پر] رکھنا ہوتا ہے اور انہیں اناج مل جاتا ہے۔‘‘ اگر وہ خود اناج لینے نہیں جا پاتی ہیں، تو ان کا ۱۱ سال کا بیٹا یا ۱۳ سال کی بیٹی بھی جا کر اناج لا سکتے ہیں۔ ’’جب سب کچھ آن لائن ہوا ہے، پھر کیوں نہیں آ رہا ہے؟‘‘

رخسانہ (۳۱ سال)، اپنے ۳۵ سالہ شوہر محمد وکیل اور پانچ بچوں کے ساتھ، ۲۵ اگست ۲۰۲۱ کو ٹرین سے واپس دہلی آ گئیں۔ انہوں نے مغربی دہلی کے پٹیل نگر میں چار گھروں میں گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرنا شروع کیا، جس سے انہیں ہر مہینے تقریباً چھ ہزار روپے کی کمائی ہوتی ہے۔ وکیل، جنہوں نے نومبر ۲۰۲۰ میں بہار لوٹنے سے پہلے اپنی سلائی کی دکان بند کر دی تھی، دہلی واپس لوٹنے کے بعد آخرکار انہیں مارچ ۲۰۲۲ میں شمال مشرقی دہلی کے گاندھی نگر مارکیٹ میں ایک درزی کے طور پر کام مل ہی گیا۔ ان کی ماہانہ تنخواہ ۸ ہزار روپے ہے۔

مارچ ۲۰۲۰ میں کووڈ۔۱۹ لاک ڈاؤن لگنے سے پہلے، میاں بیوی کی مشترکہ کمائی تقریباً ۲۷ ہزار روپے ماہانہ تھی۔

Rukhasana’s husband, Mohammed Wakil, and their children outside their rented room.
PHOTO • Sanskriti Talwar
He works in the same room, tailoring clothes on his sewing machine
PHOTO • Sanskriti Talwar

بائیں: رخسانہ کے شوہر محمد وکیل اور ان کے بچے اپنے کرایے کے کمرے کے باہر کھڑے ہیں۔ دائیں: وہ اسی کمرے میں اپنی سلائی مشین پر کپڑے کی سلائی کا کام کرتے ہیں

رخسانہ کو ستمبر ۲۰۲۱ کے بعد سے سستی قیمت کی دکان کے اتنے چکّر لگانے پڑے ہیں کہ وہ اس کی گنتی بھول گئی ہیں۔

وہ بتاتی ہیں، ’’ڈیلر نے مجھ سے کہا تھا کہ یہاں بہار کا راشن کارڈ کام نہیں کرتا، اور مجھے بہار جانے اور فیملی کے تمام آدھار کارڈ کو راشن کارڈ سے جوڑنے کے لیے کہا۔‘‘ انہوں نے آگے بتایا، ’’میرے سسر بینی پور میں راشن آفس گئے، لیکن ان سے سبھی آدھار کارڈ کو دہلی کے ایک راشن آفس میں جمع کرنے کو کہا گیا۔ جب ہم نے بہار میں پوچھا، تو ہمیں دہلی میں اس کی جانچ کرنے کے لیے کہتے ہیں، اور دہلی میں پوچھنے پر بہار جانے کو کہتے ہیں۔

*****

رخسانہ کو اپنے گاؤں، موہن بہیرا میں رہنا پسند ہے۔ سال ۲۰۰۹ میں ان کے گاؤں کے ساتھ ۲۳ دیگر گاؤوں کو ملا کر دربھنگہ میں بینی پور میونسپل کونسل قائم کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا، ’’مجھے اپنے گاؤں میں سکون ملتا ہے۔ مجھے صرف کھانا بنانا ہوتا ہے، کھانا ہوتا ہے، اور بچوں کی دیکھ بھال کرنی ہوتی ہے۔‘‘ دہلی میں، لوگوں کے گھروں کا کام ختم کرکے گھر پہنچنا اور وقت پر اپنی فیملی کے لیے کھانا پکانا کسی ریس سے کم نہیں ہے۔

شادی پور مین مارکیٹ میں سڑک کے آس پاس چھوٹے گھروں والی کئی عمارتیں ہیں۔ ستمبر ۲۰۲۱ سے رخسانہ پوری طرح سے بھرے رہنے والے ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتی ہیں۔ اس کمرے کے لیے انہیں ہر مہینے ۵۰۰۰ روپے کرایہ دینا پڑتا ہے۔ ایک طرف کچن پلیٹ فارم ہے، دوسری طرف سنگل بیڈ لگا ہوا ہے، وکیل کی سلائی مشین رکھی ہے، اور درمیان میں کپڑے کی ناپ کے لیے ایک بڑی میز ہے۔ گھر کے دروازے پر دائیں طرف ایک چھوٹا سا بیت الخلاء ہے۔

رخسانہ اور ان کی تین چھوٹی بیٹیاں – ناظمین، جم جم اور آسیہ، جو بالترتیب ۹ سال، ۳ سال اور ایک سال کی ہیں – لوہے کے بیڈ پر سوتی ہیں۔ وکیل اپنے ۱۱ سال کے بیٹے، کپل اور ۱۳ سال کی سب سے بڑی بیٹی چاندنی کے ساتھ فرش پر سوتی گدّا بچھا کر سوتے ہیں۔

وکیل بتاتے ہیں، ’’گاؤوں میں لوگ اس طرح کے کمروں میں اپنے جانوروں کو چھوڑ دیتے ہیں۔ میں مذاق نہیں کر رہا ہوں۔ گاؤں کے لوگ اپنے جانوروں کو اس سے بہتر کمرے میں رکھتے ہیں۔ اور یہاں آ کر، لوگ خود جانور بن جاتے ہیں۔‘‘

PHOTO • Sanskriti Talwar
PHOTO • Sanskriti Talwar

یہ فیملی ستمبر ۲۰۲۱ سے ۵۰۰۰ روپے ماہانہ کرایے والے چھوٹے، کھچا کھچ بھرے کمرے میں رہ رہی ہے

این ایف ایس اے کے تحت، ہندوستان کی دیہی آبادی کے ۷۵ فیصد اور شہری آبادی کے ۵۰ فیصد لوگ سبسڈی والے اناج خرید سکتے ہیں۔ سستی قیمتوں والی مقررہ دکان سے لوگ چاول ۳ روپے کلو، گیہوں ۲ روپے کلو، اور موٹے اناج (باجرا) ایک روپے کلو کی شرح پر خرید سکتے ہیں۔ ترجیحی گھریلو کارڈ پر، کارڈ میں شامل ہر ممبر کے حساب سے وہ ماہانہ ۵ کلو اناج کے حقدار ہیں، جب کہ سب سے غریب فیملی یا ’’غریبوں میں سب سے غریب‘‘، انتیودیہ انّ یوجنا (اے اے وائی) کے تحت ہر مہینے ۳۵ کلو اناج پانے کے حقدار ہیں۔

رخسانہ کے ترجیحی گھریلو کارڈ پر ان کی فیملی کے چھ ممبران کے نام درج ہیں۔ ہر کسی کے پاس ماہانہ ۳ کلو چاول اور ۲ کلو گیہوں پانے کا حق ہے۔

ان زمروں کے لیے، ریاستی حکومتوں کے ذریعے صحیح اہلیت کی جانچ کھپت کی بنیاد پر اور آمدنی سے جڑے پیمانوں کا استعمال کرکے کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر، دہلی میں ایک لاکھ روپے سے کم سالانہ آمدنی والے خاندان، ترجیحی گھریلو کارڈ اور اے اے وائی زمروں میں شامل ہونے کے اہل ہیں ۔ لاگو زمرہ، ہر ایک فیملی کی سماجی، پیشہ ورانہ، اور رہائشی شرائط کی طے کی جاتی ہے۔ حالانکہ، آمدنی سے جڑی اہلیت کے باوجود، انفرادی استعمال کے لیے چار پہیہ گاڑی یا ریاست کے مخصوص علاقوں میں کوئی عمارت یا زمین یا ۲ کلو واٹ سے زیادہ بجلی کے کنکشن والے خاندانوں کو ان زمروں سے باہر رکھا گیا ہے۔ کسی دیگر اسکیم کے تحت سبسڈی والا راشن حاصل کرنے والے خاندان یا کوئی ایسا خاندان جہاں کوئی رکن ٹیکس ادا کرتا ہو یا سرکاری ملازم ہو، تو وہ اس کے اہل نہیں ہیں۔

بہار میں اخراج (ایکسکلوژن) کی شرط کے ذریعے اہلیت طے کی جاتی ہے۔ ریاست کے دیہی علاقوں کے لیے متعینہ رہنما خطوط کے تحت موٹر سے چلنے والی گاڑی (تین یا چار پہیوں والی گاڑی) یا تین یا تین سے زیادہ پختہ کمرے والے مکان یا ڈھائی ایکڑ یا اس سے زیادہ کی قابل کاشت زمین پر مالکانہ حق رکھنے والی فیملی کو اس سے باہر رکھا گیا ہے۔ ایسے خاندان جہاں ایک رکن ۱۰ ہزار روپے سے زیادہ کماتا ہے یا کوئی ایک رکن سرکاری محکمہ میں کام کر رہا ہے، انہیں بھی اس سے باہر رکھا گیا ہے۔

مئی ۲۰۲۰ میں، مرکزی حکومت نے وَن نیشن، وَن راشن کارڈ کے طور پر ملک گیر اسکیم کی شروعات کی، جسے سال ۲۰۱۹ میں ایک پائلٹ اسکیم کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ اس سے راشن کارڈ کو ’پورٹیبل‘ کرنے کی سہولت ملی۔ ملک میں کہیں بھی راشن کارڈ بنانے پر، اسے استعمال کرنے والے کے آدھار کارڈ نمبر کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے۔ رخسانہ جیسی حالت میں پھنسے ملک کے کسی بھی شخص کو اس سے ملک کے اندر کسی بھی دکان پر پی ڈی ایس اہلیت کے استعمال کا حق ملتا ہے۔

دہلی حکومت نے اس اسکیم کو جولائی ۲۰۲۱ میں نافذ کیا گیا۔

*****

PHOTO • Sanskriti Talwar
PHOTO • Sanskriti Talwar
PHOTO • Sanskriti Talwar

رخسانہ کی بہن روبی خاتون۔ درمیان میں: ’میرا راشن‘ ایپ پر رخسانہ کی فیملی کے آدھار کی تفصیل کو ’ترجیحی درجہ حاصل‘ کے طور پر دکھاتا ریکارڈ۔ دائیں: وَن نیشن، وَن راشن کارڈ اسکیم کے لیے رخسانہ کی مہاجرت سے جڑی جانکاری اپ ڈیٹ کرنے کی کوشش کرتے وقت سامنے آیا میسیج

رخسانہ روزانہ صبح ۸ بجے سے دوپہر تک اور پھر شام ۴ بجے سے ۷ بجے تک گھر صاف کرتی ہیں، گھر کے سامانوں کو جھاڑتی پونچھتی ہیں اور برتن صاف کرتی ہیں۔ رخسانہ کی بہن رونی اورپاری کی یہ رپورٹر یکم دسمبر، ۲۰۲۱ کو پٹیل نگر واقع خوراک اور سپلائی محکمہ کے سرکل آفس میں گئے اور پوچھا کہ رخسانہ کو دہلی میں راشن کیوں نہیں مل پا رہا ہے۔

ہمیں صلاح دی گئی کہ ’میرا راشن‘ موبائل ایپلی کیشن ڈاؤن لوڈ کریں اور دیکھیں کہ کیا فیملی کے تمام ممبران کے آدھار کارڈ اس میں جڑے ہوئے ہیں یا نہیں۔ اُس دن ان کے دفتر میں ویب پورٹل کام نہیں کر رہا تھا۔

اُس دوپہر، ہم نے ایپلی کیشن میں رخسانہ کا راشن کارڈ اور آدھار کی تفصیلات ڈالیں۔ ایک سال کی بچی آسیہ کو چھوڑ کر، فیملی کے دیگر سبھی ممبران کے آدھار کارڈ ’جڑے‘ ہوئے تھے۔ لیکن او این او آر سی اندراج کے لیے، رخسانہ کی مائگریشن جانکاری کو اپ ڈیٹ کرنے کی کوشش کرنے پر، ایک پاپ اَپ دکھائی دیا: ’ڈیٹا پوسٹ کرنے میں ناکام۔ براہ کرم بعد میں کوشش کریں۔‘

ہم نے ۷ دسمبر کو ایک بار پھر کوشش کی، لیکن وہی پاپ اَپ میسیج دوبارہ دیکھنے کو ملا۔

دریں اثنا، ایک پی ڈی ایس ڈیلر نے بتایا کہ آئی ایم پی ڈی ایس سروَر کبھی کبھی دہلی میں رہنے والے مہاجرین کے لیے، اُس وقت کام کرنا شروع کرتا ہے جب اناج کی تقسیم ان کے آبائی گاؤں میں شروع ہوتا ہے۔ ڈیلر نے کہا کہ دہلی کے مستفیدین کو ۳۱ نومبر کی شام سے پہلے اپنا کوٹہ مل گیا تھا۔ بہار میں تقسیم کا اگلا دور ۵ دسمبر سے شروع ہوگا۔

رخسانہ کو راشن ملنے کی اب بھی امید تھی، اس لیے وہ ۵ دسمبر کو راشن کی دکان پر دوبارہ گئی تھیں۔ مشین نے جواب دیا: ’آئی ایم پی ڈی ایس میں راشن کارڈ نہیں ملا‘۔

ستمبر ۲۰۲۱ سے ہی، گھر والوں کا پیٹ پالنے کے لیے رخسانہ کو اُن لوگوں کی مدد پر منحصر ہونا پڑا ہے، جن کے گھروں میں وہ کام کرتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’کوئی مجھے تھوڑی کچی سبزیاں دے دیتا ہے۔ کبھی کبھی دوسرے لوگ ہمیں سرکاری دکان سے لائے گئے راشن میں سے کچھ راشن دے دیتے ہیں۔‘‘

PHOTO • Sanskriti Talwar
PHOTO • Sanskriti Talwar

بائیں: شادی پور مین مارکیٹ میں مناسب قیمت کی دکان پر کھڑی رخسانہ خاتون۔ انہیں دکان کے اتنے چکّر لگانے پڑے ہیں کہ وہ گنتی بھی بھول گئی ہیں۔ دائیں: مناسب قیمت کی دکان کے ڈیلر، بھارت بھوشن ای پی او ایس مشین میں رخسانہ کے آدھار نمبر کو ڈالنے پر ملا میسیج دکھا رہے ہیں

اپنا غصہ ظاہر کرتے ہوئے رخسانہ کہتی ہیں، ’’کب سے کوشش کر رہی ہوں۔‘‘ بہار کے دوسرے لوگ، جو اُن کے ساتھ دہلی لوٹے تھے، انہوں نے اگست اور دسمبر ۲۰۲۱ کے درمیان کم از کم تین بار اپنے راشن کا کوٹہ لیا ہے۔

دسمبر ۲۰۲۰ سے دہلی میں سرکاری اسکول کے طلباء کو مڈ ڈے میل (دوپہر کے کھانے) کے بدلے بانٹی گئی راشن کٹ، بہت کم آئی۔ ان کے سب سے بڑے دو بچے کپل اور چاندنی، پٹیل نگر کے ایک سرکاری اسکول میں پڑھتے ہیں۔ ہر بچہ کو ۱۰ کلو چاول، ۲ کلو دال، اور ایک لیٹر ریفائنڈ تیل ملا تھا۔ رخسانہ بتاتی ہیں کہ مارچ ۲۰۲۲ میں اسکول میں مڈ ڈے میل پھر سے شروع ہونے کے بعد، کٹ دینا بند کر دیا گیا تھا۔

*****

دہلی سرکار کے او این او آر سی نمبر پر کئی بار کال کرنے کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ نیٹ ورک ہمیشہ ’بیزی‘ (مصروف) رہتا تھا۔

دربھنگہ کے بینی پور میں، ۱۹۹۱ سے مناسب قیمت کی دکان چلانے والے راشن ڈیلر، پرویز عالم نے فون پر کہا کہ رخسانہ اکیلی نہیں ہیں جنہیں اس حالت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ عالم نے کہا، ’’دہلی کے کئی مہاجر مزدور مجھے یہ بتانے کے لیے فون کرتے ہیں کہ وہ دہلی میں اپنا راشن نہیں لے پا رہے ہیں۔‘‘

دربھنگہ کے ڈسٹرکٹ سپلائی آفیسر (ڈی ایس او) اجے کمار نے فون پر کہا کہ ان کے دفتر میں کام حسب معمول چل رہا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’دہلی کے ہی افسران آپ کو بتائیں گے کہ اصل میں مسئلہ کیا ہے۔ دوسری کسی ریاست سے [دہلی کو چھوڑ کر] کسی بھی قسم کے مسئلہ کی رپورٹ نہیں آ رہی ہے۔‘‘

دہلی کے محکمہ خوراک اور سپلائی کے ایڈیشنل کمشنر، کلدیپ سنگھ نے کہا کہ دسمبر میں بہار کے مہاجرین کے لیے ۴۳ ہزار سے زیادہ ٹرانزیکشن پہلے ہی ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’یہ ایک الگ کیس ہو سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بہار میں استفادہ کرنے والے کا نام ہٹا دیا گیا ہو۔‘‘

PHOTO • Sanskriti Talwar

رخسانہ اور وکیل، بہار کے دربھنگہ ضلع میں واقع اپنے گاؤں سے کام کی تلاش میں دہلی آئے تھے

مئی ۲۰۲۰ میں، مرکزی حکومت نے وَن نیشن، وَن راشن کارڈ کے طور پر ملک گیر اسکیم شروع کی تھی۔ اس سے راشن کارڈ کو ’پورٹیبل‘ کرنے کی سہولت حاصل ہوئی۔ ملک میں کہیں بھی راشن کارڈ بنانے پر، اسے استعمال کرنے والے کے آدھار کارڈ نمبر کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے

رخسانہ اور ان کی فیملی ۲۴ فروری، ۲۰۲۲ کو اپنے ہی خاندان کی ایک شادی میں شامل ہونے کے لیے دربھنگہ پہنچے تھے۔ انہوں نے ۲۶ فروری کو اپنی بیٹی کو موہن بہیرا میں واقع مناسب قیمت کی دکان پر بھیجا تھا۔

اُس مہینے رخسانہ کی فیملی کو اپنا راشن کارڈ مل گیا۔

حالانکہ، جب رخسانہ ۲۱ مارچ کو دہلی جانے سے پہلے راشن لینے گئیں، تو گاؤں کے ڈیلر نے کہا کہ ان کا راشن کارڈ ردّ کر دیا گیا ہے۔ ڈیلر نے رخسانہ سے کہا، ’’اوپر سے بند ہو گیا ہے۔‘‘

رخسانہ نے ڈیلر سے پوچھا، ’’پچھلے مہینے تو یہ کام کر رہا تھا۔ اب اچانک اسے ردّ کیسے کر دیا گیا؟‘‘

ڈیلر نے انہیں ایک بار پھر سے اپنی فیملی کے تمام ممبران کے آدھار کارڈ لے کر، بینی پور میں واقع بلاک راشن آفس جانے کی صلاح دی۔ ڈیلر نے ان سے آدھار کارڈ لے کر دہلی کے دفتر میں جانے کی بھی بات کہی۔

ڈی ایس او اجے کمار نے بتایا کہ راشن کارڈ اس طرح سے ردّ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ حالانکہ، انہوں نے مشورہ دیا کہ ایسی حالت میں رخسانہ اور ان کی فیملی نئے راشن کارڈ کے لیے درخواست دے سکتی ہے۔

دہلی واپس آ کر رخسانہ نے کہا کہ انہوں نے حالات کے آگے سپر ڈال دی ہے، کیوں کہ اس مسئلہ کا حل جلد نکلتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’راشن تو میرا بند ہی ہو گیا ہے۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Reporter : Sanskriti Talwar

Sanskriti Talwar is an independent journalist based in New Delhi, and a PARI MMF Fellow for 2023.

Other stories by Sanskriti Talwar
Editor : Kavitha Iyer

Kavitha Iyer has been a journalist for 20 years. She is the author of ‘Landscapes Of Loss: The Story Of An Indian Drought’ (HarperCollins, 2021).

Other stories by Kavitha Iyer
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique