’’لڑکی ہوئی ہے،‘‘ ڈاکٹر نے کہا۔

یہ آشا کا چوتھا بچہ ہوگا – لیکن یقیناً آخری نہیں۔ وہ گائناکولوجسٹ (خواتین کے امراض کی ماہر) کو اپنی ماں کانتا بین کو تسلی دیتے ہوئے سن سکتی تھیں: ’’ماں، آپ روئیے مت۔ اگر ضرورت پڑی تو میں آٹھ اور سیزیریئن کروں گی۔ لیکن جب تک اسے کوئی بیٹا نہیں ہو جاتا میں یہاں ہوں۔ وہ میری ذمہ داری ہے۔‘‘

اس سے پہلے، آشا کے تین بچوں میں سے سبھی لڑکیاں تھیں، تینوں کی پیدائش سیزیریئن سرجری کے ذریعہ ہوئی تھی۔ اور اب وہ ڈاکٹر کی زبانی احمد آباد شہر کے منی نگر علاقہ میں پرائیویٹ کلینک کے اندر حمل میں بچہ کی جنس کا پتا لگانے کی جانچ کا فیصلہ سن رہی تھیں۔ (ایسے ٹیسٹ غیر قانونی ہیں، لیکن بڑے پیمانے پر اب بھی دستیاب ہے۔) اتنے سالوں میں وہ چوتھی بار حاملہ ہوئی تھیں۔ وہ یہاں ۴۰ کلومیٹر دور، خانپار گاؤں سے کانتا بین کے ساتھ آئی تھیں۔ ماں اور بیٹی دونوں غمگین تھیں۔ وہ جانتی تھیں کہ آشا کے سسر اسے اسقاط حمل کی اجازت نہیں دیں گے۔ ’’یہ ہمارے عقیدہ کے خلاف ہے،‘‘ کانتا بین نے کہا۔

دوسرے لفظوں میں: یہ آشا کا آخری حمل نہیں ہوگا۔

آشا اور کانتا بین کا تعلق گلہ بانوں کی بھارواڑ برادری سے ہے، جو عام طور سے بھیڑ بکریاں چراتے ہیں۔ تاہم، احمد آباد ضلع کے ڈھولکا تعلقہ میں – جہاں خانپار واقع ہے، ان کا گاؤں جس کے ۲۷۱ گھروں میں ۱۵۰۰ سے کم لوگ رہتے ہیں (مردم شماری ۲۰۱۱) – زیادہ تر لوگ چھوٹی تعداد میں گائے اور بھینس پالتے ہیں۔ روایتی معاشرتی درجہ بندی میں، اس برادری کو گلہ بان ذاتوں میں سب سے نچلی سطح پر دیکھا جاتا ہے اور گجرات میں یہ درج فہرست قبیلہ کے طور پر درج ہے۔

*****

کانتا بین خانپار کے چھوٹے کمرہ میں، جہاں ہم ان کا انتظار کر رہے تھے، داخل ہوتے وقت اپنے سر کے اوپر سے ساڑی کے پلّو کو ہٹاتی ہیں۔ اس گاؤں اور آس پاس کے گاؤوں کی چند دیگر عورتیں اپنی تولیدی صحت کے مسئلہ کے بارے میں بات چیت کرنے کے لیے یہاں ہمارے ساتھ موجود ہیں، حالانکہ اس موضوع پر بات کرنا آسان نہیں ہے۔

'You don’t cry. I will do eight more caesareans if needed. But I am here till she delivers a boy'

’آپ روئیے مت۔ اگر ضرورت پڑی تو میں آٹھ اور سیزیریئن کروں گی۔ لیکن جب تک اسے کوئی بیٹا نہیں ہو جاتا میں یہاں ہوں‘

’’اس گاؤں میں، چھوٹے اور بڑے ۸۰ سے ۹۰ بھارواڑ کنبے ہیں،‘‘ کانتا بین کہتی ہیں۔ ’’ہریجن [دلت]، واگڑی، ٹھاکور بھی ہیں، اور کچھ گھر کمبھاروں [کمہاروں] کے ہیں۔ لیکن یہاں اکثریت بھارواڑ کی ہے۔‘‘ گجرات میں کولی ٹھاکور بڑی ذات ہے – یہ دیگر ریاستوں کے ٹھاکروں سے الگ ہیں۔

’’ہماری لڑکیوں کی شادی جلدی ہو جاتی ہے، لیکن جب تک ان کی عمر ۱۶ یا ۱۸ سال نہیں ہو جاتی اور وہ اپنے سسرال جانے کے لیے تیار نہیں ہو جاتیں، تب تک وہ اپنے والد کے گھر پر ہی رہتی ہیں،‘‘ ۵۰ سالہ کانتا بین بتاتی ہیں۔ ان کی بیٹی، آشا کی بھی شادی جلدی ہو گئی تھی، ۲۴ سال کی عمر میں ان کے تین بچے ہو گئے تھے، اور اب وہ چوتھے بچے کی ماں بننے والی ہیں۔ بچپن کی شادی عام بات ہے اور برادری کی زیادہ تر خواتین کو ٹھیک سے یہ نہیں معلوم کہ ان کی عمر کیا ہے، شادی کس سال ہوئی تھی، یا پہلے بچے کی پیدائش کے وقت ان کی عمر کیا تھی۔

’’مجھے یہ تو نہیں یاد کہ میری شادی کب ہوئی تھی، لیکن انتا ضرور یاد ہے کہ میں ہر دوسرے سال حاملہ ہو جاتی تھی،‘‘ کانتا بین کہتی ہیں۔ ان کے آدھار کارڈ پر لکھی تاریخ اتنی ہی قابل اعتبار ہے جتنی کہ ان کی یادداشت۔

’’میری نو لڑکیاں ہیں اور پھر یہ ۱۰واں – ایک لڑکا ہے،‘‘ اُس دن وہاں موجود عورتوں میں سے ایک، ہیرابین بھارواڑ کہتی ہیں۔ ’’میرا بیٹا ۸ویں کلاس میں ہے۔ میری بیٹیوں میں سے چھ کی شادی ہو چکی ہے، دو کی ہونی ابھی باقی ہے۔ ہم نے ان کی شادی جوڑیوں میں کر دی۔‘‘ خانپار اور اس تعلقہ کے دیگر گاؤوں میں اس برادری کی خواتین کا متعدد بار اور لگاتار حاملہ ہونا عام بات ہے۔ ’’ہمارے گاؤں میں ایک عورت تھی جس کا ۱۳ بار اسقاط حمل ہونے کے بعد ایک بیٹا پیدا ہوا تھا،‘‘ ہیرابین بتاتی ہیں۔ ’’یہ پاگل پن ہے۔ یہاں کے لوگ جب تک بیٹا پیدا نہیں ہو جاتا، تب تک حمل کے واقعات ہونے دیتے ہیں۔ وہ کچھ نہیں سمجھتے۔ انہیں لڑکا چاہیے۔ میری ساس کے آٹھ بچے تھے۔ میری چاچی کے ۱۶ تھے۔ آپ اسے کیا کہیں گی؟‘‘

’’سسرال والوں کو لڑکا چاہیے،‘‘ رمیلا بھارواڑ کہتی ہیں، جو ۴۰ سال کی ہیں۔ ’’اور اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو، آپ کی ساس سے لیکر نند اور آپ کے پڑوسی تک، ہر کوئی آپ کو طعنے دے گا۔ آج کے دور میں بچوں کی پرورش کرنا آسان نہیں ہے۔ میرا بڑا بیٹا ۱۰ویں کلاس میں دو بار فیل ہو گیا اور اب تیسری بار امتحان دے رہا ہے۔ ہم عورتوں کو ہی پتا ہے کہ ان بچوں کی پرورش کیسے کی جاتی ہے۔ لیکن ہم کیا کر سکتے ہیں؟‘‘

لڑکے کی زبردست خواہش خاندان کے فیصلے پر حاوی رہتی ہے، جس کی وجہ سے عورتوں کے پاس چند تولیدی متبادل ہی بچتے ہیں۔ ’’کیا کریں جب بھگوان نے ہماری قسمت میں بیٹے کے لیے انتظار کرنا لکھا ہے؟‘‘ رمیلا کہتی ہیں۔ ’’بیٹے کی پیدائش سے پہلے میری بھی تین لڑکیاں تھیں۔ پہلے ہم سبھی بیٹے کا انتظار کرتے تھے، لیکن اب چیزیں تھوڑی مختلف ہو سکتی ہیں۔‘‘

’’مختلف کیا؟ کیا میری چار لڑکیاں نہیں تھیں؟‘‘ ریکھا بین جواب دیتی ہیں، جو ۱۵۲۲ کی آبادی والے پڑوسی گاؤں، لانا کی ہیں۔ ہم عورتوں کے جس گروپ سے بات کر رہے ہیں، وہ اس تعلقہ کے خانپار، لانا اور امبلیارا گاؤوں کی مختلف بستیوں سے آئی ہیں، سبھی احمد آباد شہر سے ۵۰ کلومیٹر کے دائرہ میں واقع ہیں۔ اور اب وہ صرف اس رپورٹر سے ہی بات نہیں کر رہی ہیں، بلکہ آپس میں بھی باتیں کرنے لگی ہیں۔ ریکھا بین، رمیلا کے اس نظریہ پر سوال اٹھا رہی ہیں کہ حالت شاید بدل رہی ہے۔ ’’میں بھی صرف بیٹے کا انتظار کر رہی تھی، کیا کہ نہیں؟‘‘ وہ پوچھتی ہیں۔ ’’ہم بھارواڑ ہیں، بیٹا ہمارے لیے لازمی ہے۔ اگر ہمارے پاس صرف بیٹیاں ہوں تو، وہ ہمیں بانجھ کہتے ہیں۔‘‘

'The in-laws want a boy. And if you don’t go for it, everyone from your mother-in-law to your sister-in-law to your neighbours will taunt you'

’سسرال والوں کو لڑکا چاہیے۔ اور اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو، آپ کی ساس سے لیکر نند اور آپ کے پڑوسی تک، ہر کوئی آپ کو طعنے دے گا‘

برادری کے مطالبات کے بارے میں رمیلا بین کی سخت تنقید کے باوجود، زیادہ تر عورتیں ’بیٹے کی ترجیح‘ کا اعلان خود کرتی ہیں – جو معاشرتی دباؤ اور ثقافتی روایات سے مشروط ہے۔ انٹرنیشنل جرنل آف ہیلتھ سائنسز اینڈ ریسرچ میں شائع ۲۰۱۵ کے مطالعہ کے مطابق ، احمد آباد ضلع کے دیہی علاقوں کی ۸۴ فیصد سے زیادہ عورتوں نے کہا کہ انہیں لڑکا چاہیے۔ اس تحقیقی مقالہ میں کہا گیا ہے کہ عورتوں کے درمیان اس ترجیح کے اسباب یہ ہیں کہ مردوں میں: ’’زیادہ اجرت کمانے کی صلاحیت ہوتی ہے، خاص کر زرعی معیشت میں؛ وہ خاندان کے سلسلہ کوجاری رکھتے ہیں؛ عام طور سے وراثت میں نہیں ہی ملتی ہے۔‘‘

دوسری طرف، تحقیقی مقالہ کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کو مالی بوجھ تصور کیا جاتا ہے جس کی وجہ ہے: ’’جہیز کا نظام؛ شادی کے بعد وہ پوری طرح شوہر کی فیملی کی رکن بن جاتی ہیں؛ اور [اس کی وجہ سے] بیماری اور بڑھاپے میں اپنے والدین کی ذمہ داری سنبھالنے سے محروم ہو جاتی ہیں۔‘‘

*****

قریب کے امبلیارا گاؤں، جہاں کی آبادی ۳۵۶۷ ہے، کی ۳۰ سالہ جیلوبین بھارواڑ نے چند سال قبل، ڈھولکا تعلقہ کے کوٹھ (جسے کوٹھا بھی کہا جاتا ہے) کے پاس بقول ان کے، ایک سرکاری اسپتال سے نس بندی کروائی۔ لیکن یہ نس بندی انہوں نے چار بچوں کی پیدائش کے بعد کروائی۔ ’’جب تک دو لڑکے نہیں ہوگئے تب تک مجھے انتظار کرنا پڑا،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’میری شادی ۷ یا ۸ سال کی عمر میں ہو گئی تھی۔ اس کے بعد جب میں بالغ ہو گئی، تو انہوں نے مجھے سسرال بھیج دیا۔ میں اس وقت ۱۹ سال کی رہی ہوں گی۔ اس سے پہلے کہ میں اپنی شادی کے کپڑے بدل پاتی، میں حاملہ ہو گئی۔ اس کے بعد یہ ہر دوسرے سال ہوتا رہا۔‘‘

انہیں مانع حمل گولیاں لینے یا کاپر-ٹی لگوانے کے بارے میں زیادہ کچھ معلوم نہیں تھا۔ ’’میں تب بہت کم جانتی تھی۔ اگر مجھے زیادہ پتا ہوتا تو، شاید میرے اتنے بچے نہیں ہوتے،‘‘ وہ تیز آواز میں کہتی ہیں۔ ’’لیکن ہم بھارواڑوں میں ماتا جی ( میلاڈی ماں ، برادری کی دیوی) ہمیں جو کچھ دیتی ہیں، اسے ہمیں قبول کرنا پڑتا ہے۔ اگر میں دوسرا بچہ پیدا نہیں کرتی تو، لوگ باتیں بناتے۔ وہ سوچتے کہ میری دلچسپی کسی دوسرے مرد کو تلاش کرنے میں ہے۔ ان سب کا سامنا کیسے کیا جائے؟‘‘

جیلوبین کا پہلا بچہ لڑکا تھا، لیکن فیملی کا حکم تھا کہ وہ ایک اور پیدا کریں – اور وہ دوسرے کا انتظار کر رہی تھیں کہ بیچ میں انہیں دو لڑکیاں ہو گئیں۔ ان میں سے ایک لڑکی نہ تو بول سکتی ہے اور نہ ہی سن سکتی ہے۔ ’’ہم بھارواڑوں میں، ہمیں دو لڑکے چاہیے۔ آج، کچھ عورتیں سوچتی ہیں کہ ایک لڑکا اور ایک لڑکی کافی ہے، لیکن پھر بھی ہم ماتا جی کے آشیرواد کی امید لگائے رہتے ہیں،‘‘ وہ مزید کہتی ہیں۔

Multiple pregnancies are common in the community in Khanpar village: 'There was a woman here who had one son after 13 miscarriages. It's madness'.
PHOTO • Pratishtha Pandya

خانپار گاؤں کی اس برادری میں خواتین کا متعدد بار حاملہ ہونا عام بات ہے: ’یہاں ایک عورت تھی جس کا ۱۳ بار اسقاط حمل ہونے کے بعد ایک بیٹا پیدا ہوا تھا۔ یہ پاگل پن ہے‘

دوسرے بیٹے کی پیدائش کے بعد – ایک دوسری عورت کی صلاح پر، جو ممکنہ متبادل کے بارے میں زیادہ باخبر تھی – جیلوبین نے آخرکار کوٹھ میں نس بندی کروائی، تب ان کی نند ان کے ساتھ تھیں۔ ’’میرے شوہر نے بھی مجھ سے کہا کہ میں یہ کروالوں،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’وہ بھی جانتے تھے کہ وہ کتنا کماکر گھر لا سکتے ہیں۔ ہمارے پاس کوئی بہتر روزگار کے مواقع بھی نہیں ہیں۔ ہمارے پاس دیکھ بھال کے لیے صرف یہی جانور ہیں۔‘‘

ڈھولکا تعلقہ کی برادری سوراشٹر یا کچھّ کے بھارواڑ گلہ بانوں سے بالکل مختلف ہے۔ اُن گروہوں کے پاس بھیڑ بکریوں کے بڑے ریوڑ ہو سکتے ہیں، لیکن ڈھولکا کے زیادہ تر بھارواڑ چند گائے اور بھینس پالتے ہیں۔ ’’یہاں کی ہر فیملی کے پاس صرف ۲-۴ جانور ہیں،‘‘ امبلیارا کی جیابین بھارواڑ کہتی ہیں۔ ’’اس سے ہماری گھریلو ضرورتیں مشکل سے پوری ہوتی ہیں۔ ان سے کوئی آمدنی نہیں ہوتی۔ ہم ان کے چارے کا انتظام کرتے ہیں۔ بعض دفعہ دھان کے موسم میں لوگ ہمیں کچھ دھان دے دیتے ہیں – ورنہ، ہمیں یہ بھی خریدنا پڑتا ہے۔‘‘

’’ان علاقوں کے مرد ٹرانسپورٹ، تعمیرات، اور زراعت جیسے مختلف شعبوں میں غیر ہنرمند مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں،‘‘ بھاونا رباری کہتی ہیں، جو احمد آباد میں واقع گجرات کے بھارواڑوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم، مال دھاری سنگٹھن کی صدر ہیں۔ ’’کام کی دستیابی کی بنیاد پر وہ ایک دن میں ۲۵۰ سے ۳۰۰ روپے کماتے ہیں۔‘‘

For Bhawrad women of Dholka, a tubectomy means opposing patriarchal social norms and overcoming their own fears

ڈھولکا کی بھارواڑ عورتوں کے لیے، نس بندی کرانے کا مطلب ہے پدررانہ معاشرتی پیمانوں کی مخالفت کرنا اور اپنے خود کے خوف پر قابو پانا

جیابین تصدیق کرتی ہیں کہ مرد ’’باہر جاتے ہیں اور مزدوری کرتے ہیں۔ میرا آدمی سیمنٹ کی بوریاں ڈھوتا ہے  اور ۲۰۰-۲۵۰ روپے کماتا ہے۔‘‘ اور وہ خوش قسمت ہیں کہ پاس میں سیمنٹ فیکٹری ہے جہاں انہیں زیادہ تر دنوں میں کام مل جاتا ہے۔ ان کی فیملی کے پاس، یہاں کے زیادہ تر لوگوں کی طرح، بی پی ایل (خط افلاس سے نیچے) راشن کارڈ بھی نہیں ہے۔

جیابین دو لڑکوں اور ایک لڑکی کی پیدائش کے بعد بھی اپنے حمل کی منصوبہ بندی کے لیے، مانع حمل گولیوں کا استعمال کرنے یا کاپر- ٹی لگوانے کے بارے میں خوفزدہ ہیں۔ وہ ہمیشہ کے لیے آپریشن بھی نہیں کروانا چاہتیں۔ ’’میرے سبھی بچے گھر پر ہی پیدا ہوئے۔ وہ جو اوزار استعمال کرتے ہیں اس سے مجھے بہت زیادہ ڈر لگتا ہے۔ میں نے ایک ٹھاکور کی بیوی کو آپریشن کے بعد تکلیف میں دیکھا ہے۔

’’اس لیے میں نے اپنی میلاڈی ماں سے پوچھنے کا فیصلہ کیا۔ میں ان کی اجازت کے بغیر آپریشن کے لیے نہیں جا سکتی۔ ماتاجی بڑھتے ہوئے پودے کو کاٹنے کی اجازت مجھے کیوں دیں گی؟ لیکن آج کل چیزیں بہت مہنگی ہیں۔ اتنے سارے لوگوں کا پیٹ کیسے بھرا جائے؟ لہٰذا، میں نے ماتا جی سے کہا کہ میرے کافی بچے ہو چکے ہیں لیکن آپریشن سے ڈرتی تھی۔ میں نے ان سے چڑھاوا کا وعدہ کیا۔ ماتا جی نے ۱۰ سال تک میرا خیال رکھا ہے۔ مجھے ایک بھی دوائی نہیں لینی پڑی۔‘‘

*****

یہ خیال کہ اُن کے شوہر نس بندی کرا سکتے ہیں، نہ صرف جیابین کے لیے حیرانی کا سبب تھا بلکہ وہاں جمع گروپ کی دیگر عورتیں کے لیے بھی حیرانی کی بات تھی۔

ان کا ردِ عمل قومی سطح پر مردوں کی نس بندی سے انکار کو ظاہر کرتا ہے۔ قومی صحت مشن کی ایک رپورٹ کے مطابق، ۲۰۱۷-۱۸ میں پورے ملک میں کل ۱۴۷۳۴۱۸ لوگوں کی نس بندی ہوئی تھی، جس میں سے صرف ۶ اعشاریہ ۸ فیصد نس بندی مردوں کی تھی، جب کہ عورتوں کی نس بندی ۹۳ اعشاریہ ۱ فیصد ہوئی تھی۔

آج کے مقابلے ۵۰ سال پہلے مردوں کی نس بندی کا تناسب بہت زیادہ تھا، جس میں ۱۹۷۰ کی دہائی میں کافی گراوٹ آئی، خاص کر ۱۹۷۵-۷۷ کی ایمرجنسی کے دوران زبردستی نس بندی کرانے کے بعد سے۔ یہ تناسب ۱۹۷۰ میں ۷۴ اعشاریہ ۲ فیصد سے گھٹ کر ۱۹۹۲ میں صرف ۴ اعشاریہ ۲ فیصد رہ گیا، عالمی صحت تنظیم کے بلیٹن میں شائع ایک تحقیقی مقالہ بتاتا ہے۔

خاندانی منصوبہ بندی کو اب بھی بڑے پیمانے پر عورتوں کی ذمہ داری سمجھا جاتا ہے۔

جیلوبین، اس گروپ کی واحد خاتون جنہوں نے نس بندی کرائی ہے، یاد کرتی ہیں کہ اس آپریشن سے پہلے، ’’اپنے شوہر سے کوئی چیز استعمال کرنے کے لیے کہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ میں تو یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ وہ آپریشن کرا سکتے ہیں۔ بہرحال، ہم نے ایسی چیزوں کے بارے میں کبھی بات نہیں کی۔‘‘ تاہم، وہ بتاتی ہیں، کبھی کبھی ان کے شوہر اپنی مرضی سے ڈھولکا سے ان کے لیے ایمرجنسی مانع حمل گولیاں ’’۵۰۰ روپے میں تین‘‘ لیکر آتے تھے۔ یہ ان کی نس بندی کے ٹھیک پہلے کے سالوں کی بات ہے۔

ریاست کے لیے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کی فیکٹ شیٹ (۲۰۱۵-۱۶) بتاتی ہے کہ دیہی گجرات میں خاندانی منصوبہ بندی کے تمام طریقوں میں مردوں کی نس بندی محض صفر اعشاریہ  ۲ فیصد تھی۔ باقی تمام طریقوں کا بوجھ عورتوں کو اٹھانا پڑتا ہے، جس میں عورتوں کی نس بندی، کاپر ٹی وغیرہ لگوانا اور مانع حمل گولیاں کھانا شامل ہیں۔

حالانکہ ڈھولکا کی بھارواڑ خواتین کے لیے نس بندی کرانے کا مطلب ہے پدرانہ فیملی اور برادری کے طور طریقوں کے خلاف جانا، اور خود اپنے خوف سے چھٹکارہ حاصل کرنا۔

The Community Health Centre, Dholka: poor infrastructure and a shortage of skilled staff add to the problem
PHOTO • Pratishtha Pandya

کمیونٹی ہیلتھ سینٹر، ڈھولکا: خراب بنیادی ڈھانچہ اور ہنرمند عملہ کی کمی مسئلہ میں اضافہ کرتی ہے

’’آشا [منظور شدہ سماجی صحت کارکن] کارکنان ہمیں سرکاری اسپتال لے جاتی ہیں،‘‘ کانتا بین کی ۲۰ سالہ بہو، کنک بین بھارواڑ کہتی ہیں۔ ’’لیکن ہم سبھی کو ڈر لگتا ہے۔‘‘ انہوں نے سنا تھا کہ ’’آپریشن کے دوران ایک خاتون کی موقع پر ہی موت ہو گئی تھی۔ ڈاکٹر نے غلطی سے کوئی اور ٹیوب (نلی) کاٹ دی اور وہ اسی جگہ میز پر ہی مر گئی۔ اس واقعہ کو ابھی ایک سال بھی نہیں ہوئے ہیں۔‘‘

لیکن ڈھولکا میں حاملہ ہونا بھی خطرناک ہے۔ سرکار کے ذریعہ چلائے جا رہے ساموہک آروگیہ کیندر (کمیونٹی ہیلتھ سینٹر، سی ایچ سی) کے ایک صلاح کار ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ ناخواندگی اور غریبی کی وجہ سے عورتیں مسلسل حاملہ ہوتی رہتی ہیں اور دو بچوں کے درمیان مناسب فرق بھی نہیں ہوتا۔ اور ’’کوئی بھی عورت جانچ کرانے کے لیے باقاعدگی سے نہیں آتی،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ سینٹر کا دورہ کرنے والی زیادہ تر عورتیں کم غذائیت اور خون کی کمی (انیمیا) کی شکار ہوتی ہیں۔ ان کا اندازہ ہے کہ ’’یہاں آنے والی تقریباً ۹۰ فیصد عورتوں میں ہیموگلوبن ۸ فیصد سے کم ہوتا ہے۔‘‘

کمیونٹی ہیلتھ سینٹر میں خراب بنیادی ڈھانچہ اور ہنرمند عملہ کی کمی اسے مزید خستہ بناتا ہے۔ کوئی سونوگرافی مشین نہیں ہے، اور لمبے وقت تک فون کرنے پر نہ تو کوئی کل وقتی گائناکولوجسٹ دستیاب ہے اور نہ ہی متعلقہ انیستھیٹسٹ۔ ایک ہی انیستھیٹسٹ ہے جو ڈھولکا کے سبھی چھ پی ایچ سی (پرائمری ہیلتھ سینٹر)، ایک سی ایچ سی، اور متعدد پرائیویٹ اسپتالوں میں کام کرتا ہے اور مریضوں کو اس کی فیس الگ سے دینی پڑتی ہے۔

اُدھر خانپار گاؤں کے اُس کمرے میں، عورتوں کے ذریعہ اپنے ہی جسم پر کنٹرول کی کمی کے موضوع پر ایک تیز آواز اس بات چیت کے دوران گونجتی ہے۔ ایک سال کے بچہ کو ہاتھوں میں لیے، ایک نوجوان ماں تلخی سے پوچھتی ہے: ’’تمہارا کیا مطلب ہے کہ کون فیصلہ کرے گا؟ میں فیصلہ کروں گی۔ یہ میرا جسم ہے؛ کوئی دوسرا کیوں فیصلہ کرے گا؟ میں جانتی ہوں کہ مجھے دوسرا بچہ نہیں چاہیے۔ اور میں گولیاں نہیں لینا چاہتی۔ تو اگر میں حاملہ ہو گئی تب کیا ہوگا، سرکار کے پاس ہمارے لیے دوائیں ہیں، ہیں کہ نہیں؟ میں دوا [انجیکشن کے ذریعہ مانع حمل] لے لوں گی۔ صرف میں ہی فیصلہ کروں گی۔‘‘

حالانکہ یہ آواز کمیاب ہے۔ پھر بھی، جیسا کہ رمیلا بھارواڑ نے بات چیت کے شروع میں کہا تھا: ’’اب چیزیں شاید تھوڑا مختلف ہو سکتی ہیں۔‘‘ شاید ایسا ہو، تھوڑا بہت۔

اس اسٹوری میں تمام خواتین کے نام بدل دیے گئے ہیں تاکہ ان کی رازداری برقرار رہے۔

تعاون فراہم کرنے کے لیے سمویدنا ٹرسٹ کی جانکی وسنت کا خاص طور سے شکریہ۔

پاری اور کاؤنٹر میڈیا ٹرسٹ کی جانب سے دیہی ہندوستان کی بلوغت حاصل کر چکی لڑکیوں اور نوجوان عورتوں پر ملگ گیر رپورٹنگ کا پروجیکٹ پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کے مالی تعاون سے ایک پہل کا حصہ ہے، تاکہ عام لوگوں کی آوازوں اور ان کی زندگی کے تجربات کے توسط سے ان اہم لیکن حاشیہ پر پڑے گروہوں کی حالت کا پتا لگایا جا سکے۔

اس مضمون کو شائع کرنا چاہتے ہیں؟ براہِ کرم [email protected] کو لکھیں اور اس کی ایک کاپی [email protected] کو بھیج دیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Pratishtha Pandya

Pratishtha Pandya is a Senior Editor at PARI where she leads PARI's creative writing section. She is also a member of the PARIBhasha team and translates and edits stories in Gujarati. Pratishtha is a published poet working in Gujarati and English.

Other stories by Pratishtha Pandya
Illustrations : Antara Raman

Antara Raman is an illustrator and website designer with an interest in social processes and mythological imagery. A graduate of the Srishti Institute of Art, Design and Technology, Bengaluru, she believes that the world of storytelling and illustration are symbiotic.

Other stories by Antara Raman

P. Sainath is Founder Editor, People's Archive of Rural India. He has been a rural reporter for decades and is the author of 'Everybody Loves a Good Drought' and 'The Last Heroes: Foot Soldiers of Indian Freedom'.

Other stories by P. Sainath
Series Editor : Sharmila Joshi

Sharmila Joshi is former Executive Editor, People's Archive of Rural India, and a writer and occasional teacher.

Other stories by Sharmila Joshi
Translator : Mohd. Qamar Tabrez

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez