پُشپ وینی پلّئی کہتی ہیں، ’’بال رنگنے سے آپ کے بال اور بھی سفید ہو جائیں گے۔‘‘ سفید نیلے چیک سے مزین فرش کی ایک ٹائل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے وہ اپنی بات پر زور دیتی ہیں، ’ایسے‘۔ ان کی عمر اب تقریباً ۷۰ سال ہو چکی ہے، لیکن بال ابھی زیادہ سفید نہیں ہوئے ہیں۔ وہ مزید کہتی ہیں، ’’ناریل کا تیل اور لائف بوائے صابن آنلی (صرف)۔‘‘ وہ انگریزی میں ’آنلی‘ پر زور دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ یہی میرے خوبصورت بالوں کا راز ہے۔

دوپہر کے وقت وہ ٹائل والی اُس فرش پر بیٹھے بیٹھے، پرانے دور اور موجودہ وقت کے بارے میں باتیں کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میری ماں کو ان کی ساس، ناریل کا ایک ٹکڑا دیتی تھیں اور ماں اسے غسل کرتے وقت چبا کر اپنے سر پر مل لیتی تھیں۔ ان کے لیے وہی ناریل تیل تھا۔‘‘

ان کے بغل میں بیٹھی واسنتی پلئی ان کی اس بات سے پوری طرح متفق ہیں۔ دونوں (دور کی رشتہ دار) نے دھاراوی کی ایک ہی گلی میں، ایک کمرے کے اپنے اپنے گھر میں تقریباً ۵۰ سال گزارے ہیں۔ دونوں اپنی زندگی کے تجربات کے بارے میں بتا رہی ہیں۔ دونوں کئی دہائیوں سے ایک دوسرے کی ساتھی رہی ہیں۔ ساتھ ہی، دونوں کے پاس اس بدلتی ہوئی دنیا کی بے شمار یادیں ہیں۔

پُشپ وینی کی شادی ۱۵-۱۴ سال کی عمر میں ہو گئی تھی اور تبھی انہوں نے دھاراوی میں قدم رکھا تھا۔ شادی اسی گلی کے ایک میدان میں سجے پنڈال میں ہوئی تھی؛ لڑکا دھاراوی میں رہتا تھا۔ انہوں نے بتایا، ’’وہ ۴۰ سال کا تھا۔‘‘ اتنا بڑا؟ اس سوال پر وہ یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’ہاں، وہ چھوٹے قد کا تھا [اس لیے، ہمیں پتہ نہیں چلا]، اور اُن دنوں کوئی بھی ان چیزوں کے بارے میں پتہ نہیں کرتا تھا۔ شادی کی تقریب کے بعد، سانبھر چاول کی دعوت دی گئی تھی۔ صرف سبزیوں پر مشتمل کھانا تھا۔‘‘

وہ اُس کمرے میں چلی گئیں، جسے ان کے شوہر چینا سامی نے کافی پہلے ۵۰۰ روپے میں خریدا تھا۔ اس وقت یہ بہت بڑی رقم ہوا کرتی تھی۔ وہ ایک مقامی ورکشاپ میں نوکری کرتے تھے، جہاں سرجیکل دھاگے اور تاریں بنائی جاتی تھیں۔ شروع میں ان کی تنخواہ ۶۰ روپے تھی اور ۱۹۹۰ کے عشرے کے وسط میں جب وہ ریٹائر ہوئے، تو اس وقت ان کی تنخواہ ۲۵ ہزار روپے تھی۔

Pushpaveni (left) came to Dharavi as a bride at the age of 14-15, Vasanti arrived here when she got married at 20
PHOTO • Sharmila Joshi

پُشپ وینی (بائیں) ۱۵-۱۴ سال کی عمر میں دلہن بن کر دھاراوی پہنچی تھیں۔ وہیں، واسنتی ۲۰ سال کی عمر میں شادی ہونے کے بعد یہاں آئیں

تقریباً ۲۰۰ مربع فٹ کا وہ کمرہ (فیملی بڑی ہونے کے سبب اس کمرے میں ایک میزانائن لافٹ لگا دیا گیا تھا – ’’ایک وقت تھا، جب کمرے میں ۹ لوگ رہتے تھے‘‘) اگلے ۵۰ برسوں کے لیے ان کا گھر بن گیا۔ ان کا گھر ’ٹی جنکشن‘ سے دھاراوی کی جانب مڑنے والی سڑک پر واقع تھا۔ اس ’ٹی جنکشن‘ کے پاس ہمیشہ ٹیمپو اور آٹو رکشہ کھڑے رہتے ہیں۔ ’’میں نے یہاں رہنے کے دوران ہی، اپنے تینوں بچوں کو جنم دیا۔ یہاں رہتے ہوئے ہی ان سبھی کی شادی ہوئی۔ ساتھ ہی، اسی گھر میں رہتے ہوئے میں نے ان کے بچے اور پوتے پوتیوں کو دیکھا۔‘‘

۶۳ سال کی واسنتی، ۲۰ سال کی عمر میں شادی ہونے کے بعد اس گلی میں رہنے آئی تھیں۔ ان کی ساس اور پُشپ وینی کے شوہر بھائی بہن تھے، اس لیے جب وہ یہاں آئیں، تو واسنتی کی دھاراوی میں پہلے سے ایک فیملی تھی۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں تبھی سے اس گلی میں رہ رہی ہوں۔ کہیں اور رہنے نہیں گئی۔‘‘

۱۹۷۰ کے عشرے میں جب دونوں خواتین دھاراوی آئیں، اس وقت یہ علاقہ بالکل الگ ہوا کرتا تھا۔ پشپ وینی کہتی ہیں، ’’کمرے چھوٹے تھے۔ لیکن وہ پھیلے ہوئے تھے اور درمیان میں بہت ساری کھلی جگہ ہوا کرتی تھی۔‘‘ ان کا گھر پہلی منزل پر تھا۔ صرف ایک کمرے میں ہی ان کی ساری دنیا ہوتی تھی، اور ان کی گلی سے کچھ دوری پر واقع اجتماعی بیت الخلاء استعمال کرنا ہوتا تھا۔ وہ بتاتی ہیں، ’’اب بلڈنگ میں اتنی بھیڑ ہو گئی ہے کہ آپ چل بھی نہیں سکتے۔‘‘ یہ کہہ کر تنگ جگہ کی تصویر کشی کرنے کے لیے، وہ اپنے ہاتھوں کو متوازی رکھ کر دکھاتی ہیں۔ (وقت کے ساتھ، شمال وسط ممبئی میں واقع دھاراوی کی آبادی تقریباً دس لاکھ ہو چکی ہے۔ اس ایک مربع میل سے زیادہ کی جگہ میں جگھیاں، عمارتیں، دکانیں، اور ورکشاپ پھیلی ہوئی ہیں۔)

واسنتی کہتی ہیں، ’’یہ جگہ ایک آبی گزرگاہ [کریک] تھی، مکمل جنگل۔ ماہم آبی گزرگاہ کا پانی پولیس اسٹیشن [ٹی جنکشن پر] تک آ جاتا تھا۔ تب انہوں نے [’زمین‘ بنا کر] بہت ساری مٹی ڈال کر وہاں گھر بنا لیا۔‘‘ وہ یاد کرتی ہیں کہ پاس کا یہ باندرہ-کُرلا کامپلیکس، پہلے مینگروو (آبی پودوں) سے ڈھکا ایک سنسان دلدلی علاقہ ہوا کرتا تھا۔ ’’ہم آس پاس جانے سے بھی ڈرتے تھے۔ ہم عورتیں ایک ساتھ پاس کے پائپ لائن پر کپڑے دھونے جاتی تھیں۔ وہ جگہ اب کلا نگر بس اسٹاپ ہے۔ اب یہ سب جگہیں رہائش سے بھر چکی ہیں۔‘‘

اس دور میں انہوں نے جو بھی خریدا، پیسوں میں ہی خریدا۔ پشپ وینی پونہ میں گزارے گئے اپنے بچپن کو یاد کرتی ہیں، جہاں ان کے والد کَھڑکی اسلحہ فیکٹری میں پیکنگ کرنے والے کے طور پر کام کرتے تھے۔ (ان کی ماں ایک خاتون خانہ تھیں، جو اب تقریباً ۸۹ سال کی ہیں اور پونہ میں ہی رہتی ہیں۔) وہ کہتی ہیں، ’’ایک پیسہ دے کر ہم ایک مٹھی مٹر خرید لاتے تھے۔‘‘ حالانکہ، اس وقت کی قیمتیں انہیں ٹھیک سے یاد نہیں ہیں، لیکن اس دور کی جھلک ان سے مل جاتی ہے۔ وہ بتاتی ہیں، ’’سونا ۵۰ روپے فی تولہ تھا اور اس وقت بھی ہم اسے خرید نہیں سکتے تھے؛ اصلی سوتی کی ایک اچھی ساڑی ۱۰ روپے میں آتی تھی۔ میرے والد کی ابتدائی تنخواہ ۱۱ روپے تھی، لیکن پھر بھی وہ گھوڑا گاڑی میں راشن بھر کر لاتے تھے۔‘‘

'I’d not left this galli [lane] and gone to live anywhere else' until October this year, says Vasanti
PHOTO • Sharmila Joshi

واسنتی کہتی ہیں، اس وقت سے لے کر اس سال کے اکتوبر ماہ تک، میں اسی گلی میں رہی؛ کہیں اور رہنے نہیں گئی

واسنتی یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’ہم نے اپنی پوری کائنات، یومیہ ایک روپیہ کے خرچ تک سمیٹ کر رکھی تھی۔ ۲۰ پیسے میں سبزیاں، ۱۰ پیسے میں گیہوں، ۵ پیسے میں چاول۔ اور پھر بھی ہماری ساس کہتی تھیں کہ ان یومیہ اخراجات میں سے کم از کم ۱۰ پیسے بچاؤ۔‘‘

جب وہ دھاراوی گئیں، تب تک اس بیش قیمتی لائف بوائے صابن کی قیمت محض ۳۰ پیسے تھی۔ واسنتی کہتی ہیں، ’’صابن اتنا بڑا ہوتا تھا کہ آپ اسے اپنے ہاتھوں میں نہیں پکڑ سکتے تھے۔ کبھی کبھی، ہم اسے صرف ۱۵ پیسے میں خرید لیتے تھے۔

۱۹۸۰ کی دہائی کے وسط میں، جب وہ پورے شہر میں تعمیراتی مقامات پر مزدوری کرتی تھیں، تو ان کی مزدوری ۱۵ روپے یومیہ تھی۔ وہ کہتی ہیں، ’’مجھے جہاں بھی کام ملتا، میں وہاں چلی جاتی تھی۔‘‘ ۱۷ سال کی عمر میں وہ خالہ کے ساتھ رہنے کے لیے، سلیم سے ممبئی آئی تھیں۔ ابتدائی کچھ سالوں تک انہوں نے سیوری اور چکلہ میں صابن کی فیکٹریوں میں کام کیا۔ وہ مزید کہتی ہیں، ’’میں صابن پیک کرتی تھی۔ اس وقت ’پوترتا‘ نام کا ایک صابن آتا تھا۔‘‘ بعد میں انہیں مسجد بندر میں، مچھلی پیکنگ کی یونٹ میں نوکری مل گئی اور اس کے بعد انہوں نے کئی سالوں تک تقریباً آدھا درجن گھروں میں گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کیا۔

تمل ناڈو میں ان کے والد ایک پولیس کانسٹیبل تھے۔ جب واسنتی تین سال کی تھیں، ان کی ماں چل بسیں۔ انہوں نے ۱۰ویں کلاس تک تعلیم حاصل کی تھی، اور پرانی یادوں کو لے کر ان کی یادداشت کافی تیز ہے۔ اس کا کریڈٹ وہ اس وقت کے ’’اصلی مال‘‘ کو دیتی ہیں۔ ’’ہم اپنے گھر کے قریب کے کھیتوں سے توڑ کر مٹر، املی، آنولہ، اور گنّا کھاتے تھے۔ ہم ایک رسی پھینک کر املی توڑتے تھے اور نمک مرچ کے ساتھ کھاتے تھے۔‘‘ وہ بتاتی ہیں کہ ان کی تیز یاد داشت کا یہی راز ہے؛ جیسے پشپ وینی بالوں کو سیاہ بنائے رکھنے کے لیے ناریل صابن لگانے کی بات کرتی ہیں۔

چکلہ کی صابن فیکٹری میں واسنتی اس نوجوان سے ملیں جن کے ساتھ بعد میں ان کی شادی ہوئی۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہمیں پیار ہو گیا تھا، اور بعد میں ہم نے سب کی رضامندی سے شادی کی۔‘‘ یہ کہتے ہوئے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ان کا چہرہ کھل گیا تھا۔ ’’جوانی میں کسے پیار نہیں ہوتا؟ پھر میری چچی نے تمام ضروری تیاریاں کیں اور تین سال بعد ۱۹۷۹ میں، سب کی رضامندی سے ہماری شادی ہو گئی۔‘‘

The lane leading to Pushpaveni's room, wider than many in Dharavi.
PHOTO • Sharmila Joshi
At the end of this lane is the T-Junction
PHOTO • Sharmila Joshi

بائیں: پُشپ وینی کے کمرے کی طرف جانے والی گلی، دھاراوی کی دوسری گلیوں سے کہیں زیادہ چوڑی ہے۔ دائیں: اس گلی کے آخر میں ٹی جنکشن ہے

وہ اپنے شوہر کا نام نہیں لیتی ہیں اور پُشپ وینی سے اسے بولنے کے لیے کہتی ہیں۔ اور پھر نام کا ایک ایک حرف بول کر خود سے بتانے کا طریقہ بھی وہ ڈھونڈ نکالتی ہیں: آسائی تھامبی ۔ انہیں اب بھی ان سے بے انتہا محبت ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’وہ بہت اچھے انسان تھے۔ اتنا اچھا آدمی۔ پرسکون اور خوش مزاج۔‘‘ وہ آگے بتاتی ہیں، ’’ہم نے ایک ساتھ خوشحال زندگی گزاری۔ میرے سسرال میں [چنئی میں] بھی میرے پاس کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔ نہ صرف میرے شوہر ایک اچھے انسان تھے، بلکہ میری ساس بھی اچھی تھیں۔ میرے پاس وہ سب کچھ تھا جو میں چاہتی تھی۔‘‘

سال ۲۰۰۹ میں آسائی تھامبی کا انتقال ہو گیا تھا۔ واسنتی یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’وہ شراب پیتے تھے اور انہیں سانس لینے میں دقت ہوتی تھی۔ لیکن ہماری زندگی بہت سکون سے گزری…میں نے ان کے ساتھ تقریباً ۳۵ سال گزارے، اور آج بھی جب میں ان کو یاد کرتی ہوں، تو آنکھوں میں آنسو بھر آتے ہیں۔‘‘ انہوں نے اپنے آنسو روکنے کی کوشش کی، لیکن ان کی آنکھیں نم ہو گئی تھیں۔

انہیں صرف ایک بچہ ہوا تھا، جس کی پیدائش کے کچھ وقت بعد ہی موت ہو گئی تھی۔ وہ بتاتی ہیں، ’’اس کی موت اسپتال میں ہو گئی تھی۔ میں اس بارے میں زیادہ باتیں نہیں کرتی۔ پشپ وینی کے بچے بھی میرے بچے ہیں اور اب جب میں ان سے دور نالاسوپارہ میں رہنے کی سوچتی ہوں، تو میرا دل بیٹھنے لگتا ہے۔‘‘

اس سال مئی میں، پہلے پشپ وینی نے دھاراوی والا اپنا کمرہ بیچا اور پھر اکتوبر میں واسنتی نے اپنا کمرہ فروخت کر دیا۔ ممبئی میں زمین اور رہنے کی جگہوں کی قیمتیں بہت زیادہ ہونے کے سبب، دونوں کو اپنے اپنے کمروں کے بدلے لاکھوں روپے مل گئے۔ لیکن شہر کی اونچی قیمتوں کے سبب، ماہم کریک میں رہنے کے لیے یہ روپیہ صرف سمندر کی ایک بوند جتنا ہی ہے۔

دھاراوی، مینوفیکچرنگ ہب کے طور پر جانا جاتا ہے اور یہاں کپڑوں کی تمام ورکشاپ چلتی ہیں۔ دونوں عورتیں کپڑوں کی کئی ورکشاپ کے لیے ڈیڑھ روپیے فی پیس کی شرح پر کالی جینس کے کناروں اور پیروں سے دھاگے کاتنے کا کام کرتی ہیں۔ اگر وہ ایک ساتھ ۳-۲ گھنٹے بیٹھ کر کام کرتی ہیں، تو دن میں تقریباً ۶۰-۵۰ روپے کما لیتی ہیں۔ اس کے علاوہ، وہ شیروانی کرتے پر ہک لگانے کا کام کرتی ہیں؛ اور فی پیس کے حساب سے دوسرے کام بھی کرتی ہیں۔ دوپہر میں وہ اس نیلے سفید فرش پر کپڑے پھیلا کر کام کرتی رہتی ہیں۔

Both women take on piece-rate work from some of the many garments’ workshops in the huge manufacturing hub that is Dharavi – earning Rs. 1.50 per piece cutting threads from the loops and legs of black jeans
PHOTO • Sharmila Joshi

دھاراوی، مینوفیکچرنگ ہب کے طور پر جانا جاتا ہے اور یہاں کپڑوں کی تمام ورکشاپ چلتی ہیں۔ دونوں عورتیں کپڑوں کی کئی ورکشاپ کے لیے ڈیڑھ روپیے فی پیس کی شرح پر کالی جینس کے کناروں اور پیروں سے دھاگے کاتنے کا کام کرتی ہیں

پشپ وینی نے اپنے کمرے کی فروخت سے ملے روپیوں سے، دھاراوی میں پگڑی (مشترکہ ملکیت والی، کرایے پر رہنے کا انتظام) پر دو کمرے لیے ہیں۔ دونوں کمرے ان کے بیٹوں کے لیے ہیں۔ وہ اپنے بڑے بیٹے کے ساتھ رہتی ہیں، جو ۴۷ سال کے ہیں اور آٹو رکشہ چلاتے ہیں۔ ساتھ میں، بہو اور ان کے تین بچے رہتے ہیں۔ (۱۹۹۹ میں، پشپ وینی کے شوہر کا انتقال ہو گیا تھا)۔ ان کے گراؤنڈ فلور والے اس کمرے کے ساتھ ایک چھوٹا باورچی خانہ اور ایک چھوٹا بیت الخلاء بھی ہے۔ یہ گھر فیملی کی تھوڑی بہتر ہو چکی حالت کو ظاہر کرتا ہے۔

ان کا دوسرا بیٹا (عمر ۴۲ سال)، دھاراوی کے دوسرے حصے میں رہتا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ وہ ’’اسپورٹس‘‘ میں کام کرتا تھا؛ دراصل یہاں وہ کہنا چاہتی تھیں کہ وہ ایکسپورٹ کا کام کرتا تھا – مقامی صنعتوں کے لیے۔ لاک ڈاؤن میں ان کی نوکری چلی گئی اور بعد میں انہیں برین ہیمریج ہو گیا تھا، جس سے وہ ابھی پوری طرح باہر نہیں نکلے ہیں۔ اب وہ کام کی تلاش میں ہیں۔ پشپ وینی کی بیٹی ۵۱ سال کی ہیں اور ان کے چار پوتے پوتیاں ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’تو اب میں پردادی بن گئی ہوں۔‘‘

وہ مزید کہتی ہیں، ’’میرے دونوں بیٹے میری اچھی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ اور میری بہوئیں بھی میرا اچھا خیال رکھتی ہیں۔ مجھے کوئی فکر نہیں ہے، کوئی شکایت نہیں ہے۔ میری اچھی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ اب میری زندگی سکون سے گزر رہی ہے۔‘‘

واسنتی نے دھاراوی کے کمرے کو فروخت کرنے کے بعد ملے پیسوں سے، وہاں سے تقریباً ۶۰ کلومیٹر دور واقع نالاسوپارہ میں ایک دوسرا کمرہ خریدا ہے۔ ابھی وہ کمرہ بن رہا ہے، اس لیے وہ فی الحال وہاں کرایے کے کمرے میں رہتی ہیں یا کبھی کبھی پشپ وینی اور ان کی فیملی کے ساتھ رہنے دھاراوی چلی آتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میرا کمرہ تیار ہو رہا ہے اور میں وہاں آس پاس رہنا چاہتی ہوں، تاکہ انہیں بتا سکوں کہ مجھے کس طرح کی سجاوٹ چاہیے۔ جیسے، مجھے اپنی چیزوں کو رکھنے کے لیے، کڈپّا [سیاہ چونے کے پتھر سے بنا] شیلف چاہیے۔ اگر میں وہاں آس پاس نہ رہوں، تو وہ آڑا ترچھا کام کریں گے۔‘‘

گراؤنڈ فلور کا کمرہ تیار ہوتے ہی، واسنتی اس میں بسکٹ، چپس، صابن اور دیگر اشیاء کی ایک چھوٹی سی دکان شروع کرنا چاہتی ہیں۔ اس سے ان کی کمائی ہوگی۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں اب گھر گھر جا کر کام نہیں کر سکتی۔ میں بوڑھی ہو رہی ہوں۔ غریب ہونے کے بعد بھی، میں ایک پرسکون زندگی بسر کر رہی ہوں۔ میرے پاس کھانے کے لیے غذا ہے، پہننے کے لیے کپڑے ہیں، رہنے کے لیے ایک کمرہ ہے۔ میرے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ہے، مجھے کوئی فکر نہیں ہے؛ اور اس سے زیادہ کی مجھے خواہش نہیں ہے۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Sharmila Joshi

Sharmila Joshi is former Executive Editor, People's Archive of Rural India, and a writer and occasional teacher.

Other stories by Sharmila Joshi
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique