کلاس خاموشی کے ساتھ اور ہمہ تن گوش ہوکر حیاتیات کی ٹیچر کو سن رہی ہے۔ وہ اس بات کی وضاحت کر رہی ہیں کہ کروموسوم کس طرح انسانی جنس کا تعین کرتے ہیں۔ ’’خواتین میں دو ’ایکس‘ کروموسومز ہوتے ہیں جبکہ مردوں میں ایک ’ایکس‘ اور ایک ’وائی‘ کروموسوم ہوتے ہیں۔ اگر ’ایکس ایکس‘ کروموسومز ’وائی‘ کے ساتھ ملتے ہیں، تو ایک ایسا شخص پیدا ہوتا ہے جیسا کہ وہاں بیٹھا ہے،‘‘ ٹیچر نے ایک طالب علم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ جب وہ طالب علم لڑکھڑاتا ہوا کھڑا ہوتا ہے تو پوری کلاس ہنسی سے گونج اٹھتی ہے۔

ٹرانس کمیونٹی کی زندگیوں پر مبنی ڈرامہ ’سندکارنگ‘ (جدوجہد کے لیے پرعزم) کا یہ ابتدائی منظر ہے۔ ڈرامے کا پہلا حصہ اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ کیسے کلاس روم میں صنفی طور پر طے شدہ کرداروں میں فٹ نہ بیٹھنے کی وجہ سے بچے کی تذلیل اور تضحیک ہوتی ہے۔ دوسرا حصہ تشدد کا نشانہ بننے والی ٹرانس خواتین اور ٹرانس مردوں کی زندگیوں کو ظاہر کرتا ہے۔

ٹرانس رائٹس ناؤ کلیکٹو (ٹی آر این سی) پورے ہندوستان میں ٹرانس افراد کی دلت، بہوجن اور آدیواسی آوازوں پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ کلیکٹو نے ۲۳ نومبر ۲۰۲۲ کو چنئی، تمل ناڈو، میں سندکارنگ کی پہلی پرفارمنس پیش کی۔ ایک گھنٹے تک چلنے والے اس ڈرامے کو نو ٹرانس افراد کے ایک گروپ نے ڈائریکٹ، پروڈیوس اور پرفارم کیا ہے۔

’’۲۰ نومبر کو دنیا سے رخصت ہو چکے ٹرانس افراد کی یاد گار کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ان کی زندگیاں آسان نہیں ہیں، کیونکہ وہ اکثر اپنے کنبوں کی طرف سے نظر انداز اور معاشرے سے بے دخل کر دیے جاتے ہیں۔  کئی افراد یا تو قتل ہو جاتے ہیں یا خودکشی کر لیتے ہیں،‘‘ ٹی آر این سی کی بانی گریس بانو کہتی ہیں۔

Artists at the rehearsal of the play Sandakaranga in Chennai in Tamil Nadu
PHOTO • M. Palani Kumar

تمل ناڈو کے چنئی میں ڈرامہ سندکارنگ کے ریہرسل کے دوران فنکار

Theatre artist Grace Banu plays the role of a teacher who explains the chromosomes and sexual identity of the trans community in a classroom setting
PHOTO • M. Palani Kumar

تھیٹر فنکار گریس بانو نے ایک ٹیچر کا کردار ادا کیا ہے، جو کلاس روم کے ماحول میں ٹرانس سماج کے کروموسوم اور جنسی شناخت کی وضاحت کرتی ہیں

’’سال در سال یہ تعداد بڑھ رہی ہے۔ جب ٹرانس کمیونٹی پر تشدد ہوتا ہے تو کوئی اس کے خلاف آواز نہیں اٹھاتا۔ ہمارے معاشرے میں مکمل خاموشی ہے،‘‘ ایک فنکارہ اور کارکن بانو کہتی ہیں۔ ’’ہمیں اپنی بات کی شروعات کرنی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اس [پرفارمنس] کا نام سندکارنگ رکھا ہے۔‘‘

سال ۲۰۱۷ میں اس ڈرامہ کو ’سندکرئی‘ کے نام سے اسٹیج کیا گیا تھا اور بعد میں ۲۰۲۲ میں اس کا عنوان بدل کر ’سندکارنگ‘ رکھ دیا گیا۔ گریس بانو بتاتی ہیں، ’’ہم نے یہ نام تمام ٹرانس افراد کی شمولیت کے لیے تبدیل کر دیا ہے۔ اس ڈرامہ میں نو فنکار ٹرانس کمیونٹی کے درد اور تکلیف کو بیان کرتے ہیں اور ان کے خلاف زبانی اور جسمانی تشدد کے ساتھ ساتھ جہالت اور خاموشی پر سوال اٹھاتے ہیں۔ ’’یہ پہلی بار ہے جب ٹرانس مرد اور ٹرانس خاتون ایک اسٹیج پر اکٹھے ہوئے ہیں،‘‘ سندکارنگ کی مصنفہ اور ڈائریکٹر نیگھ کہتی ہیں۔

’’ہماری زندگی  ہمیشہ زندہ رہنے کی کوشش میں گزرتی ہے۔ ہم اپنے ماہانہ بلوں کی ادائیگی یا ضروری اشیاء خریدنے کے لیے مسلسل کام کر رہے ہیں۔ اس اسکرپٹ پر کام کرتے ہوئے میں پرجوش تھی لیکن غصے میں بھی تھی، کیوںکہ ٹرانس مرد اور ٹرانس خواتین کو کبھی تھیٹر یا سنیما میں اداکاری کا موقع نہیں ملتا۔ میں نے سوچا، ہم زندہ رہنے کے لیے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالتے ہیں، کیوں نہ ایک ڈرامہ تخلیق کرنے کا خطرہ مول لیا جائے،‘‘ نیگھ کہتی ہیں۔

یہ تصویری کہانی ان لمحات کو قید کرتی ہے جو ٹرانس کمیونٹی کی مٹتی ہوئی تاریخ کو زندہ رکھتے ہیں، ان کے جینے کے حق اور ان کے جسم کے احترام کا دعویٰ پیش کرتے ہیں۔

A portrait of Negha, actor and director of Sandakaranga
PHOTO • M. Palani Kumar
Grace Banu, trans rights activist
PHOTO • M. Palani Kumar

سندکارنگ کی اداکار اور ہدایت کار نیگھ (بائیں)، اور ٹرانس رائٹس کارکن گریس بانو (دائیں) کی تصویریں

Renuka J. is the cultural coordinator of Trans Rights Now Collective and a theatre artist.
PHOTO • M. Palani Kumar
Prazzi D. is also a theatre artist, and is pursuing a postgraduate degree in Costume Design and Fashion
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: رینوکا جے ٹرانس رائٹس ناؤ کلیکٹو کی ثقافتی کوآرڈینیٹر اور تھیٹر فنکارہ ہیں۔ دائیں: پرازی ڈی ایک تھیٹر آرٹسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ  کاسٹیوم ڈیزائن اور فیشن میں پوسٹ گریجویٹ ڈگری حاصل کر رہی ہیں

Rizwan S. work at a private firm, and are also theatre artists.
PHOTO • M. Palani Kumar
Arun Karthick work at a private firm, and are also theatre artists. 'Trans men are a minority in the community, and there is no visibility. This play tells the stories of trans men too,' says Arun
PHOTO • M. Palani Kumar

رضوان ایس (بائیں) اور ارون کارتک (دائیں) ایک نجی فرم میں کام کرتے ہیں، اور تھیٹر کے فنکار بھی ہیں۔ ارون کہتے ہیں، ’اس سماج میں ٹرانس مرد اقلیت میں ہیں، اور ان میں بہت کم نظر آتے ہیں۔ یہ ڈرامہ ٹرانس مردوں کی کہانیاں بھی بیان کرتا ہے‘

'I hope this play reaches out widely and gives strength to trans persons to live,' says Ajitha Y. (left), an engineering student, theatre artist and student coordinator at Trans Rights Now Collective.
PHOTO • M. Palani Kumar
A portrait of Raghinirajesh, a theatre artist
PHOTO • M. Palani Kumar

انجینئرنگ کی طالبہ، تھیٹر فنکارہ اور ٹرانس رائٹس ناؤ کلیکٹو میں اسٹوڈنٹ کوآرڈینیٹر اجیتا وائی کہتی ہیں، ’مجھے امید ہے کہ یہ ڈرامہ دور تک پہنچے گا اور ٹرانس افراد کو جینے کی طاقت دے گا۔‘ تھیٹر آرٹسٹ راگنی راجیش (دائیں) کی تصویر

Left: A portrait of Nishathana Johnson, an analyst in a private company, and a theatre artist. “This play not only brings to light the sufferings and pain of trans persons, but depicts the lives of those who have died fighting for their rights.'
PHOTO • M. Palani Kumar
Artists at the rehearsal of the play in Chennai in Tamil Nadu
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: ایک نجی کمپنی میں تجزیہ کار اور تھیٹر آرٹسٹ نشاتن جانسن کی تصویر۔ ’یہ ڈرامہ نہ صرف ٹرانس افراد کے دکھ اور درد کو اجاگر کرتا ہے، بلکہ ان لوگوں کی زندگیوں کو بھی دکھاتا ہے جو اپنے حقوق کے لیے لڑتے ہوئے مر چکے ہیں۔‘ دائیں: تمل ناڈو کے چنئی میں ڈرامے کے ریہرسل کرتے فنکار

Nishathana Johnson and Ajitha Y. in the play.
PHOTO • M. Palani Kumar
Prazzi D. does their own make-up
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: ڈرامے میں نشاتن جانسن اور اجیتا وائی۔ دائیں: پرازی ڈی اپنا میک اپ خود کر رہی ہیں

Sandakaranga depicts the abuse experienced by the trans community in educational institutions
PHOTO • M. Palani Kumar

سندکارنگ، تعلیمی اداروں میں ٹرانس سماج کے ساتھ کی جانے والی زیادتی کی عکاسی کرتا ہے

A scene that portrays how a trans woman is treated in her home
PHOTO • M. Palani Kumar

اس منظر میں دکھایا گیا ہے کہ ایک ٹرانس عورت کے ساتھ اس کے گھر میں کیسا سلوک کیا جاتا ہے

A scene from the play shows traumatic childhood experiences of conversion therapy, humiliation and abuse for not fitting into gender-mandated roles
PHOTO • M. Palani Kumar

ڈرامہ کے اس منظر میں جنس کی تبدیلی کا عمل، جنس کے مطابق کردار میں فٹ نہ ہونے پر ذلت اور بدسلوکی کے بچپن کے تکلیف دہ تجربات دکھائے گئے ہیں

Artists at the rehearsal of Sandakaranga in Chennai, Tamil Nadu
PHOTO • M. Palani Kumar

تمل ناڈو کے چنئی میں سندکارنگ کی ریہرسل کرتے فنکار

In the play, Negha questions the silence of society around harassment and violence experienced by the trans community
PHOTO • M. Palani Kumar

ڈرامہ میں نیگھ، ٹرانس کمیونٹی کو ہراساں کیے جانے اور ان کے خلاف تشدد پر معاشرے کی خاموشی پر سوال اٹھاتی ہیں

Prazzi D. depicts the pain and suffering of a person identifying as trans undergoing gender affirmation surgery
PHOTO • M. Palani Kumar

پرازی ڈی ایک ایسے شخص کے درد اور تکلیف کی عکاسی کر رہی ہیں، جس کی شناخت جنس کی تصدیق کی سرجری سے گزرنے والے ٹرانس کے طور پر ہوتی ہے

Rizwan S. plays the role of a trans man and depicts his experience of love, dejection and pain in a heteronormative society
PHOTO • M. Palani Kumar

رضوان ایس ایک ٹرانس مرد کا کردار ادا کر رہے ہیں اور ایک متضاد معاشرے میں محبت، افسردگی اور درد کے اپنے تجربے کی عکاسی کرتے ہیں

Grace Banu plays the role of a trans woman who is subjected to sexual assault by policemen
PHOTO • M. Palani Kumar

گریس بانو ایک ٹرانس خاتون کا کردار ادا کر رہی ہیں جسے پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے

Negha (standing) calls for the audience to respect the bodies of trans people and to end body shaming, transphobia and violence against the trans community
PHOTO • M. Palani Kumar

نیگھ (کھڑی) سامعین سے ٹرانس افراد کے جسم کا احترام کرنے اور ان کی جسمانی ساخت کی تذلیل کو روکنے، ٹرانس سے نفرت اور ان کے خلاف تشدد کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتی ہیں

The artists depict the ways in which the community brings joy and celebration into their lives despite the sufferings and pain
PHOTO • M. Palani Kumar

فنکاروں نے ان طریقوں کی عکاسی کی ہے جن کے ذریعہ یہ کمیونٹی درد اور تکلیف کے باوجود اپنی زندگیوں میں خوشی اور جشن کا ماحول لے آتی ہے

The team of artists who brought to life the forgotten history of trans community on stage through their play, Sandakaranga, held in November 2022
PHOTO • M. Palani Kumar

فنکاروں کی وہ ٹیم جس نے نومبر ۲۰۲۲ میں اسٹیج ہونے والے اپنے ڈرامہ سندکارنگ کے ذریعے ٹرانس کمیونٹی کی گم گشتہ تاریخ کو زندہ کیا

The audience giving a standing ovation after the play concluded on its debut night
PHOTO • M. Palani Kumar

پہلی بار پرفارم کیے گئے اس ڈرامہ کے ختم ہونے پر ناظرین نے کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں اور فنکاروں کو داد دی

مترجم: شفیق عالم

M. Palani Kumar

M. Palani Kumar is Staff Photographer at People's Archive of Rural India. He is interested in documenting the lives of working-class women and marginalised people. Palani has received the Amplify grant in 2021, and Samyak Drishti and Photo South Asia Grant in 2020. He received the first Dayanita Singh-PARI Documentary Photography Award in 2022. Palani was also the cinematographer of ‘Kakoos' (Toilet), a Tamil-language documentary exposing the practice of manual scavenging in Tamil Nadu.

Other stories by M. Palani Kumar
Editor : S. Senthalir

S. Senthalir is Senior Editor at People's Archive of Rural India and a 2020 PARI Fellow. She reports on the intersection of gender, caste and labour. Senthalir is a 2023 fellow of the Chevening South Asia Journalism Programme at University of Westminster.

Other stories by S. Senthalir
Photo Editor : Binaifer Bharucha

Binaifer Bharucha is a freelance photographer based in Mumbai, and Photo Editor at the People's Archive of Rural India.

Other stories by Binaifer Bharucha
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam