اوچت مہاترے کو اپنی کلاس کا تنہا طالب علم ہونے کی عادت تھی۔ لیکن پورے اسکول میں وہ اکیلا طالب علم ہوگا، یہ اس نے کبھی سوچا نہیں تھا۔

وبائی مرض کے سبب لگے لاک ڈاؤن کے ۱۸ مہینے کے اندر جب ۱۲ سالہ اوچت پچھلے سال ۴ اکتوبر کو صبح ۱۱ بجے اپنے اسکول پہنچا، تو اس نے دیکھا کہ اسکول کی تینوں کلاسیں خالی ہیں۔ وہاں صرف اس کے ایک ٹیچر اور کرسی پر رکھی مہاتما گاندھی کی ایک تصویر ہی اس کا انتظار کر رہی تھی۔

سال ۲۰۱۵ میں جب اوچت نے پہلی کلاس میں داخلہ لیا تھا، تب وہ ۶ سال کا تھا، لیکن اُس وقت بھی وہ اپنی کلاس میں اکیلا تھا۔ وہ بتاتا ہے، ’’ فقط میچ ہوتو [صرف میں ہی تھا]۔‘‘ اتنا ہی نہیں، وہ اپنے اسکول میں داخلہ لینا آخری طالب علم تھا، اور اس دوران کل ملا کر ۲۵ بچے اس اسکول میں پڑھتے تھے۔ وہ تمام بچے گھارا پوری گاؤں کے تین ٹولہ، مورا بندر، راج بندر، اور شیت بندر سے تعلق رکھتے ہیں، جہاں تقریباً ۱۱۰۰ لوگ رہتے ہیں۔ گھارا پوری جزیرہ مہاراشٹر کے رائے گڑھ ضلع میں واقع ہے، جو ایلیفینٹا غاروں کے سبب ایک مشہور سیاحتی مقام ہے۔ جنوبی ممبئی میں واقع گیٹ وے آف انڈیا سے، یہ کشتی سے ایک گھنٹے کی دوری پر ہے۔

اوچت کے ضلع پریشد (زیڈ پی) اسکول میں، پہلی کلاس سے ۷ویں کلاس تک کی پڑھائی ہوتی ہے۔ وہا ایک دہائی پہلے تک ۵۵ سے ۶۰ طلباء پڑھتے تھے۔ گزشتہ برسوں میں وہاں پڑھنے والے طلباء کی تعداد میں خاصی گراوٹ آئی اور سال ۲۰۱۹ تک وہاں صرف ۱۳ طلباء بچے تھے۔ مارچ ۲۰۲۰ میں یہ تعداد گھٹ کر ۷ رہ گئی۔ اور ۲۱-۲۰۲۰ کے سیشن میں، ۷ویں کلاس میں پڑھنے والے ۳ طلباء کی پڑھائی پوری ہو گئی اور دو طالب علم اسکول چھوڑ کر چلے گئے، تو صرف دو طلباء ہی باقی رہ گئے تھے: کلاس ۶ میں پڑھنے والا اوچت مہاترے اور کلاس ۷ کی گوری مہاترے۔ گوری بتاتی ہے، ’’یہاں پڑھائی ٹھیک سے نہیں ہو رہی تھی، اسی وجہ سے تمام لوگ یہاں سے جانے لگے۔‘‘

For the residents of Gharapuri, the only way to go anywhere is by boat.
PHOTO • Aakanksha
For long, the village's  zilla parishad school tried to stay afloat
PHOTO • Aakanksha

بائیں: گھارا پوری کے باشندوں کے پاس کہیں بھی جانے کے لیے واحد دستیاب ذریعہ کشتی ہے۔ دائیں: طویل عرصے تک، گاؤں کے ضلع پریشد اسکول نے خود کو بچائے رکھنے کی پوری کوشش کی

اسکول چھوڑ کر جانے کی بہت ساری وجہیں ہیں: اسکول کی جغرافیائی حالت اور دوری کے سبب ٹیچروں کے آنے جانے کا مسئلہ، جزیرہ پر بنیادی ڈھانچے کی خستہ حالت، کم تر آمدنی اور معاش کے محدود ذرائع سے نبرد آزما کنبے، انگریزی میڈیم میں اسکولی تعلیم حاصل کرنے کی خواہش، اور گھارا پوری اسکول میں مراٹھی میڈیم سے پڑھائی کرنے کے بعد آگے کی تعلیم سے وابستہ جدوجہد۔

یہاں تک کہ جب اسکول میں مناسب تعداد میں بچے پڑھتے تھے، تب بھی وہاں بجلی یا پانی کی سہولت نہیں تھی۔ سال ۲۰۰۰ سے ہی، گھارا پوری میں جنریٹر کی مدد سے شام ۷ بجے سے رات ۱۰ بجے تک بجلی کی سپلائی کی جاتی تھی، اور گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ سال ۲۰۱۸ میں جا کر انہیں مسلسل بجلی کی سپلائی کی سہولت حاصل ہوئی ہے۔ (اور ۲۰۱۹ میں پانی کی سپلائی بہتر ہوئی ہے۔)

پھر بھی، اسکول نے طویل عرصے تک خود کو بچائے رکھنے کی کوشش کی۔ تعلیمی سال ۱۵-۲۰۱۴ میں ایک کمپیوٹر اور ایک لیپ ٹاپ لایا گیا (جسے صرف شام کے وقت چارج کیا جا سکتا تھا)۔ یہ اب کلاس میں بغیر کسی استعمال کے بیکار پڑے ہیں۔ اوچت کے ٹیچر رانیا کنور بتاتے ہیں، ’’ہم [فون کے انٹرنیٹ سے جوڑ کر] اس پر یوٹیوب کے ذریعے بچوں کو جِنگل اور ریاضی پڑھاتے تھے۔‘‘

جب یہ اسکول طلباء سے بھرا ہوا تھا، تب یہاں صرف تین ٹیچر تھے، جن پر پہلی کلاس سے ۷ویں کلاس تک کے تمام مضامین کو پڑھانے کی ذمہ داری تھی۔ اس دوران کبھی کبھی سارے بچوں کو ایک ہی کلاس میں بیٹھا دیا جاتا تھا، جب کہ کچھ بچے کلاس کے باہر یا باہر کھلے میدان میں بیٹھتے تھے۔

The ZP school had as many as 55-60 students (left) more than a decade ago
PHOTO • Aakanksha
By March 2020 only 7 students remained, and slowly this number dropped to one
PHOTO • Aakanksha

ضلع پریشد اسکول میں ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے پہلے تک ۶۰-۵۵ طالب علم (بائیں) تھے۔ لیکن، مارچ ۲۰۲۰ آتے آتے صرف ۷ طالب علم رہ گئے، اور دھیرے دھیرے یہ تعداد گھٹ کر ایک ہو گئی

سالوں سے بہت کم ٹیچر ایسے ہیں جو روزانہ جزیرہ تک کا سفر کرنے کو تیار ہوں۔ انہیں گھارا پوری آنے کے لیے ہر روز ایک کشتی سے سفر کرنا پڑتا ہے، جس میں بیٹھ کر آنے جانے میں تعلقہ کے دیگر گاؤوں سے آدھا گھنٹہ لگ جاتا ہے۔ اور وہاں سے جزیرہ تک آنے کا یہی ایک واحد راستہ ہے۔ بارش کے موسم میں (جون سے ستمبر تک)، بھاری بارش اور سمندر کی اونچی لہر کے سبب کلاسیں اور بھی زیادہ بے ترتیب ہو جاتی ہیں۔ گھارا پوری میں راشن کی دکانوں، بینکوں، اور طبی مراکز جیسی معمولی سہولیات کی کمی کے سبب ٹیچروں کے اندر بد دلی کا جذبہ مزید مضبوط ہو جاتا ہے، اور یہاں اکثر تبادلہ بھی ہوتا رہتا ہے۔

چودہ سال کی گوری مہاترے کا کہنا ہے، ’’شاید ہی کوئی ٹیچر ایسے تھے جو یہاں کچھ مہینوں سے زیادہ رکے ہوں۔ سب کے پڑھانے کا طریقہ الگ الگ تھا اور ہمیں ان کے پڑھانے کے طریقے سے تال میل بیٹھانے میں وقت لگ جاتا تھا۔‘‘

رانیا (۵۲ سال) ان چند لوگوں میں سے ہیں جو (اپنی بیوی سریکھا کے ساتھ) گاؤں میں ۵۰۰ روپے مہینے کے کرایے پر ایک کمرہ لے کر رہ رہے ہیں۔ رانیا مہاراشٹر کے دھولے ضلع کے رہنے والے ہیں، اور انہوں نے ۲۰۱۶ کے وسط سے گھارا پوری میں پڑھانے کا کام شروع کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے، ’’ہمارا اتنے لمبے عرصے تک یہاں رکنے کا ارادہ نہیں تھا۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ میری تعیناتی صرف ایک سال کے لیے ہے۔‘‘ سال ۲۰۱۹ میں دیوالی کے آس پاس انہیں لقوہ کی شکایت ہوئی، اور علاج کے لیے باہر جانا پڑا۔ جب وہ اگست ۲۰۲۰ میں واپس لوٹے، تو اسکول میں صرف اوچت اور گوری رہ گئے تھے۔ ٹیچر کے طور پر صرف رانیا بچے تھے، اس لیے اسی مہینے ضلع پریشد آفس نے ایک اور ٹیچر کو عارضی طور پر مقرر کیا۔

رائے گڑھ ضلع پریشد کے محکمہ تعلیم نے ۳ ستمبر، ۲۰۲۱ کو گھارا پوری گاؤں کے سرپنچ بلی رام ٹھاکر کو ایک نوٹس بھیج کر اسکول بند کرنے کا مطالبہ کیا، کیوں کہ تب تک وہاں صرف اوچت ہی پڑھ رہا تھا۔ اس کے علاوہ، ان کی صلاح تھی کہ وہاں کے بقیہ طلباء کو پاس کے (اورن میں) دوسرے اسکولوں میں منتقل کر دیا جائے گا۔

Teacher Ranya Kuwar (and his wife Surekha) were among the few who chose to rent a place in Gharapuri, rather than commute by boat.
PHOTO • Aakanksha
Sarpanch Baliram Thakur says, ‘If there were support for uplifting the quality [of the school] in our village then surely parents won’t leave’
PHOTO • Aakanksha

بائیں: ٹیچر رانیا کمار (اور ان کی بیوی سریکھا) ان چند لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے کشتی سے آنے جانے کی بجائے گھارا پوری میں کرایے پر گھر لینے کا فیصلہ کیا۔ دائیں: سرپنچ بلی رام ٹھاکر کہتے ہیں، ’اگر [اسکول کے] معیار پر توجہ کی گئی ہوتی، تو یقیناً والدین یہ گاؤں چھوڑ کر نہیں جاتے‘

بلی رام چاہتے تھے کہ یہ اسکول جاری رہے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میں یہ اسکول بند نہیں کر سکتا، بھلے ہی یہاں صرف ایک طالب علم ہو۔ ہمارا معاملہ الگ ہے… ہمارا گاؤں جہاں واقع ہے اس کے آس پاس دوسرا کوئی اسکول نہیں ہے۔‘‘ وہ اس کے پیچھے بچوں کے لیے مفت اور لازمی تعلیم کے حق سے متعلق قانون، ۲۰۰۹ کا حوالہ دیتے ہیں، جس کے مطابق پانچویں کلاس تک کے بچوں کے لیے ایک کلومیٹر اور آٹھویں کلاس تک کے طلباء کے لیے تین کلومیٹر کی دوری کے اندر ایک سرکاری اسکول ہونا چاہیے۔

بلی رام آگے کہتے ہیں، ’’اچھی تعلیم کے لیے یہاں کے کنبے دوسرے علاقوں میں جا کر بس گئے ہیں، تاکہ ان کے بچے [اورن میں] دوسرے اسکولوں میں پڑھ سکیں۔ اگر [اسکول کے] معیارپر توجہ دی گئی ہوتی، تو یقیناً والدین یہ گاؤں چھوڑ کر نہیں جاتے۔‘‘

گھارا پوری جزیرہ کے طلباء طویل عرصے سے اورن تعلقہ یا نوی ممبئی کے دیگر گاؤوں میں تعلیم کے لیے نقل مکانی کر رہے ہیں۔ وہاں کچھ لوگ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ رہتے ہیں یا پوری فیملی نقل مکانی کر چکی ہے اور وہاں کرایے کے مکانوں میں رہ رہی ہے۔ ممبئی بھی پاس میں ہے، لیکن گھارا پوری کے کنبوں کے لیے وہاں رہنا کافی مہنگا ہے۔ وہاں رہنے والے زیادہ تر لوگ آگری کولی برادری (او بی سی کے طور پر درج فہرست) سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنے معاش کے لیے سیاحوں کو ٹوپی، دھوپ کا چشمہ، یادگار چیزیں، اور دوسرے سامان مختلف دکانوں پر بیچتے ہیں یا ایلیفینٹا کی غاروں میں سیاحت سے جڑی دوسری سرگرمیوں پر منحصر ہیں۔

اوچت کی ماں ویننتی مہاترے (۳۸ سال) کہتی ہیں، ’’شفٹنگ کے خرچے میں صرف اسکول کی فیس ہی نہیں، بلکہ کرایہ، نقد ڈپوزٹ، اور دیگر ضروری اخراجات بھی شامل ہیں۔ ہم یہ جگہ چھوڑ کر جا نہیں سکتے، ورنہ ہم کمائیں گے کیسے؟ میرا بس چلے تو میں اوچت کو کسی ہاسٹل میں بھیج دوں۔ یہاں کا ہائی اسکول بند ہو چکا ہے اور لاک ڈاؤن کے سبب [کئی مہینوں تک] آمدنی کا بھی کوئی ذریعہ نہیں تھا۔‘‘

Several families have migrated to villages in Uran or to Navi Mumbai for schooling. But, says Vinanti Mhatre, Auchit’s mother, ‘We can’t shift, how will we earn?’
PHOTO • Aakanksha
Several families have migrated to villages in Uran or to Navi Mumbai for schooling. But, says Vinanti Mhatre, Auchit’s mother, ‘We can’t shift, how will we earn?’
PHOTO • Aakanksha

کئی فیملی اسکولی تعلیم کے لیے اورن یا ممبئی کے گاؤوں میں نقل مکانی کر چکی ہے۔ لیکن، اوچت کی ماں ویننتی مہاترے کہتی ہیں، ’ہم یہ جگہ چھوڑ کر جا نہیں سکتے، ورنہ ہم کمائیں گے کیسے؟‘

ویننتی اور ان کے ۴۲ سالہ شوہر نتن، جیٹی سے ایلیفینٹا غاروں کی طرف جانے والی ۱۲۰ سیڑھیوں پر ایک چھوٹا سا اسٹال چلاتے ہیں۔ مارچ ۲۰۲۰ میں ہوئے لاک ڈاؤن سے پہلے، وہ مہینے میں ۷-۶ ہزار روپے کما لیتے تھے۔ سیاحوں کی تعداد گھٹنے پر ان کی فروخت میں کمی آئی ہے اور اب صرف کچھ ہی مہینے ایسے ہیں جب وہ اتنے روپے کما پاتے ہیں۔ (غاروں کے انتظام کے لیے ذمہ دار ہندوستانی محکمہ آثار قدیمہ سے جڑے) منتظمین نے ۲۰۱۹ میں ۱۲ ہزار روپے کی ماہانہ تنخواہ پر نتن مہاترے کو اسے صاف ستھرا رکھنے کے لیے مقرر کیا تھا۔ اسی سال ان کے بڑے بیٹے آدتیہ نے گاؤں کے ہائی اسکول میں دسویں کی پڑھائی مکمل کی اور نتن کی آمدنی کی مدد سے وہ آگے پڑھنے اورن جا سکا۔ (مارچ ۲۰۲۰ میں، ادائیگی سے جڑے ایک تنازع کی وجہ سے نتن کی صفائی والی نوکری چلی گئی۔)

گھارا پوری کے مراٹھی میڈیم کے کے ای ایس مڈل اسکول میں ۸ویں سے ۱۰ویں کلاس تک کی پڑھائی ہوتی تھی، یہیں پر آدتیہ پڑھتا تھا۔ اس اسکول کو ایک غیر سرکاری تنظیم، کونکن ایجوکیشن سوسائٹی نے سال ۱۹۹۵ میں قائم کیا تھا۔ سورن کولی (۴۰ سال) جو گاؤں کی ایک آنگن واڑی ملازمہ ہیں، اس اسکول کے کھلنے سے متعلق اپنی خوشی کے بارے میں بتاتی ہیں:

’’[۱۹۹۲ میں] میں نے جب ساتویں کلاس کی پڑھائی مکمل کی، تو گاؤں میں آگے پڑھنے کے لیے کوئی اسکول نہیں تھا۔ ہمارے ماں باپ کے لیے ہماری زندگی کے بس دو ہی متبادل تھے۔ یا تو ہم کسی دکان میں کام کریں یا ہماری شادی کر دی جائے۔‘‘ سورن کی ماں گاؤں کے ایک فوڈ اسٹال پر کھانا بنانے کا کام کرتی تھیں، اور ان کے شوہر کھیتی کرنے کے ساتھ ساتھ سرپنچ کے معاون کا کام کرتے تھے۔ سورن نرس بننا چاہتی تھیں، اور بھلے ہی وہ اپنا خواب پورا نہیں کر سکیں، لیکن وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں، ’’کم از کم میں نے [۱۹۹۸ میں] دسویں کی پڑھائی تو پوری کی، اور وہ بھی اچھے نمبروں کے ساتھ۔‘‘

Anganwadi worker Survana Koli (standing, extreme right), was excited when a high school (right, foreground) opened here in the '90s. But that too shut down in 2020
PHOTO • Courtesy: Suvarna Koli
PHOTO • Aakanksha

آنگن واڑی کارکن سورن کولی (سب سے دائیں جانب)، اس وقت بہت زیادہ پرجوش تھیں جب ۹۰ کی دہائی میں یہاں ایک ہائی اسکول (دائیں، آگے کی طرف) کھلا تھا۔ لیکن وہ بھی سال ۲۰۲۰ میں بند ہو گیا

ایک وقت ایسا تھا کہ مفت تعلیم والے کے ای ایس مڈل اسکول میں تقریباً ۳۰ بچے پڑھتے تھے اور انہیں پڑھانے والے ٹیچروں کی تعداد ۴ تھی۔ ان میں سے ایک تھے نونیت کامبلے۔ گھارا پوری میں انہوں نے ۱۲ سالوں تک تدریسی کام کیا، جس میں سے ۶ سال تک وہ گاؤں میں ہی رہے۔ شادی کے بعد وہ اورن سے کشتی سے آتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’جو بچے ۸ویں کلاس میں تھے، انہیں [اپنے ضلع پریشد اسکول کی بے ترتیب تعلیم کے سبب] پڑھائی میں کافی پریشانی ہوتی تھی۔ اور ان میں سے کئی بچے پڑھنے کے خواہش مند نہیں تھے۔‘‘

آہستہ آہستہ ہائی اسکول میں پڑھنے والے بچوں اور وہاں پڑھانے والے ٹیچروں کی تعداد گھٹنے لگی۔ اسکول کے سامنے مالی بحران پیدا ہو گیا اور ہر سال ایک ایک کرکے کلاسیں بند ہونے لگیں۔ سال ۲۰۱۸ میں ۸ویں کلاس کی، ۲۰۱۹ میں ۹ویں کلاس، اور آخرکار ۲۰۲۰ میں ۱۰ویں کلاس کی پڑھائی بند ہو گئی۔

ہائی اسکول کا بند ہونا اور ضلع پریشد اسکول کا لڑکھڑاتے ہوئے چلنا تعلیمی رپورٹ کی سالانہ صورتحال (دیہی) (اکتوبر ۲۰۲۰) کی سفارشات کے بالکل برعکس صورتحال ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ لاک ڈاؤن کے بعد سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے پس ماندہ برادریوں کے بچوں کو مزید مدد کی ضرورت ہوگی۔

جب کہ آنگن واڑی کارکن سورن کولی اپنی ایک رفیق کار کے ساتھ گھارا پوری میں ۶-۰ کی عمر کے ۴۰ بچوں کے لیے آنگن واڑی کلاسیں چلا رہی ہیں، لیکن ۱۴-۶ سال کے سبھی ۲۱ بچوں میں سے کسی کا بھی جزیرہ کے ضلع پریشد اسکول میں داخلہ نہیں ہوا ہے۔ (طلباء کی تعداد کا اندازہ سورن کولی، رانیا کنور، اور ان کی بیوی سریکھا کے ذریعے کیے گئے الگ الگ سروے کے ذریعے لگایا گیا تھا)۔ ضلع پریشد اسکول میں تعلیم کے گرتے معیار کو دیکھتے ہوئے اس کے بند ہونے کا قیاس لگا رہے گھارا پوری کے لوگ اپنے بچوں کو اورن کے دوسرے اسکولوں میں بھیجنے لگے ہیں۔

When the high school closed, for students still studying in the ZP school it meant moving from Gharapuri right after Class 7, as did Kalpesh Mhatre (left), who eventually found work as a ‘kursiwallah’ (right) at Elephanta caves
PHOTO • Aakanksha
When the high school closed, for students still studying in the ZP school it meant moving from Gharapuri right after Class 7, as did Kalpesh Mhatre (left), who eventually found work as a ‘kursiwallah’ (right) at Elephanta caves
PHOTO • Aakanksha

ضلع پریشد اسکول میں پڑھنے والے طلباء کے لیے ہائی اسکول بند ہونے کا مطلب تھا – ۷ویں کلاس کے بعد گھارا پوری چھوڑ کر جانا؛ جیسا کہ کلپیش مہاترے (بائیں) نے کیا تھا، جنہیں آخرکار ایلیفینٹا غاروں میں ’کرسی والا‘ (دائیں) کے طور پر کام مل گیا تھا

ضلع پریشد اسکولوں میں پڑھنے والے طلباء کے لیے ہائی اسکول بند ہونے کا مطلب تھا – ۷ویں کلاس کے بعد گھارا پوری چھوڑ کر جانا؛ جیسا کہ ۱۶ سال کے کلپیش مہاترے کے ساتھ ہوا۔ پہلے نہاوا گاؤں کے ایک اسکول میں اس کا داخلہ کرایا گیا تھا، اور پھر درمیان میں اسے وہ اسکول چھوڑنا پڑا۔ اس کے مطابق، ’’بس، نہیں ہو رہا تھا۔‘‘ کلپیش نے جزیرہ پرکرسی والے کے طور پر کام کرنا شروع کیا ہے، وہ اور دیگر تین لوگ سیاحوں کو لکڑی کی ایک کرسی پر بیٹھا کر غاروں کے اندر لے جاتے ہیں۔ چار لوگوں کی ایک ٹیم دن بھر میں ۳ سے ۴ چکر لگاتی ہے، اور ہر چکر میں وہ ۳۰۰ سے ۵۰۰ روپے کما لیتے ہیں۔

گھارا پوری کے کچھ طالب علم کسی طرح آگے پڑھنے میں کامیاب رہے۔ گوری کی بڑی بہن بھاویکا مہاترے نے گاؤں کے ہائی اسکول میں ۲۰۱۶ میں ۱۰ویں کی پڑھائی مکمل کی اور پھر اس نے پنویل می بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ لیکن ۲۰۲۰ کی ابتدا میں والدین کے گزر جانے کے بعد، انہیں لوٹ کر گھارا پوری آنا پڑا، جہا ں وہ ایک اسٹال پر کھانے پینے کا سامان اور نقلی زیورات بیچتی ہیں۔ گوری اب پنویل میں اپنے ایک رشتہ کے ساتھ رہتی ہیں، اور وہاں وہ ۸ویں کلاس میں پڑھ رہی ہیں۔

بیس سالہ بھاویکا کہتی ہیں، ’’آئی اور بابا چاہتے تھے کہ ہم آگے پڑھیں۔ آئی ۸ویں پاس تھیں اور آگے مزید پڑھنا چاہتی تھیں، لیکن پڑھ نہ سکیں۔ بابا نیوی میں جانا چاہتے تھے، لیکن انہیں اپنے والد کے انتقال کے بعد فیملی کی ذمہ داریاں سنبھالنی پڑیں۔ وہ ہمارے ساتھ بیٹھ کر ہمیں ہندی اور ریاضی پڑھاتے تھے، اور ہم سے سب کچھ سیکھنے کو کہتے تھے۔ انہوں نے خود سے پینٹنگ کرنا سیکھا، گاؤں کی شادیوں میں ڈی جے کا کام کرتے تھے۔ انہوں نے مجھے سلائی، ٹائپنگ جیسی کئی چیزیں سیکھنے کے لیے کئی کورسوں میں داخلہ دلوایا۔ وہ چاہتے تھے کہ ہم مقابلہ جاتی امتحانوں میں بیٹھیں اور آئی اے ایس یا وکیل بنیں…

PHOTO • Aakanksha
PHOTO • Aakanksha

یہاں صرف کچھ ہی لوگ آگے کی پڑھائی کر پائے ہی، جیسے کہ بھاویکا مہاترے (بائیں)، جن کے پاس بی اے کی ڈگری ہے۔ ان کی بہن گوری (دائیں) ضلع پریشد اسکول میں آخری بچے دو طلباء میں سے ایک تھی

لیکن گھارا پوری میں تعلیم کی راہ میں موجود رکاوٹوں کے سبب صرف بھاویکا جیسے کچھ بچے ہی آگے پڑھ پا رہے ہیں۔ تعلیم پر گھریلو سماجی لاگت (این ایس ایس ۷۵واں دور، ۱۸-۲۰۱۷) کی رپورٹ یہ ظاہر کرتی ہے کہ دیہی ہندوستان میں ۱۵ سال یا اس سے زیادہ عمر کے صرف ۵ اعشاریہ ۷ فیصد طالب علم گریجویشن یا اس سے آگے کی تعلیم حاصل کر پاتے ہیں۔ دیہی مہاراشٹر کے لیے یہ اعداد و شمار تھوڑا بہتر تھے، لیکن پھر بھی گریجویشن تک یا پھر اس سے آگے کی تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کی تعداد صرف ۱۲ اعشاریہ ۵ فیصد تھی۔ اس سروے کے مطابق، طلباء کی پڑھائی تعلیم میں ان کی دلچسپی نہ ہونے، پڑھائی یا زبان کے ساتھ تال میل بیٹھا پانے میں اپنی ناکامی، اسکول سے دوری، مالی مسائل اور گھریلو یا اقتصادی سرگرمیوں میں حصہ داری کی وجہ سے چھوٹے جاتی ہے۔

ان میں سے ایک، گھارا پوری کی سونل مہاترے (۲۳ سال) ہیں، جنہوں نے اورن میں اپنے رشتہ داروں کے ساتھ رہتے ہوئے ۱۲ویں کی پڑھائی مکمل کی تھی۔ اس کے بعد فیملی کی مالی پریشانیوں کے سبب انہیں واپس گھارا پوری آنا پڑا۔ ان کی ماں ایک اسٹال پر چپس بیچتی ہیں، اور ان کے والد اورن میں ایک کشتی پر کام کرتے ہیں، اور مہینہ میں ۵ ہزار روپے کماتے ہیں۔

ونے کولی نے بھی اورن می ۲۰۱۹ میں بارہویں کلاس پاس کرنے کے بعد پڑھائی چھوڑ دی۔ وہ جزوی مراٹھی میڈیم سے کامرس کی پڑھائی کر رہے تھے، جہا اکاؤنٹس کی پڑھائی انگریزی میں ہوتی تھی۔ ان کا کہنا ہے، ’’میرا بہت سارا وقت صرف لکھے ہوئے کو سمجھنے میں چلا جاتا تھا۔‘‘ جنوری ۲۰۲۰ میں، انہیں ایلیفینٹا کی غاروں میں ۹ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر ٹکٹ کلکٹر کی نوکری ٹھیکہ پر مل گئی۔

PHOTO • Aakanksha
PHOTO • Aakanksha

جزیرہ کی کئی فیملی جیٹی کے پاس لگائے جانے والے چھوٹے اسٹالوں اور غاروں میں آنے والے سیاحوں پر منحصر رہتی ہیں۔ دائیں: چنندہ ضلع پریشد کو بہتر سہولیات سے لیس کرنے کی مہاراشٹر حکومت کی اسکیموں کے تحت ضروری سہولیات میں ’اچھی سڑک کنیکٹویٹی‘ شامل ہے۔ ظاہر ہے کہ گھورا پوری اس پیمانہ پر کھرا نہیں اترتا

گھارا پوری کے کچھ طالب علم ۱۲ویں پاس کرنے کے بعد الیکٹریشین، پلمبر، ویلڈر، ٹرنر، اور اسی طرح کے دیگر پیشوں کے لیے تربیت حاصل کرنے کی خاطر ایک یا دو سال کے پیشہ ورانہ کورسوں کا متبادل منتخب کرتے ہیں۔ احمد نگر میں ایک تعلیمی کارکن اور ٹیچر کے طور پر کام کرنے والے بھاؤ صاحب چسکر کہتے ہیں، ’’اس طرح کے نصاب سے ’محنت پر مبنی‘ نوکریاں ملتی ہیں۔ جو لوگ اعلیٰ تعلیم تک پہنچے میں ناکام ہیں، وہ عام طور پر پس ماندہ برادریوں سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘

گھارا پوری جزیرہ پر تو ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کا راستہ بھی اب بند ہو گیا ہے۔

ستمبر ۲۰۲۱ میں، مہاراشٹر حکومت نے اعلان کیا تھا کہ ریاست کے تقریباً ۵۰۰ ضلع پریشد اسکولوں کو بنیادی ڈھانچے میں بہتری، تعلیم اور دیگر شعبوں کی جدیدکاری کے ذریعے ’ماڈل اسکول‘ میں تبدیل کیا جائے گا۔ ان تبدیلیوں سے جڑی اہلیتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ’’اسکول کا محل وقوع مرکزی حیثیت رکھتا ہو اور سڑکوں سے اس کا بہتر رابطہ ہو۔‘‘

ظاہر ہے کہ گھارا پوری اس پیمانے پر کھرا نہیں اترتا۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Aakanksha

Aakanksha is a reporter and photographer with the People’s Archive of Rural India. A Content Editor with the Education Team, she trains students in rural areas to document things around them.

Other stories by Aakanksha
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique