دیہی ہندوستانی آزادی کے پیدل سپاہی بھی تھے اور نوآبادیات کے خلاف اب تک لڑی جانے والی سب سے بڑی لڑائیوں میں سے کچھ کے لیڈر بھی۔ ان میں سے لاتعداد ہزاروں لوگوں نے ہندوستان کو برطانوی حکومت سے آزاد کرانے کے لیے اپنی جانیں تک قربان کر دیں۔ اور ان میں سے بہت سے اُن سخت مظالم کے باوجود ہندوستان کو آزاد دیکھنے کے لیے زندہ بچ گئے، تو انھیں جلد ہی بھُلا دیا گیا۔ ۱۹۹۰ کی دہائی کے آگے سے، میں نے آخری بچے مجاہدینِ آزادی میں سے متعدد کی زندگیوں کو ریکارڈ کیا ہے۔ یہاں پر آپ کو ان میں سے پانچ کی کہانیاں پڑھنے کو ملیں گی:
پنی مارا کے آزادی کے پیدل سپاہی ۔ ۱
پنی مارا کے آزادی کے پیدل سپاہی ۔ ۲
اس کے ساتھ ہی پانچ دیگر کہانیوں کا ایک سیٹ بھی ہے، جو سب سے پہلے ٹائمز آف انڈیا میں شائع ہوئی تھیں، انھیں یہاں دوبارہ مزید تصویروں کے ساتھ شائع کیا جا رہا ہے۔ یہ ’بُھلائی جا چکی آزادیاں‘ سیریز کا تانا بانا اُن گاؤوں کے ارد گرد بُنا گیا ہے جو عظیم بغاوتوں کا گہوارہ تھے۔ ہندوستانی آزادی شہری امیروں کے ایک مجمع کی کہانی نہیں تھی۔ دیہی ہندوستانیوں نے اس میں کہیں بڑی تعداد میں حصہ لیا اور وہ بھی ایک سے کہیں زیادہ قسم کی آزادی کے لیے۔ مثال کے طور پر، ۱۸۵۷ کی بہت سی لڑائیاں، گاؤوں میں اسی وقت لڑی جا رہی تھیں، جب ممبئی اور کولکاتا کے امراء انگریزوں کی کامیابی کے لیے دعا کرنے کے واسطے میٹنگیں کر رہے تھے۔ آزادی کے ۵۰ویں سال، یعنی ۱۹۹۷ میں، میں نے اُن میں سے چند گاؤوں کا دورہ کیا، جہاں کے بارے میں آپ کو درج ذیل کہانیاں پڑھنے کو ملیں گی:
https://ruralindiaonline.org/articles/sherpur-big-sacrifice-short-memory/
گوداوری: اور پولیس کو اب بھی حملے کا انتظار ہے
سوناکھن: جب ویر نارائن سنگھ دو بار مرے
کلیاسیری: ۵۰ کی عمر میں بھی لڑتے ہوئے
دس کہانیاں، ہندوستان کے ۶۹ویں یومِ آزادی کے موقع پر یاد کرنے کے لیے۔
آزادی کی دس کہانیاں۔
( پاری ، آخری بچ گئے مجاہدینِ آزادی، جو اَب اپنی عمر کے ۹۰ویں سال میں ہیں، کا پتہ لگانے اور ان کی زندگیوں کو دستاویزی شکل دینے میں مسلسل کوشاں ہے ) ۔