بھاٹوَڑ گاؤں کے ایک کھیت کے کنارے دھول بھری سڑک پر چلتے ہوئے، ہم ایک چھوٹے گھر پر پہنچتے ہیں، جس کی مسطح چھت سیمنٹ سے اور دیواریں بکائن سے بنی ہوئی ہیں۔ اس گھر کا نام عجیب و غریب رکھا گیا ہے، دیوار پر ارغوانی رنگ سے مراٹھی میں لکھا ہوا ہے ’ٹھِنگی‘۔ اس لفظ کا مطلب ہے ’چنگاری‘ اور یہ ۸ سے ۱۰ نظموں کے ایک مجموعہ کا عنوان ہے۔ ’’اور بھی کئی ہیں،‘‘ پردیپ سالوے کہتے ہیں۔ ’’میرے والد کے اشعار لکھے نہیں گئے، لیکن وہ سارے کے سارے مجھے یاد ہیں۔‘‘

پردیپ ہمیں اپنے والد، شاہیر (شاعر) آتما رام سالوے کی میراث کے بارے میں بتاتے ہیں، جنہوں نے تقریباً ۳۰۰ نظمیں لکھیں۔ ’’وہ ہُنڈا بندی (جہیز پر پابندی) کے بارے میں اور شراب اور اس کی لت سے ہونے والے تباہ کن اثرات کے بارے میں ہیں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر پر، دلتوں پر، خواتین، زراعت، تعلیم اور سماجی انقلاب پر اشعار ہیں۔ پردیپ ’ٹھنگی‘ (جہاں ان کے بھائی دیپک رہتے ہیں) کے قریب اپنے گھر ’راج رتن‘ میں بیٹھے ہوئے، ایک جہیز مخالف نظم کی ایک لائن نقل کرتے ہیں:

“हुंड्याची पद्धत सोडा, समतेशी नाते जोडा”

’’جہیز کے رواج کو چھوڑو، برابری کا رشتہ جوڑو‘‘

ہم لوگ مہاراشٹر کے بیڈ ضلع کے ماجل گاؤں تعلقہ میں ہیں، تاکہ ان خواتین سے ملاقات کر سکیں، جن کے اووی چکی کے گانوں کے پروجیکٹ کے لیے ریکارڈ کیے گئے تھے، جنہیں اب پاری پر سیریلائز کیا جا رہا ہے۔

Pradeep Salve and family

پردیپ سالوے (دائیں جانب)، ان کی بیوی جیوتی اور بیٹا راج رتن۔ ان کے پیچھے پردیپ کی چچی، للتا بائی کھلگے ہیں۔ بائیں جانب ان

کی بھابھی آشا اپنے بیٹے امیتودن کے ساتھ کھڑی ہیں


गाढण्या अवलाद मनुची चालला रे धाऊनी .... तो धाऊनी
अन्यायाच्या काळजाला ही बासुद्या डागणी ..... ही डागणी
आग बदल्याची.....
घोट नरडीचा तुम्ही घ्या उठा पुकारून बंड रे .... हे बंड रे
मर्द असताना तुम्ही का, थंङ बसता या क्षणी.... तुम्ही या क्षणी
आग बदल्याची.....
साळवे त्या दुबळ्यांचा शत्रूवर ठेवीन नजर
का भीता तुम्ही तो असता, पाठीशी तुमच्या भीमधनी.... तो  भीमधनी
आग बदल्याची.....
आग बदल्याची भडकुद्या, चीड येऊ द्या मनी

ہم پردیپ کی ماں، کملا سالوے اور چکی کے گانوں کے پروجیکٹ کی ایک گلوکارہ سے ملنے کی امید کر رہے ہیں۔ وہ دوسرے گاؤں میں اپنے رشتہ دار وں سے ملنے گئی ہوئی تھیں، لیکن ہم نے ان کی فیملی سے ملاقات کی۔ شاعر آتما رام سالوے، کملا تائی کے شوہر ہیں۔

آتما رام سالوے کی پیدائش ۱۴ اکتوبر، ۱۹۵۶ میں ہوئی اور انھوں نے اورنگ آباد کے مِلِند مہا وِدیالیہ سے تعلیم حاصل کی۔ ان کے والد کے پاس ۲۵ ایکڑ کھیت اور دو کنویں تھے، لیکن آتما رام کی کھیتی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی، بلکہ ان کے اوپر شاعری کا جنون طاری تھا۔ ’’وہ بغیر سوچے سمجھے اچانک شعر کہتے اور سناتے تھے،‘‘ پردیپ بتاتے ہیں۔ ان کے کئی گانے سماجی انقلاب کے بارے میں اور ظلم کے خلاف ہیں۔

آتما رام کے اشعار کو بھلے ہی ان کی زندگی میں صحیح پہچان نہ ملی ہو، لیکن ان کی نظمیں اور گانے، جو مہاراشٹر بھر کے گاؤوں اور شہروں میں گائے جاتے تھے، ان سے لوگ بے خبر نہیں تھے۔ آندولنوں (سیاسی تحریکوں) میں شریک ہونے اور سیاسی طنز پر مبنی گانا گانے کی وجہ سے ان کے خلاف سینکڑوں پولس کیس درج کیے گئے۔

’’جتنی بار انہیں گرفتار کیا جاتا، میرے دادا قانونی اخراجات کی خاطر پیسہ جمع کرنے کے لیے کھیت کا ایک ٹکڑا بیچ دیتے،‘‘ پردیپ بتاتے ہیں۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ پولس نے ان کے والد کو چار بار ماجل گاؤں تعلقہ سے اور دو بار بیڈ ضلع سے باہر نکال دیا تھا۔ فیملی کی ملکیت والے کھیت دھیرے دھیرے ختم ہونے لگے۔

شاعر کے دوست، ماجل گاؤں کے پانڈورنگ جادھو، جو ریاستی حکومت کے محکمہ آبپاشی میں ایک کلرک ہیں، ان متعدد مورچوں میں آتمام رام کے ساتھ ہوتے، جن کی قیادت سالوے نے اپنی نوجوانی کے دنوں میں کی۔ ’’مراٹھواڑہ علاقے کے ارد گرد کسی بھی گاؤں میں جب بھی دلتوں کے خلاف مظالم ہوتے، آتمام رام مورچہ کی قیادت کرتے ہوئے وہاں پہنچ جاتے اور احتجاج میں گانے گاتے۔ وہ ایک لوک شاہیر (عوامی شاعر) تھے،‘‘ جادھو کہتے ہیں۔

سالوے دلت پینتھرس نامی اس انتہا پسند سماجی و سیاسی تنظیم کے رکن تھے، جسے نام دیو دھسال اور جے وی پوار جیسے شعراء نے ۱۹۷۲ میں شروع کیا تھا۔ اس گروپ کے ایک بنیادی رکن، قلم کار اور شاعر راجا ڈھالے، ۷۰، اور اب رپبلیکن پارٹی آف انڈیا کے ایک گروپ کے رکن، آتما رام سالوے کو جانتے تھے۔ ممبئی کے رہنے والے ڈھالے کہتے ہیں، ’’وہ ایک اچھے شاعر تھے اور دلت پینتھرس کے ساتھ کئی سالوں تک جڑے رہے۔ وہ ہمارے ساتھ مراٹھواڑہ کی میٹنگوں میں شریک ہوتے اور ہمارے پروگراموں میں اپنے اشعار سناتے تھے۔‘‘

شاہیر آتما رام ۳۵ سال کی عمر میں ۱۹ جنوری، ۱۹۹۱ کو انتقال کر گئے۔ اس وقت پردیپ کی عمر ۱۲ سال تھی۔ دو دہائیوں تک، سالوے کی فیملی ہر سال ۱۹ جنوری کو ان کی یاد مناتی رہی، جس میں وہ لوگ اپنے درمیان ان کی نظمیں گاتے۔

The black&white garlanded framed photo - Shahir Atmaram Salve (late poet)

بھاٹوَڑ گاؤں میں پردیپ کے گھر میں آتما رام کی مالا سے لدی ایک تصویر

جنوری ۲۰۱۴ میں، ماجل گاؤں تعلقہ کے لوگوں نے ان لوگوں کے اہل خانہ کی عزت افزائی کی، جن کی موت اورنگ آباد کی مراٹھواڑہ یونیورسٹی کا نام بدل کر ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی کرانے کی لمبی تحریک کے دوران ہوئی تھی۔ اس تقریب میں، شاعر کی فیملی نے ان کے اشعار گائے، اور ماجل گاؤں کے لوگوں نے کملا تائی کو ان کی شوہر کی یاد میں انعام سے نوازا۔ اس سال کے بعد سے انھوں نے اپنی سرزمین کے شاعر کی یاد میں ہر سال ایک پروگرام منعقد کرنا شروع کیا۔

لیکن، حکومت نے ابھی تک شاہیر آتما رام سالوے کو سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔

Award Plaque

پردیپ کے گھر میں بھاٹوڑ گاؤں کے لوگوں کے ذریعے کملا تائی کو ان کے شوہر آتما رام، ان کی سرزمین کے شاعر، کے اعزاز میں دی گئی تختی کے دونوں طرف فیملی کی تصویریں

ان کا بیٹا پردیپ، جو اَب ۳۸ سال کا ہو چکا ہے، نے ۸ویں کلاس تک اسکول کی تعلیم حاصل کی، اس کے بعد پڑھائی چھوڑ کر کام کرنے اور پیسہ کمانے لگا، تاکہ گھر کے چھوٹے بچے اسکول جا سکیں۔ انھوں نے زرعی مزدور اور ماجل گاؤں کے مونڈھا بازار میں سر پر مال ڈھونے کا کام کیا۔ پانچ سال پہلے، فیملی نے بھاٹوڑ گاؤں میں تین ایکڑ زمین خریدی، جس پر وہ اپنے استعمال کے لیے باجرا اور جوار اُگاتے ہیں۔ وہ کپاس اور سویابین بھی اُگاتے ہیں، جسے وہ بیچ دیتے ہیں۔ پردیپ کی دو بیٹیوں نے ۱۰ویں کلاس پاس کر لیا ہے، اور ان کے دو بیٹے ساتویں اور آٹھویں کلاس میں پڑھ رہے ہیں۔ ان چار بچوں کی ماں، جیوتی سالوے بیڈ ضلع میں ایک باورچی اور آنگن واڑی ورکر کے طور پر کام کرتی ہے۔

پردیپ کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنے والد کے اشعار کو یاد کرکے لکھنا شروع کر دیا ہے۔ انھوں نے ٹھنگی سے ایک گاکر سنایا۔

ویڈیو دیکھیں: پردیپ سالوے اپنے والد کی انقلابی نظموں میں سے ایک گا رہے ہیں، ’ناانصافی کے درد کو سزا دو۔۔۔۔


نظم کا مراٹھی متن اور اس کا اردو ترجمہ


ठिणगी

रांतीच्या ठिणग्या झडूद्या, तोफ डागा रे रणी
आग बदल्याची भडकुद्या, चीड येऊ द्या मनी

बाळ हा गर्भातला, काळ पुढचा पाहुनी
गाढण्या अवलाद मनुची चालला रे धाऊनी .... तो धाऊनी
अन्यायाच्या काळजाला ही बासुद्या डागणी ..... ही डागणी

क्रांतीच्या ठिणग्या ....
आग बदल्याची.....

वाघिणीचे दूध तुम्ही, पिऊन असे का थंड रे
घोट नरडीचा तुम्ही घ्या उठा पुकारून बंड रे .... हे बंड रे
मर्द असताना तुम्ही का, थंङ बसता या क्षणी.... तुम्ही या क्षणी
आग बदल्याची.....

आज सारे एक मुखाने, क्रांतीचा गरजू गजर
साळवे त्या दुबळ्यांचा शत्रूवर ठेवीन नजर
का भीता तुम्ही तो असता, पाठीशी तुमच्या भीमधनी.... तो  भीमधनी
आग बदल्याची.....

क्रांतीच्या ठिणग्या झडूद्या, तोफ डागा रे रणी
आग बदल्याची भडकुद्या, चीड येऊ द्या मनी

چنگاری

بغاوت کی چنگاری کو پھیلنے دو، توپ کو میدانِ جنگ میں لاؤ
انتقام کی آگ کو جلنے دو، ذہن میں غصے کو بڑھنے دو

حمل میں موجود بچہ (ظلم کے) مستقبل کو دیکھ رہا ہے
اور وہ منو کے بچے کو دفن کرنے کے لیے دوڑتا ہے ۔۔۔ وہ دوڑتا ہے
ناانصافی کے درد کو سزا دو ۔۔۔۔ اس درد کو

بغاوت کی چنگاری کو پھیلنے دو، توپ کو میدانِ جنگ میں لاؤ
انتقام کی آگ کو جلنے دو، ذہن میں غصے کو بڑھنے دو

چیتے کا دودھ پینے کے بعد، تم اتنے سرد کیوں ہو
گلے پر وار کرو، اٹھو اور بغاوت کرو، اے مَردوں ۔۔۔۔ بغاوت کرو، اے مَردوں
مرد ہوتے ہوئے بھی، تم اتنے پرسکون ہوکر بیٹھے کیوں ہو، اس وقت ۔۔۔ اس وقت
انتقام کی آگ کو جلنے دو۔۔۔۔

چلو ہم سب ایک آواز میں، آج بغاوت کا اعلان کریں
سالوے کمزوروں کے دشمن پر نظر رکھے گا
تم کو اتنا خوفزدہ ہونے کی ضرورت کیوں ہے جب ایک بھیم دانی* تمہاری مدد کر رہا ہے۔۔۔۔ یہ بھیم دانی
انتقام کی آگ کو جلنے دو ۔۔۔۔۔

بغاوت کی چنگاری کو پھیلنے دو، توپ کو میدانِ جنگ میں لاؤ
انتقام کی آگ کو جلنے دو، ذہن میں غصے کو بڑھنے دو

* بھیم دانی : وہ آدمی جس کی دولت بھیم راؤ امبیڈکر کی تعلیمات ہیں


تصویریں : نمیتا وائیکر اور سمیُکتا شاستری

Namita Waikar is a writer, translator and Managing Editor at the People's Archive of Rural India. She is the author of the novel 'The Long March', published in 2018.

Other stories by Namita Waikar
Translator : Mohd. Qamar Tabrez

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez