وہ اپنے دفتر میں کام کرنے والے ملازمین کے چھوٹے بچوں کی خاطر منعقد کیے جانے والے ڈرائنگ کمپٹیشن (خاکہ نگاری / تصویر بنانے کے مقابلہ) کی ایک پینٹنگ بنانے میں چھوٹی سونو کی مدد کر رہی تھی۔ ’’میرے خوابوں کا بھارت‘‘ موضوع پر اپنے اندراج جمع کرانے کا آج آخری دن تھا۔ سونو اپنی پیٹنگ بس مکمل کرنے ہی والی تھی۔ ’’ماں، آؤ نا، میرے ساتھ بیٹھو، پلیز۔‘‘ اگر یہ اس کی بیٹی کی ضد بھری درخواست نہ ہوتی…تو وہ آج صبح کو تصویروں میں رنگ بھرنے کے موڈ میں نہیں تھی۔ اس کی پوری توجہ دراصل خبروں پر مرکوز تھی، حالانکہ وہ کام میں مصروف ہونے کا بہانہ کر رہی تھی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی، آخرکار، وہ اپنی اس چھوٹی سی بچی کے قریب پہنچ گئی۔

اس نے اپنی بیٹی کو جیسے ہی گود میں اٹھایا، ننھی سی معصوم بچی کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔ ’’دیکھو!‘‘ سونو نے اپنی ڈرائنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ماں سے کہا۔ اُدھر، ٹیلی ویژن پر، زعفرانی رنگ کے کپڑے میں ملبوس ایک عورت اس کے کانوں میں نفرت کے زہر گھول رہی تھی۔ ’دھرم سنسد‘ کی کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی تھی۔ اسے پتہ نہیں چلا کہ وہ ذہن سے ماؤف ان دونوں میں سے کس پر توجہ دے رہی تھی – اُس عورت کی بات سن رہی تھی یا اپنی بیٹی کی پینٹنگ کو دیکھ رہی تھی۔ آخرالذکر میں، چھ یا سات انسانی چہرے ایک خوبصورت پس منظر کے ساتھ نظر آ رہے تھے۔ اس تصویر میں مرد، خواتین اور بچے سبز رنگ کے لہلہاتے کھیتوں کے سامنے کھڑے تھے اور ان کے پیچھے شام کے وقت کا آسمان نارنجی رنگ میں ڈوبا ہوا ایک خوبصورت نظارہ پیش کر رہا تھا۔

تصویر کے وہ رنگ زیادہ گہرے تھے یا اُن الفاظ میں زیادہ تشدد تھا، اسے نہیں معلوم۔ لیکن وہ اپنی بھیگی آنکھوں سے اُن چھوٹی، سفید رنگ کی تمام انسانی تصویروں کو غور سے دیکھنے کی جدوجہد کر رہی تھی، جنہیں لاشعوری طور پر ان کی مذہبی شناختوں کے ساتھ پیش کیا گیا تھا – ایک کے سر پر ٹوپی تھی، تو دوسرے کے سر پر دوپٹہ، ایک کے گردن میں صلیب تھی، تو دوسرے کی مانگ (سر کے بال میں) صندور سے بھری ہوئی تھی، اور ایک کے سر پر پگڑی بندھی ہوئی تھی… لیکن سب کے چہرے پر معصوم سی مسکراہٹ تھی اور وہ سبھی اپنی پھیلی بانہوں سے بغل میں دونوں جانب کھڑے نامعلوم شخص کا ہاتھ تھامے ہوئے تھے۔ اس کی آنکھوں سے جیسے ہی آنسو کا ایک قطرہ نیچے گرا، نارنجی اور سبز اور سفید، تمام رنگ تھوڑے دھندلے دکھائی دینے لگے

نمیتا وائکر کی آواز میں یہ نظم ہندی میں سنیں

نمیتا وائکر کی آواز میں یہ نظم انگریزی میں سنیں

We will not be silent, we will fight

Yes I am a Hindu,
a Hindu, not a barbarian
and like the majority of Hindus
that make this country
I do not instigate terror.
I am a Hindu,
I am a Mussalman,
I am a Sikh and I am a Christian too
I will uphold India’s Constitution -
keep it alive and thriving

You will chant jingoistic slogans
in the name of Hindutva
“Kill them, Kill them” you will shout
We will hold each others’ hands
Hindu, Muslim, Sikh and Christians

Thousands of you may roam the streets
wearing the shadows of Godse
Millions of us will walk like Gandhi
and stop you right there.
You may shout the slogans of hatred and violence
We will sing the songs of love, we Indians
You slaves of inhuman, bestial passions,
In your saffron disguise
you bow to predatory thoughts.

We, the Hindus of this country
are neither cowards nor senseless
We are Bhagat Singh. We are Ashfaq.
We are Sarojini. We are Kasturba.
We are the constitution of India
We are the Gita, the Koran, the Bible
and yes, we are the Guru Granth Sahib too.
We are secular people.

You, cronies to the powerful.
You, who scream the name of Ram
and call it dharma.
We will hold on to our humanity
and keep the tricolour flying
from the mast of peace.

We will fight, we will repel every Godse.
We will not let you march ahead.
We will fight. We won't be silent,
We will fight, we will win.
We will fight. We won't be silent

ہم لڑیں گے، خاموش نہیں بیٹھیں گے

میں ہندو ہوں، میں ہندو ہوں،
ہاں، میں ہندو ہوں، خونخوار نہیں،
میں بھی دیش کے باقی ہندوؤں جیسی،
دہشت کی عادی نہیں
میں ہندو ہوں، مسلمان بھی ہوں،
سکھ ہوں اور عیسائی بھی
میں، ہمارے بھارت کے آئین کو زندہ رکھوں گی

تم ہندوتوا کی بات چھیڑوگے،
’مارو، مارو‘ چیخوگے
ہم ہندو مسلم، سکھ عیسائی
سب کے ہاتھ تھامیں گے

تم سو، دو سو، گوڈسے بن کر
گلیوں میں نکلوگے
ہم لاکھوں لاکھوں گاندھی بن کر
وہیں تم کو روکیں گے
تم لگاؤ نعرے نفرت کے،
اُچھالو ہتھیار تشدد کے
گائیں گے بلند پیار کے گیت،
ہم سارے لوگ بھارت کے
تم نے کر لی ہے عقل خراب،
بن گئے درندوں کے غلام
تم اپنے زعفرانی لباس میں،
کرتے ہو درندگی کو سلام

اس دیش کے ہندو بزدل نہیں،
نہ ہی ہم نا سمجھ ہیں
ہم بھگت سنگھ، اشفاق ہیں،
سروجنی، کستوربا ہیں
ہم بھارت کا آئین ہیں،
ہم گیتا ہیں، قرآن اور بائبل ہیں
ہم گرو گرنتھ صاحب تو ہیں ہی
اور ہم سیکولر بھی ہیں

تم حکمرانوں کے پالتو جانور، چمچے ہوگے
رام کا نام چیخنے کو،
تم دھرم سمجھتے ہوگے
ہم انسانیت کے دامن کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے
امن کے ستون سے ترنگے کو اونچا لہرائیں گے

ہم لڑیں گے، ہر ایک گوڈسے کا سامنا کریں گے
ہم لڑیں گے، آپ کو آگے بڑھنے سے روکیں گے
ہم لڑیں گے، خاموش نہیں بیٹھیں گے
ہم لڑیں گے، ہم جیتیں گے
ہم لڑیں گے، خاموش نہیں بیٹھیں گے

مترجم: محمد قمر تبریز

Namita Waikar is a writer, translator and Managing Editor at the People's Archive of Rural India. She is the author of the novel 'The Long March', published in 2018.

Other stories by Namita Waikar
Illustration : Labani Jangi

Labani Jangi is a 2020 PARI Fellow, and a self-taught painter based in West Bengal's Nadia district. She is working towards a PhD on labour migrations at the Centre for Studies in Social Sciences, Kolkata.

Other stories by Labani Jangi
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique