تمام قسم کی پابندیاں، جبراً شادی، جنسی و جسمانی تشدد اور ’ٹھیک کرنے والے‘ علاج وہ خطرے اور تجربات ہیں جن کا سامنا ایل جی بی ٹی برادری کو اکثر کرنا پڑتا ہے۔ انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس کی طرف سے سال ۲۰۱۹ میں شائع رپورٹ لیونگ وِد ڈگنیٹی میں یہ بتایا گیا ہے۔

اب ودھی اور آروش (بدلا ہوا نام) کا معاملہ ہی لے لیجئے، جنہیں ممبئی میں ساتھ رہنے کے لیے مہاراشٹر کے تھانے اور پالگھر ضلعوں میں اپنے اپنے گھر چھوڑنے پڑے۔ ودھی اور آروش (جو ایک ٹرانس مرد کے طور پر خود کی پہچان کرتے ہیں) شہر میں ایک کرایے کے کمرے میں رہنے لگے۔ آروش کہتے ہیں، ’’مکان مالک ہمارے رشتہ کے بارے میں نہیں جانتے۔ ہمیں اسے چھپانا پڑے گا۔ ہم کمرہ خالی نہیں کرنا چاہتے۔‘‘

ایل جی بی ٹی کمیونٹی کے لوگوں کو کئی بار کرایے پر گھر نہیں ملتا، جبراً نکال دیا جاتا ہے اور انہیں فیملی، مکان مالک، پڑوسی اور پولیس تک پریشان کرتی ہے۔ لیونگ وِد ڈگنیٹی رپورٹ کے مطابق، کئی لوگوں کو بے گھر تک ہونا پڑتا ہے۔

بھید بھاؤ اور جبر و استحصال کی وجہ سے بہت سے ٹرانس جینڈر لوگوں کو، خاص کر دیہی ہندوستان میں، اپنا گھر چھوڑ کر کوئی محفوظ جگہ تلاش کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ سال ۲۰۲۱ میں، حقوق انسانی کے قومی کمیشن کی طرف سے مغربی بنگال میں ہوئے ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے مطالعہ میں پتہ چلا کہ ’’فیملی کے لوگ ان پر اپنی جنسی شناخت چھپانے کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں۔‘‘ قریب قریب آدھے لوگوں نے اپنی فیملی، دوستوں اور سماج کے امتیازی سلوک کی وجہ سے گھر چھوڑ دیا تھا۔

شیتل ٹرانس خاتون ہیں، جنہیں اسکول میں، کام پر، سڑکوں پر تقریباً ہر جگہ برسوں کے تلخ تجربات ہیں۔ وہ اس کہانی میں پوچھتی ہیں، جس کا عنوان ہے ’لوگ ہمیں ایسے گھورتے ہیں جیسے ہم کوئی بھوت ہوں‘ ، ’’ہر کوئی ہمارے ساتھ برا سلوک کیوں کرتا ہے؟ ہم ٹرانس جینڈر ہیں، تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ ہماری کوئی عزت نہیں ہے؟‘‘

PHOTO • Design courtesy: Dipanjali Singh

کولہا پور میں سکینہ (خاتون کی پہچان کے ساتھ جس نام کو انہوں نے خود سے قبول کیا) نے اپنے گھر والوں کو خاتون بننے کی خواہش ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ مگر فیملی نے زور دیا کہ وہ (جسے وہ مرد مانتے تھے) لڑکی سے شادی کر لیں۔ ’’گھر پر مجھے ایک والد اور ایک شوہر کے طور پر رہنا ہوتا ہے۔ میں خاتون کے طور پر زندگی گزارنے کی خواہش پوری نہیں کر سکتی۔ میں دوہری زندگی جی رہی ہوں – اپنے اندر ایک خاتون کے طور پر اور دنیا کے سامنے ایک مرد کے طور پر۔‘‘

ہمارے ملک کے کئی حصوں میں ایل جی بی ٹی کمیونٹی کے لوگوں کے تئیں بدگمانی کا رویہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ مثال کے طور پر، ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے لوگ سس جینڈر (جن کی جنسی شناخت پیدائش کے وقت جنسی شناخت سے میل کھاتی ہے) لوگوں کو ملنے والی تعلیم، روزگار، صحت، ووٹنگ، فیملی اور شادی سے متعلق کئی حقوق سے محروم رہتے ہیں۔ تیسرے جینڈر کے طور پر ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے انسانی حقوق پر اس مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے۔

ہماچل پردیش کے دھرم شالہ میں اپریل ۲۰۲۳ میں ہوا پہلا پرائڈ مارچ نونیت کوٹھی وال جیسے کچھ لوگوں کو اچھا نہیں لگا تھا۔ ’’مجھے نہیں لگتا کہ یہ صحیح ہے۔ انہیں [ہم جنس پرست لوگوں کو] اس کے لیے جدوجہد نہیں کرنی چاہیے، کیوں کہ وہ جو مانگ رہے ہیں وہ قدرتی نہیں ہے۔ ان کے بچے کیسے ہوں گے؟‘‘

ٹرانس جینڈر لوگوں کو لگاتار امتیازی سلوک اور اکیلے پن کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور گھر کے ساتھ ہی نوکریاں پانے تک سے انہیں روکا جاتا ہے۔ رادھیکا گوسوامی کے مطابق، ہمیں بھیک مانگنا پسند نہیں ہے، مگر لوگ ہمیں کام نہیں دیتے۔‘‘ رادھیکا کو ۱۳ سال کی عمر میں احساس ہوا تھا کہ وہ ٹرانس جینڈر ہیں۔ وہ آگے بتاتی ہیں، ’’دکاندار اکثر ہمیں بھگاتے ہیں۔ ہم بہت کچھ برداشت کرتے ہیں، تاکہ ہم روزی روٹی لائق ضروری پیسہ کما سکیں۔‘‘

سماجی بائیکاٹ اور مناسب نوکری کے مواقع فراہم نہ کرنا ٹرانس جینڈر لوگوں کے لیے ایک حقیقی مسئلہ ہے۔ تیسری جنس کے طور پر ٹرانس جینڈر کے انسانی حقوق سے متعلق ایک مطالعہ (اتر پردیش اور دہلی میں) سے پتہ چلا کہ ۹۹ فیصد لوگوں نے ’سماجی بائیکاٹ‘ کے ایک سے زیادہ معاملوں کا سامنا کیا تھا اور تقریباً ۹۶ فیصد کو ’روزگار کے مواقع‘ سے محروم کیا گیا تھا۔

PHOTO • Design courtesy: Dipanjali Singh

رادھیکا کے مطابق، ’’اگر ہمیں کہیں جانا ہوتا ہے، تو رکشہ چلانے والے اکثر ہمیں نہیں لے جاتے اور ٹرینوں اور بسوں میں لوگ ہم سے اچھوتوں کی طرح برتاؤ کرتے ہیں۔ کوئی بھی ہمارے بغل میں کھڑا نہیں ہوتا یا بیٹھتا نہیں۔ مگر وہ ہمیں ایسے گھوریں گے گویا ہم کوئی بھوت ہوں۔‘‘

ایل جی بی ٹی کمیونٹی کے لوگوں کو شاپنگ مال اور ریستوراں سمیت عوامی جگہوں پر بھی امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہیں وہاں داخل ہونے سے منع کیا جاتا ہے، خدمات فراہم کرنے سے منع کیا جاتا ہے، ان پر گہری نگرانی رکھی جاتی ہے اور امتیازی طریقے سے انہیں قیمتیں بتائی جاتی ہیں۔ تعلیم مکمل کرنا ان کے لیے ایک اضافی چیلنج ہوتا ہے۔ مدورئی کی کُمّی رقاصہ کے سویستیکا اور آئی شالین کو ٹرانس خاتون ہونے کی وجہ سے ظلم و ستم برداشت کرنا پڑا اور دونوں کو اپنی بی اے اور ۱۱ویں جماعت کی پڑھائی چھوڑنی پڑی۔ پڑھیں: مدورئی کے ٹرانس آرٹسٹ: ظلم و ستم، تنہائی، اور مالی تنگی

سال ۲۰۱۵ میں شائع اس سروے (سپریم کورٹ کے ذریعے ٹرانس جینڈر کو تیسری جنس کے طور پر منظوری دینے والے فیصلہ کے ایک سال بعد) سے پتہ چلتا ہے کہ کیرالہ میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے ۵۸ فیصد ممبران نے ۱۰ویں جماعت کی تعلیم مکمل کرنے سے پہلے ہی اسکول چھوڑ دیا تھا۔ تعلیم مکمل نہ کر پانے کے اسباب میں اسکول میں شدید ظلم، ریزرویشن کی کمی اور گھر پر حمایت والا ماحول نہ ملنا تھے۔

*****

بونی پال ایک انٹر سیکس شخص ہیں اور خود کی پہچان مرد کے طور پر کرتے ہیں۔ وہ سابق فٹ بالر ہیں، جنہیں ۱۹۹۸ کے ایشیائی کھیلوں میں قومی ٹیم کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ بعد میں ان کی جنسی شناخت کے سبب انہیں نکال دیا گیا۔ وہ یاد کرتے ہیں، ’’خواتین کی ٹیم میں مرد کھیل رہا ہے،‘ ایسی سرخیاں بنی تھیں۔‘‘

اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کے ہائی کمشنر کے دفتر کے مطابق، بین صنفی لوگ جنسی خصوصیات (تولیدی اعضاء، ہارمون اور کروموزوم کے پیٹرن سمیت) کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں، جو مرد یا عورت کے جسموں کے لیے طبی یا سماجی اصولوں کے مطابق نہیں ہوتیں۔

PHOTO • Design courtesy: Dipanjali Singh

بونی بتاتے ہیں، ’’میرے اندر بچہ دانی، بیضہ دانی اور اس کے اندر عضو تناسل تھا۔ میرے پاس دونوں ’سائڈ‘ [تولیدی اعضاء] تھے۔ میرے جیسا جسم صرف ہندوستان میں ہی نہیں، بلکہ پوری دنیا میں موجود ہے۔ ایتھلیٹ، ٹینس کھلاڑی، فٹ بالر، اور نہ جانے کتنے کھلاڑی میرے جیسے ہیں۔‘‘

بونی کے مطابق، وہ سماج کے ڈر سے اپنا گھر نہیں چھوڑیں گے۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایل جی بی ٹی کمیونٹی کے لوگوں کو اکثر اپنے ذاتی تحفظ کے بارے میں خطرہ اور بدسلوکی برداشت کرنی پڑتی ہے، جو بین الاقوامی قانون کے مطابق ظلم یا ناروا سلوک کے برابر ہے۔ ہندوستان میں ۲۰۱۸ میں درج کیے گئے حقوق انسانی کی خلاف ورزی کے کل معاملوں میں سے ۴۰ فیصد جسمانی تشدد کے معاملے تھے۔ اس کے بعد عصمت دری اور جنسی تشدد (۱۷ فیصد) کا نمبر تھا۔

اس رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ کرناٹک کو چھوڑ کر ملک میں کسی بھی دوسری ریاست کی حکومت نے ۲۰۱۴ کے بعد سے تیسری جنس کی پہچان کے بارے میں قانونی منظوری سے متعلق بیداری مہم نہیں چلائی ہے۔ رپورٹ کے نتیجے پولیس افسروں کی طرف سے ٹرانس جینڈر کمیونٹی پر ہونے والے ظلم کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔

کورونا کرونکلز کے مطابق، ہندوستان میں پہلے کووڈ۔۱۹ لاک ڈاؤن کے دوران جنسی نشوونما میں فرق کی وجہ سے کئی لوگ ’’اپنے خاص مسائل اور ضروریات کے بارے میں کم معلومات‘‘ کے سبب ضروری صحت کی دیکھ بھال حاصل نہیں کر سکے تھے۔ پاری لائبریری کے ہیلتھ آف سیکسوئل اینڈ جینڈر مائنارٹیز سیکشن میں ایسی کئی رپورٹ ہیں جو ہندوستان میں ایل جی بی ٹی کمیونٹی کے لوگوں کی صحت کی حالت بتانے اور سمجھانے کے لیے اہم ہیں۔

PHOTO • Design courtesy: Dipanjali Singh

کووڈ۔۱۹ وبائی مرض نے پورے تمل ناڈو میں بہت سے لوک فنکاروں کی زندگی تباہ کر دی اور ان میں ٹرانس خاتون فنکار سب سے بری طرح چپیٹ میں آئیں۔ ان کے پاس اب بمشکل کوئی کام یا آمدنی کا ذریعہ ہے۔ انہیں حکومت کی طرف سے کسی بھی طرح کی مدد بھی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ مدورئی کی ایک ٹرانس خاتون لوک فنکار ۶۰ سالہ ترما اماں بتاتی ہیں، ’’ہمارے پاس کوئی مقررہ کمائی نہیں ہوتی ہے۔ اور اس کورونا [وبائی مرض] کے سبب ہم نے روزی روٹی کے بچے کھچے موقعے بھی گنوا دیے ہیں۔‘‘

وہ پہلی شش ماہی میں کل ملا کر آٹھ سے دس ہزار روپے ماہانہ کماتی تھیں۔ اگلی شش ماہی کے لیے ترما اماں تین ہزار روپے کما پاتی تھیں۔ وبائی مرض کے بعد لاک ڈاؤن نے سب کچھ بدل دیا۔ وہ بتاتی ہیں، ’’مرد اور خاتون لوک آرٹسٹ آسانی سے پنشن کے لیے درخواست دے سکتے ہیں، جب کہ ٹرانس لوگوں کے لیے یہ بہت مشکل ہوتا ہے۔ میری درخواست کو کئی بار خارج کر دیا گیا ہے۔‘‘

تبدیلی آ رہی ہے، کم از کم کاغذ پر۔ سال ۲۰۱۹ میں ٹرانس جینڈر افراد کے حقوق کی حفاظت کا قانون پارلیمنٹ میں پاس ہوا، جو پورے ہندوستان میں نافذ ہوا۔ قانون کے مطابق، کوئی بھی آدمی یا ادارہ کسی ٹرانس جینڈر شخص کے خلاف تعلیم، صحت کی دیکھ بھال، روزگار یا پیشہ، تحریک چلانے کا حق، پراپرٹی کی خرید یا کرایے پر لینے، عوامی عہدہ کے لیے کھڑا ہونے یا اس عہدہ پر ہونے یا عام لوگوں کے لیے دستیاب کسی بھی سامان، رہائش، سروس، سہولت، فائدہ، خصوصی اختیار یا موقع تک رسائی کے معاملے میں امتیازی سلوک نہیں کرے گا۔

آئین جنسی شناخت کی بنیاد پر کسی بھی قسم کے امتیازی سلوک پر پابندی لگاتا ہے۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ریاست خواتین اور بچوں کے لیے خصوصی انتظامات کر سکتی ہے، تاکہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک نہ ہو یا انہیں ان کے حقوق سے محروم نہ کیا جا سکے۔ حالانکہ، آئین میں اس بات کی وضاحت نہیں ہے کہ ایسے انتظامات ہم جنس پرست لوگوں کے لیے بھی کیے جا سکتے ہیں یا نہیں۔

کور ڈیزائن: سودیشا شرما اور سدھیتا سوناونے

مترجم: محمد قمر تبریز

PARI Library

دیپانجلی سنگھ، سودیشا شرما اور سدھیتا سوناونے پر مشتمل پاری لائبریری کی ٹیم عام لوگوں کی روزمرہ کی زندگی پر مرکوز پاری کے آرکائیو سے متعلقہ دستاویزوں اور رپورٹوں کو شائع کرتی ہے۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز PARI Library
Translator : Qamar Siddique

قمر صدیقی، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے ٹرانسلیشنز ایڈیٹر، اردو، ہیں۔ وہ دہلی میں مقیم ایک صحافی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Qamar Siddique