ہنومنت گُنجل، شاہجہاں پور کے احتجاجی مقام پر تین دن گزارنے کے بعد جب اپنے گاؤں واپس آئے، تو اپنے ہمراہ بے شمار یادیں لیکر لوٹے۔
’’وہاں کے کسان بے حد مہمان نواز اور واقعی میں بہت اچھے تھے،‘‘ مہاراشٹر کے ناسک ضلع کے چندواڑ گاؤں کے ۴۱ سالہ بھیل آدیواسی کسان کہتے ہیں، جو ۲۵ دسمبر کو شاہجہاں پور پہنچے تھے۔ ’’ہم اپنے ساتھ چاول اور دال لیکر گئے تھے کہ اگر ضرورت پیش آئی تو اسے پکا سکیں۔ لیکن ہمیں اس کا استعمال بالکل بھی نہیں کرنا پڑا۔ انہوں نے ہمیں بہت سارے گھی کے ساتھ ذائقہ دار کھانا کھلایا۔ انہوں نے گرمجوشی سے ہمارا استقبال کیا۔‘‘
ناسک سے گاڑیوں کا ایک قافلہ ۲۱ دسمبر کو دہلی کے لیے روانہ ہوا تھا، تاکہ زرعی قوانین کے خلاف ہو رہے احتجاج کے ساتھ اپنی یکجہتی کا مظاہرہ کرسکے۔ تقریباً ایک ہزار کسانوں کو وہاں سے تقریباً ۱۴۰۰ کلومیٹر دور، راجدھانی دہلی کے باہری علاقوں تک پہنچنے میں پانچ دن لگے۔ شاہجہاں پور، جہاں آکر یہ قافلہ ختم ہوا، دہلی سے ۱۲۰ کلومیٹر جنوب میں، راجستھان- ہریانہ سرحد پر واقع ہے۔ یہ قومی راجدھانی کے ارد گرد کے احتجاجی مقامات میں سے ایک ہے، جہاں ہزاروں کسان، خاص طور سے پنجاب، ہریانہ اور راجستھان کے، تین زرعی قوانین کے خلاف ۲۶ نومبر سے احتجاج کر رہے ہیں۔
ان قوانین کو سب سے پہلے ۵ جون، ۲۰۲۰ کو آرڈیننس کی شکل میں جاری کیا گیا تھا، پھر ۱۴ ستمبر کو پارلیمنٹ میں زرعی بل کے طور پر پیش کیا گیا اور اسی ماہ کی ۲۰ تاریخ کو قانون کے طور پر پاس کر دیا گیا۔ یہ تین قوانین ہیں زرعی پیداوار کی تجارت و کاروبار (فروغ اور سہل آمیزی) کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ کاشت کاروں (کو با اختیار بنانے اور تحفظ فراہم کرنے) کے لیے قیمت کی یقین دہانی اور زرعی خدمات پر قرار کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ اور ضروری اشیاء (ترمیمی) قانون، ۲۰۲۰ ۔ ان قوانین کی اس لیے بھی تنقید کی جا رہی ہے کیوں کہ یہ ہر ہندوستانی کو متاثر کرنے والے ہیں۔ یہ ہندوستان کے آئین کی دفعہ ۳۲ کو کمزور کرتے ہوئے تمام شہریوں کے قانونی چارہ جوئی کے حق کو ناکارہ کرتے ہیں۔
دہلی اور اس کے ارد گرد کے احتجاجی مقامات پر موجود بہت سے کسانوں کے پاس بڑے بڑے کھیت ہیں، ان میں سے کئی چار پہیہ گاڑی چلاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس ۲۰۲۴ کے عام انتخابات تک احتجاجی مظاہرہ جاری رکھنے کے لیے وسائل ہیں۔
مہاراشٹر کے کسانوں کے لیے، جن میں سے کئی کا تعلق آدیواسی برادریوں سے ہے اور ان میں سے زیادہ تر کے پاس زمین کے چھوٹے ٹکڑے اور کم تر وسائل ہیں، یہ غیر معمولی بات تھی۔ لیکن، وارلی برادری کے ایک ۴۵ سالہ کسان، سریش ورتھا (اوپر کے کور فوٹو میں) جو پالگھر ضلع کے وکرم گڑھ تعلقہ سے آئے تھے، کہتے ہیں، ’’ہم یہ دکھانا چاہتے تھے کہ شمالی ریاستوں کے باہر کے کسان بھی زرعی قوانین کے خلاف ہیں، اور یہ امیر اور غریب دونوں کسانوں کو متاثر کرتے ہیں۔‘‘
تمام کسان ان قوانین کو اپنے معاش کے لیے تباہ کن سمجھ رہے ہیں کیوں کہ یہ قوانین بڑے کارپوریٹ کو کسانوں اور زراعت پر زیادہ اختیار فراہم کرتے ہیں۔ یہ کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی)، زرعی پیداوار کی مارکیٹنگ کمیٹیوں (اے پی ایم سی)، ریاست کے ذریعہ خرید وغیرہ سمیت، کاشتکاروں کی مدد کرنے والی بنیادی شکلوں کو بھی کمزور کرتے ہیں۔
مہاراشٹر کے کسان اپنے ساتھ کچھ امدادی سامان بھی لیکر آئے تھے – جیسے کہ دواؤں کے بکسے جنہیں وہ شمالی ہند کے اپنے ساتھی کسانوں کے لیے سوچ سمجھ کر لائے تھے۔ لیکن شاہجہاں پور میں موجود احتجاجیوں کے پاس میڈیکل سپلائی کی بھی کوئی کمی نہیں تھی۔
’’میں نے پہلے کبھی اس قسم کا احتجاجی مظاہرہ نہیں دیکھا، جہاں احتجاجیوں کے پاس تمام سہولیات ہوں،‘‘ احمد نگر ضلع کے سنگم نیر تعلقہ کے شندوڑی گاؤں کے ۵۷ سالہ بھیل آدیواسی کسان، متھرا برڈے کہتے ہیں۔ ’’انہوں نے تمام انتظامات کر رکھے تھے۔ احتجاج کے مقام پر پہنچنے پر کاجو، بادام، کھیر کے ساتھ ساتھ اور بھی کئی چیزوں سے ہمارا استقبال کیا گیا۔ ہم ان اشیاء کو خریدنے سے پہلے دو بار سوچتے ہیں۔ انہوں نے غسل کے لیے گرم پانی مہیا کرایا۔ انہوں نے ہمیں موٹے کمبل دیے۔ ان کی بہت ضرورت تھی کیوں کہ ہمارے کمبل پھٹے ہوئے تھے۔‘‘
مارچ ۲۰۱۸ میں کسانوں کا لمبا مارچ میں شریک ہونے والی متھرا تائی کہتی ہیں کہ وہ دونوں احتجاجی مظاہرے کا موازنہ کرنے سے خود کو نہیں روک سکیں۔ ’’مجھے یاد ہے کہ ہم نے اپنے ساتھ لائے اناجوں کا استعمال کتنے احتیاط سے کیا تھا،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’ہم نے سات دنوں میں ناسک سے ممبئی تک پیدل مارچ کیا۔ ہمیں یہ یقینی بنانا پڑا کہ ہمارا راشن اتنے دنوں تک چلے۔ یہاں پر احتجاجیوں کو کھانا کھلانے کے لیے لگاتار لنگر چلائے جا رہے ہیں۔ ہم جتنا چاہیں اتنا کھا سکتے تھے۔‘‘
شاہجہاں پور میں کسانوں کے درمیان طبقات کی تفریق کے بغیر یکجہتی تو تھی ہی، لیکن دہلی کی سرحد پر جو چیز اس احتجاجی مظاہرہ کو اچھی طرح منظم اور مضبوط بنائے ہوئی ہے، وہ ان لوگوں سے ملنے والی حمایت ہے جو ان مقامات پر موجود نہیں ہیں۔
۲۰۱۸ کا لمبا مارچ منعقد کرنے والے زرعی رہنماؤں میں سے ایک، اجیت نولے نے اس فرق کو دیکھا: ’’لمبا مارچ سات دنوں تک چلا،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’ہم پہلے پانچ دنوں تک وسائل کو لیکر تشویش میں مبتلا رہے۔ چھٹے دن جب ہم ممبئی کے باہری علاقے میں پہنچے، تو غیر زرعی برادری کھانا، پانی، پھل، بسکٹ، چپل وغیرہ لیکر ہمارے پاس پہنچی۔
آل انڈیا کسان سبھا (کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، مارکسوادی سے منسلک) کے جنرل سکریٹری، اور شاہجہاں پور تک کسانوں کے قافلہ کی قیادت کرنے والوں میں سے ایک، نولے کہتے ہیں، ’’کسی بھی احتجاجی مظاہرہ کا استحکام اس بات پر منحصر ہے کہ اسے معاشرہ کی حمایت حاصل ہے یا نہیں۔ دہلی کے ارد گرد ہو رہے احتجاجی مظاہروں کے ساتھ یہی ہوا ہے۔ وہ اب کسانوں تک محدود نہیں ہیں۔ پورا معاشرہ ان کی حمایت کر رہا ہے۔‘‘
نولے تفصیل سے بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ شاہجہاں پور میں ان کے قافلہ کے قیام کی پہلی رات کو، کچھ آٹو رکشہ ڈرائیور کمبل، گرم کپڑے، اونی ٹوپیاں اور دیگر سامان کے ساتھ احتجاج کے مقام پر پہنچے۔ ’’دہلی میں سکھ برادری کو جب اس بات کا علم ہوا کہ مہاراشٹر کے کسان شاہجہاں پور آ رہے ہیں، تو انہوں نے پیسے جمع کیے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’انہوں نے یہ سامان خریدے اور انہیں یہاں بھیجا۔‘‘
یہ سب ہنومنت گُنجل کے یادگار تجربہ میں شامل ہو گیا۔ ’’ہم [اپنے گاؤوں] واپس آ گئے ہیں اور بہت مثبت محسوس کر رہے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز