’’میں اپنے خوف کے بارے میں کیسے بتاؤں؟ ڈر کی وجہ سے میرے دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں۔ میرے دماغ میں لگاتار یہ چلتا رہتا ہے کہ آخر کب میں واپس کھلی جگہ پر لوٹوں گی۔‘‘ پارول ہالدار (۴۱ سالہ) کیکڑے اور مچھلیاں پکڑنے کا کام کرتی ہیں۔ پارول بتاتی ہیں کہ کیکڑوں کی تلاش میں انہیں گھنے مینگروو کے جنگلوں میں بھٹکنا پڑتا ہے، جہاں وہ لگاتار خوف کے سایہ میں کام کرتی ہیں۔ جب کیکڑوں کے شکار کا موسم آتا ہے، تب وہ مینگروو کے جنگلوں میں اپنی کشتی لے کر اتنی دور نکل جاتی ہیں، جہاں ندیوں کا علاقہ کافی تنگ ہو جاتا ہے اور شیر کے حملوں کا خوف بڑھ جاتا ہے۔

لکسبگان گاؤں کی رہنے والی پارول جب اپنی لکڑی کی کشتی کو لے کر گرل ندی میں پہنچتی ہیں، تو اپنی ترچھی نگاہوں سے باڑ کے دوسری طرف دیکھتی ہیں، جس کے آگے ماریچ جھاپی جنگل ہے۔ یہ جنگل جنوبی ۲۴ پرگنہ ضلع کے گوسابا بلاک میں واقع ان کے گاؤں سے کافی قریب ہے۔ اسی جنگل میں پارول کے شوہر، اِشر رنجیت ہالدار کو سات سال پہلے ایک شیر نے ہلاک کر دیا تھا۔

وہ چپّو کو کشتی کے کناروں پر ٹکا دیتی ہیں۔ وہ اپنی ماں، لوکھی منڈل (۵۶ سالہ) کے ساتھ بے انتہا گرمی میں شکار کے لیے باہر نکلتی ہیں۔ لوکھی بھی اپنی بیٹی کی طرح ایک ماہی گیر خاتون ہیں۔

اِشر سے شادی کے وقت پارول صرف ۱۳ سال کی تھیں۔ ان کے سسرال والے بہت غریب تھے، لیکن وہ مچھلیاں یا کیکڑے پکڑنے کے لیے کبھی جنگل میں نہیں گئے تھے۔ وہ بتاتی ہیں، ’’میں نے ہی انہیں یہاں آنے کے لیے راضی کیا تھا اور انہیں جنگل لے کر آئی تھی۔ سترہ سال کے بعد، ان کی اسی جنگل میں موت ہو گئی۔‘‘

پارول اس حادثہ کو یاد کرکے خاموش ہو جاتی ہیں۔ اِشر کی جب موت ہوئی، تب ان کی عمر صرف ۴۵ سال تھی۔ وہ اپنے پیچھے چار بیٹیاں چھوڑ گئے تھے، جن کی پرورش اب اکیلے ان کی بیوی پارول کر رہی ہیں۔

پسینے سے سرابور پارول اور لوکھی پھر سے بھاری چپوؤں کو چلانے لگی ہیں۔ وہ مینگروو کے جنگل سے محفوظ دوری بناتے ہوئے اپنی کشتی کو لے کر آگے بڑھتی ہیں، جسے ابھی ماہی گیروں کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ اپریل سے جون تک، مینگروو کے جنگل کو تین مہینے کے لیے ماہی گیروں کے لیے بند کر دیا جاتا ہے، تاکہ مچھلیوں کی آبادی دوبارہ بڑھ سکے۔ اس دوران، پارول گزر بسر کے لیے اپنے تالاب کی مچھلیاں بیچتی ہیں۔

Left: Parul Haldar recalls the death of her husband, Ishar Haldar.
PHOTO • Urvashi Sarkar
Right: A picture of Ishar Ronojit Haldar who was killed by a tiger in 2016
PHOTO • Urvashi Sarkar

بائیں: پارول ہالدار اپنے شوہر، اِشر ہالدار کی موت کے بارے میں بتاتی ہیں۔ دائیں: سال ۲۰۱۶ میں، شیر کے حملے میں مارے گئے اِشر رنجیت ہالدار کی تصویر

Left: A cross netted fence, beyond which lie the Marichjhapi forests in South 24 Parganas district.
PHOTO • Urvashi Sarkar
Right: Parul (background) learned fishing from her mother and Lokhi (yellow sari foreground) learned it from her father
PHOTO • Urvashi Sarkar

بائیں: جنوبی ۲۴ پرگنہ ضلع میں ماریچ جھاپی جنگل کے باہر لگا جالی دار باڑ۔ دائیں: پارول (پس منظر میں) نے اپنی ماں لوکھی (سامنے، پیلی ساڑی میں) سے اور لوکھی نے اپنے والد سے مچھلیاں پکڑنا سیکھا تھا

پارول، سندربن میں بنگال ٹائیگر (شیر) کے حملوں کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’کافی حادثات ہو رہے ہیں۔‘‘ سندربن دنیا میں واحد ایسا مینگروو جنگل ہے، جہاں شیر پائے جاتے ہیں۔ ’’تمام لوگ جنگل میں داخل ہو رہے ہیں اور حادثات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محکمہ جنگلات کے اہلکار ہمیں جنگل میں جانے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔‘‘

سندربن میں، خاص کر مچھلیوں کو پکڑنے کے سیزن میں شیر کے حملوں سے ہونے والی موت غیر معمولی واقعات نہیں ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، سال ۲۰۱۸ اور جنوری ۲۰۲۳ کے درمیان، سندربن ٹائیگر ریزرو میں صرف ۱۲ لوگوں کی موت ہوئی ہے، لیکن اصل میں یہ تعداد بہت زیادہ ہو سکتی ہے، کیوں کہ مقامی لوگ حملوں کی اس سے کہیں زیادہ وارداتوں کے بارے میں بتاتے ہیں۔

سرکار کی اسٹیٹس آف ٹائیگرز رپورٹ کے مطابق، سال ۲۰۲۲ میں سندربن میں شیروں کی آبادی ۱۰۰ تھی، جب کہ ۲۰۱۸ میں یہ تعداد ۸۸ تھی۔

*****

پارول ۲۳ سال کی عمر سے مچھلیاں پکڑنے کا کام کر رہی ہیں، اور انہوں نے یہ کام اپنی ماں سے سیکھا ہے۔

لوکھی محض ۷ سال کی تھیں جب انہوں نے مچھلیاں پکڑنا شروع کیا تھا۔ وہ اپنے والد کے ساتھ مچھلیاں پکڑنے کے لیے جنگل میں جاتی تھیں۔ ان کے شوہر، سنتوش منڈل (۶۴ سالہ) کی ۲۰۱۶ میں ایک شیر سے مڈبھیڑ ہو گئی تھی، جس میں وہ بال بال بچ گئے تھے۔

لوکھی بتاتی ہیں، ’’ان کے ہاتھ میں ایک چاقو تھا اور وہ شیر سے بھڑ گئے۔ لیکن، اس حملہ کے بعد ان کی ہمت جواب دے گئی اور وہ دوبارہ جنگل نہیں گئے۔‘‘ لیکن وہ نہیں رکیں۔ جب ان کے شوہر نے جنگل میں جانا چھوڑ دیا، تو وہ اپنی بیٹی پارول اور داماد اِشر کے ساتھ جنگل میں جانے لگیں؛ بعد میں ان کے داماد کی موت ہو گئی۔

وہ کہتی ہیں، ’’مجھ میں ہمت نہیں ہے کہ میں کسی اور کے ساتھ جنگل جاؤں۔ اور نہ ہی میں پارول کو اکیلے جانے دوں گی۔ جب تک میں زندہ ہوں، اس کے ساتھ جاتی رہوں گی۔ صرف اپنا خون ہی جنگل میں آپ کی جان بچا سکتا ہے۔‘‘

As the number of crabs decrease, Parul and Lokhi have to venture deeper into the mangrove forests to find them
PHOTO • Urvashi Sarkar

کیکڑوں کی آبادی گھٹنے کی وجہ سے پارول اور لوکھی کو انہیں پکڑنے کے لیے مینگروو کے جنگلوں میں کافی اندر تک جانا پڑتا ہے

Parul and Lokhi rowing across the River Garal
PHOTO • Urvashi Sarkar

گرل ندی میں کشتی چلاتے ہوئے پارول اور لوکھی

دونوں عورتیں بہت تال میل کے ساتھ  کشتی چلاتی ہیں، جہاں انہیں ایک دوسرے سے کچھ کہنے سننے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ایک بار جب کیکڑوں کے شکار کا موسم شروع ہوتا ہے، تو انہیں محکمہ جنگلات سے اجازت نامہ اور ایک کشتی کرایے پر لینی پڑتی ہے۔

پارول ۵۰ روپے یومیہ کرایے پر کشتی لیتی ہیں۔ اکثر، ان کے ساتھ کوئی تیسری عورت بھی ہوتی ہے۔ تینوں عورتوں کو کم از کم ۱۰ دنوں کے لیے جنگل میں رہنا پڑتا ہے۔ پارول کہتی ہیں، ’’ہم کشتی میں ہی سوتے اور کھاتے ہیں، اسی پر کھانا پکاتے ہیں۔ ہم اپنے ساتھ دال، چاول، پانی کا گیلن اور ایک چھوٹا چولہا لے کر آتے ہیں۔ ہم کسی بھی حال میں اپنی کشتی سے نہیں اترتے ہیں، یہاں تک کہ رفع حاجت کے لیے بھی نہیں۔‘‘ وہ اس کے لیے شیر کے حملوں کے بڑھتے واقعات کو ذمہ دار ٹھہراتی ہیں۔

’’شیر اب کشتی پر چڑھ آتے ہیں اور لوگوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ میرے شوہر کشتی پر ہی تھے جب ان پر حملہ ہوا تھا۔‘‘

مچھلیاں پکڑنے کے لیے جب وہ ۱۰ دنوں تک باہر رہتی ہیں، تب وہ بارش ہونے کے دوران بھی اپنی کشتی پر ہی رہتی ہیں۔ لوکھی کہتی ہیں، ’’کشتی کے ایک کونے میں کیکڑے رکھے ہوتے ہیں، دوسرے کونے میں ہم ہوتے ہیں اور تیسرے کونے میں چولہا رکھا ہوتا ہے۔‘‘

"We do not leave the boat under any circumstances, not even to go to the toilet,” says Parul
PHOTO • Urvashi Sarkar

پارول کہتی ہیں، ’ہم کسی بھی حال میں کشتی کو چھوڑ کر نہیں جاتے، یہاں تک کہ رفع حاجت کے لیے بھی نہیں‘

Lokhi Mondal demonstrating how to unfurl fishing nets to catch crabs
PHOTO • Urvashi Sarkar

لوکھی مونڈل کیکڑوں کو پکڑنے کے لیے جال پھیلا کر دکھا رہی ہیں

مرد ماہی گیروں کی طرح، جو اکثر جنگل میں جاتے رہتے ہیں، عورتیں بھی مچھلیاں پکڑنے کے دوران شیر کے حملوں کے خطرے کا سامنا کرتی ہیں۔ حالانکہ سندربن، جسے انسان اور جانوروں کے درمیان ٹکراؤ والے علاقے کے طور پر شمار کیا جاتا ہے، یہاں شیر کے حملوں میں کتنی خواتین کی موت ہوئی ہے، اس کے بارے میں کوئی ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔

’نیشنل پلیٹ فارم فار اسمال اسکیل فش ورکرز‘ چلانے والے پردیپ چٹرجی کہتے ہیں، ’’درج کی گئی ہلاکتوں میں زیادہ تر مرد ہیں۔ عورتوں پر بھی شیروں نے حملے کیے ہیں، لیکن اعداد و شمار جمع نہیں کیے گئے ہیں۔ عورتیں بھی جنگل میں جاتی ہیں، لیکن مردوں کے مقابلے ان کی تعداد کافی کم ہے۔‘‘ جنگل سے دوری بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ جن عورتوں کے گاؤں جنگل سے دور ہیں، وہ عموماً وہاں نہیں جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ، وہ صرف تبھی جاتی ہیں، جب دوسری عورتیں بھی وہاں جا رہی ہوں۔

پارول اور لوکھی کے گاؤں لکسبگان میں (۲۰۱۱ کی مردم شماری کی مطابق، جس کی آبادی ۴۵۰۴ تھی اور جس میں تقریباً ۴۸ فیصد خواتین تھیں) تقریباً ہر گھر کی عورتیں ماریچ جھاپی جنگل میں جاتی ہیں، جو گاؤں سے محض ۵ کلومیٹر دور ہے۔

کیکڑوں کی کافی اونچی قیمت ملتی ہے، اس لیے بھی لوگ خطرہ اٹھانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ پارول کہتی ہیں، ’’مچھلیاں بیچ کر کچھ خاص آمدنی نہیں ہوتی۔ کیکڑے آمدنی کا بنیادی ذریعہ ہیں۔ میں جب جنگل جاتی ہوں، تو تقریباً ہر روز ۵۰۰-۳۰۰ روپے کماتی ہوں۔‘‘ بڑے کیکڑے ۶۰۰-۴۰۰ روپے فی کلو کے حساب سے فروخت ہوتے ہیں، اور وہیں چھوٹے کیکڑوں کی قیمت ۸۰-۶۰ روپے فی کلو ہے۔ ایک بار کے سفر میں تین عورتیں مل کر تقریباً ۴۰-۲۰ کلو کیکڑے پکڑ کر لاتی ہیں۔

*****

شیر کے حملوں کے علاوہ، سندربن میں کیکڑا پکڑنے والوں کے سامنے دوسرا بڑا چیلنج یہ ہے کہ کیکڑوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ پارول کہتی ہیں، ’’کیکڑوں کو پکڑنے کے لیے اب کافی لوگ جنگل آنے لگے ہیں۔ پہلے کیکڑے بڑی تعداد میں ملتے تھے، لیکن اب انہیں پکڑنے کے لیے ہمیں خاصی محنت کرنی پڑتی ہے۔‘‘

چونکہ کیکڑوں کی تعداد گھٹتی جا رہی ہے، اس لیے ماہی گیر خواتین کو جنگلوں میں کافی اندر تک جانا پڑتا ہے، جہاں ان پر شیر کے حملوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

پردیپ کہتے ہیں کہ علاقے کے ماہی گیر اچھی تعداد میں کیکڑے یا مچھلیاں پکڑنے کے چکر میں ان مینگروو کے جنگلوں میں کافی اندر تک چلے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے ان پر شیروں کے حملے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ پردیپ کے مطابق، ’’محکمہ جنگلات کے اہلکار صرف شیروں کے تحفظ پر دھیان دیتے ہیں۔ لیکن اگر مچھلیاں نہیں بچیں گی، تو شیر بھی نہیں بچیں گے۔ اگر ندیوں میں مچھلیوں کی آبادی بڑھتی ہے، تو اس سے انسانوں اور جانوروں کی پریشانیاں بھی کم ہو جائیں گی۔‘‘

ندی سے لوٹ کر، پارول دوپہر کا کھانا بنانے میں مصروف ہو جاتی ہیں۔ وہ کھانے میں اپنے تالاب سے پکڑی ہوئی مچھلی پکاتی ہیں، چاول ابالتی ہیں، اور آم کی چٹنی میں چینی ملاتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ انہیں کیکڑا کھانا پسند نہیں ہے۔ ان کی ماں لوکھی بھی اس گفتگو میں شریک ہو جاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’کیکڑا نہ تو میں کھاتی ہوں اور نہ ہی میری بیٹی۔‘‘ اس کی وجہ پوچھنے پر وہ زیادہ کچھ تو نہیں بتاتیں، لیکن اس ’’حملے‘‘ کی طرف اشارہ کرتی ہیں جس میں ان کے داماد اِشر کی موت ہوئی تھی۔

Parul at home in her village Luxbagan, South 24 Parganas. None of her daughters work in the forest
PHOTO • Urvashi Sarkar
Parul at home in her village Luxbagan, South 24 Parganas. None of her daughters work in the forest
PHOTO • Urvashi Sarkar

پارول، جنوبی ۲۴ پرگنہ میں واقع لکسبگان گاؤں میں اپنے گھر پر ہیں۔ ان کی کوئی بھی بیٹی جنگل میں کام نہیں کرتی ہے

پارول کی چاروں بیٹیوں – پُشپِتا، پارومِتا، پاپیا اور پاپری – میں سے کوئی بھی جنگل میں کام کرنے نہیں جاتی۔ پشپتا اور پاپیا، مغربی بنگال کے دوسرے ضلعوں میں لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہیں جب کہ پارومِتا، بنگلورو میں ایک پرائیویٹ کمپنی میں کام کرتی ہیں۔ سب سے چھوٹی بیٹی، ۱۳ سالہ پاپری، لکسبگان کے پاس ایک ہاسٹل میں رہتی ہے، لیکن اس کی صحت ٹھیک نہیں ہے۔ پارول کہتی ہیں، ’’پاپری کو ٹائیفائیڈ اور ملیریا ہو گیا تھا، اس لیے مجھے اس کے علاج پر ۱۳ ہزار روپے خرچ کرنے پڑے۔ میں ہر مہینے اس کی ہاسٹل فیس بھی ادا کرتی ہوں، جو ۲۰۰۰ روپے ہے۔‘‘

پارول کی خود کی صحت بھی ٹھیک نہیں ہے۔ انہیں سینہ میں درد رہتا ہے اور اس سال وہ مچھلیاں یا کیکڑے پکڑنے کے لیے جنگل نہیں جا پائیں گی۔ وہ اب اپنی بیٹی پارومتا مستری کے ساتھ بنگلورو میں رہتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں، ’’کولکاتا میں ایک ڈاکٹر نے مجھ سے ایم آر آئی اسکین کرانے کے لیے کہا تھا، جس میں ۴۰ ہزار روپے کا خرچ آنا تھا۔ میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں۔‘‘ انہوں نے جنوبی ہندوستان کے اس شہر میں اپنی بیٹی اور داماد کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا؛ ان کی بیٹی اور داماد، دونوں ہی پرائیویٹ کمپنیوں کے لیے کام کرتے ہیں۔ پارول نے بنگلورو میں ایک ڈاکٹر سے بھی صلاح لی ہے، جس نے انہیں آرام کرنے اور ۶ مہینے تک دوا کھانے کے لیے کہا ہے۔

وہ کہتی ہیں، ’’مجھے لگتا ہے کہ لگاتار محسوس ہونے والے خوف کی وجہ سے میرے سینہ میں درد اٹھنے لگا۔ خاص کر تب، جب میں جنگل میں جاتی ہوں۔ میرے شوہر کو ایک شیر نے مار ڈالا تھا، اور میرے والد پر بھی شیر نے حملہ کیا تھا۔ اسی وجہ سے میرے سینے میں درد رہنے لگا۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Urvashi Sarkar is an independent journalist and a 2016 PARI Fellow.

Other stories by Urvashi Sarkar
Editor : Kavitha Iyer

Kavitha Iyer has been a journalist for 20 years. She is the author of ‘Landscapes Of Loss: The Story Of An Indian Drought’ (HarperCollins, 2021).

Other stories by Kavitha Iyer
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique