بکریاں، بھیڑ، مرغیاں، بھینس، قند، پتے، پھل – یہ تمام چیزیں نیامگیری کے سالانہ تہوار میں وافر مقدار میں دستیاب ہیں۔ اور جنوبی اوڈیشہ کے رائے گڑھ اور کالا ہانڈی ضلعوں کے آدیواسی بھی یہاں پر بڑی تعداد میں موجود ہیں۔

ہر سال ۲۲ سے ۲۵ فروری کے درمیان، جب کٹائی کے بعد فصل گھر پر آ جاتی ہے، ڈونگریا کوندھ آدیواسی نیئم راجہ کی پوجا کی تیاریاں شروع کر دیتے ہیں۔ ان کے اس قانون کے بادشاہ کی ترجمانی جنگلات سے بھری نیامگیری پہاڑیوں کے ذریعے ہوتی ہے۔ یہی نیامگیری کے سالانہ تہوار کا وقت ہوتا ہے، جس کی شروعات اُس وقت ہوئی تھی جب ’’دنیا کے اس حصے میں کوئی حکومت نہیں تھی…تب یہاں پر [صرف] ڈونگریا رہا کرتے تھے،‘‘ لوڈو سیکوکا بتاتے ہیں۔ ’’یہ وہ زمانہ تھا، جب ان کی برادری کے لوگ ’’کافی خوش تھے، پوری آزادی اور عزت کے ساتھ زندگی گزارتے تھے، اور ہماری زبان میں بات کرتے تھے۔ اس وقت جنگلات بھی کافی گھنے ہوا کرتے تھے جن میں بے شمار پانی کے چشمے بہتے تھے، اور یہ علاقہ جنگلاتی حیات سے بھرا ہوا تھا۔‘‘ سیکوکا ایک ڈونگریا کوندھ آدیواسی، اور خطہ میں باکسائٹ کی کان کنی سے آدیواسیوں اور پہاڑیوں کو بچانے کے لیے ۲۰۰۳ میں تشکیل کردہ تنظیم ’نیامگیری سرکشا سمیتی‘ کے لیڈر بھی ہیں۔ (دیکھیں: ’پہاڑ، جنگل اور ندیاں ہیں ہمارے دیوتا‘ )

’’آدیواسی لوگ قدرت اور ماحولیات کے علاوہ کسی اور دیوتا کی پوجا نہیں کرتے،‘‘ لنگ راج آزاد کہتے ہیں، جو کالا ہانڈی ضلع کے کیسنگ میں مقیم ایک کارکن، اور سمیتی کے کنوینر ہیں۔ ’’کُئی زبان میں وہ زمین کی دیوی ’دھرنی پینو‘ کی بات کرتے ہیں، اور ’ہورو‘ یعنی پہاڑ کو اپنا بھگوان مانتے ہیں۔ پانی، جنگل، درخت اور ہوا کو بھی زندگی کی بنیاد مانا جاتا ہے اور ان کی پوجا بھی کی جاتی ہے۔ اسی لیے جب [حکومت کے ذریعے] ویدانتا کو زمین دینے کی تجویز پیش کی گئی، تو ہم لوگوں نے نیامگیری کی پہاڑیوں میں کان کنی کے خلاف پرزور احتجاج کیا تھا۔‘‘

ڈونگریا آدیواسی لمبے عرصے سے سرکاری ملکیت والے اوڈیشہ مائننگ کارپوریشن اور برطانوی ملٹی نیشنل کمپنی، اسٹرلائٹ انڈسٹریز (اب ’ویدانتا‘) کے پروجیکٹ کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ اس پروجیکٹ کے تحت ریاست کی لنجی گڑھ تحصیل میں ویدانتا کی ریفائنری کے لیے باکسائٹ (جس کا استعمال ایلومینیم بنانے میں ہوتا ہے) کی خاطر ان کی مقدس پہاڑیوں میں کان کنی کا منصوبہ ہے۔ حالانکہ، سال ۲۰۱۳ میں سپریم کورٹ کے حکم پر عوامی ریفرنڈم (استصواب) کرایا گیا تھا، جس میں ڈونگریا کوندھ اور دیگر قبائلی گروہوں کی ۱۲ گرام سبھاؤں نے کان کنی کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ باوجود اس کے، اوڈیشہ حکومت ماحولیاتی طور پر ان حساس پہاڑیوں میں کان کنی کی اجازت حاصل کرنے کے لیے عدالت میں لگاتار عرضیاں لگا رہی ہے۔

ویڈیو دیکھیں: نیامگیری تہوار میں گانا اور رقص

’انہوں نے نہ صرف جنگلات اور نیامگیری کو بچانے، بلکہ اپنے طرز زندگی، اپنی زبان، پوشاک، ثقافت اور معاش کی حفاظت کے لیے بھی ویدانتا کے خلاف تحریک شروع کی تھی‘

’’انہوں نے نہ صرف جنگلات اور نیامگیری کو بچانے، بلکہ اپنے طرز زندگی، اپنی زبان، پوشاک، ثقافت اور معاش کی حفاظت کے لیے بھی ویدانتا کے خلاف تحریک شروع کی تھی،‘‘ آزاد بتاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آدیواسیوں کا مشترکہ طور پر یہی ماننا ہے کہ ہوا، پانی، آگ، زمین، جنگل اور آسمان زندگی کے ضروری عناصر ہیں اور انسانوں اور جانوروں کی مسلسل بقا کے لیے ان کی بہت اہمیت ہے۔ ’’ایسا وہ صرف سوچتے نہیں ہیں، بلکہ اپنی روزمرہ کی زندگی میں اس [فلسفہ] پر عمل بھی کرتے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ، غیر قبائلی ثقافتوں کے ساتھ ڈونگریا آدیواسیوں کی میل جول سے قدرت پر مبنی ان کا یہ فلسفہ دوسرے لوگوں تک بھی پہنچا ہے۔ اور کان کنی کے خلاف ان کی تاریخی لڑائی نے نیئم راجہ کے تہوار کو اتنا مشہور بنا دیا ہے کہ ہر سال بڑی تعداد میں کارکن اور نامہ نگار بھی اس تہوار میں پہنچتے ہیں۔

نیامگیری سطح مرتفع میں ہر سال منایا جانے والا یہ تہوار ’جل (پانی)، جنگل، زمین‘ کی تحریکوں کے لیے ایک غیر رسمی پلیٹ فارم بن چکا ہے، جہاں کئی ریاستوں اور دہلی، کولکاتا، بھونیشور اور بارگڑھ جیسے کئی شہروں سے لوگ آتے ہیں۔ ’’ہم جو تہوار مناتے ہیں، وہ سب کو متحد کرنے والا تہوار ہے۔ اوڈیشہ اور پورے ہندوستان کی تحریکوں کا اتحاد ہے،‘‘ ستی مہر کہتی ہیں، جو کالا ہانڈی ضلع کے بھوانی شہر سے فروری میں نیامگیری آئی تھیں۔

لیکن اس کے زیادہ تر شرکاء اب بھی سات گاؤں کی پنچایتوں سے ہی آتے ہیں – یعنی مُنی کھل، دہی کھل، ہاٹ مُنی گڑا، کرلی، سنکھے مُنڈی، پرسالی اور ترلوچن پور۔ نیامگیری کی پہاڑیوں میں تقریباً ۱۰۰ ڈونگریا گاؤوں ہیں اور پہاڑیوں کے دامن میں مزید ۱۸۰ گاؤوں آباد ہیں، اور ہر گاؤں میں ۱۰ سے ۳۰ کنبے رہتے ہیں۔

اس تہوار کے لیے ہر گھر سے ۳۰ روپے کا چندہ اکٹھا کیا جاتا ہے؛ ہر فیملی اناج اور چاول بھی لے کر آتی ہے۔ یہ تمام چیزیں قبائلی کمیٹی کے حوالے کر دی جاتی ہیں۔ یہ کمیٹی تہوار میں شریک ہونے والے ہر شخص کو چاول، دال اور سبزیوں پر مشتمل کھانا پیش کرنے کے لیے کھلے میدان میں کمیونٹی کچن بناتی ہے۔ نیئم راجہ کو جانور اور مرغیاں چڑھائی جاتی ہیں اور انہیں پکا کر کھانے میں بھی پیش کیا جاتا ہے۔

ڈونگریا کوندھ آدیواسیوں کا شمار خاص طور پر کمزور قبائلی گروپ میں ہوتا ہے، جن کے لیے یہ تہوار اپنی روایات کو برقرار رکھنے کا ایک ذریعہ ہے۔ ’’اس تہوار کو مناتے وقت ہم خوشیوں سے بھر جاتے ہیں، اس سے ہمارے دیوی دیوتا بھی خوش ہوتے ہیں،‘‘ لوڈو کہتے ہیں۔ ’’پہاڑ کے دیوتا خوش ہو جاتے ہیں، ندی کے دیوتا، زمین کے دیوتا اور جنگل کے دیوتا بھی خوش ہوتے ہیں – اس تہوار میں ہر کوئی خوش ہوتا ہے۔‘‘

Tribal women walking in a field with a load on their heads
PHOTO • Purusottam Thakur

نیامگیری کے سالانہ تہوار کے لیے انلا بھاٹا گاؤں کے قریب واقع سطح مرتفع کی طرف جاتی ہوئی آدیواسی عورتیں

Three tribal women, who are priests, dancing after conducting their rituals
PHOTO • Purusottam Thakur

یہ ڈونگریا قبیلہ کی خواتین پجاری ہیں، جنہیں بیجونی کہا جاتا ہے۔ رسم کی ادائیگی کے بعد، وہ نیئم راجہ کی نمائندگی کرنے والے دیوتا کے سامنے رقص کرتی ہیں

Tribal men dancing with their axes
PHOTO • Purusottam Thakur

ڈونگریا کوندھ کلہاڑی کا احترام کرتے ہیں؛ اسے کام کرنے کے آلہ کے ساتھ ساتھ موسیقی کے آلہ کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے

People sitting and resting in the shade of trees
PHOTO • Purusottam Thakur

چھوٹے آدیواسی لڑکوں نے تہوار کے مقام پر اپنے لیے الگ سے ایک جگہ ڈھونڈ لی ہے، تاکہ آرام سے وہاں بیٹھ سکیں اور درختوں پر چڑھ سکیں

Tribal women cooking in an open field
PHOTO • Purusottam Thakur

آدیواسی لوگ تہوار میں آنے والے ہر ایک شخص کو کھانے میں پیش کرنے کے لیے کھلے میدان میں بنائے گئے کمیونٹی کچن میں دال، سبزیاں، چاول اور گوشت پکاتے ہیں

Rice being stored on a wooden platform
PHOTO • Purusottam Thakur

پکے ہوئے چاول کو لکڑی سے بنائے گئے ایک پلیٹ فارم پر رکھا جاتا ہے

Tribal women walking uphill carrying water on their heads
PHOTO • Purusottam Thakur

کمیونٹی کچن کے لیے تقریباً آدھا کلومیٹر دور بہنے والے ایک چشمہ سے پانی لایا جاتا ہے – اس محنت بھرے کام کو ہر کوئی اپنی خوشی سے کرتا ہے

Tribal women wearing their colourful jewellery
PHOTO • Purusottam Thakur

اپنے روایتی کپڑوں اور زیورات میں ملبوس یہ آدیواسی عورتیں دعوت میں جانے کی تیاری کر رہی ہیں

A young tribal girl wearing her traditional jewellery
PHOTO • Purusottam Thakur

ڈونگریا آدیواسیوں کی نوجوان نسل بھی اپنی برادری کی روایات اور رسومات میں برابر شریک ہوتی ہے

A tribal man wearing necklaces and a nose ring
PHOTO • Purusottam Thakur

ڈونگریا آدیواسی عورت اور مرد کو برابری کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ لڑکے اور مرد تہوار کے دوران اپنے جسم کو سجاتے ہیں؛ مرد اور عورتوں کے کپڑے اور زیور ایک جیسے ہوتے ہیں

A tribal woman and a young tribal girl in their traditional attire
PHOTO • Purusottam Thakur

ایک خاندان کی دو نسلیں، ایک جیسے اور پیچیدہ لباس میں ملبوس، تقریبات میں شرکت کے لیے تیار ہیں

Tribals huddled next to a campfire in the evening
PHOTO • Purusottam Thakur

یہ تہوار انلا بھاٹا گاؤں کے قریب نیامگیری پہاڑی کی سطح مرتفع میں منایا جاتا ہے۔ چونکہ یہ جگہ کسی گاؤں یا گھر سے دور ہے، اس لیے آدیواسی کھلے میں ہی سوتے ہیں۔ خود کو گرم رکھنے اور آپس میں بات چیت کے لیے شام کے وقت آگ جلائی جاتی ہے

Tribals standing around a campfire at night
PHOTO • Purusottam Thakur

نوجوان مرد، عورتوں سے ملنے اور اپنے لیے کسی ممکنہ شریک حیات کی تلاش میں کیمپ فائر کی جگہ موجود ایک گروپ سے دوسرے گروپ کی طرف جاتے ہیں

Groups of tribals sitting on the ground after the festivities
PHOTO • Purusottam Thakur

نیامگیری سطح مرتفع میں الگ الگ جگہوں پر رات گزارنے والے یہ گروپ، صبح سویرے اپنے کیمپ فائر کے قریب بیٹھے ہیں، جن سے اب بھی تھوڑا بہت دھواں نکل رہا ہے

مترجم: محمد قمر تبریز

Purusottam Thakur

Purusottam Thakur is a 2015 PARI Fellow. He is a journalist and documentary filmmaker and is working with the Azim Premji Foundation, writing stories for social change.

Other stories by Purusottam Thakur
Editor : Sharmila Joshi

Sharmila Joshi is former Executive Editor, People's Archive of Rural India, and a writer and occasional teacher.

Other stories by Sharmila Joshi
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique