عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا یہ ببلو کوئیبرتو کا دوسرا موقع ہے۔

پچھلے الیکشن میں جب ببلو پہلی بار ووٹ ڈالنے گئے تھے، تو انتخابی اہلکاروں نے انہیں اندر جانے کی اجازت دے دی تھی۔ انہیں قطار میں لگ کر انتظار نہیں کرنا پڑا تھا۔ مگر جب وہ مغربی بنگال کے پرولیا ضلع کے پلما گاؤں میں پولنگ سنٹر پر پہنچے، تو انہیں معلوم نہیں تھا کہ وہ اپنا ووٹ کیسے ڈالیں گے۔

ببلو (۲۴) کو آنکھ سے دکھائی نہیں دیتا اور مقامی پرائمری اسکول میں بریل بیلیٹ پیپر یا بریل ای وی ایم (الیکٹرانک ووٹنگ مشین) کا کوئی انتظام نہیں تھا، جو ۲۰۱۹ کے عام انتخابات میں ایک پولنگ سنٹر بھی تھا۔

’’مجھے نہیں معلوم تھا کہ کیا کروں۔ اگر میری مدد کرنے والے نے انتخابی نشانات کے بارے میں جھوٹ بول دیا ہوتا، تب کیا ہوتا؟‘‘ انڈر گریجویٹ سائل دوئم کے طالب علم ببلو سوال کرتے ہیں۔ ان کی دلیل ہے کہ بھلے ہی اس آدمی نے سچ کہا ہو، لیکن رازدارانہ ووٹنگ کے اس کے جمہوری حق کی بھی خلاف ورزی ہوگی۔ تھوڑا گھبراتے ہوئے ببلو نے پھر بھی اس کے ذریعے بتائے گئے بٹن کو ہی دبایا اور باہر آ کر اس کی تصدیق کی۔ وہ کہتے ہیں، ’’شکر ہے کہ اس انسان نے مجھ سے جھوٹ نہیں بولا۔‘‘

ہندوستان کا الیکشن کمیشن پی ڈبلیو ڈی (جسمانی طور سے معذور افراد) کے لیے بوتھوں پر بریل بیلیٹ پیپر اور ای وی ایم کے استعمال کا انتظام کرتا ہے۔ کولکاتا واقع ’شروتی ڈس ایبیلٹی رائٹس سنٹر‘ کی ڈائرکٹر شمپا سین گپتا کہتی ہیں، ’’کاغذ پر کئی قسم کے انتظامات ہیں۔ مگر ان کے اوپر عمل ناقص ہے۔‘‘

عام انتخابات ایک بار پھر سر پر ہیں، مگر ببلو اسے لے کر پس و پیش میں ہیں کہ انہیں انتخاب کے چھٹے مرحلہ میں اپنا ووٹ ڈالنے کے لیے گھر جانا چاہیے یا نہیں۔ ببلو پرولیا میں ووٹر ہیں جہاں ۲۵ مئی کو ووٹنگ ہونی ہے۔

PHOTO • Prolay Mondal

ببلو کوئیبرتو اس پس و پیش میں ہیں کہ  وہ ۲۵ مئی کو ووٹ ڈالنے گھر جائیں یا نہیں۔ پچھلی بار انہوں نے ووٹ دیا تھا، تو بریل ای وی ایم یا بریل بیلیٹ نہیں تھا۔ حالانکہ، اس کی دستیابی ہی واحد فکرمندی نہیں ہے، بلکہ ان کی تشویشیں مالی بھی ہیں

ان کے جیسے جسمانی طور سے معذور افراد کے لیے سہولیات کی کمی ہی اس غیر یقینی حالت کی واحد وجہ نہیں ہے۔ پرولیا سے کولکاتا کا فاصلہ ٹرین سے چھ سے سات گھنٹے کا ہے۔ ببلو کولکاتا میں ہی اپنی یونیورسٹی کے ہاسٹل میں رہتے ہیں۔

ببلو بتاتے ہیں، ’’مجھے پیسوں کے بارے میں سوچنا ہوتا ہے۔ مجھے ابھی بھی اپنے ٹکٹ اور اسٹیشن تک بس کا کرایہ دینا ہوتا ہے۔‘‘ ہندوستان میں عام معذوری والے ۲ کروڑ ۶۸ لاکھ لوگوں میں سے ایک کروڑ ۸۰ لاکھ سے زیادہ کا تعلق گاؤوں سے ہے اور ۱۹ فیصد معذور بینائی سے محروم ہیں (مردم شماری ۲۰۱۱)۔ شمپا کہتی ہیں کہ ضابطوں پر جو عمل درآمد ہوتا بھی ہے، تو وہ کافی حد تک شہری علاقوں تک ہی محدود رہتا ہے۔ وہ مزید کہتی ہیں، ’’اس قسم کی بیداری تبھی ممکن ہے، جب الیکشن کمیشن پہل کرے اور اس کا ایک ذریعہ ریڈیو ہونا چاہیے۔‘‘

جب اس رپورٹر نے کولکاتا کی جادوپور یونیورسٹی میں ’سنٹر فار پرسنز ود ڈس ایبیلٹیز‘ میں ببلو سے بات کی، تو وہ بولے، ’’میں پس و پیش میں ہوں کہ کسے ووٹ دوں۔‘‘

ببلو کی شکایت ہے، ’’میں کسی کو یہ سوچ کر ووٹ دیتا ہوں کہ ان کی پارٹی یا ان کے لیڈر اچھا کام کر رہے ہیں۔ انتخاب کے بعد وہ دوسری طرف جا سکتے ہیں۔‘‘ پچھلے کچھ سالوں میں اور خاص کر ۲۰۲۱ میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات سے پہلے مغربی بنگال میں کئی لیڈروں کو کئی بار پارٹی بدلتے دیکھا گیا ہے۔

*****

ببلو اسکول و کالج میں ٹیچر بننا چاہتے ہیں، یعنی ایک عدد سرکاری نوکری جو انہیں مستقل آمدنی فراہم کر سکے۔

ریاست کا اسکول سروس کمیشن (ایس ایس سی) غلط وجوہات سے موضوع گفتگو رہتا ہے۔ سابق پروفیسر اور ریاستی ہائر سیکنڈری کونسل کی صدر گوپا دتہ کہتی ہیں، ’’کبھی کمیشن [نوجوانوں کے لیے] روزگار کا ایک اہم ذریعہ ہوا کرتا تھا۔ ایسا اس لیے کیوں کہ اسکول ہر جگہ ہیں، گاؤوں، چھوٹے شہروں اور بڑے شہروں میں اسکول ٹیچر بننے کی کئی لوگوں کی تمنا ہوتی تھی۔

PHOTO • Prolay Mondal

ببلو کہتے ہیں، ’میرا پکّا نہیں ہے کہ کسے ووٹ دوں گا۔‘ انہیں تشویش ہے کہ جس امیدوار کو انہوں نے ووٹ دیا ہے، وہ نتائج کا اعلان ہونے کے بعد پارٹی تبدیل کر سکتا ہے، جو کہ پچھلے پانچ سالوں میں مغربی بنگال میں عام بات رہی ہے

پچھلے سات آٹھ سال میں تقرری کا عمل سوالوں کے گھیرے میں رہا ہے۔ ایک اپارٹمنٹ میں نوٹوں کے بنڈل ملے، وزیر جیل گئے، امیدوار غیر جانبدار اور شفاف عمل کا مطالبہ کرتے ہوئے مہینوں پرامن طریقے سے دھرنے پر بیٹھے رہے اور حال ہی میں کولکاتا ہائی کورٹ نے ۲۵ ہزار سے زیادہ لوگوں کی تقرری ردّ کر دی۔ مئی کے پہلے ہفتہ میں ہندوستان کے سپریم کورٹ نے اس فیصلہ پر روک لگا دی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ اہل اور نا اہل امیدواروں کے درمیان فرق کیا جانا چاہیے۔

حالات کا ذکر کرتے ہوئے ببلو کہتے ہیں، ’’مجھے ڈر ہے۔ میں نے سنا ہے کہ ان میں ۱۰۴ امیدوار نابینا تھے۔ شاید وہ اہل تھے۔ کیا کسی نے ان کے بارے میں سوچا؟‘‘

صرف ایس ایس سی تقرری کے معاملے میں ہی نہیں، ببلو کو لگتا ہے کہ افسروں نے معذور افراد کی ضروریات کو بڑے پیمانے پر نظر انداز کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’مغربی بنگال میں نابینا افراد کے لیے اتنے اسکول نہیں ہیں۔ ہمیں مضبوط بنیاد بنانے کے لیے خصوصی اسکول چاہیے۔‘‘ مواقع کی کمی کے سبب انہیں اپنا گھر چھوڑنا پڑا اور چاہنے کے باوجود جب کالج منتخب کرنے کا وقت آیا، تو وہ واپس نہیں لوٹ پائے۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں نے کبھی کسی سرکار کو یہ کہتے نہیں سنا کہ وہ معذور لوگوں کے بارے میں سوچ رہی ہے۔‘‘

پھر بھی، ببلو ہمیشہ مثبت سوچتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’نوکری تلاش کرنے سے پہلے میرے پاس ابھی کچھ سال ہیں۔ مجھے امید ہے کہ چیزیں بدل جائیں گی۔‘‘

تقریباً ۱۸ سال کی عمر کے بعد سے ببلو اپنی فیملی کے واحد کمانے والے رکن ہیں۔ ان کی بہن بونورانی کوئیبرتو کلکتہ بلائنڈ اسکول میں نویں جماعت کی طالبہ ہیں۔ ان کی ماں سندھیا پلما میں رہتی ہیں۔ یہ فیملی کوئیبرتو برادری (ریاست میں درج فہرست ذات کے طور پر درج) سے ہیں، جن کا روایتی کام مچھلی پکڑنا ہے۔ ببلو کے والد مچھلی پکڑتے اور بیچتے تھے۔ مگر انہیں کینسر ہونے کے بعد ان کی جو بھی تھوڑی بہت بچت تھی، وہ علاج میں خرچ ہو گئی۔

سال ۲۰۱۲ میں ان کے والد کے انتقال کے بعد ببلو کی ماں نے کچھ سال باہر کام کیا۔ ببلو بتاتے ہیں، ’’وہ سبزیاں بیچتی تھیں، مگر اب ۵۰ کی عمر میں وہ زیادہ محنت نہیں کر پاتیں۔‘‘ سندھیا کوئیبرتو کو ۱۰۰۰ روپے بیوہ پنشن ملتی ہے۔ ببلو بتاتے ہیں، ’’انہیں یہ پچھلے سال اگست- ستمبر سے ملنی شروع ہوئی ہے۔‘‘

PHOTO • Antara Raman

’میں نے کبھی کسی سرکار کو یہ کہتے نہیں سنا کہ وہ معذور افراد کے بارے میں سوچ رہی ہے‘

بلبو کی اپنی آمدنی کا ذریعہ ہے ٹیوشن اور پرولیا میں مقامی اسٹوڈیو کے لیے موسیقی تیار کرنا۔ انہیں ’مانبِک پنشن‘ اسکیم کے تحت ہر مہینے ۱۰۰۰ روپے بھی ملتے ہیں۔ تربیت یافتہ گلوکار ببلو بانسری اور سنتھیسائزر بھی بجاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے گھر میں ہمیشہ سے موسیقی کا ماحول تھا۔ ’’میرے ٹھاکردا [دادا] ربی کوئیبرتو، پرولیا میں ایک مشہور فوک آرٹسٹ تھے۔ وہ بانسری بجاتے تھے۔‘‘ حالانکہ، ببلو کی پیدائش سے بہت پہلے ہی ان کا انتقال ہو گیا تھا، مگر ان کے پوتے کو لگتا ہے کہ موسیقی کے تئیں محبت انہیں وراثت میں ملی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’میرے والد بھی یہی کہا کرتے تھے۔‘‘

ببلو جب پرولیا میں تھے، تب انہوں نے گھر پر ریڈیو پر پہلی بار بانسری سنی تھی۔ وہ یاد کرتے ہیں، ’’میں بنگلہ دیش کے کھلنا اسٹیشن سے خبریں سنا کرتا تھا اور وہ لوگ شروع میں بانسری بجانے کا پروگرام رکھا کرتے تھے۔ میں اپنی ماں سے پوچھتا تھا کہ وہ کون سی موسیقی تھی۔ جب انہوں نے بتایا کہ یہ بانسری ہے، تو ببلو کو سمجھ نہیں آیا۔ انہوں نے صرف بھونپو دیکھی تھی، یعنی ایسی بانسری جس سے بہت تیز آواز نکلتی ہے اور جسے وہ بچپن میں بجایا کرتے تھے۔ کچھ ہفتے بعد ان کی ماں نے ان کے لیے ایک مقامی میلہ سے ۲۰ روپے میں بانسری خریدی۔ مگر اسے بجانا سکھانے والا کوئی نہیں تھا۔

سال ۲۰۱۱ میں پرولیا کے بلائنڈ اسکول کے خراب تجربے کے بعد ببلو کو دو سال تک گھر پر رہنا پڑا۔ اس کے بعد وہ کولکاتا کے باہری علاقے نریندر پور میں بلائنڈ بوائز اکادمی میں چلے گئے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’ایک رات کچھ ایسا ہوا جس سے میں ڈر گیا۔ اسکول کا بنیادی ڈھانچہ بہت خراب تھا اور طلباء کو رات میں اکیلے چھوڑ دیا جاتا تھا۔ اس واقعہ کے بعد میں نے والدین سے مجھے گھر لے جانے کو کہا۔‘‘

اپنے نئے اسکول میں ببلو کو موسیقی سیکھنے کے لیے ترغیب دی گئی۔ انہوں نے وہاں بانسری اور سنتھیسائزر دونوں بجانا سیکھا اور وہ اسکول آرکسٹرا کا حصہ تھے۔ اب وہ پرولیا کے فنکاروں کے گائے گیتوں کے لیے انٹرلیوڈ ریکارڈ کرنے کے علاوہ اکثر تقاریب میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہر اسٹوڈیو ریکارڈنگ پر انہیں ۵۰۰ روپے مل جاتے ہیں۔ ببلو کے مطابق، یہ آمدنی کا مستقل ذریعہ نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں، ’’میں موسیقی کو کریئر کے طور پر نہیں اپنا سکتا۔ میرے پاس اسے وقف کرنے کے لیے اتنا وقت نہیں ہے۔ میں ٹھیک سے نہیں سیکھ پایا، کیوں کہ ہمارے پاس پیسے نہیں تھے۔ اب فیملی کی دیکھ بھال کرنا بھی میری ہی ذمہ داری ہے۔‘‘

مترجم: قمر صدیقی

Sarbajaya Bhattacharya

Sarbajaya Bhattacharya is a Senior Assistant Editor at PARI. She is an experienced Bangla translator. Based in Kolkata, she is interested in the history of the city and travel literature.

Other stories by Sarbajaya Bhattacharya
Editor : Priti David

Priti David is the Executive Editor of PARI. She writes on forests, Adivasis and livelihoods. Priti also leads the Education section of PARI and works with schools and colleges to bring rural issues into the classroom and curriculum.

Other stories by Priti David
Illustration : Antara Raman

Antara Raman is an illustrator and website designer with an interest in social processes and mythological imagery. A graduate of the Srishti Institute of Art, Design and Technology, Bengaluru, she believes that the world of storytelling and illustration are symbiotic.

Other stories by Antara Raman
Photographs : Prolay Mondal

Prolay Mandal has an M.Phil from the Department of Bengali, Jadavpur University. He currently works at the university's School of Cultural Texts and Records.

Other stories by Prolay Mondal
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique