تین انگلیاں، ایک گیلا کپڑے کا ٹکڑا اور ہلکا سا لمس۔ ’’مجھے بہت احتیاط برتنی پڑتی ہے۔‘‘

وجیئہ اُس پوترے کُلو مٹھائی کو بنانے کے بارے میں بتا رہی ہیں، جو ساحلی آندھرا پردیش کی مقامی مٹھائی ہے۔ چاول کے اسٹارچ کی مہین کاغذی فلموں سے اور گُڑ اور خشک میوے بھر کر بنائی جانے والی یہ مٹھائی تہوار کے سیزن میں کافی فروخت ہوتی ہے۔ وجیئہ مٹھائی بنانے کے ہنر میں ماہر ہیں اور روزانہ تقریباً ۲۰۰ ریکو بنا لیتی ہیں۔ انہیں مٹھائی بیچنے والے مقامی دکاندار خریدتے ہیں۔ انہوں نے پاری کو بتایا، ’’جب میں پوترے کُلو بناتی ہوں، تو مجھے اپنی پوری توجہ اسی پر مرکوز کرنی پڑتی ہے۔ اس درمیان میں کسی سے بات بھی نہیں کر سکتی۔‘‘

اتریا پورم کے رہائشی جی رام کرشن کہتے ہیں، ’’میرے گھر میں کوئی بھی تہوار، پوجا پاٹھ یا کوئی خاص پروگرام پوترے کُلو کے بغیر ادھورا رہتا ہے۔‘‘ رام کرشن، اتریا پورم میں کچھ دکانوں کو پیکنگ کے سامان اور ڈبے دلانے میں مدد کرتے ہیں۔ وہ فخر سے بتاتے ہیں، ’’مجھے یہ واقعی بہت پسند ہے، کیوں کہ یہ مٹھائی حیرت میں ڈال دیتی ہے! پہلی بات تو یہ کاغذ کی طرح دکھائی دیتی ہے، اور آپ سوچتے ہیں کہ آپ کاغذ کھا رہے ہیں۔ مگر جب آپ اسے کھاتے ہیں، تو یہ آپ کے منہ میں گھل جاتی ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ دنیا میں اس جیسی کوئی دوسری مٹھائی ہوگی۔‘‘

آندھرا پردیش کے ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کونسیما ضلع میں ہونے والے چاول سے یہ نازک مٹھائی بنتی ہے۔ مٹھائی بنانے والی کایلا وجیئہ کوٹا ستیہ وتی بتاتی ہیں کہ یہ ’’چاول چپچپا ہوتا ہے، اس لیے کوئی بھی اسے ریکو [مٹھائی کے لیے شیٹ] بنانے کے علاوہ کسی اور چیز میں استعمال نہیں کرتا۔‘‘ ستیہ وتی کا تعلق رام چندر پورم بلاک کے اتریا پورم گاؤں سے ہے۔ اتریا پورم کے پوترے کُلو کو ۲۰۲۳ میں جغرافیائی نشان یعنی جی آئی ٹیگ ملا۔ یہ جی آئی ٹیگ ۱۴ جون، ۲۰۲۳ کو وشاکھاپٹنم میں سر آرتھر کاٹن آتریا پورم پوترے کُلا مینوفیکچررز ویلفیئر ایسوسی ایشن کو دیا گیا تھا۔

پوترے کُلو کے لیے ملا جی آئی ریاست میں کسی غذائی اشیاء کو ملا تیسرا ایوارڈ ہے (اس سے پہلے، یہ تروپتی لڈو اور بندر لڈو کو ملا تھا)۔ آندھرا پردیش میں دستکاری، غذائی اشیاء، زرعی اشیاء اور دیگر متعدد زمروں میں جی آئی والی ۲۱ مصنوعات ہیں۔ پچھلے سال پوترے کُلو کے ساتھ، گوا کی بیبِنکا مٹھائی کو بھی جی آئی ٹیگ ملا تھا اور اس سے پہلے مُرینا کی گزک اور مظفر نگر کے گُڑ کو بھی جی آئی ٹیگ دیا گیا تھا۔

Left: Vijaya’s works in a small corner of her house. She calls this her workspace. It’s filled with the inverted pot, rice batter, dry coconut leaves and an old pickle jar amongst other things.
PHOTO • Amrutha Kosuru
Right: Jaya biyyam is a special kind of rice is used to make poothareku . The rice is soaked for 30-45 minutes before grinding it into a batter that is used to make the thin films or rekulu.
PHOTO • Amrutha Kosuru

بائیں: وجیئہ اپنے گھر کے ایک چھوٹے سے کونے میں کام کرتی ہیں۔ اسے وہ اپنا میدان عمل کہتی ہیں۔ ان کی جگہ دوسری چیزوں کے علاوہ اُلٹے رکھے برتنوں، چاول کی لیئی، خشک ناریل کے پتوں اور ایک پرانے اچار کے مرتبان سے بھری رہتی ہے۔ دائیں: جایا بیئم وہ خاص چاول ہے، جس کا استعمال پوترے کُلو بنانے میں ہوتا ہے۔ چاول کو لیئی کی شکل میں پیسنے سے پہلے آدھا سے پون گھنٹے تک بھگویا جاتا ہے، جس کا استعمال پتلی فلم یا ریکُلو بنانے میں کیا جاتا ہے

تجربہ کار مٹھائی بنانے والی وجیئہ سال ۲۰۱۹ سے ریکو بنا رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں ہمیشہ اس میں اپنی پوری توجہ مرکوز کرنی پڑتی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں دوسری مٹھائیاں بناتے وقت آرام سے لوگوں سے بات کر پاتی ہوں، کیوں کہ انہیں بنانا آسان ہوتا ہے،‘‘ اور اس لیے وہ اپنی فیملی کے لیے مٹھائیاں بناتی ہیں، جیسے سُنون ڈَلو ، کووا وغیرہ۔ سُنون ڈَلو گھی میں بھنی باریک پِسی اڑد کی دال اور چینی یا گُڑ سے بنے لڈو ہوتے ہیں۔

وجیئہ بتاتی ہیں، ’’میں اپنی فیملی اور اپنے لیے پیسے کمانا چاہتی تھی۔ میں کوئی دوسرا کام نہیں جانتی، اس لیے میں اس میں آ گئی۔‘‘ وجیئہ بتاتی ہیں کہ انہوں نے کیسے ریکو کو مٹھائی کی دکانوں میں بیچنا شروع کیا۔ وہ بیچنے کے لیے کوئی دوسری مٹھائی نہیں بناتیں۔

مہینے کی شروعات میں وہ مقامی بازار سے ۵۰ کلو کھلا چاول خریدتی ہیں۔ پوترے کُلو بنانے کے لیے صرف جایا بیئم کا استعمال ہوتا ہے اور ایک کلو ۳۵ روپے میں ملتا ہے۔ وجیئہ بتاتی ہیں، ’’ایک بار پکنے کے بعد یہ چاول بہت چپچپا ہو جاتا ہے، اس لیے ریکو بنانے کے علاوہ کوئی بھی اسے کسی اور چیز کے لیے استعمال نہیں کرتا۔‘‘

مٹھائی بنانے والی ملازمہ کے طور پر ان کا دن صبح ۷ بجے شروع ہوتا ہے۔ وہ آدھا کلو جایا بیئم لے کر ریکو بنانے کا کام شروع کرتی ہیں۔ وہ چاول کو دھو کر کم از کم ۳۰ منٹ کے لیے پانی میں چھوڑ دیتی ہیں۔

بیٹوں کے اسکول جانے کے بعد وجیئہ بھیگے ہوئے چاول کو پیس کر چکنا، گاڑھا پیسٹ بنا لیتی ہیں۔ پھر وہ اسے ایک کٹورے میں ڈال کر گھر کے باہر اپنی چھوٹی سی ورکشاپ میں ایک چھوٹے لکڑی کے اسٹول پر رکھ دیتی ہیں۔

آخرکار، صبح ۹ بجے کے آس پاس اپنی ورکشاپ کے ایک کونے میں وجیئہ ایک طرف سوراخ والے ایک خاص اُلٹے برتن سے نازک، جالی جیسا باریک ریکُلو بنانا شروع کرتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’یہ برتن صرف اسی علاقے میں یہیں کی مٹی سے بنتا ہے۔ کسی دوسرے برتن کا استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ اس برتن کی مدد سے ریکو کی اُلٹی شکل بنائی جاتی ہے۔‘‘

Left: Rice batter and the cloths used to make pootharekulu.
PHOTO • Amrutha Kosuru
Right: Vijaya begins making the reku by dipping a cloth in the rice batter she prepares
PHOTO • Amrutha Kosuru

بائیں: چاول کی لیئی اور پوترے کُلو بنانے میں استعمال کیے گئے کپڑے۔ دائیں: وجیئہ اپنے تیار کیے گئے چاول کی لیئی میں ایک کپڑا ڈبو کر ریکو بنانا شروع کرتی ہیں

Veteran sweet maker, Vijaya has been making reku since 2019 and she says she always has to give it her full concentration. When she dips the cloth in the rice batter and lays it on the pot, a  film forms on the inverted pot (right)
PHOTO • Amrutha Kosuru
Veteran sweet maker, Vijaya has been making reku since 2019 and she says she always has to give it her full concentration. When she dips the cloth in the rice batter and lays it on the pot, a  film forms on the inverted pot (right)
PHOTO • Amrutha Kosuru

تجربہ کار مٹھائی بنانے والی وجیئہ ۲۰۱۹ سے ریکو بنا رہی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انہیں ہمیشہ اس میں اپنی پوری توجہ مرکوز کرنی پڑتی ہے۔ جب وہ کپڑے کو چاول کی لیئی میں ڈبو کر برتن پر رکھتی ہیں، تو اُلٹے برتن (دائیں) پر ایک فلم بن جاتی ہے

ناریل کے پتّے سُکھانے کے لیے آگ جلا کر برتن گرم کیا جاتا ہے۔ وہ بتاتی ہیں، ’’ناریل کے پتّے [دوسروں کے برعکس] تیزی سے جل کر شدید گرمی پیدا کرتے جاتے ہیں۔ صحیح برتن اور گرمی کے بغیر ریکُلو نہیں بنے گا۔‘‘

وہ مزید بتاتی ہیں، ’’ان برتنوں کی قیمت ۴۰۰-۳۰۰ روپے کے درمیان ہوتی ہے۔ میں اسے ہر دو سے تین مہینے میں بدل دیتی ہوں۔ یہ اس سے زیادہ نہیں ٹِک پاتے۔‘‘ وجیئہ ہر دو ہفتے میں ایک بار مقامی بازار سے ناریل کے پتّے لاتی ہیں۔ وہ ۳۰-۲۰ روپے کی قیمت والے ایسے ۶-۵ گُچھّے خریدتی ہیں۔

جب تک وجیئہ کا اُلٹا برتن گرم ہوتا ہے، وہ ایک صاف خشک مستطیل کپڑے کے ٹکڑے کو نچوڑ کر اسے گیلا کرتی ہیں۔ اس کام کے لیے ایک سوتی کپڑا (ان کی ساڑی سے یا کوئی دوسرا کپڑا) دھو کر استعمال کیا جاتا ہے۔ وہ لیئی کو ایک بڑی پلیٹ میں ڈالتی ہیں اور کپڑے کو اُس میں ڈبو دیتی ہیں۔

پھر وجیئہ دھیرے سے کپڑا کھینچتی ہیں اور کپڑے پر چپکی لیئی کی پتلی پرت کو اُلٹے برتن پر ڈال دیتی ہیں۔ ڈھیر سارا دھواں چھوڑتے ہوئے فوراً ایک پتلی بھوری سفید فلم بن جاتی ہے۔ فلم کو پوری طرح پکنے تک کچھ سیکنڈ کے لیے برتن پر ہی چھوڑ دیا جاتا ہے۔

اگلے مرحلہ میں اسے کافی دھیان سے چھونا ہوتا ہے۔ صرف تین انگلیوں کا استعمال کر کے وہ ریکو کو برتن سے الگ کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’اسے ہٹانا کام کا سب سے مشکل حصہ ہے۔ اگر یہ ٹوٹا، تو گیا۔ اس لیے مجھے بہت محتاط رہنا ہوتا ہے۔‘‘ وہ مہارت کے ساتھ اسے ہٹاتی ہیں اور اپنے بغل میں ایک ڈھیر پر رکھ دیتی ہیں۔ ان کا اندازہ ہے کہ وہ ایک گھنٹہ میں ۹۰ سے ۱۰۰ ریکو تک بنا سکتی ہیں، اور قریب دو تین گھنٹے میں انہوں نے ۱۵۰ سے ۲۰۰ ریکو بنا بھی لیے ہیں۔ تہوار کے دنوں میں یہ آرڈر ۵۰۰ تک پہنچ جاتے ہیں اور وہ اسی کے مطابق لیئی تیار کرتی ہیں۔

Left: To check if the papery film of rice has formed, Vijaya attempts to nudge it slowly with her fingers.
PHOTO • Amrutha Kosuru
Right: Vijaya uses only a few fingers to separate the thinly formed film from the inverted pot
PHOTO • Amrutha Kosuru

بائیں: چاول کے کاغذ جیسی پرت کو پرکھنے کے لیے وجیئہ اپنی انگلیوں سے اسے دھیرے دھیرے کریدنے کی کوشش کرتی ہیں۔ دائیں: وجیئہ اُلٹے برتن پر بنی پتلی سی فلم کو الگ کرنے کے لیے صرف کچھ انگلیوں کا استعمال کرتی ہیں

Shyamala and Sathya working at KK Nethi Pootharekulu shop in Atreyapuram
PHOTO • Amrutha Kosuru
Shyamala and Sathya working at KK Nethi Pootharekulu shop in Atreyapuram
PHOTO • Amrutha Kosuru

شیاملا اور ستیہ، اتریا پورم میں کے کے نیتی پوترے کُلو دکان پر کام کرتی ہیں

اتریا پورم میں کئی عورتیں ریکُلو بناتی ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر عورتیں یہ کام گھر پر ہی کرتی ہیں، لیکن کچھ دکانوں میں بھی کرتی ہیں۔

وی شیاملا (۵۴) کے کے نیتی پوترے کُلو میں کام کرتی ہیں۔ یہ دکان اتریا پورم بس اسٹاپ کے پاس ہے۔ وہ دکان سے تقریباً چار کلومیٹر دور رہتی ہیں اور گزشتہ ۳۰-۲۵ سال سے یہ مٹھائی بنا رہی ہیں۔ شیاملا نے اپنے کریئر کی شروعات وجیئہ کی طرح گھر پر ریکو بنا کر کی تھی۔ وہ یاد کرتی ہیں، ’’میں ایک دن میں ۱۰۰ شیٹ بناتی تھی اور مجھے اس کے لیے ۳۰-۲۵ روپے ملتے تھے۔‘‘ وہ خاص طور پر پوترے کُلو بنانے کے آخری مرحلہ میں شامل ہوتی ہیں۔ وہ ریکو کو چینی، گڑ، خشک میوے، مناسب مقدار میں گھی اور دوسری چیزوں کے ساتھ موڑتی ہیں۔ شیاملا کہتی ہیں کہ انہیں اپنے کام کی جگہ تک جانے میں مشکل ہوتی ہے، کیوں کہ ان کے ’’گھٹنوں میں درد رہتا ہے۔‘‘ اس لیے ان کا بیٹا انہیں روز دکان تک چھوڑتا ہے۔

آنے کے بعد وہ دکان کے پیچھے ایک چھوٹی سی جگہ پر بیٹھ جاتی ہیں۔ وہ ایک اونچا اسٹول لیتی ہیں، اپنی ساڑی درست کرتی ہیں اور ایسی جگہ بیٹھتی ہیں جہاں سورج انہیں زیادہ پریشان نہ کرے۔ ان کا منہ سڑک کی طرف ہوتا ہے اور وہاں سے گزرنے والے گاہک انہیں پوترے کُلو لپیٹتے دیکھ سکتے ہیں۔

شیاملا دھیرے سے اپنے بغل کے ڈھیر سے ایک ریکو اٹھاتی ہیں اور اس پر مناسب مقدار میں گھی لگاتی ہیں۔ اس کے بعد وہ اس پر گڑ کا پاؤڈر پھیلاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’ایک سادہ پوترے کُلو کے لیے یہ تمام چیزیں لگانی ہوتی ہیں۔‘‘ پھر وہ اس پر آدھا ریکو اور رکھتی ہیں۔ پھر وہ اسے آہستہ سے موڑتی ہیں، تاکہ کوئی بھی چیز باہر نہ گرے۔ ایک پوتریکو کو موڑنے میں ایک منٹ سے تھوڑا زیادہ وقت لگتا ہے۔ انہیں عموماً لمبے مستطیل سائز میں موڑا جاتا ہے، مگر سموسے جیسی مثلث شکل میں بھی موڑا جا سکتا ہے۔

سموسے کی شکل میں موڑنے والے ہر پوتریکو کے لیے شیاملا کو تین روپے اضافی ملتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’سموسے کی شکل میں موڑنا میرے لیے بھی مشکل ہوتا ہے۔ مجھے کافی احتیاط برتنی پڑتی ہے، ورنہ ریکو ٹوٹ جائے گا۔‘‘

Shyamala folds a film of rice paper with dry fruits, jaggery powder and more to make a poothareku . First she gently flattens the film, spreads a few drops of sugar syrup and a then generous amount of ghee after which she adds dry fruits
PHOTO • Amrutha Kosuru
Shyamala folds a film of rice paper with dry fruits, jaggery powder and more to make a poothareku . First she gently flattens the film, spreads a few drops of sugar syrup and a then generous amount of ghee after which she adds dry fruits
PHOTO • Amrutha Kosuru

پوتریکو بنانے کے لیے شیاملا چاول کی فلم کو خشک میوے، گڑ پاؤڈر اور دوسری چیزوں کے ساتھ موڑتی ہیں۔ سب سے پہلے وہ فلم کو دھیرے سے چپٹا کرتی ہیں، چینی کی چاشنی کی کچھ بوندیں چھڑکتی ہیں اور پھر ضروری گھی ڈالتی ہیں۔ اس کے بعد وہ اس پر خشک میوے ڈالتی ہیں

Shyamala (left) says, 'I have to be very careful or the reku will break.' Packed pootharekulu ready to be shipped
PHOTO • Amrutha Kosuru
Shyamala (left) says, 'I have to be very careful or the reku will break.' Packed pootharekulu ready to be shipped
PHOTO • Amrutha Kosuru

شیاملا (بائیں) کہتی ہیں، ’مجھے کافی احتیاط برتنی پڑتی ہے، ورنہ ریکو ٹوٹ جائے گا۔‘ پیک کیا ہوا پوترے کُلو باہر بھیجے جانے کے لیے تیار ہے

شیاملا بتاتی ہیں، ’’میری رائے میں سادہ چینی یا گڑ ہی اصلی پوتریکو ہوتا ہے۔ ہمارے گاؤں میں نسل در نسل اسی طرح بنتا آ رہا ہے۔‘‘ مٹھائی میں خشک میوے ملانا نئی چیز ہے۔

شیاملا دکان مالک کاسنی ناگ ستیہ وتی (۳۶) کے ساتھ اتوار کو چھوڑ کر سبھی دن صبح ۱۰ بجے سے شام ۵ بجے تک کام کرتی ہیں۔ انہیں ۴۰۰ روپے روزانہ کے حساب سے ادائیگی کی جاتی ہے۔ پچھلے تین سال سے، اور پوترے کُلو کو جی آئی ٹیگ ملنے کے بعد بھی یہ رقم نہیں بدلی ہے۔

اتریا پورم کی پوترے کُلو کے جی آئی ٹیگ کا وجیئہ اور شیاملا جیسے کاریگروں پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔ جی آئی ٹیگ ملنے کے بعد سے ان کی یومیہ اجرت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا، لیکن ان کا کہنا ہے کہ دکان مالک اور دوسرے بڑے کاروباری اچھا خاصا منافع کما رہے ہیں۔

ستیہ کے مطابق، پوتریکو ہمیشہ سے آندھرا پردیش اور تلنگانہ جیسی ریاستوں میں مشہور رہا ہے۔ وہ مزید کہتی ہیں، ’’لیکن اب اس کے بارے میں بہت سے لوگ جانتے ہیں۔ پہلے ہمیں دوسری ریاستوں کے لوگوں کو یہ سمجھانا پڑتا تھا کہ پوتریکو کیا ہے۔ اب اسے کسی تعارف کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘

ستیہ، سر آرتھر کاٹن اتریا پورم مینوفیکچررز ویلفیئر ایسوسی ایشن کے ممبران میں سے ایک ہیں۔ ایسوسی ایشن ۱۰ سال سے زیادہ عرصے سے پوتریکو کے لیے جی آئی ٹیگ کا مطالبہ کر رہی تھی اور اس لیے جب جون ۲۰۲۳ میں انہیں ٹیگ سے نوازا گیا، تو ’’یہ پورے گاؤں کے لیے بڑے فخر کی بات تھی۔‘‘

Left: A reku formed over the inverted pot.
PHOTO • Amrutha Kosuru
Right: Sathya began her business in 2018
PHOTO • Amrutha Kosuru

بائیں: اُلٹے برتن کے اوپر تیار پڑا ایک ریکو۔ دائیں: ستیہ نے ۲۰۱۸ میں اپنا کاروبار شروع کیا

It’s the rice from  Dr. B.R. Ambedkar Konaseema district of AP that defines this delicately-fashioned sweet. 'Any festival, ritual, or any special occasion in my house is incomplete without pootharekulu, ' says G. Ramakrishna, a resident of Atreyapuram
PHOTO • Amrutha Kosuru
It’s the rice from  Dr. B.R. Ambedkar Konaseema district of AP that defines this delicately-fashioned sweet. 'Any festival, ritual, or any special occasion in my house is incomplete without pootharekulu, ' says G. Ramakrishna, a resident of Atreyapuram
PHOTO • Amrutha Kosuru

آندھرا پردیش کے کونسیما ضلع کا چاول، جس سے یہ نازک مٹھائی بنتی ہے۔ اتریا پورم کے رہائشی جی رام کرشن کہتے ہیں، ’میرے گھر میں کوئی بھی تہوار، پوجا پاٹھ یا کوئی بھی خاص پروگرام پوترے کُلو کے بغیر ادھورا ہی رہتا ہے‘

ستیہ کہتی ہیں کہ ان کی دکان سمیت سبھی دکانوں پر آرڈر بڑھ گئے ہیں۔ ان کے مطابق، ’’ہمارے زیادہ تر آرڈر تھوک میں ۱۰ بکسوں سے لے کر ۱۰۰ بکسوں کے آتے ہیں۔‘‘ ہر ڈبے میں ۱۰ پوترے کُلو مٹھائی ہوتی ہے۔

انہوں نے بتایا، ’’لوگ دہلی، ممبئی اور کئی دوسری جگہوں سے آرڈر بھیجتے ہیں۔ گاؤں میں ہم ہر پوتریکو کی قیمت ۱۲-۱۰ روپے کے درمیان رکھتے ہیں اور وہ (باہر بڑی دکانیں) ایک کے ۳۰ روپے سے زیادہ وصول کرتی ہیں۔‘‘

ستیہ بتاتی ہیں، ’’جی آئی ٹیگ ملنے کے بعد سے قیمتوں میں بہت فرق نہیں آیا ہے۔ دس سال پہلے ایک پوتریکو کی قیمت ۷ روپے ہوا کرتی تھی۔‘‘

وہ مزید بتاتی ہیں، ’’پچھلے ہفتے دبئی سے ایک لڑکی میری دکان پر آئی۔ میں نے اسے دکھایا کہ پوترے کُلو کیسے بنتا ہے اور وہ اس سے مسحور ہو گئی۔ اسے یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ مٹھائی اس کے منہ میں گھل کیسے گئی۔ اس نے اسے پکانے کے طریقہ کو ایک ہنر بتایا۔ اور ایمانداری سے کہوں، تو میں نے اس کے بارے میں کبھی اس طرح سوچا ہی نہیں تھا۔ مگر یہ سچ ہے۔ جو ریکو بناتے ہیں اور انہیں موڑتے ہیں، ان کی جگہ کوئی بھی آسانی سے نہیں لے سکتا۔‘‘

یہ اسٹوری رنگ دے کے مالی تعاون سے کی گئی ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Amrutha Kosuru

Amrutha Kosuru is a 2022 PARI Fellow. She is a graduate of the Asian College of Journalism and lives in Visakhapatnam.

Other stories by Amrutha Kosuru
Editor : PARI Desk

PARI Desk is the nerve centre of our editorial work. The team works with reporters, researchers, photographers, filmmakers and translators located across the country. The Desk supports and manages the production and publication of text, video, audio and research reports published by PARI.

Other stories by PARI Desk
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique