روپیشور بورو پرجوش انداز میں ہمیں ہولاک گبن کی نقل کرتے ہوئے ان کی کہانیاں سنا رہے ہیں۔ وہ گبن کی آواز نکالنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہاتھ کے اشارے سے بتانے ہیں کہ وہ ایک درخت سے دوسرے درخت پر کیسے جاتے ہیں۔

فاریسٹ آفس میں بطور ڈرائیور کام کرنے والے بورو سے ہماری ملاقات لوہر گھاٹ رینج آفس میں ہوئی تھی۔ انہیں اس بات کا اعتراف ہے کہ انہوں نے کبھی گبن نہیں دیکھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہم نے اپنے گھروں سے کئی بار اس دیوہیکل جانوروں کی چیخنے کی آوازیں سنی ہیں۔ لیکن وہ کبھی ہمارے گاؤں کے قریب نہیں آتے۔ دور پہاڑیوں سے ان کی آوازیں آتی ہیں۔‘‘ آسام کے کامروپ ضلع میں ان کا گاؤں، مودوکی، رانی جنگلاتی سلسلے سے تقریباً ۳۵ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ انہوں نے آسامی ٹیلی ویژن چینلوں پر گبن کے بارے میں نشر کی جانے والی رپورٹوں کو دیکھ کر اس کی نقل کرنا سیکھا تھا۔

بہرحال، گزشتہ سال ۸ دسمبر کو گوالپاڑہ فوٹوگرافک سوسائٹی کے اراکین باردوار ریزرو فاریسٹ (رانی جنگلاتی سلسلے سے ملحق) میں ایک ٹریک پر نکلے ہوئے تھے۔ وہاں انہوں نے مغربی ہولاک گبن (ہولاک ہولاک) کا ایک جوڑا دیکھا تھا۔ گبن کو مقامی طور پر بون مانوہ یا ’بن مانوش‘ کہا جاتا ہے۔ اب آسام میگھالیہ کے سرحدی علاقوں میں ان کا نظارہ نایاب ہو گیا ہے۔

گبن کی یہ نوع ہندوستان کی شمال مشرقی ریاستوں کے ساتھ ساتھ مشرقی بنگلہ دیش اور شمال مغربی میانمار کے جنگلاتی خطوں میں پائی جاتی ہے۔ انہیں انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچرز (آئی یو سی این) کی خطرہ زدہ انواع کی سرخ فہرست میں درج کیا گیا ہے۔ مشرقی ہولاک گبن (ہولاک لیوکونیڈیز) اروناچل پردیش، آسام، جنوبی چین اور شمال مشرقی میانمار کے کچھ خطوں میں پائے جاتے ہیں۔ یہ نوع آئی یو سی این کی فہرست میں ’خطرزدہ‘ نوع کے طور پر درج ہے۔

ورلڈ وائیڈ فنڈ فار نیچر-انڈیا کے مطابق ، ’’لمبے اور پتلے بازوؤں والے ہولاک گبن سبک دست مخلوق ہیں۔ انہیں بمشکل زمین پر قدم رکھنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ وہ ایک درخت سے دوسرے درخت پر لگاتار جھولتے ہوئے سرعت سے آگے بڑھتے ہیں۔ اسے انگریزی میں ’براکی ئیشن‘ کہتے ہیں۔ یہ ۵۵ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے جھولتے ہوئے آگے بڑھ سکتے ہیں اور صرف ایک چھلانگ میں چھ میٹر تک کا فاصلہ طے کر سکتے ہیں!‘‘

'With long and slender arms, hoolock gibbons are swift creatures, barely needing to step on the ground. They swing from tree to tree at speeds upto 55 km/hr, covering upto six meters in just one swing'
PHOTO • Abhilash Rabha

’لمبے اور پتلے بازوؤں والے ہولاک گبن سبک دست مخلوق ہیں۔ انہیں بمشکل زمین پر قدم رکھنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ وہ ایک درخت سے دوسرے درخت پر ۵۵ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے جھولتے ہوئے آگے بڑھ سکتے ہیں اور صرف ایک چھلانگ میں چھ میٹر تک کا فاصلہ طے کر سکتے ہیں‘

گوالپاڑہ فوٹوگرافی سوسائٹی (جی پی ایس) کے اراکین نے باردوار کے جنگل میں گبن کو دیکھتے ہی ان کی تصویریں اتار لیں۔ باردوار مغربی کامروپ فاریسٹ ڈویژن کا ایک حصہ ہے جو چایانی-باردوار ڈیولپمنٹ بلاک میں واقع ہے۔ اندر نارائن کوچ، جو جی پی ایس کے ایک ممبر ہیں اور گوالپاڑہ ضلع کے دودھنوئی قصبے میں پرائمری اسکول ٹیچر ہیں، اس دن وہاں موجود تھے۔ انہوں نے ہمیں گوہاٹی کے ایک مقامی نیوز چینل کے ذریعے نشر کیے گئے اپنے کارنامے کی رپورٹ کی ایک کلپ دکھائی۔ ہم ان سے آسام کے دارالحکومت دسپور سے تقریباً ۶۰ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع جوپنگ باڑی نمبر ۱ نامی ایک دور افتادہ بستی میں ملے تھے، جہاں وہ نوجوانوں کے ایک گروپ کے ساتھ ایکو کیمپ لگانے کے لیے میدان صاف کرنے میں مشغول تھے۔

زمین کا یہ خطہ بسوجیت رابھا کے گھر سے ملحق ہے، جو فوٹو گرافی گروپ کے  رکن اور مقامی دستکاری کے ایک کاریگر ہیں، جنہوں نے گبن کو دیکھا تھا۔ اس ’’دیو ہیکل‘‘ جانور کو دیکھنے کا بسوجیت کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں نے یہاں [جوپنگ باڑی نمبر ۱ میں] اس جانور کو کبھی نہیں دیکھا۔ یہ نایاب ہیں۔ ہم نے انہیں جنگل کے کافی اندر دیکھا تھا۔‘‘

’’ہم جنگل کے اندر تقریباً چار گھنٹے تک  فوٹو کلک کرتے رہے۔ اجے رابھا [جی پی ایس کے ایک رکن]  نے تقریباً ۳۰ فٹ کے فاصلے پر پتے اور شاخوں کو تیزی سے ہلتے ہوئے دیکھا اور ہماری طرف اشارہ کیا۔ گبن سال کے درخت کی اونچی شاخوں کے درمیان تھا۔ جیسے ہی ہم قریب پہنچے، وہ بڑی تیزی سے وہاں سے بھاگ گیا، لیکن ہم نے اسے دیکھا۔ وہ ایک کالا ہولاک گبن تھا!‘‘ یہ کہنا تھا کامروپ ضلع کے چُکونیا پاڑہ گاؤں سے تعلق رکھنے والے ۲۴ سالہ ابھیلاش رابھا کا، جو جی پی ایس کے ایک رکن ہیں اور سوروں کا ایک فارم چلاتے ہیں۔

جی پی ایس کے بانی رکن بنجامن کامن بتاتے ہیں، ’’ہم ۲۰۱۸ سے اس علاقے [باردوار] میں ہولاک گبن کی تلاش میں تھے اور آخر کار ۸ دسمبر ۲۰۱۹ کو ہم نے انہیں ڈھونڈ نکالا۔‘‘ بنجامن، ایک سرکاری ادارہ ’کرشی وگیان کیندر‘ ( دودھ نوئی) کے زیر اہتمام مٹی اور پانی کے تحفظ کی انجینئرنگ کے تکنیکی افسر ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’ہم نے گبنوں کی آوازیں سنی تھیں، لیکن پہلے ان کی فلم یا تصویر نہیں لے سکے تھے۔ اور اب جب کہ ہم نے انہیں دیکھا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ حکومت مداخلت کرے اور ان دیو ہیکل جانوروں کے تحفظ کے لیے کچھ اقدامات کرے۔‘‘

بنجامن کامن کا کہنا ہے کہ ہُولُو کَنڈا پہاڑ (’وہ پہاڑی جہاں سے ہولاک گبن کی آوازیں آتی ہیں‘) گوالپاڑہ ضلع کے باردوار سے تقریباً ۱۲۵ کلومیٹر دور واقع ہے۔ یہ پہاڑی کبھی گبنوں کا قدرتی ٹھکانہ تھی۔ بنجامن کامن بنیادی طور پر آسام کے سیلاب زدہ ضلع دھیماجی کے رہنے والے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’۲۰۱۸ میں ہم نے ہولو کنڈا کے جنگلوں کے کئی دورے کیے، لیکن وہاں اس [بندر] کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔‘‘ میگھالیہ-آسام سرحد سے متصل گوالپاڑہ ضلع کے رنگجولی بلاک کے دیہات میں تلاشی مشن کے دوران، انہیں کوئی گبن دکھائی نہیں دیا تھا۔

'It was the first time that Biswajit Rabha, a member of the photography group (to the right is the machan to spot elephants on his land), was seeing the ‘giants’. “I haven't seen any here [inJupangbari No. 1]. This is very rare'
PHOTO • Ratna Baruah
'It was the first time that Biswajit Rabha, a member of the photography group (to the right is the machan to spot elephants on his land), was seeing the ‘giants’. “I haven't seen any here [inJupangbari No. 1]. This is very rare'
PHOTO • Ratna Baruah

یہ پہلا موقع تھا جب فوٹوگرافی گروپ کے رکن بسوجیت رابھا (دائیں طرف ان کے کھیت میں ہاتھیوں پر نظر رکھنے کے لیے بنایا گیا مچان) ان ’دیو ہیکل‘ جانوروں کو دیکھ رہے تھے۔ ’میں نے یہاں [جوپنگ باڑی نمبر ۱ میں] کوئی گبن نہیں دیکھا۔ یہ نایاب ہیں‘

شمال مشرقی ہندوستان کے پرائمیٹ ریسرچ سنٹر سے وابستہ ڈاکٹر جیہوسو بسواس لکھتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ مغربی ہولاک گبن کی آبادی گزشتہ ۳-۴ دہائیوں میں ’’ان کے طبعی مسکن کے نقصان اور تقسیم کی وجہ سے‘‘ تیزی سے کم ہوئی ہے۔ آسام میں ان کی آبادی پہلے ۸۰ ہزار سے بھی زیادہ تھی، جو گھٹ کر اب ۵۰۰۰ سے بھی کم رہ گئی ہے۔ آئی یو سی این کی ریڈ لسٹ میں کہا گیا ہے، ’’یہ نوع تقریباً ۳۰ سال قبل شمال مشرقی ہندوستان کے تمام جنگلاتی حصوں میں پائی جاتی تھی، لیکن اب وہ جنگل کے چند حصوں میں ہی باقی بچی ہے۔ شمال مشرقی ہندوستان میں ان کی کل آبادی کا تخمینہ اب ۱۲۰۰۰ سے کچھ زیادہ ہے جس میں سے تقریباً ۲۰۰۰ [گبن] ریاست آسام میں ہیں۔‘‘

اگرچہ ہولاک گبن ہندوستان کے جنگلی حیات کے تحفظ کا قانون، ۱۹۷۲ کے شیڈول ۱ میں درج ہیں، لیکن آئی یو سی این ریڈ لسٹ نے مغربی ہولاک گبن کی تعداد میں کمی کی متعدد وجوہات کی نشاندہی کی ہے، جن میں رہائشی اور تجارتی ترقی، بغیر لکڑیوں والی کاشتکاری (جیسے چائے کے باغات، کانکنی اور کھدائی)، اور لاگنگ اور لکڑی کی کٹائی شامل ہیں۔

سڑکوں اور ریل کی پٹریوں کے ذریعے جنگلات کے بکھراؤ اور تقسیم نے پورے شمال مشرقی ہندوستان میں جنگلی حیات کو متاثر کیا ہے۔ ہولاک گبن ہولو پہاڑ میں اپنے مسکن سے اس وقت غائب ہو گئے جب وہاں کا جنگل سکڑنا شروع ہوا۔ فاریسٹ سروے آف انڈیا کی انڈیا اسٹیٹ آف فاریسٹ رپورٹ ۲۰۱۹ بتاتی ہے کہ شمال مشرق میں جنگلات کے رقبے میں ۲۰۱۷ سے اب تک ۷۶۵ مربع کلومیٹر کی کمی واقع ہوئی ہے۔

ہم سے فون پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر نارائن شرما کہتے ہیں، ’’جنگلات کی ٹکڑوں میں تقسیم نے جنگلی حیات کو خطرے میں ڈال دیا ہے، اور ہولاک گبن اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔‘‘ وہ کاٹن یونیورسٹی، گوہاٹی کے شعبہ ماحولیاتی حیاتیات اور وائلڈ لائف سائنسز میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جھوم کاشت [بنیادی طور پر دھان]، چائے کے باغات کی توسیع اور انسانی آباد کاری نے بھی گبن کی آبادی کو تباہ کیا ہے۔ ’’وہ دور دراز مقامات پر اس وقت تک ہجرت نہیں کرتے جب تک کہ انہیں مجبور نہ کیا جائے۔ وہ منطقہ حارہ کے ایک غیر منقسم جنگل کے اندر رہتے ہیں، اور زمین پر چلنے کے عادی نہیں ہیں۔ گھنے جنگلات کے بغیر ہم جنگلی حیات کے فروغ کی توقع نہیں کر سکتے۔‘‘

اگرچہ شمال مشرق کے کچھ حصوں میں گبن کا شکار کیا جاتا تھا، لیکن ڈاکٹر شرما کا خیال ہے کہ آسام میں ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔ ’’شمال مشرق کے کچھ خطوں میں، جیسے ناگالینڈ میں، گوشت کے لیے بندروں کا شکار کیا جاتا تھا، حالانکہ اب ایسا نہیں کے برابر ہوتا ہے۔ میزورم کے کچھ قبائل کی خواتین [ماضی میں] اپنے پیروں میں ہولاک گبن کی ہڈیاں پہنتی تھیں اور یہ مانتی تھیں کہ اس سے گاؤٹ کا علاج ہوتا ہے۔ اس لیے یہ قبائل گبنوں کا شکار گوشت کے ساتھ ساتھ دوائیں حاصل کرنے کے لیے بھی کرتے تھے۔‘‘

چایانی-باردوار بلاک کے راجپاڑہ گاؤں میں اسکول کی ایک ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر نلنی رابھا کہتی ہیں، ’’ان کے پاس اب جنگلوں میں کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ خوراک کی تلاش میں اکثر انسانی آبادیوں میں چلے آتے ہیں۔‘‘ گبنوں کے کھانے کی کمی کے بارے میں ایک بزرگ شخص اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں،  ’’لیکن ان کے لیے [یہاں] کوئی کھانا نہیں ہے۔ ہمارے پاس اپنی بستی [احاطوں اور کھیتوں] میں پومیلو، اسٹار فروٹ اور سپاری کے کچھ درخت ہیں۔ آپ یہاں صرف ساگون کے درخت اور چائے کے باغات دیکھ سکتے ہیں۔ وہ کہاں جائیں گے؟‘‘

They have nothing now to eat there in the jungles. That’s why they come to the human habitats frequently in search of food', says Nalini Rabha, a retired school headmaster in Rajapara village. Among the reasons for this change is the illegal trade in timber
PHOTO • Ratna Baruah
They have nothing now to eat there in the jungles. That’s why they come to the human habitats frequently in search of food', says Nalini Rabha, a retired school headmaster in Rajapara village. Among the reasons for this change is the illegal trade in timber
PHOTO • Abhilash Rabha

راجپاڑہ گاؤں کے اسکول کی ایک ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر نلنی رابھا کہتی ہیں، ’ان کے پاس اب جنگلوں میں کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ خوراک کی تلاش میں اکثر انسانی آبادیوں میں آتے ہیں۔‘ اس تبدیلی کی وجوہات میں لکڑیوں کی غیرقانونی تجارت بھی شامل ہے

سال ۲۰۱۷ کے ایک تحقیقی مطالعہ کے مطابق، ایک بالغ ہولاک گبن ’’نئے اور پختہ پتے، پھول اور پھل، ڈنٹھل اور کلیاں اور حیوانی مادے بھی کھاتا ہے…‘‘ پودوں کی کل ۵۴ انواع کے علاوہ، ’’ایک سال میں پھل کی ان کی اوسط خوراک ۵۱ فیصد ہوتی ہے… یہ انتہائی پھل دار خوراک ہے۔ چھوٹے ٹکڑوں میں جنگل کی تقسیم اس نوع کے زندہ رہنے کی صلاحیت کو محدود کر سکتی ہے۔‘‘

بنجامن کامن کہتے ہیں، ’’وہ بہت دباؤ میں ہیں۔ وہ اپنے مسکن میں انسانوں کی مداخلت بالکل پسند نہیں کرتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ انہیں ایک محفوظ ماحول کی ضرورت ہے۔‘‘ جوپنگ باڑی نمبر ۱ میں ایک گاؤں والے نے فوٹوگرافروں کے ساتھ ہماری بات چیت میں شامل ہوتے ہوئے کہا کہ جنگل مافیا نے سب کچھ تباہ کر دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’انہوں نے یہاں کے تمام پرانے درخت [جیسے ساگون اور سال] کاٹ کر باہر بھیج دیے ہیں۔ وہ صرف پیسہ کمانا جانتے ہیں۔‘‘

اندر نارائن کہتے ہیں، ’’لکڑی کی زیادہ تر غیر قانونی تجارت رانی-میگھالیہ سڑک کے ذریعے ہوتی ہے۔ جنگل کا کچھ حصہ پڑوسی ریاست میگھالیہ کی سرحد سے جڑا ہوا ہے، اور اسمگلر اس ریاست کے جنگلوں میں موجود [غیر قانونی] آرا ملوں کو لکڑی کے لٹھے آسانی سے سپلائی کرتے ہیں۔‘‘

ایسا لگتا ہے کہ حکومت، جنگلات کی بازیافت کے لیے کچھ اقدام کر رہی ہے۔ ریاستی حکومت کی ایک ویب سائٹ کے مطابق، ریاست اس وقت ’’جنگل کے ماحولیاتی نظام کو بحال کرنے کے لیے جنگلات اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ پر آسام پروجیکٹ کو نافذ کر رہی ہے۔‘‘ اس کے علاوہ، آسام میں ۲۰ جنگلی حیات کی پناہ گاہیں اور پانچ قومی پارک ہیں، ان میں جورہاٹ ضلع میں ہولونگاپار ریزرو فاریسٹ شامل ہے، جسے ۱۹۹۷ میں ہولونگاپار گبن پناہ گاہ کے طور پر اپ گریڈ کیا گیا تھا۔

لیکن یہ جنگلات تیزی سے بکھر رہے ہیں۔ یہاں ہولاک گبن کا دیکھنا اب ایک غیر معمولی واقعہ بن گیا ہے۔ لوہر گھاٹ رینج آفس کے فاریسٹ رینجر شانتنو پٹواری نے ہمیں فون پر بتایا کہ نہ تو انہوں نے اور نہ ہی ان کے عملے نے ان کے دائرے اختیار والے بردوار ریزرو جنگل میں کوئی گبن دیکھا ہے۔

اس دوران اندر نارائن اور بسوجیت رابھا دوسروں کو فطرت کے ساتھ رہنے اور جنگل اور اس کے باشندوں کا احترام کرنے کا طریقہ سکھانے کے لیے اپنا ایکو کیمپ لگانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا کیمپ ریاست میں لگنے والے بے شمار وائلڈ لائف کیمپوں سے مختلف ہو جو اندھیری راتوں میں اونچی آواز میں موسیقی بجاتے ہیں اور تیز روشنیوں کی شعاعیں چھوڑتے ہیں۔

مترجم: شفیق عالم

Pankaj Das

Pankaj Das is Translations Editor, Assamese, at People's Archive of Rural India. Based in Guwahati, he is also a localisation expert, working with UNICEF. He loves to play with words at idiomabridge.blogspot.com.

Other stories by Pankaj Das
Ratna Baruah

Ratna Baruah is a freelance reporter based in Guwahati. He has a post-graduate degree from the Gauhati University in Communication and Journalism (2013) and has worked in the health sector.

Other stories by Ratna Baruah
Editor : Sharmila Joshi

Sharmila Joshi is former Executive Editor, People's Archive of Rural India, and a writer and occasional teacher.

Other stories by Sharmila Joshi
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam