ہیرا نیناما اور کلپنا راول، دونوں کی عمر ۳۵ سال ہے، ایک دوسرے سے ۱۵ کلومیٹر دور رہتی ہیں، لیکن بیٹا کی خواہش دونوں کو متحد کرتی ہے۔ ’’بیٹیاں اپنے ماں باپ کے لیے کس کام کی ہیں؟‘‘ ہیرا سوال کرتی ہوں، جب میں ان سے بانسواڑہ ضلع کے سیونا گاؤں میں ملتی ہوں۔ ’’ایک وارث ہونا اچھی بات ہے – کم از کم ایک لڑکا تو ہونا ہی چاہیے،‘‘ راجستھان کے اسی ضلع کے واکا گاؤں کی رہنے والی کلپنا کہتی ہیں۔

سال ۲۰۱۲ سے، ہیرا نے پچھلے سات سالوں میں ۶ لڑکیوں کو جنم دیا ہے، وہ ایک خاتونِ خانہ ہیں اور کبھی کبھار کھیتوں میں مزدوری کرتی ہیں۔ ان کی سب سے چھوٹی بیٹی صرف کچھ مہینں کی ہے۔ ’’مجھے نہیں بتایا گیا تھا کہ میرا [چھٹا] بچہ ایک لڑکی ہے۔ لیکن جب میں نے اپنی ساس کو روتے ہوئے دیکھا، تو میرے آنسو بہنے لگے۔ میں اپنے شوہر سے بھی زیادہ روئی تھی،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔

’’دوسری بیٹی کے پیدا ہونے کے وقت سے ہی میں ایک بابا جی کے پاس جا رہی ہوں۔ وہ ایک ناریل کے اوپر کچھ منتر پڑھتے ہیں۔ پھر میں اسے توڑ کر اس کا پانی پیتی ہوں۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ مجھے اپنی ماں سے بھی زیادہ بددعا لگی ہے،‘‘ وہ آہ بھر کر بولتی ہیں، وہ خود بھی پانچ بہنوں میں سب سے چھوٹی ہیں۔

ہیرا سیونا گاؤں، جس کی کل آبادی ۱۲۳۷ ہے، کی بھیل آدیواسی برادری سے آتی ہیں اور ناخواندہ ہیں۔ وہ اور ان کے جیسی دیگر عورتیں، جو کئی دردِ زہ برداشت کرتی ہیں، اپنی صحت کھو کر اس کی بھاری قیمت چکاتی ہیں – وہ ۳۵ سال سے زیادہ عمر کی نظر آتی ہیں، کمزور ہیں اور ہمیشہ بدن درد اور جذباتی درد بھی جھیلتی ہیں۔

Niranjana Joshi, the ANM at the health sub centre administers the first ever vaccines to Hira Ninama’s fifth daughter
PHOTO • Puja Awasthi
Hira Ninama with her 40-day old daughter at the Health sub centre at Sewna
PHOTO • Puja Awasthi

سیونا کے ذیلی صحت مرکز میں ہیرا نیناما کی چھٹی بیٹی کو ٹیکوں کا پہلا سیٹ دیتے ہوئے اے این ایم نرنجنا جوشی

یہ اشارہ کرتا ہے کہ (مئی ۲۰۱۸ میں رجسٹرار جنرل کے دفتر کے ذریعے جاری کیے گئے) ’ہندوستان میں ماں کی شرحِ اموات پر خصوصی بلیٹن ۲۰۱۴-۱۶‘ کے مطابق، ۲۰۱۱-۱۳ اور ۲۰۱۴-۱۶ کے درمیان ملک بھر میں ماں کی شرحِ اموات (ایم ایم آر) میں ۲۲ فیصد کی گراوٹ کے باوجود راجستھان میں صرف ۱۸ء۳ فیصد کی گراوٹ درج ہوئی، یعنی کہ فی ۱۰۰۰۰۰ زندہ پیدائشوں پر پورے ہندوستان میں اوسطاً ۱۴۰ عورتوں کی موت ہوتی ہے، جب کہ راجستھان میں یہ تعداد ۱۹۹ ہے۔

یہ ریاست یو این ڈی پی کے جنسی خودمختاری کے پیمانہ کی زیادہ تر کسوٹیوں پر بھی سب سے نیچے ہے، جو اقتصادی اور سیاسی زندگی میں خواتین کی سرگرمی کی صلاحیت اور اقتصادی وسائل پر ان کے حقوق کی پیمائش کرتا ہے۔ وزارتِ خواتین اور بہبودِ اطفال کی ۲۰۰۹ کی رپورٹ میں پایا گیا کہ راجستھان نے یو این ڈی پی کے جنسی فروغ کے پیمانہ پر بھی ’’لگاتار کم حصولیابی‘‘ درج کی، جو صحت، تعلیم اور اقتصادی وسائل کے شعبوں میں مردوں اور عورتوں کے درمیان غیر برابری کی پیمائش کرتا ہے۔

سیونا کے ذیلی صحت مرکز میں برسرکار خاتون طبی کارکن (اے این ایم) نرنجنا جوشی، جن کو ہیرا دکھاتی ہیں، کہتی ہیں کہ ہیرا یہ ماننے سے انکار کرتی ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی جنس کا تعین کرنے کے لیے ذمہ دار نہیں ہیں۔ وہ اپنے زرعی اور تعمیراتی مقامات پر کام کرنے والے مزدور شوہر، کھیما کے ذریعے زبانی اور جسمانی صعوبتوں کو اپنی قسمت مان چکی ہیں اور تسلیم کرتی ہیں کہ وہ اپنی بیٹیوں کی اندیکھی کرتے ہیں۔

ہیرا اور کلپنا کے آبائی ضلع بانسواڑہ میں، جہاں تین چوتھائی آبادی بھیلوں کی ہے، ۱۰۰۰ مردوں پر ۹۸۰ عورتیں ہیں۔ یہ ریاست کے فی ۱۰۰۰ مردوں پر ۹۲۸ عورتوں کے اوسط (۲۰۱۱ کی مردم شماری) سے بہت زیادہ ہے، لیکن راجستھان کی اوسط ۶۶ء۱۱ فیصد کی شرحِ خواندگی کے مقابلے ضلع کی آدھے سے تھوڑا زیادہ آبادی ہی (۵۶ء۳۳ فیصد) خواندہ ہے۔ ریاست میں ۱۰ میں سے ۷ خواتین نے تھوڑی بہت تعلیم حاصل کی ہے، جب کہ بانسواڑہ میں یہ تعداد گھٹ کر ۱۰ میں سے صرف ۴ رہ جاتی ہے۔

Kalpana Rawal (blue saree) is leading a women’s group in her village to promote women’s health
PHOTO • Puja Awasthi
Kalpana Rawal (blue saree) is leading a women’s group in her village to promote women’s health
PHOTO • Puja Awasthi

کلپنا راول (نیلی ساڑی میں) اپنے گاؤں میں خواتین کی صحت کے فروغ کے لیے ایک گروپ کی قیادت کرتی ہیں، لیکن تعلیم اور بیداری خواتین کے لیے ہمیشہ بہتر صحت لے کر نہیں آتی

کلپنا اور دیگر خواتین کے لیے سماج میں جڑ جما چکی ایسی سوچ کو دھیرے دھیرے چنوتی دی جا رہی ہے۔ راجستھان میں درج فہرست ذات کے طور پر فہرست بند راول برادری سے آنے والی کلپنا نے ۸ویں کلاس تک تعلیم حاصل کی ہے اور واکا گاؤں میں رہتی ہیں۔ بانسواڑہ ضلع کی گھلکیا پنچایت کے اس گاؤں میں ۱۳۹۷ لوگ رہتے ہیں۔ وہ حال ہی میں تشکیل کردہ تاجو پریوار (مقامی زبان باگڑی میں اس کا مطلب ہے ’صحت مند فیملی‘) کی مقامی شاخ کی سربراہ ہیں۔ ۲۵ خواتین کا یہ گروپ اپنی برادریوں میں ماں کی صحت کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ تاجو پریوار کو دہلی واقع تحقیقی و تربیتی مرکز پی آر آئی اے (ایشیا میں اشتراکی تحقیق) نے ’اپنا سواستھیہ، اپنی پہل‘ کے تحت دسمبر ۲۰۱۸ میں قائم کیا تھا۔ یہ گروپ ماں کی صحت سے متعلق جانکاری کا پرچار کرتا ہے، اور بچوں کی صحت میں بہتری اور پنچایتوں کو مضبوط کرنے کے شعبہ میں کام کرتا ہے۔

تاجو پریوار کا کام ان مطالعہ پر مبنی ہے، جو ثابت کرتے ہیں کہ جن برادریوں میں خواتین کی صحت کو کم اہمیت دی جاتی ہے، وہاں خواتین ’طبی فوائد کی کم از کم مانگ‘ کو ظاہر کرتی ہیں۔ پی آر آئی اے کے ذریعے مارچ ۲۰۱۸ میں ۲ بلاکوں (بانسواڑہ اور گووندگڑھ) کی ۱۸۰۸ خواتین پر کیے گئے ایک مطالعہ کے مطابق، بانسواڑہ کی ۱۰ میں سے تقریباً ۷ خواتین کے پاس زچہ بچہ کی صحت کے بارے میں مشورہ لینے کے لیے جانے والا کوئی نہیں تھا، جب کہ ایک تہائی خواتین کے پاس ایمرجنسی ہیلتھ سروِس کے لیے پیسہ نہیں تھا۔ اور ۵ میں سے ۳ سے زیادہ خواتین کا ان کی صحت اور تغذیہ سے متعلق فیصلوں پر کوئی کنٹرول نہیں تھا۔

’’ہمارے لوگ بکھری ہوئی بستیوں میں رہتے ہیں۔ ہم دروازے دروازے جا کر کنڈوم بانٹتے ہیں، ٹیکہ لگوانے اور انفکیشن وغیرہ روکنے کے آسان علاجوں کے بارے میں بتاتے ہیں،‘‘ کلپنا تاجو پریوار کے کاموں کے بارے میں سمجھاتے ہوئے کہتی ہیں۔ ایسے گروپ اب بانسواڑہ اور گوند گڑھ بلاک کی ۱۸ پنچایتوں میں سرگرم ہیں۔ اوسطاً ہر ایک گروپ میں ۲۰ رکن ہوتی ہیں، جو رضاکار ہیں۔

کلپنا، جو ایک ’منریگا معاون‘ (ریاستی حکومت کے ذریعے اس اسکیم میں ملازمین کا رجسٹریشن کرنے کے لیے تعینات) بھی ہیں، کہتی ہیں کہ خواتین خاموشی سے برداشت کرتی ہیں۔ ’’اگر رات میں دیر ہو جائے، تو وہ ایمبولینس کو بھی فون نہیں کریں گی۔ وہ پی ایچ سی [جو تقریباً تین کلومیٹر دور گھالکیا میں ہے] جانے کے بجائے مقامی جھولا چھاپ ڈاکٹر کے بھروسے رہتی ہیں، جو گاؤں کی ایک پرچون کی دکان پر دوائیں چھوڑ جاتا ہے،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔

Kalpana Rawal’s and her husband Gorak Nath
PHOTO • Puja Awasthi
Members of the Tajo Parivar believe they can overcome tradition barriers to health seeking behaviour
PHOTO • Puja Awasthi

بائیں: ’’مجھے معلوم ہے کہ بچہ نہ ہونا میری بیوی کی خامی نہیں ہے،‘‘ کلپنا کے شوہر گورکھ ناتھ کہتے ہیں۔ دائیں: واکا گاؤں میں تاجو پریوار کی رکن

لیکن تعلیم اور بیداری خواتین کے لیے ہمیشہ بہتر صحت لے کر نہیں آتی ہیں۔ کلپنا کا خود کا اپنا تجربہ بتاتا ہے کہ سوچ کو بدلنے کی بڑی چنوتی کثیر جہتی اور مشکل ہے۔ بیس سالوں سے شادہ شدہ وہ اور ان کے شوہر گورکھ ناتھ (ایک ’منریگا معاون‘) بے اولاد ہیں، اس صورتحال سے گورکھ ناتھ کی فیملی میں اس بات کو لے کر تلخ بحث ہو چکی ہے کہ وہ اپنی فیملی کے تین بیگھہ [۱ بیگھہ ۰ء۴۰ ایکڑ کے برابر ہوتا ہے] آبائی کھیت کے حصہ دار بننے لائق ہیں یا نہیں۔

کلپنا اور ان کے شوہر گورکھ ناتھ دونوں نے جانچ کے ذریعے یہ پتہ کروانے کی کوشش کی کہ وہ بچے کیوں نہیں پیدا کر پا رہے ہیں۔ جانچ سے پتہ چلا کہ کلپنا میں کوئی جسمانی خامی نہیں تھی، حالانکہ گورکھ ناتھ کی جانچ کے نتائج مادّہ منویہ کی کم تعداد کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ اس جانکاری کے باوجود وہ یہ سوچنے سے خود کو نہیں روک پائیں کہ ان کے شوہر دوبارہ شادی کرکے بچے پیدا کر سکتے ہیں۔ ’’اگر میرے شوہر دوبارہ شادی کرتے ہیں، تو اس میں بھلا مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ وارث ہونا اچھی بات ہے، کم از کم ایک لڑکا تو ہونا ہی چاہیے،‘‘ وہ کندھا اچھالتے ہوئے کہتی ہیں۔

گورکھ ناتھ کی سوچ اس سے الگ ہے۔ ’’مجھے معلوم ہے کہ بچہ نہ ہونا میری بیوی کی خامی نہیں ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’میں نے دوبارہ شادی کے بارے میں کبھی نہیں سوچا ہے۔ اگر وہ ضد کرتی ہے، تو بھی فرق نہیں پڑتا۔ میری برادری اور فیملی کے بزرگ مانتے ہیں کہ بچے پیدا کرنے کی ذمہ داری صرف خواتین کی ہے۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ دونوں پارٹیوں کو برابر رہنا چاہیے [دونوں یکساں طور پر ذمہ دار ہیں]۔‘‘

حالانکہ وہ بیداری پھیلانے اور سوچ بدلنے کا کام بنیادی طور پر خواتین کی ذمہ داری مانتے ہیں۔ ’’مرد خواتین سے ایسے معاملوں [زچگی وغیرہ] کے بارے میں بات کرنے سے جھجکتے ہیں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’خواتین ہی یہ کام کریں تو اچھا ہے۔‘‘

حالانکہ کلپنا جانتی ہیں کہ برادری ایک ساتھ مل کر ہی ایسی سوچ کو بدل سکتی ہے۔ ’’ہمیں اپنا لیڈر خود بننا ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Puja Awasthi

Puja Awasthi is a freelance print and online journalist, and an aspiring photographer based in Lucknow. She loves yoga, travelling and all things handmade.

Other stories by Puja Awasthi
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique