یہ پینل تصاویر پر مبنی نمائش – ’کام ہی کام، عورتیں گُمنام‘ کا حصہ ہے، جس کے تحت دیہی خواتین کے ذریعے کیے جانے والے مختلف قسم کے کاموں کو دکھایا گیا ہے۔ یہ تمام تصویریں پی سائی ناتھ کے ذریعے سال ۱۹۹۳ سے ۲۰۰۲ کے درمیان ملک کی ۱۰ ریاستوں کا دورہ کرنے کے دوران کھینچی گئی ہیں۔ یہاں، پاری نے ایک انوکھے انداز سے تصویر پر مبنی اس نمائش کو ڈیجیٹل شکل میں پیش کیا ہے۔ پہلے یہ نمائش کئی سالوں تک ملک کے زیادہ تر حصوں میں طبیعی طور پر لگائی جاتی رہی ہے۔

قدم جمانے کی کوشش

اس نے اپنی سب سے اچھی ساڑی پہن رکھی تھی۔ تمل ناڈو کے پڈوکوٹئی میں واقع اس ’تربیتی کیمپ‘ میں وہ سائیکل چلانا سیکھ رہی تھی۔ اس کی خوشی کی ایک وجہ اور بھی تھی۔ اس کے ضلع کی انتہائی غریب، تقریباً چار ہزار عورتوں نے پتھر کی اُن کانوں پر قبضہ کر لیا تھا، جہاں پہلے کبھی وہ بندھوا مزدوری کرتی تھیں۔ ان کی منظم جدوجہد، سیاسی شعور کے ساتھ چلائی گئی خواندگی کی مہم سے انہیں جو مدد ملی… ان سبھی نے پڈوکوٹئی کا چہرہ بدل دیا۔

وسائل کا مالکانہ حق اور اس پر اختیار پہلے بھی ضروری تھا اور آج بھی ہے۔ اگر لاکھوں دیہی خواتین کی زندگیوں کو بہتر کرنا ہے، تو انہیں یہ حقوق دینے ہی ہوں گے۔

مدھیہ پردیش کے جھابوا کا یہ گروپ عورتوں کی پنچایت پر مبنی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مقامی حکومت میں شامل ہونے سے ان کی حیثیت اور خود اعتمادی میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن خود اپنے ہی گاؤوں میں ان کا بس نہیں چلتا۔ بہت کم چیزوں پر ان کی ملکیت یا اختیار ہے۔ مثال کے طور پر انہیں زمین کا مالکانہ حق حاصل نہیں ہے۔ اور زیادہ تر شعبوں میں ان کے حقوق کو تسلیم نہیں کیا جاتا، وہاں بھی نہیں جہاں قانون نے انہیں یہ حقوق عطا کیے ہیں۔ اگر سرپنچ کوئی دلت عورت ہے اور نائب سرپنچ اس کا زمیندار، تو ایسی حالت میں کیا ہوتا ہے؟ عہدے میں سینئر ہونے کی وجہ سے کیا نائب سرپنچ اس کی بات مان لے گا؟ یا ویسا ہی برتاؤ کرے گا، جیسا وہ اپنے مزدوروں کے ساتھ کرتا ہے؟ یا مرد ہونے کے ناطے عورت پر اپنا حکم چلائے گا؟ خواتین سرپنچوں اور پنچایت ممبران کے کپڑے پھاڑے گئے ہیں، انہیں پیٹا گیا ہے، عزت لوٹی گئی ہے اور جھوٹے مقدمات تک درج کیے گئے ہیں۔ پھر بھی، پنچایت کی عورتوں نے حیرت انگیز کارنامے انجام دیے ہیں۔ اگر زمینداری ختم کر دی جائے تو نہ جانے وہ اور کیا کیا حاصل کر لیں؟

ویڈیو دیکھیں: پی سائی ناتھ کہتے ہیں، ’اس نے مجھے ایسی نظروں سے دیکھا … صحیح معنوں میں غضب ناک۔ ایسا غصہ میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا…‘

خواندگی کی یہ کلاس پڈوکوٹئی میں انقلابی تبدیلیوں کے دوران شروع ہوئی۔ انقلابی واقعات نے انہیں پتھر کی کانوں کا مالک بنا دیا، جہاں پہلے وہ بندھوا مزدوری کرتی تھیں۔ حالانکہ انہیں اکھاڑ پھینکنے کی بہت کوششیں ہوئیں، لیکن انہوں نے اپنے حق کے لیے لڑنا سیکھ لیا ہے۔

دیہی علاقوں کے لاکھوں دیگر غریبوں کی طرح، عورتوں کو بھی اصلاحِ اراضی کی ضرورت ہے۔ انہیں زمین، پانی اور جنگلات سے متعلق اپنے حقوق چاہئیں۔ زمینوں کی از سر نو تقسیم ہونے پر، انہیں ملکیت کے لیے مشترکہ پٹّے کی ضرورت ہے۔ اور تمام زمینوں پر یکساں جائیداد کے حقوق چاہئیں۔ گاؤں کے عوامی وسائل پر غریبوں کو بھی حق ملنا چاہیے؛ ان وسائل کی فروخت بند ہونی چاہیے۔

جہاں ان حقوق کو قانونی منظوری حاصل نہیں ہے، وہاں نئے قوانین بنانے ہوں گے۔ جہاں قوانین ہیں، وہاں انہیں نافذ کرنا ہوگا۔ انقلابی طریقے سے وسائل کی از سر نو تقسیم کے ساتھ ہی ہمیں بہت سی چیزوں کی دوبارہ تشریح کرنی ہوگی۔ ’ہنرمند‘ اور ’غیر ہنرمند‘ یا ’بھاری‘ اور ’ہلکا‘ کام ایسی کچھ مثالیں ہیں۔ کم از کم مزدوری طے کرنے والی کمیٹیوں کو خواتین زرعی مزدوروں کا رول بھی متعین کرنا ہوگا۔

PHOTO • P. Sainath
PHOTO • P. Sainath

اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے عوامی تحریک کی ضرورت ہے۔ منظم عوامی کارروائی۔ سیاسی عمل میں شمولیت۔ اور اس بات کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ دیہی عورتوں کے مسائل بھی مجموعی طور پر ہندوستان کے غریبوں کی زندگی کو بہتر بنانے کی جدوجہد کا ہی ایک بنیادی حصہ ہیں۔

لوگوں کی بھلائی کے لیے ترقیاتی کام، عوام کے حقوق کو مضبوطی فراہم کرنے کا متبادل نہیں ہو سکتے۔ دیگر غریبوں کی طرح ہی، دیہی عورتوں کو بھی خیرات نہیں چاہیے۔ وہ اپنے حقوق حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ اور اسی کے لیے آج لاکھوں عورتیں جدوجہد کر رہی ہیں۔

PHOTO • P. Sainath
PHOTO • P. Sainath

مترجم: محمد قمر تبریز

P. Sainath is Founder Editor, People's Archive of Rural India. He has been a rural reporter for decades and is the author of 'Everybody Loves a Good Drought' and 'The Last Heroes: Foot Soldiers of Indian Freedom'.

Other stories by P. Sainath
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique