پرائی ڈرم بجنے لگتا ہے اور ریلی شروع ہو جاتی ہے۔
تقریباً ۶۰ لوگوں کا مجمع نعرہ لگاتا ہے، ’’جے جے جے جے جے بھیم، جے امبیڈکر جے بھیم۔‘‘ یہ نظارہ مہا پری نِروان ریلی کا ہے، جو پچھلے سال (۲۰۲۲) ممبئی کے دھاراوی میں ۶ دسمبر کو ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کے یوم وفات پر منعقد کی گئی تھی۔
یکے بعد دیگرے لوگ اپنی موم بتیاں جلاتے ہیں اور دھاراوی کے پیریار چوک پر جمع ہوتے ہیں، اور پھر ایشیا کی سب سے بڑی جھگی بستی کا یہ حصہ جشن کے ماحول میں ڈوب جاتا ہے۔ مہا پری نروان دیوس (امبیڈکر کے یوم وفات) کی یہ تقریب جے بھیم فاؤنڈیشن کے ذریعے منعقد کی جا رہی ہے۔ یہ ریلی تقریباً دو گھنٹے تک چلے گی اور ای وی راما سوامی (پیریار) چوک سے گنیشن کووِل میں نصب امبیڈکر کے مجسمہ تک جائے گی، جو یہاں سے تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔
اپنے شوہر سریش کمار راجو کے ساتھ، فاؤنڈیشن کی بانی ممبران میں سے ایک وینیلا سریش کمار کہتی ہیں، ’’آج کا دن ہمارے لیے تہوار جیسا ہے۔ پورا ممبئی شہر ۱۴ اپریل (امبیڈکر جینتی) اور ۶ دسمبر کو ذات پات کی تفریق کے شکار لوگوں کو حق دلانے میں اس عظیم لیڈر کے رول کو یاد کرتا ہے۔ ہم نیلے جھنڈوں سے پورے راستے کو سجاتے ہیں اور گھر گھر جا کر لوگوں کو ساتھ آنے کی دعوت دیتے ہیں۔‘‘
وہ امبیڈکر کے مجسمہ کو پھولوں کی مالا پہناتی ہیں، جو پورے دھاراوی میں ان کا واحد مجمسہ ہے۔ پھر وہ ایک گروپ کے ساتھ اپنے لیڈر کو وقف تمل گیت گانے لگتی ہیں۔


بائیں: ریلی شروع ہونے سے پہلے موم بتیاں جلائی جاتی ہیں اور لوگ اکٹھا ہو کر امبیڈکر کے تعاون کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ دائیں: وینیلا (سفید کرتے میں) ریلی میں خواتین کو جمع کرنے میں قائدانہ رول ادا کرتی ہیں

ریلی کے دوران تمل زبان میں نعرے لگتے ہیں، کیوں کہ ریلی میں شامل زیادہ تر لوگ تمل بولنے والے گھروں سے ہیں۔ ارن (سب سے بائیں کھڑا لڑکا) ریلی کے دوران پرائی بجاتا ہے
سریش (۴۵ سالہ)، شمالی ممبئی کی ایک کمپنی میں بطور ڈرائیور کام کرتے ہیں۔ وہ روزانہ ۱۴ گھنٹے کام کرتے ہیں اور ماہانہ تنخواہ کے طور پر انہیں تقریباً ۲۵ ہزار روپے ملتے ہیں۔ وینیلا (۴۱ سالہ) گھریلو ملازمہ ہیں، جو دھاراوی کے قریب واقع ایک اپارٹمنٹ میں روزانہ ۶ گھنٹے کام کرتی ہیں۔ انہیں اس کام کے عوض ۱۵ ہزار روپے کی ماہانہ تنخواہ ملتی ہے۔
میاں بیوی کے دو بیٹے ہیں – کارتک (۱۷) اور ارن (۱۲)، جو شہر کے پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ وینیلا کہتی ہیں، ’’ہم دادر میں واقع چیتیہ بھومی جیسے شہر کے دوسرے حصوں میں منعقد ہونے والے جشن بھیم میں بھی شریک ہوتے ہیں۔ دھاراوی میں زیادہ تر پرایر برادری کے لوگ ہی امبیڈکر کی پیروی کرتے ہیں اور یہاں کی تقریبات میں شرکت کرتے ہیں۔
وینیلا اور سریش بنیادی طور پر تمل ناڈو کے ہیں اور پرایر برادری سے تعلق رکھتے ہیں، جو ان کی آبائی ریاست میں درج فہرست ذات کے طور پر درج ہے۔ وینیلا کہتی ہیں، ’’میرے والد سال ۱۹۶۵ میں کام کی تلاش میں تیرونیل ویلی سے دھاراوی آئے تھے۔‘‘ فیملی کو اس لیے مہاجرت کرنی پڑی، کیوں کہ سینچائی کی کمی اور دیگر وجوہات سے کھیتی کرکے گزارہ نہیں ہو پا رہا تھا۔
دھاراوی میں میاں بیوی جہاں رہتے ہیں، وہاں اور آس پاس کے امبیڈکر کے پیروکاروں کو منظم کرنے میں ان کا اہم رول ہے۔ سریش بتاتے ہیں کہ انہوں نے ۲۰۱۲ میں راجا کُٹّی راجو، نتیانند پلانی، انل سینٹنی اور دیگر معاونین کے ساتھ مل کر ’’۱۴ اپریل اور ۶ دسمبر کو امبیڈکر کی یاد میں اور ان کے تعاون کے بارے میں بیداری پھیلانے کے لیے اجتماعی تقریبات کی شروعات کی تھی۔‘‘


وینیلا کے نئے گھر (بائیں) کے باہر بدھ، امبیڈکر، ای وی راما سوامی پیریار، ساوتری بائی پھُلے اور کارل مارکس کی تصویریں لگی ہیں۔ وینیلا اور ان کے شوہر (دائیں) نے پچھلے سال اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ بودھ مذہب اختیار کر لیا


وینیلا اپنے سیلف ہیلپ گروپ ’مگی ڈچی مگلیر پیر وَئی‘ کی خواتین کے ساتھ
سریش جب ڈرائیونگ نہیں کر رہے ہوتے ہیں، تب جے بھیم فاؤنڈیشن کا کام کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ۲۰۱۲ میں فاؤنڈیشن کے ۲۰ رکن تھے اور اب ۱۵۰ ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہمارے زیادہ تر ممبران بھی مہاجر ہیں۔ وہ ڈرائیونگ کرتے ہیں اور ریلوے میں کام کرتے ہیں، لیکن ریلیوں میں شامل ہوتے ہیں۔‘‘
وینیلا نے ۹ویں کلاس تک پڑھائی کی تھی اور پھر روزی روٹی کمانے کے لیے انہیں پڑھائی چھوڑنی پڑی۔ وہ بتاتی ہیں کہ باورچی کا کام کرتے ہوئے اور ایک آفس میں کام کرنے کے دوران انہوں نے انگریزی بولنا سیکھ لیا۔ سال ۲۰۱۶ میں، وینیلا اور علاقے کی کچھ دیگر خواتین نے مل کر سیلف ہیلپ گروپ کی شروعات کی، جسے وہ ’مگی ڈچی مگلیر پیر وَئی‘ کہتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ’’یہاں ہم عورتوں کو خود کے لیے زیادہ وقت نہیں ملتا ہے، اس لیے خواتین کے اس گروپ کے ذریعے ہم کچھ پروگرام منعقد کرتے ہیں اور ساتھ میں فلم دیکھنے جاتے ہیں۔‘‘ لاک ڈاؤن کے دوران وینیلا کے رابطوں کی مدد سے، سیلف ہیلپ گروپ نے دھاراوی کے لوگوں کو کھانا، کیرانے کا سامان، اور چھوٹی مالی مدد فراہم کرائی۔
وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں کہ تمل میں مگی ڈچی کا مطلب ’خوشی‘ ہوتا ہے۔ ’’عورتوں پر ہمیشہ ظلم ہوتا رہا ہے اور وہ اپنے گھروں میں مایوسی کی زندگی بسر کر رہی ہوتی ہیں۔ ہم نے ایک ایسا پلیٹ فارم بنایا ہے جہاں ہم سب ایک دوسرے سے خوشی خوشی بات کرتے ہیں۔‘‘

وینیلا (سفید کرتے میں)، ان کے شوہر سریش (سفید قمیض میں ان کے پیچھے)، اور سریش کے چھوٹے بھائی راجا کُٹی اس ریلی کے منتظمین میں شامل ہیں

ارَن (سفید ٹی شرٹ میں) ریلی میں پرائی بجاتا ہے

ریلی پیریار چوک سے شروع ہوتی ہے اور گنیشن کووِل کے احاطہ میں نصب امبیڈکر کی مورتی پر جا کر ختم ہوتی ہے۔ تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر کا یہ فاصلہ دو گھنٹے میں طے ہوتا ہے

ریلی کے دوران ہر جگہ نیلے جھنڈے نظر آتے ہیں، جن پر ’جے بھیم‘ لکھا ہے

وینیلا (سفید کرتے میں) ریلی میں نعرے لگاتی ہیں۔ سریش کے چھوٹے بھائی راجا کٹی (سفید قمیض اور داڑھی میں) ان کے بغل میں چل رہے ہیں۔ پرائی کی آواز اور نعرے، ریلی میں جان پھونک دیتے ہیں

راجا کُٹّی راجو (سفید قمیض میں) اور نتیانند پلانی (کالی شرٹ میں) ریلی کے بنیادی منتظمین میں سے ہیں

اریوو کے نام سے مشہور تمل ریپر اریورسو کلئی نیسن بھی ریلی کے دوران موجود تھے۔ ریلی کے خاتمہ پر انہوں نے گیت گائے اور رَیپ کیا

ریلی کے اختتام پر کچھ لوگ امبیڈکر کے مجسمہ کے پاس جاتے ہیں اور پورے احترام سے پھولوں کی مالا پہناتے ہیں
مترجم: شفیق عالم