’’میں نے اسے لاٹھی سے مارا، لیکن اس نے میرے اوپر چھلانگ لگا دی اور اپنے پنجوں سے میری گردن اور بازو نوچ ڈالے۔ میں جنگل میں چار کلومیٹر اندر تھا۔ میرے کپڑے خون سے لت پت ہو گئے۔ بڑی مشکلوں سے میں گھر لوٹا۔‘‘ تیندوے کے اس حملے کے بعد، علاج کے لیے وشال رام مرکام کو دو ہفتے اسپتال میں گزارنے پڑے۔ لیکن وہ اس بات سے خوش تھے کہ ان کی بھینسوں کو کچھ نہیں ہوا۔ وہ کہتے ہیں، ’’تیندوے نے تو میرے کتوں پر بھی حملہ کر دیا تھا۔ لیکن وہ بھاگ گئے تھے۔‘‘

مرکام پر یہ حملہ ۲۰۱۵ میں ہوا تھا۔ اب وہ اس واقعہ کو یاد کرتے ہوئے ہنستے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں نے اس حملہ سے پہلے اور اس کے بعد بھی اس تیندوے کو دیکھا تھا۔ وہ اپنی بھینسیں چھتیس گڑھ کے جبرّا جنگل میں چراتے ہیں، جہاں نہ صرف بھوکے تیندوے سے آپ کا سامنا ہو سکتا ہے، بلکہ شیر، بھیڑیے، گیدڑ، جنگلی کتے، لومڑی اور جنگلی سور کے ساتھ ساتھ سانبھر اور چیتل ہرن اور طاقتور بائسن (ارنا بھینسا) بھی دیکھنے کو مل جائیں گے۔ موسم سرما میں، جب جانور اپنی پیاس بجھانے کے لیے جنگل میں دو چار پانی کے نالے کی طرف رخ کرتے ہیں، تو اِن شکاریوں کے حملے کا امکان دو گنا، بلکہ تین گنا بڑھ جاتا ہے۔

مرکام بتاتے ہیں، ’’میری بھینسیں جنگلوں میں اپنے آپ ہی گھومتی رہتی ہیں۔ میں انہیں تلاش کرنے تبھی جاتا ہوں، جب وہ واپس نہ آئیں۔ کبھی کبھی میرے جانور صبح کے ۴ بجے بھی واپس نہیں لوٹتے۔ جنگل میں رات کے وقت انہیں ڈھونڈنے کے لیے میں ڈبل [روشنی والے] ٹارچ کا استعمال کرتا ہوں۔‘‘ وہ ہمیں اپنا پاؤں دکھاتے ہیں، جس پر جنگل میں ننگے پیر چلنے کی وجہ سے جگہ جگہ زخم اور آبلے پڑ گئے ہیں۔

دھمتری ضلع کی نگری تحصیل میں واقع جبرّا گاؤں کے بغل میں ایک بڑا جنگل ہے، جہاں ان کی بھینسیں گھاس کے میدان کی تلاش میں روزانہ جنگل کے اندر ۱۰-۹ کلومیٹر تک چلی جاتی ہیں۔ مرکام کہتے ہیں، ’’گرمیوں کے موسم میں، یہ بھینسیں چارے کی تلاش میں دو گنا فاصلہ طے کرتی ہیں۔ اب جنگل پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا؛ بھوک کی وجہ سے ان مویشیوں کی موت ہو سکتی ہے۔‘‘

Vishalram Markam's buffaloes in the open area next to his home, waiting to head out into the forest.
PHOTO • Priti David
Markam with the grazing cattle in Jabarra forest
PHOTO • Priti David

بائیں: وشال رام مرکام کی بھینسیں ان کے گھر کے بغل میں ایک کھلے میدان میں کھڑی ہیں اور جنگل میں جانے کا انتظار کر رہی ہیں۔ دائیں: جبرّا کے جنگل میں مرکام اپنی چرتی ہوئی بھینسوں کے ساتھ

مرکام کہتے ہیں، ’’میں انہیں کھلانے کے لیے پیڑا [جسے پُوال یا پرالی بھی کہتے ہیں] خریدتا ہوں، لیکن انہیں جنگل میں گھومنے اور جنگلی گھاس کھانے میں زیادہ مزہ آتا ہے۔‘‘ گویا یہ سرکش بچے ہوں۔ اور تمام والدین کی طرح، ان کے پاس بھی انہیں واپس بلانے کے لیے کچھ ترکیبیں ہیں – جیسے کہ نمک کا ڈھیلا، جسے چاٹنا انہیں بہت پسند ہے۔ اس کی وجہ سے وہ رات کے ۸ بجے تک گھر لوٹ آتی ہیں۔ ان جانوروں کا ’گھر‘ اپنے مالک کے اینٹ اور مٹی سے بنے گھر کے بغل میں ایک وسیع، باڑ والا صحن ہے۔

جبرّا گاؤں میں کل ۱۱۷ گھر ہیں، جن میں سے اکثریت گونڈ اور کمار آدیواسیوں کی ہے، اور دو چار گھر یادو کے ہیں (جو ریاست میں دیگر پس ماندہ طبقے کے طور پر درج ہیں)۔ مرکام ایک گونڈ آدیواسی ہیں، جو ۵۳۵۲ ہیکٹیئر میں پھیلے اس جنگل کی ہر ایک چیز سے واقف ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کے تقریباً ۵۰ سال اسی علاقے میں گزارے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میں نے مقامی اسکول سے پانچویں کلاس تک پڑھائی مکمل کی اور اس کے بعد یہیں پر کاشتکاری کرنے لگا۔‘‘

فاریسٹ سروے آف انڈیا (ہندوستان کے جنگلات کا سروے) کی ۲۰۱۹ کی ایک رپورٹ کے مطابق، چھتیس گڑھ کے مشرقی کونے میں واقع دھمتری ضلع کا ۵۲ فیصد حصہ ریزروڈ اور محفوظ علاقہ ہے، اور اس کا تقریباً آدھا رقبہ گھنے جنگلات پر مبنی ہے۔ بڑے پیمانے پر ساکھو (یا سال) اور ساگوان کے درختوں کے علاوہ یہاں ساج، کوہا، ہرّا، بہیرا، تِنسا، بیجا، کُمبھی اور مہوا کے درخت بھی پائے جاتے ہیں۔

کم بارش اور بڑے درختوں کے سایہ کی وجہ سے، گزرتے ہوئے سالوں کے ساتھ یہاں کے چراگاہوں میں کمی آئی ہے۔ مرکام بتاتے ہیں کہ پہلے ان کے پاس ۹۰ بھینسیں ہوا کرتی تھیں، لیکن اب ان کی تعداد گھٹ کر صرف ۷۰-۶۰ ہی رہ گئی ہے، جن میں سے ۱۵ بچھڑے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’جنگل میں ان بھینسوں کا چارہ کم ہوتا جا رہا ہے۔ اگر انہوں نے درختوں کو کاٹنا بند کر دیا، تو شاید ان میں اضافہ ہو جائے۔ میں نے [۲۰۱۹ میں] اپنے جانوروں کے لیے چارہ خریدنے پر ۱۰ ہزار روپے خرچ کیے۔ اسے ٹریکٹر میں بھر کر لانے کے لیے ۶۰۰ روپے کرایہ دینا پڑتا ہے اور کسانوں کے پاس سے لانے کے لیے مجھے ایسے ۲۰ چکّر لگانے پڑتے ہیں۔‘‘

ویڈیو دیکھیں: ’ان جانوروں کو میں تبھی چھوڑوں گا جب میری موت آئے گی‘

موسم سرما میں، جب جانور اپنی پیاس بجھانے کے لیے جنگل میں دو چار پانی کے نالے کی طرف رخ کرتے ہیں، تو اِن شکاریوں کے حملے کا امکان دو گنا، بلکہ تین گنا بڑھ جاتا ہے

مرکام، ۲۰۰۶ کے جنگلات کے حقوق کا قانون کے تحت جبرّا گرام سبھا کو اگست ۲۰۱۹ میں دیے گئے ’کمیونٹی کے جنگلاتی وسائل کے حقوق‘ کا استعمال کرکے چراگاہوں کے رقبہ کو بڑھانے کی امید کر سکتے ہیں۔ اس قانون میں کہا گیا ہے کہ کمیونٹی جن جنگلاتی وسائل کا تحفظ روایتی طور پر کرتی آ رہی ہے، انہیں اس کی ’’حفاظت، دوبارہ تعمیر یا تحفظ یا انتظام کرنے کا حق حاصل ہے‘‘۔ چھتیس گڑھ میں جبرّا پہلا گاؤں ہے جسے یہ حقوق حاصل ہیں۔

جبرّا میں پنچایت (شیڈول ایریا میں توسیع) ایکٹ، یا پی ای ایس اے کے نفاذ کے لیے ذمہ دار ضلعی رابطہ کار، پرکھر جین کہتے ہیں، ’’کن درختوں کی حفاظت کرنی ہے اور کن درختوں کو لگانا ہے؛ کن جانوروں کو چرنے کی اجازت ہے؛ جنگل میں کون داخل ہو سکتا ہے؛ چھوٹے تالاب بنانا؛ اور مٹی کے کٹاؤ کو روکنے کے اقدامات – اب یہ تمام فیصلے گرام سبھا کے ہاتھوں میں ہیں۔‘‘

مرکام کا کہنا ہے کہ قانونی التزامات خوش آئند ہیں، لیکن باہر کے کئی لوگ جنگل میں آتے ہیں اور اسے نقصان پہنچاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں نے لوگوں کو یہاں آ کر مچھلیاں پکڑنے کے لیے آبی ذخائر میں کیڑے مار دوائیں چھڑکتے، اور بڑے جانوروں کو پکڑنے کے لیے زہر کا استعمال کرتے دیکھا ہے۔ یہ ہمارے لوگ نہیں ہیں۔‘‘

وہ کہتے ہیں کہ گرام سبھا کی اگلی میٹنگ میں وہ گھاس کے کم ہوتے میدانوں کا مسئلہ اٹھائیں گے۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں نے ابھی تک یہ کام اس لیے نہیں کیا کیوں کہ میرے پاس وقت نہیں تھا۔ میں رات میں دیر تک گوبر اکٹھا کرتا رہتا ہوں، لہٰذا میں میٹنگ میں کیسے شرکت کر سکتا ہوں؟‘‘ لیکن، ان کا کہنا ہے کہ اب وہ آواز اٹھائیں گے۔ ’’ہم لوگوں کو جنگلات کی کٹائی کے خلاف متحد ہونا پڑے گا۔ اگر جنگل محفوظ رہیں گے، تو ہماری روزی روٹی بھی بچی رہے گی۔ جنگل کو بچانے کی ذمہ داری ہمارے کندھوں پر ہے۔‘‘

جنگل کے کنارے بنے مرکام کے تین کمروں کے پکّا (پختہ) گھر میں ایک بڑا صحن ہے، جہاں رات کے وقت وہ اپنے بچھڑوں کو کھونٹے سے باندھ کر رکھتے ہیں۔ اس کے بغل میں ایک کھلی جگہ ہے، جہاں بڑے جانور رہتے ہیں۔

A pile of hay that Markam has bought to feed his buffaloes as there isn't enough grazing ground left in the forest.
PHOTO • Purusottam Thakur
He restrains the calves in his fenced-in courtyard to stop them from straying into the jungle.
PHOTO • Priti David
The 'community forest resources rights' title granted under the Forest Rights Act to Jabarra gram sabha

بائیں: پُوال (پرالی) کا ایک ڈھیر جسے مرکام نے اپنی بھینسوں کو کھلانے کے لیے خریدا ہے کیوں کہ جنگل میں ان کے چرنے کا میدان اب زیادہ نہیں بچا ہے۔ درمیان میں: وہ اپنے بچھڑوں کو باڑ والے صحن میں روک کر رکھتے ہیں تاکہ وہ جنگل میں بھٹکنے نہ جا سکیں۔ دائیں: جبرّا گرام سبھا کو جنگلات کے حقوق کے قانون کے تحت دیے گئے ’کمیونٹی کے جنگلاتی وسائل کے حقوق‘ کا اجازت نامہ

صبح کے ساڑھے چھ بج رہے ہیں اور جس وقت ہم اُن سے ملے، تب تک سورج پوری طرح نکل آیا تھا۔ سردی کی رات میں خود کو گرم رکھنے کے لیے انہوں نے جو لکڑی جلائی تھی، اس کے انگارے اب بھی چمک رہے ہیں۔ جانوروں کی بے چینی، ان کا آوازیں نکالنا اور جنگل میں جانے کے لیے بے قرار ہوتے بچھڑوں کی وجہ سے ان کے گھر کے ارد گرد ایک عجیب سا سماں پیدا ہو گیا ہے۔ صحن میں دودھ کے بڑے برتن سوکھ رہے ہیں – جانوروں سے نکالا گیا دودھ دھمتری شہر کے ایک تاجر کے پاس بھیجا جا چکا ہے۔ مرکام بتاتے ہیں کہ اگر دن اچھا رہا تو، وہ ۴۰-۳۵ لیٹر دودھ فروخت کر لیتے ہیں۔ فی لیٹر دودھ سے ان کی ۳۵ روپے کی کمائی ہوتی ہے۔ گوبر بھی فروخت ہوتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میں روزانہ [بانس کی] تقریباً ۷۰-۵۰ ٹوکریوں میں گوبر اکٹھا کرتا ہوں۔ اسے پودے کی نرسری کے لیے خریدا جاتا ہے۔ میں نے ایک مہینے میں ٹریکٹر کی ایک ٹرالی کے برابر گوبر بیچا اور اس سے [فی ٹرالی] ۱۰۰۰ روپے کمائے۔‘‘

ہم سے بات کرتے وقت، وہ بچھڑوں کو روک کر رکھنے کے لیے باڑ کے دو ستونوں کے درمیان ایک افقی کھمبا لگا رہے ہیں، تاکہ وہ چرنے کے لیے بڑے جانوروں کے ساتھ جنگل میں نہ بھاگ جائیں۔ بچھڑوں کے بے قراری اور شور و غوغا کے درمیان، وہ اونچی آواز میں کہتے ہیں، ’’یہ ابھی چھوٹے ہیں، اس لیے میں انہیں گھر سے دور جانے نہیں دے سکتا، ورنہ اُن کا شکار کر لیا جائے گا۔‘‘

مویشیوں کو پالنے کے علاوہ، مرکام ایک ایکڑ میں کھیتی بھی کرتے ہیں، اور اس پر دھان اُگاتے ہیں۔ ایک سال میں وہ ۷۵ کلو چاول پیدا کرتے ہیں، جو اُن کے اور ان کی فیملی کے کھانے میں استعمال ہوتا ہے۔ مویشی پالنے پر انہیں کیوں مجبور ہونا پڑا، اس بابت وہ شکایتی لہجہ میں کہتے ہیں، ’’میں [صرف] کھیتی کرتا تھا، پھر میں نے ۲۰۰ روپے میں ایک بھینس خریدی، جس سے ۱۰ بچھڑے پیدا ہوئے۔‘‘ تقریباً ۴۶۰ کی آبادی والے جبرّا کے زیادہ تر لوگ زمین کے اپنے چھوٹے ٹکڑے پر دھان، کُلتھی اور اڑد اُگاتے ہیں، اور مہوا کے پھول چُننے، شہد اکٹھا کرنے اور اپنے کچھ جانوروں کو چرانے کے لیے جنگل جاتے ہیں۔

Markam fixes the horizontal bars on the makeshift fence to corral the calves.
PHOTO • Purusottam Thakur
Outside his three-room house in Jabarra village
PHOTO • Priti David

بائیں: مرکام اپنے بچھڑوں کو جنگل میں جانے سے روکنے کے لیے عارضی باڑ پر افقی ستون لگا رہے ہیں۔ دائیں: جبراّ گاؤں میں اپنے تین کمرے کے گھر کے باہر کھڑے ہوئے

مرکام اپنی بیوی، کرن بائی کے ساتھ رہتے ہیں، جو جانوروں کی دیکھ بھال کرنے میں ان کی مدد کرتی ہیں۔ ان کے دونوں بیٹوں کا چھوٹی عمر میں ہی انتقال ہو گیا تھا۔ اب دو بیٹیاں بچی ہیں، جو شادی ہو جانے کے بعد ان سے دور رہتی ہیں۔

مارچ ۲۰۲۰ سے شروع ہونے والے کووڈ۔۱۹ لاک ڈاؤن کے دوران مرکام کا کافی نقصان ہوا کیوں کہ وہ دھمتری کے بازار میں بھینس کا دودھ پہنچانے میں ناکام رہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہوٹل اور دکانیں بند تھیں، جس کی وجہ سے ہمارے دودھ کے کاروبار پر برا اثر پڑا۔‘‘ اس کے بعد، انہوں نے گھی بنانا شروع کیا، جو زیادہ دنوں تک بچا کر رکھا جا سکتا ہے۔ دودھ اُبالنے اور پھر اس کا مکھن اور گھی نکالنے میں کرن بائی ان کی مدد کرتی ہیں۔

کَمار آدیواسی برادری سے تعلق رکھنے والی کرن بائی، مرکام کی دوسری بیوی ہیں۔ گونڈ ہونے کی وجہ سے (جو چھتیس گڑھ کا سب سے بڑا آدیواسی گروپ ہے)، انہیں ان سے شادی کرنے کی قیمت چکانی پڑی۔ وہ بتاتے ہیں، ’’[کمیونٹی سے] باہر شادی کرنے کی وجہ سے جرمانہ کے طور پر مجھے لوگوں کو دعوت کھلانی پڑے، جس پر تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپے خرچ ہوئے۔‘‘

مرکام کا چونکہ کوئی وارث نہیں ہے، اس لیے وہ ہمیشہ اس بات کو لے کر فکرمند رہتے ہیں کہ اُن کے مرنے کے بعد اِن جانوروں کا کیا ہوگا۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں جب موجود نہیں رہتا ہوں، تو میرے جانور ادھر ادھر بھٹکتے رہتے ہیں۔ اگر میں مر گیا، تو ان جانوروں کو چھوڑنا پڑے گا کیوں کہ تب ان کی رکھوالی کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ میں ان کی دیکھ بھال کے اس کام میں پھنس کر رہ گیا ہوں۔ میں انہیں تبھی چھوڑوں گا جب میری موت آئے گی۔‘‘

وشال رام مرکام کو ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں بولتے ہوئے اس ویڈیو میں دیکھیں: ماحولیاتی تبدیلی کے پروں پر کیڑوں کی لڑائی ، جسے پاری پر ۲۲ ستمبر ۲۰۲۰ کو شائع کیا گیا تھا۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Purusottam Thakur

Purusottam Thakur is a 2015 PARI Fellow. He is a journalist and documentary filmmaker and is working with the Azim Premji Foundation, writing stories for social change.

Other stories by Purusottam Thakur
Priti David

Priti David is the Executive Editor of PARI. She writes on forests, Adivasis and livelihoods. Priti also leads the Education section of PARI and works with schools and colleges to bring rural issues into the classroom and curriculum.

Other stories by Priti David
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique