’’کیا میں اپنی زندگی کی کہانی کو لیکر آپ پر بھروسہ کر سکتی ہوں؟‘‘

اتنا سیدھا اور چیلنج بھرا سوال آپ سے شاید ہی کبھی پوچھا گیا ہو۔ اور سوال کرنے والے کے پاس اسے پوچھنے کی معقول وجہ تھی۔ جیسا کہ تمل ناڈو کے وِلّوپورم ضلع کے ایک چھوٹے سے گاؤں کی جننی (بدلا ہوا نام)، اپنی زندگی کی کہانی کے بارے میں کہتی ہیں: ’’تپ دق نے اسی پوری طرح سے بدل دیا ہے۔‘‘

ان کی شادی کو ڈیڑھ سال ہی ہوئے تھے اور ان کا ایک چار مہینے کا بیٹا تھا جب وہ ٹی بی میں مبتلا ہوئیں۔ ’’یہ مئی ۲۰۲۰ کی بات ہے۔ اس سے تقریباً ایک مہینہ قبل مجھے اس کی علامات [طویل مدتی کھانسی اور بخار] تھیں۔‘‘ جب تمام باضابطہ ٹیسٹ ناکام ہو گئے، تو ڈاکٹروں نے انہیں ٹی بی کا ٹیسٹ کرانے کی صلاح دی۔ ’’جب انہوں نے تصدیق کر دی کہ یہ تپ دق ہی ہے، تو میں ٹوٹ گئی۔ یہ میرے کسی بھی شناسا کو نہیں ہوا تھا، اور میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ یہ مجھے ہو جائے گا۔

’’میرے گاؤں میں اس بیماری کو رسوائی کا سبب مانا جاتا ہے، ایک ایسا مرض جو تمام سماجی رشتوں کو ختم کر دیتا ہے – کہ یہ مجھے بھی ہو سکتا ہے!‘‘

اُس دن سے، ۲۷ سالہ جننی کے شوہر جو کبھی اُن سے بہت محبت کرتے تھے، انہیں اس بیماری کے لیے لگاتار طعنہ دینے لگے کہ وہ انہیں بھی متاثر کر سکتی ہیں۔ ’’وہ مجھے زبانی اور جسمانی اذیت دیتے تھے۔ ہماری شادی ہونے کے ایک سال بعد ہی ان کی ماں کا انتقال ہو گیا تھا – کیوں کہ انہیں پہلے سے ہی گردے سے متعلق بیماری تھی۔ لیکن میرے شوہر کہنے لگے کہ ان کی موت میری وجہ سے ہوئی ہے۔‘‘

اگر اُس وقت کسی کو سب سے زیادہ خطرہ تھا، تو وہ خود جننی تھیں۔

تپ دق یا ٹی بی اب بھی ہندوستان میں سب سے مہلک بیماریوں میں سے ایک ہے۔

Less than a month after contracting TB, Janani went to her parents’ home, unable to take her husband's abuse. He filed for divorce
Less than a month after contracting TB, Janani went to her parents’ home, unable to take her husband's abuse. He filed for divorce

ٹی بی ہونے کے ایک مہینہ کے اندر، جننی اپنے والدین کے گھر چلی گئیں، کیوں کہ وہ اپنے شوہر کے ظلم کو برداشت نہیں کر سکتی تھیں۔ اس نے طلاق کے لیے عرضی دی

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق، کووڈ۔۱۹ کے مرکزی حیثیت اختیار کرنے سے پہلے، تپ دق نے ۲۰۱۹ میں ۲۶ لاکھ سے زیادہ ہندوستانیوں کو متاثر کیاتھا، جس سے تقریباً ۴ لاکھ ۵۰ ہزار لوگوں کی موت ہوئی ۔ حکومت ہند نے ڈبلیو ایچ او کے اعداد و شمار پر زوردار حملہ کرتے ہوئے کہا کہ اُس سال ٹی بی سے متعلق اموات کی تعداد ۷۹ ہزار سے زیادہ نہیں تھی۔ ان ۱۵ مہینوں میں کووڈ۔۱۹ سے ۲ لاکھ ۵۰ ہزار لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔

سال ۲۰۱۹ میں، ہندوستان میں دنیا بھر کے ٹی بی کے کل معاملوں کا ایک چوتھائی حصہ تھا – ڈبلیو ایچ او کے مطابق، یہ تعداد ایک کروڑ تھی۔ ’’عالمی سطح پر، تقریباً ایک کروڑ... لوگ ۲۰۱۹ میں ٹی بی سے بیمار پڑے، اس تعداد میں حالیہ برسوں میں بہت دھیرے دھیرے کمی آ رہی ہے۔‘‘ دنیا بھر میں ٹی بی سے ہونے والی ۱۴ لاکھ اموات میں سے ایک چوتھائی ہندوستان میں ہوئی تھی۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق ، ٹی بی ایک بیکٹیریا (مائکروبیکٹیریم ٹیوبرکُلوسس) کے سبب ہوتا ہے جو پھیپھڑے کو سب سے زیادہ متاثر کرتا ہے... ٹی بی ایک آدمی سے دوسرے آدمی میں ہوا کے ذریعے پھیلتا ہے۔ جب ٹی بی سے متاثرہ پھیپھڑے والے لوگ کھانستے، چھینکتے یا تھوکتے ہیں، تو وہ ٹی بی کے جراثیم کو ہوا میں پھیلا دیتے ہیں۔ ان میں سے کچھ جراثیم کو ہی سانس کے ذریعے اندر لے جانے سے کوئی آدمی اس مرض سے متاثر ہو سکتا ہے۔ دنیا کی تقریباً ایک چوتھائی آبادی ٹی بی سے متاثر ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ ٹی بی کے بیکٹیریا سے متاثر ہوچکے ہیں، لیکن اس سے (ابھی تک) بیمار نہیں پڑے ہیں اور اسے پھیلا نہیں سکتے۔‘‘

ڈبلیو ایچ او آگے کہتا ہے کہ تپ دق ’’غریبی اور اقتصادی بحران کی بیماری ہے۔‘‘ اور، اس کا کہنا ہے، ٹی بی سے متاثرہ لوگ اکثر ’’زد پذیری، محرومی، لعنت و ملامت اور تفریق کا سامنا کرتے ہیں...‘‘

جننی جانتی ہیں کہ اس میں کتنی حقیقت ہے۔ اپنی اعلی تعلیمی لیاقت کے باوجود – ان کے پاس سائنس میں ماسٹرس کی ڈگری اور ایجوکیشن میں گریجویشن کی ڈگری ہے – انہیں بھی زد پذیری، لعنت و ملامت اور تفریق کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے والد ایک مزدور ہیں – ’’چھوٹے موٹے کام کرتے ہیں‘‘ جب انہیں ملتا ہے – ان کی ماں خاتون خانہ ہیں۔

بیماری سے سامنا ہونے، اور ان کے پوری طرح سے ٹھیک ہو جانے کے بعد – اور اب جننی اس مہلک بیماری کے خلاف یہاں کی مہم کی زبان میں ’’ٹی بی جانباز‘‘ یا ’خاتون ٹی بی لیڈر‘ بن گئی ہیں، جو سرگرمی سے تپ دق سے متعلق بدگمانیوں اور طعن و تشنیع کا مقابلہ کر رہی ہیں۔

Janani has been meeting people in and around her village to raise awareness about TB and to ensure early detection.
PHOTO • Courtesy: Resource Group for Education and Advocacy for Community Health (REACH)

جننی ٹی بی کے بارے میں بیداری پیدا کرنے اور اس بیماری کا جلد پتا لگانے کو یقینی بنانے کے لیے اپنے گاؤں اور اس کے آس پاس کے لوگوں سے مل رہی ہیں

جون ۲۰۲۰ میں، بیماری سے متاثر ہونے کے ایک مہینہ کے اندر، جننی اپنے والدین کے گھر چلی گئیں۔ ’’میں اس سے آگے (اپنے شوہر کے) ظلم کو برداشت نہیں کر پا رہی تھی۔ وہ میرے بیٹے – چار مہینے کے بچہ – کو بھی گالی دیتا تھا۔ اس نے کیا گناہ کیا تھا؟‘‘ ان کے شوہر نے، جو ایک چھوٹی سی ورکشاپ چلاتا ہے، فوراً طلاق کی عرضی دی اور ان کے والدین، وہ بتاتی ہیں، ’’حیران تھے، انہیں یقین نہیں ہو رہا تھا۔‘‘

لیکن انہوں نے گھر میں ان کا استقبال کیا۔ جننی زور دیکر کہتی ہیں کہ ان کا بہت بڑا احسان ہے – ’’ایک بچی اور نوجوان کے طور پر، وہ مجھے زرعی کام کے لیے بھیجتے نہیں تھے، جو کہ ہمارے علاقے میں عام بات ہے۔ انہوں نے اپنے سبھی بچوں کی بہتر تعلیم کو یقینی بنایا۔‘‘ ان سے بڑا ایک بھائی اور ایک بہن ہیں – دونوں کے پاس ماسٹرس کی ڈگری ہے۔ جننی نے بھی اپنے شوہر سے الگ ہونے کے بعد ہی کام کرنا شروع کیا۔

دسمبر ۲۰۲۰ میں، تپ دق سے پوری طرح ٹھیک ہونے کے بعد، انہوں نے اپنی تعلیمی لیاقت والے لوگوں کے لیے کھلے کریئر کے مختلف متبادل کا پتا نہیں لگانے کا فیصلہ کیا۔ بجائے اس کے، وہ تمل ناڈو میں دو دہائیوں سے ٹی بی کے خاتمہ کے شعبہ میں کام کر رہی ایک غیر منافع بخش تنظیم، رِسورس گروپ فار ایجوکیشن اینڈ ایڈووکیسی فار کمیونٹی ہیلتھ (ریچ) میں شامل ہو گئیں۔ تب سے، جننی ٹی بی کے بارے میں بیداری پیدا کرنے اور اس کا جلدی پتا لگانے کو یقینی بنانے کے لیے اپنے گاؤں اور اس کے ارد گرد کے لوگوں سے مل رہی ہیں۔ ’’میں نے کئی میٹنگ منعقد کی ہے، تین مریضوں میں شروعاتی تپ دق کا پتا لگایا ہے، اور ایسے ۱۵۰ سے زیادہ لوگوں پر میری نظر ہے جن کا ٹیسٹ نگیٹو آیا ہے، لیکن ان کے اندر علامات لگاتار بنی ہوئی ہیں۔‘‘

جیسا کہ ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ میں کہا گیا ہے: ’’ٹی بی کا علاج کیا جا سکتا ہے اور اسے روکا جا سکتا ہے۔ ٹی بی سے متاثرہ تقریباً ۸۵ فیصد لوگوں کو ۶ مہینے تک دوائی دیکر ان کا کامیابی سے علاج کیا جا سکتا ہے۔‘‘ اور ’’سال ۲۰۰۰ سے اب تک ٹی بی کے علاج سے ۶ کروڑ سے زیادہ لوگوں کو مرنے سے بچایا گیا ہے، حالانکہ طبی خدمات ابھی تک تمام لوگوں کے پاس نہیں پہنچی ہیں اور لاکھوں لوگ جانچ اور علاج سے محروم ہیں۔‘‘

*****

’’کووڈ اور لاک ڈاؤن کے دوران ایک چنوتی تھی،‘‘ تمل ناڈو کے تینکاشی ضلع کی ۳۶ سالہ بی دیوی کہتی ہیں۔ جننی کی طرح، وہ بھی اپنے تجربہ سے ’ٹی بی جانباز‘ بن کر ابھریں۔ ’’ساتویں کلاس میں پڑھتے وقت مجھے تپ دق ہو گیا تھا۔ میں نے تو اس سے پہلے یہ لفظ بھی نہیں سنا تھا۔‘‘ اپنی جدوجہد کے باوجود، وہ ۱۲ویں کلاس تک پڑھنے میں کامیاب رہیں۔

ان کے والدین انہیں ایک پرائیویٹ اسپتال لے گئے، جہاں وہ بیماری سے ٹھیک نہیں ہوئیں۔ ’’تب ہم تینکاشی کے سرکاری اسپتال گئے، جہاں مجھے مختلف کارروائیوں سے گزارا گیا۔ لیکن اب اس کے بارے میں سوچنا، علاج کے بارے میں کچھ بھی یقینی نہیں تھا۔ میں اُس تجربہ کو بدلنا چاہتی تھی جو میں نے کیا تھا،‘‘ دیوی کہتی ہیں۔

The organisation's field workers and health staff taking a pledge to end TB and its stigma at a health facility on World TB Day, March 24. Right: The Government Hospital of Thoracic Medicine (locally known as Tambaram TB Sanitorium) in Chennai
PHOTO • Courtesy: Resource Group for Education and Advocacy for Community Health (REACH)
The organisation's field workers and health staff taking a pledge to end TB and its stigma at a health facility on World TB Day, March 24. Right: The Government Hospital of Thoracic Medicine (locally known as Tambaram TB Sanitorium) in Chennai
PHOTO • M. Palani Kumar

تنظیم کے علاقائی کارکن اور طبی ملازمین، ۲۴ مارچ کو ٹی بی کے عالمی دن پر ایک طبی مرکز میں ٹی بی اور اس سی جڑی رسوائی کو مٹانے کا حلف لے رہے ہیں۔ دائیں: چنئی میں سانس سے متعلق امراض کی دواؤں کا سرکاری اسپتال (جسے مقامی طور پر تامبرم ٹی بی سینیٹوریم کہا جاتا ہے)

دیوی، تینکاشی ضلع کے ویرکیرلم پدور سے ہیں۔ ان کے والدین زرعی مزدور تھے۔ وہ بتاتی ہیں کہ اپنی غریبی کے باوجود، جب انہیں ٹی بی ہوا، تو انہوں نے اور دیگر رشتہ داروں نے ان کی بہت مدد کی۔ انہوں نے ان کا علاج کروایا اور پوری لگن سے ان پر نظر رکھی۔ ’’میری اچھی طرح دیکھ بھال کی گئی تھی،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔

دیوی کے والد بھی، مددگار اور حوصلہ دلانے والے تھے۔ انہوں نے ہی ان کے لیے نوکری کے بارے میں سوچا تھا۔ وہ ٹی بی مخالف مہم میں شامل ہو گئیں، ٹریننگ لی، اور اسی غیر منافع بخش تنظیم کے ساتھ کام کرنا شروع کیا جس کے ساتھ جننی نے کیا تھا۔ ستمبر ۲۰۲۰ سے، دیوی نے ایک درجن سے زیادہ میٹنگیں کیں (ہر ایک میں اوسطاً ۲۰ یا اس سے زیادہ لوگوں نے حصہ لیا) جس میں انہوں نے ٹی بی کے بارے میں بات کی۔

’’ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ میں ٹی بی کے مریضوں کے ساتھ کام کرنا چاہتی ہوں۔ سچ کہوں تو میں بہت خوش تھی۔ میں کچھ مثبت کر سکتی تھی جو میرے ساتھ نہیں ہوا تھا،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ فی الحال دیوی، تینکاشی ضلع کی پُلیئن گڈی میونسپلٹی کے عام اسپتال میں تقریباً ۴۲ ٹی بی مریضوں کو سنبھال رہی ہیں، جن میں سے ایک کو ٹھیک کر دیا گیا ہے۔ ’’ہم شروع میں صلاح دیتے ہیں اور مریضوں پر نظر بنائے رکھتے ہیں۔ اگر کسی آدمی میں ٹی بی کا پتا چلتا ہے، تو ہم فیملی کے ممبران کی بھی جانچ کرتے ہیں، اور ان کا علاج کرتے ہیں۔‘‘

دیوی اور جننی دونوں اس وقت کووڈ۔۱۹ وبائی مرض کے ذریعے پیدا شدہ حالات کا سامنا کر رہی ہیں۔ ان مقامات پر کام کرنا ان کے لیے جوکھم بھرا ہوتا ہے۔ پھر بھی، وہ کام کرتی رہیں، لیکن، دیوی کہتی ہیں، ’’یہ مشکل رہا ہے، اسپتال کے ملازمین خود کووڈ سے متاثر ہونے کے ڈر سے لعاب کا ٹیسٹ کرنے سے ہماری حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ مجھے ان کے مقام میں مداخلت کیے بنا ٹیسٹ کرنا ہوگا۔‘‘

اور کووڈ۔۱۹ وبائی مرض سے پیدا ہونے والا نیا خطرہ بہت بڑا ہے۔ پریس ٹرسٹ آف انڈیا کی ایک رپورٹ میں یوروپین ریسپیریٹری جرنل میں ایک مطالعہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’کووڈ۔۱۹ وبائی مرض، طبی خدمات میں رکاوٹ اور علاج میں دیری، آئندہ پانچ برسوں میں ہندوستان میں تپ دق (ٹی بی) سے متعلق ۹۵ ہزار اضافی اموات کا سبب بن سکتی ہے۔‘‘ اس کے علاوہ، ان مسائل کا اثر اعداد و شمار پر بھی پڑے گا – ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وبائی مرض شروع ہونے کے بعد ٹی بی کے معاملوں کی تعداد کم کرکے شمار کی گئی ہے یا ان کی کم ’اطلاع‘ دی گئی ہے۔ اور حالانکہ معتبر اعداد و شمار کی کمی ہے، لیکن اسے لیکر کوئی اختلاف نہیں ہے کہ کچھ کووڈ۔۱۹ اموات ٹی بی کی مخصوص بیماری کے سبب ہوئی ہیں۔

انڈیا ٹی بی رپورٹ ۲۰۲۰ کے مطابق، ہندوستان میں ٹی بی کے مریضوں کی سب سے زیادہ تعداد والی ریاستوں میں سے ایک، تمل ناڈو میں سال ۲۰۱۹ میں تپ دق کے تقریباً ایک لاکھ ۱۰ ہزار ۸۴۵ مریض تھے۔ ان میں سے، ۷۷ ہزار ۸۱۵ مرد اور ۳۳ ہزار ۹۰۵ عورتیں تھیں۔ ٹرانس جینڈر مریضوں کی تعداد ۱۲۵ تھی۔

پھر بھی، حالیہ دنوں میں ٹی بی کے معاملوں کی اطلاعات میں یہ ریاست ۱۴ویں مقام پر ہے۔ اس کے پیچھے کے اسباب واضح نہیں ہیں، بیماری کے بارے میں وسیع تجربہ رکھنے والے چنئی کے ایک طبی کارکن کا کہنا ہے۔ ’’شاید اس لیے کہ اس کا پھیلاؤ کم ہے۔ بنیادی سہولیات اور غریبی کے خاتمہ کے پروگراموں کے معاملے میں تمل ناڈو ایک بہتر ریاست ہے۔ یہاں کئی طبی انتظامات بہتر طریقے سے کیے جا رہے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سرکاری مشینری ٹھیک سے کام نہ کر رہی ہو۔ کچھ اسپتالوں میں، سینہ کا ایکسر رے کروانا بھی ایک بڑا کام ہے [کووڈ۔۱۹ کے سبب طبی خدمات پر پڑنے والے دباؤ نے اسے مزید پیچیدہ بنا دیا ہے]۔ ہم تپ دق کے لیے تمام لازمی ٹیسٹ نہیں کرتے۔ اس وقت بیماری کے پھیلاؤ کو لیکر ایک سروے چل رہا ہے۔ جب تک اس کے نتیجے سامنے نہیں آ جاتے، ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ریاست میں معاملے کم کیوں ہیں۔‘‘

ٹی بی سے متاثر لوگوں سے وابستہ رسوائی کی گنتی کیسے کریں؟ ’’حالانکہ مردوں کے مقابلے عورتوں کے متاثر ہونے کا امکان کم ہوتا ہے، لیکن بیماری سے منسلک رسوائی دونوں کے لیے یکساں نہیں ہے۔ مردوں کو بھی رسوا کیا جاتا ہے، لیکن عورتوں کے معاملے میں یہ بدتر ہے،‘‘ ریچ کی ڈپٹی ڈائرکٹر، انوپما شری نواسن کہتی ہیں۔

جننی اور دیوی اس سے اتفاق کریں گی۔ یہ ایک وجہ ہو سکتی ہے جس نے انہیں اپنے موجود کام کی جانب راغب کیا ہو۔

*****

اور پھر پون گوڈی گووندراج کی کہانی ہے۔ مہم کی قیادت کرنے والی، ویلور کی ۳۰ سالہ پون گوڈی اب تک تین بار تپ دق کی شکار ہو چکی ہیں۔ ’’سال ۲۰۱۴ اور ۲۰۱۶ میں، میں نے ٹی بی کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا، اور گولیاں کھانی بند کر دیں،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’۲۰۱۸ میں میرا ایکسیڈنٹ ہوا تھا اور علاج کے دوران انہوں نے مجھے بتایا کہ مجھے اسپائنل ٹی بی ہے۔ حالانکہ اس بار میں نے علاج پورا کیا اور اب ٹھیک ہوں۔‘‘

پون گوڈی نے ۱۲ویں کلاس تک اپنی تعلیم کامیابی کے ساتھ مکمل کر لی تھی اور نرسنگ میں بی ایس سی کر رہی تھیں تبھی انہیں پڑھائی چھوڑنی پڑی۔ ’’سال ۲۰۱۱، ۱۲ اور ۱۳ میں میرے تین بچے ہوئے۔ لیکن پیدائش کے فوراً بعد ہی تینوں کی موت ہو گئی،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’طبی وجوہات سے مجھے اپنی نرسنگ کی پڑھائی چھوڑنی پڑی۔‘‘ اور یہ صرف ان کے ساتھ ہی نہیں ہوا۔ ٹی بی سے ۲۰۱۱ میں ان کی ماں کا انتقال ہو گیا۔ ان کے والد اب ایک حجام کے سیلون میں کام کرتے ہیں۔ ایک پرائیویٹ کمپنی میں معمولی نوکری کرنے والے پون گوڈی کے شوہر نے ۲۰۱۸ میں ٹی بی کا پتا چلنے کے فوراً بعد ہی انہیں چھوڑ دیا تھا اور تب سے وہ اپنے والدین کے گھر پر رہ رہی ہیں۔

Poongodi Govindaraj (left) conducting a workshop (right); she is a campaign leader from Vellore who has contracted TB three times
PHOTO • Courtesy: Resource Group for Education and Advocacy for Community Health (REACH)
Poongodi Govindaraj (left) conducting a workshop (right); she is a campaign leader from Vellore who has contracted TB three times
PHOTO • Courtesy: Resource Group for Education and Advocacy for Community Health (REACH)

پون گوڈی گووند راج (بائیں) ایک ورکشاپ (دائیں) چلا رہی ہیں؛ وہ ویلور میں اس مہم کی ایک لیڈر ہیں، جو ٹی بی سے تین بار متاثر ہو چکی ہیں

پون گوڈی کا کہنا ہے کہ ان کی فیملی کے پاس پہلے تھوڑی سی جائیداد تھی، لیکن ان کے علاج اور شوہر کے ذریعے چھوڑے جانے کے بعد طلاق کے مقدمہ کی ادائیگی کرنے کے لیے یہ سب بیچنا پڑا۔ ’’میرے والد اب میری رہنمائی اور حمایت کرتے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ میں ٹی بی کے بارے میں بیداری پیدا کر رہی ہوں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ تپ دق کے سبب پون گوڈی کا وزن گھٹ کر ۳۵ کلو ہو گیا ہے۔ ’’میرا وزن تقریباً ۷۰ کلو ہوا کرتا تھا۔ آج میں ٹی بی کے خاتمہ کی مہم کی کامیابی سے قیادت کر رہی ہوں۔ میں تپ دق اور اس سے نمٹنے کے طریقے کے بارے میں کم از کم ۲۵۰۰ لوگوں کو صلاح دے چکی ہوں۔ میں نے ٹی بی کے ۸۰ مریضوں کے علاج کی نگرانی کی ہے، جن میں سے ۲۰ اب تک ٹھیک ہو چکے ہیں۔‘‘ پون گوڈی، جن کو نوکری کرنے کا پہلے کوئی تجربہ نہیں تھا، سوچتی ہیں کہ ’خاتون ٹی بی لیڈر‘ کے طور پر ان کا رول اہم ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’مجھے اس کام سے سکون، خوشی اور اطمینان ملتا ہے۔ میں کچھ ایسا کر رہی ہوں جس پر مجھے فخر ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ جس گاؤں میں میرے شوہر رہتے ہیں، اسی گاؤں میں رہ کر یہ سب کرنا بہت بڑی کامیابی ہے۔

*****

سادھیپوم وا پینّے (شاباش عورتوں! کرکے دکھا دو) پروگرام اُن خواتین کی شناخت کرتا ہے، جو ٹی بی کے معاملے کا پتا لگانے میں مدد کر سکتی ہیں اور اسے فروغ دے سکتی ہیں۔ ریچ کے ذریعے اسے تمل ناڈو کے چار ضلعوں – ویلور، وِلّوپورم، ترونیل ویلی اور سلیم میں شروع کیا گیا ہے۔

اس پروگرام کے ذریعے یہاں کی تقریباً ۴۰۰ خواتین کو تربیت دی جا رہی ہے تاک وہ اپنے گاؤوں یا وارڈوں میں لوگوں کے صحت سے متعلق مسائل کو – فون پر ٹریننگ کے توسط سے – دور کر سکیں۔ انوپما شرینواسن بتاتی ہیں کہ ۸۰ دیگر خواتین ٹی بی لیڈران کو ٹریننگ دی جائے گی (جیسے کہ پون گوڈی ہیں)، جو صحت عامہ کے مراکز پر تپ دق کی جانچ کرتی ہیں۔

مرض کے واقعات کو دیکھتے ہوئے یہ تعداد کم محسوس ہو سکتی ہے، لیکن یہ جننی، دیوی، پون گوڈی اور کئی دیگر خواتین – ساتھ ہی ٹی بی کے اُن ہزاروں مریضوں کے لیے بھی اہم ہے جن سے وہ آنے والے وقت میں رابطہ کریں گی۔ اور یہ صرف طبی نقطہ نظر سے ہی نہیں، بلکہ سماجی اور اقتصادی طور پر بھی اہم ہے۔ اور جو لوگ اس سے متاثر ہیں، ان کی خود اعتمادی پر اس کا اثر سب سے زیادہ ہوتا ہے۔

’’یہ جگہ بہت ہی تشفی بخش ہے،‘‘ جننی یہاں اپنے روزمرہ کے کام کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں۔ ریچ میں دو مہینے کام کرنے کے بعد، ان کے شوہر (اور ان کی فیملی) ان کے پاس لوٹ آئے۔ ’’مجھے نہیں معلوم کہ یہ میرے ذریعے کمائے گئے پیسے کے سبب ہے – وہ اکثر مجھے گھر میں فالتو ہونے کا طعنہ مارتے تھے – یا شاید وہ بالکل تنہا ہو گئے تھے اور انہیں میری اہمیت کا احساس ہوا۔ جو بھی ہو، میرے والدین خوش ہیں کہ طلاق کے مقدمہ کے بعد بھی ہم صلح کر پائے۔‘‘

اپنے والدین کو خوش رکھنے کے لیے، جننی اس سال فروری میں اپنے شوہر کے ساتھ چلی گئی تھیں۔ ’’اب تک وہ میری اچھی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ مجھے لگا تھا کہ ٹی بی نے میری زندگی کو تباہ کر دیا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس نے اسے مزید بامعنی بنا دیا ہے۔ یہ جان کر مجھے خوشی ہوتی ہے کہ میں ایک ایسی بیماری کے بارے میں لوگوں کو بیدار کر رہی ہوں جس نے مجھے ایک طرح سے ہلاک کر دیا تھا۔‘‘

کویتا مرلی دھرن ٹھاکر فیملی فاؤنڈیشن سے آزاد صحافت کے لیے حاصل ہونے والی مالی امداد کے ذریعہ عوامی صحت اور شہریوں کی آزادی پر رپورٹ کرتی ہیں۔ ٹھاکر فیملی فاؤنڈیشن نے اس رپورتاژ کے مواد پر کسی قسم کا ایڈیٹوریل کنٹرول نہیں کیا ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Kavitha Muralidharan

Kavitha Muralidharan is a Chennai-based independent journalist and translator. She was earlier the editor of 'India Today' (Tamil) and prior to that headed the reporting section of 'The Hindu' (Tamil). She is a PARI volunteer.

Other stories by Kavitha Muralidharan
Illustration : Priyanka Borar

Priyanka Borar is a new media artist experimenting with technology to discover new forms of meaning and expression. She likes to design experiences for learning and play. As much as she enjoys juggling with interactive media she feels at home with the traditional pen and paper.

Other stories by Priyanka Borar
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique