برصغیر ہند میں طویل عرصے تک جاری نوآبادیاتی دور اور تقسیم کے خوفناک سائے آج بھی آسام میں الگ الگ طریقے سے اپنی موجودگی درج کراتے رہتے ہیں۔ خاص کر شہریوں کے قومی رجسٹر (این آر سی) کے طور پر، جو لوگوں کی شہریت طے کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ این آر سی کی وجہ سے تقریباً ۱۹ لاکھ لوگوں کی شہریت خطرے میں ہے۔ اس کی جیتی جاگتی مثال – شہریوں کا ’مشکوک (ڈی) ووٹر‘ نامی ایک زمرہ کا بننا اور ڈٹینشن سنٹر (حراستی/نظربندی مرکز) میں ان کو قید کرنا ہے۔ ۱۹۹۰ کی دہائی کے آخر تک پورے آسام میں ’باہری لوگوں‘ سے جڑے معاملوں کو دیکھنے کے لیے بنے ٹربیونلز کی بڑھتی تعداد، اور پھر دسمبر ۲۰۱۹ میں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے پاس ہونے سے، ریاست میں شہریت کا بحران مزید گہرا ہوتا چلا گیا۔

اس بحران میں پھنسے چھ لوگوں کے بیان ان کی ذاتی زندگی اور ماضی پر پڑ رہے اس کے تباہ کن اثرات کو نمایاں کرتے ہیں۔ رشیدہ بیگم جب محض آٹھ سال کی تھیں، تو کسی طرح نیلی قتل عام سے بچ نکلی تھیں۔ ان کو چھوڑ کر ان کی فیملی کے تمام لوگوں کا نام این آر سی میں آیا ہے۔ شاہجہاں علی احمد کا نام بھی این آر سی میں نہیں ہے، ساتھ ہی ان کی فیملی کے کئی ممبران کے نام بھی اس فہرست سے غائب ہیں۔ وہ اب آسام میں شہریت کے سوال پر چل رہی تحریک میں شامل ہیں۔

آسام میں شہریت کے بحران کی تاریخ، برطانوی حکومت کی پالیسیوں اور ۱۹۰۵ میں بنگال اور ۱۹۴۷ میں برصغیر ہند کی تقسیم کے نتیجہ کے طور پر نقل مکانی سے جڑی ہوئی ہے

اُلوپی بسواس اور ان کی فیملی کے پاس ہندوستانی شہریت کو ثابت کرنے والے کاغذات ہونے کے باوجود، انہیں ’غیر ملکی‘ بتا دیا گیا۔ مشکوک (ڈی) ووٹر قرار دیے جانے کے بعد، ان کے اوپر شہریت ثابت کرنے کے لیے ۲۰۲۲-۲۰۱۷ میں بونگائی گاؤں فارنرز ٹربیونل میں مقدمہ چلایا گیا۔ کلثوم نساء اور صوفیہ خاتون، جو ابھی ضمانت پر باہر ہیں، حراست میں گزارے گئے دنوں کو یاد کرتی ہیں۔ وہیں، مورجینہ بی بی کو ایک انتظامی کوتاہی کے سبب کوکڑاجھار ڈٹینشن سنٹر میں آٹھ مہینے ۲۰ دن گزارنے پڑے۔

آسام میں شہریت کے بحران کی تاریخ کافی پیچیدہ رہی ہے۔ یہ برطانوی حکومت کی سماجی و اقتصادی پالیسیوں، ۱۹۰۵ میں بنگال اور ۱۹۴۷ میں برصغیر ہند کی تقسیم کے نتیجہ میں نقل مکانی سے جڑی ہوئی ہے۔ برسوں سے متعدد انتظامی اور قانونی مداخلتوں اور ۱۹۷۹ سے ۱۹۸۵ کے درمیان ’باہری لوگوں‘ کے خلاف ہوئی تحریکوں نے بنگالی نسل کے مسلمانوں اور ہندوؤں کو اپنے ہی گھر میں ’باہری‘ بنا دیا۔

تاریخ اور خود کا سامنا ‘ (فیسنگ ہسٹری اینڈ اَورسیلوز) پروجیکٹ کے تحت کلثوم نساء، مورجینہ بی بی، رشیدہ بیگم، شاہجہاں علی احمد، صوفیہ خاتون اور اُلوپی بسواس کی کہانیوں کو ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ان کہانیوں سے پتہ چلتا ہے کہ آسام میں شہریت سے متعلق بحران ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ کسی کو نہیں معلوم ہے کہ اس دلدل میں پھنسے لوگوں کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔

رشیدہ بیگم ، آسام کے موری گاؤں ضلع سے ہیں۔ وہ آٹھ سال کی تھیں جب ۱۸ فروری، ۱۹۸۳ کو نیلی قتل عام ہوا تھا۔ لیکن وہ کسی طرح بچ گئی تھیں۔ اب ان کو پتہ چلا ہے کہ ان کا نام ۲۰۱۹ کے شہریوں کے قومی رجسٹر کی آخری فہرست سے غائب ہے۔


شاہجہاں علی احمد ، آسام کے بکسا ضلع سے ہیں۔ وہ آسام میں شہریت سے جڑے مسائل پر کام کرنے والے ایک سماجی کارکن ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ ان کی فیملی کے ۳۳ ممبران کا نام شہریوں کے قومی رجسٹر سے ہٹا دیا گیا ہے۔


صوفیہ خاتون ، آسام کے بارپیٹا ضلع سے ہیں۔ وہ کوکڑاجھار ڈٹینشن سنٹر میں دو سال سے زیادہ وقت تک قید کی زندگی گزار چکی ہیں۔ وہ ہندوستانی سپریم کورٹ کی ہدایت پر فی الحال ضمانت پر باہر ہیں۔


کلثوم نساء ، آسام کے بارپیٹا ضلع سے ہیں۔ وہ پانچ سال تک کوکڑاجھار ڈٹینشن سنٹر میں قید تھیں۔ اب وہ ضمانت پر باہر ہیں، لیکن انہیں ہر ہفتے مقامی پولیس کے سامنے پیش ہونا پڑتا ہے۔


اُلوپی بسواس ، آسام کے چیرانگ ضلع سے ہیں۔ بونگائی گاؤں فارنرز ٹربیونل میں ان پر سال ۲۰۱۷ سے ایک کیس چل رہا تھا۔


مورجینہ بی بی ، آسام کے گوالپاڑہ ضلع سے ہیں۔ وہ کوکڑاجھار ڈٹینشن سنٹر میں آٹھ مہینے ۲۰ دن تک قید رہیں۔ یہ ثابت ہونے کے بعد کہ پولیس نے غلط انسان کو پکڑ لیا تھا، آخرکار انہیں رہا کر دیا گیا۔


یہ ویڈیوز ’فیسنگ ہسٹری اینڈ اَوَرسیلوز‘ (تاریخ اور خود کا سامنا) پروجیکٹ کا حصہ ہیں، جسے سُبشری کرشنن نے تیار کیا ہے۔ فاؤنڈیشن پروجیکٹ کو انڈیا فاؤنڈیشن فار دی آرٹس کے ذریعے اپنے آرکائیوز اینڈ میوزیمس پروگرام کے تحت، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے تعاون سے نافذ کیا جا رہا ہے۔ گوئتھے انٹسی ٹیوٹ/میکس مولر بھون، نئی دہلی کا بھی اس پروجیکٹ میں جزوی تعاون شامل ہے۔ شیرگل سندرم آرٹس فاؤنڈیشن نے بھی اس پروجیکٹ کو اپنا تعاون دیا ہے۔

فیچر کولاج: شریا کاتیائنی

مترجم: محمد قمر تبریز

Subasri Krishnan

سُبشری کرشنن ایک فلم ساز ہیں، جو اپنے کام کے ذریعے شہریت سے متعلق سوالوں کو اٹھاتی ہیں اور اس کے لیے وہ لوگوں کی یادداشتوں، مہاجرت سے جڑی کہانیوں اور سرکاری پہچان سے متعلق دستاویزوں کی مدد لیتی ہیں۔ ان کا پروجیکٹ ’فیسنگ ہسٹری اینڈ اَورسیلوز‘ آسام میں اسی قسم کے مسائل کی پڑتال کرتا ہے۔ وہ فی الحال جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی کے اے جے کے ماس کمیونی کیشن ریسرچ سینٹر سے پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Subasri Krishnan
Editor : Vinutha Mallya

ونوتا مالیہ، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے لیے بطور کنسلٹنگ ایڈیٹر کام کرتی ہیں۔ وہ جنوری سے دسمبر ۲۰۲۲ تک پاری کی ایڈیٹوریل چیف رہ چکی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Vinutha Mallya
Translator : Qamar Siddique

قمر صدیقی، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے ٹرانسلیشنز ایڈیٹر، اردو، ہیں۔ وہ دہلی میں مقیم ایک صحافی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Qamar Siddique