سید خورشید نے اس بار بجٹ پر بہت کم توجہ دی۔ خورشید (۷۲) کہتے ہیں، ’’میں نے نیوز چینل دیکھنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ کون جانے کہ اس میں کتنا سچ ہے اور کتنا غلط!‘‘
حالانکہ، ان کو اس سال کے بجٹ میں ٹیکس کی سطح میں ہوئی تبدیلی کا علم ہے، کیوں کہ کسی نے ان سے اس کا ذکر کیا تھا۔ وہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں، ’’لیکن میں اپنے محلہ میں ایک بھی ایسے انسان کو نہیں جانتا جسے اس سے کوئی فائدہ ہوگا۔ ہم اپنا کماتے ہیں اور اپنا کھاتے ہیں۔‘‘
خورشید پچھلے ۶۰ سالوں سے مہاراشٹر کے پربھنی ضلع کے گنگا کھیڑ قصبہ میں درزی کا کام کر رہے ہیں۔ جب انہوں نے اپنے والد سے یہ کام سیکھا تھا، تب ان کی عمر صرف آٹھ سال تھی۔ حالانکہ، اب ان کے پیشہ میں پہلے جتنا منافع نہیں رہا۔ وہ اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں، ’’نوجوان نسل ریڈی میڈ کپڑے پہننا پسند کرتی ہے۔‘‘
![](/media/images/02a-IMG20250203145616-PMN-Workers_like_us_.max-1400x1120.jpg)
![](/media/images/02b-IMG20250203145628-PMN-Workers_like_us_.max-1400x1120.jpg)
ان کے چھ بچوں – ۴ بیٹے اور ۲ بیٹیاں – میں صرف ایک بیٹا ان کے ساتھ سلائی کی دکان پر کام کرتا ہے، جب کہ بقیہ بیٹے اس علاقہ میں ٹھیکہ کا کام کرتے ہیں۔ ان کی بیٹیوں کی شادی ہو چکی ہے اور وہ دونوں خاتون خانہ ہیں
خورشید ایک کمرے کی چھوٹی سی دکان میں کام کرتے ہیں، جہاں وہ ہر مہینے تقریباً ۲۰ ہزار روپے کماتے ہیں۔ یہ وہ رقم ہے جو انہیں اپنے ساتھ کام کرنے والے مزدوروں کو ادا کرنے کے بعد بچتی ہے۔ ’’غنیمت ہے کہ میرے والد نے یہ دکان خرید لی تھی، اس لیے مجھے اس کا کرایہ نہیں دینا پڑتا، ورنہ میری اتنی کمائی بھی نہیں ہوتی۔‘‘ سلائی کرتے ہوئے ان کی آنکھیں کپڑے پر ٹکی ہوئی تھیں، جس سے نظریں ہٹائے بغیر وہ مزید کہتے ہیں، ’’میں نے زیادہ پڑھائی نہیں کی ہے، اس لیے میں ٹھیک سے پڑھ نہیں سکتا۔‘‘
سرکار کا دعویٰ ہے کہ بجٹ کم آمدنی والے لوگوں کو ذہن میں رکھ کر بنایا گیا ہے، لیکن خورشید کہتے ہیں، ’’اس سے صرف ایک خاص طبقہ کے لوگوں کا ہی فائدہ ہے۔ ہمارے جیسے محنت کشوں کو شاید ہی کچھ ملے۔‘‘
ترجمہ نگار: محمد قمر تبریز