’’امی، اسکول کب کھلے گا؟‘‘ منیا پوچھتی ہے۔ سہرا جوٹ کے پودوں کی چھنٹائی کا کام مکمل کرنے والی ہیں۔ ان کی ۱۰ ڈسمل زمین پر آج کل کافی کام رہتا ہے۔ ان کے پاس مُنیا کے سوالوں کے لیے وقت نہیں ہے۔

’’آخر اسکول کیوں نہیں کھل رہے…!‘‘ چھوٹی بچی اپنا سوال دہراتی ہے۔ اس بار سہرا رکتی ہیں، اس کی طرف مڑتی ہیں اور اپنی آواز میں دبی افسردگی پر قابو پانے کی پوری کوشش کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ’’دکھائی نہیں دے رہا ہے کہ کتنی سخت گرمی پڑ رہی ہے؟ پچھلے آٹھ مہینے سے بارش نہیں ہوئی ہے۔‘‘

’’تو پھر وہ اے سی کیوں نہیں لگاتے؟‘‘ منیا نے سوالوں کا دامن نہیں چھوڑا۔

’’سرکار کے پاس پیسہ نہیں ہے۔‘‘ سہرا کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔

’’پھر بڑے لوگوں کے انگریزی اسکولوں میں اتنے سارے اے سی کیسے لگے ہیں؟‘‘

سہرا شام ہونے دینے تک کڑی محنت اور خاموشی کے دلدل میں گم ہو گئیں۔ آج انہیں اپنا کام ادھورا چھوڑ کر منیا کے ساتھ جلد گھر لوٹنا پڑا۔ ووٹنگ کا دن ہے آج۔ سہرا اپنی آٹھ سال کی بچی کو ساتھ لے کر ووٹ ڈالنے کے لیے پرائمری اسکول میں بنے بوتھ کی طرف نکل پڑیں۔

’’ہمیں ووٹ دینے کی کیا ضرورت ہے امی؟‘‘ منیا کے سوال ابھی تک جاری تھے۔ سہرا نے اس بات سے راحت کی سانس لی کہ فی الحال منیا کے سوال کا رخ بدل گیا ہے، لیکن وہ اتنی تھک چکی تھیں کہ بیٹی کے سوالوں کا جواب نہیں دینا چاہتی تھیں۔

’’میں نے اس دن ٹی وی پر سنا تھا۔ ایک بڑے نیتا کہہ رہے تھے کہ انہیں مسلم ووٹوں کی ضرورت نہیں ہے! ہم تو مسلم ہیں نا، امی۔ پھر ہم ووٹ کیوں دیتے ہیں؟‘‘

سہارا تھوڑی دیر کے لیے ٹھٹھک گئیں اور اپنی بچی کو گھورتی نظروں سے دیکھا۔ منیا جانتی تھی کہ اس ٹھنڈی اور ویران آنکھوں سے گھورے جانے کا کیا مطلب ہے۔ اس لیے، اس نے خاموشی اختیار کر لی۔

پرتشٹھا پانڈیہ کی آواز میں، مومتا عالم کی یہ نظم سنیں

ہندوستان میں انتخاب

۱۔ مفت کا راشن

انتخاب کے دنوں میں ہماری غریبی بے پردہ ہو جاتی ہے -
مُنیا کی ماں کے لیے لکشمی بھنڈار
منیا کے پاپا کے لیے سائیکل
اسکول میں منیا کو مفت ڈریس۔

لیکن منیا کو کیا چاہیے؟
انتخابی منشور کو معلوم نہیں ہوتا۔

اسکول کی خستہ حال عمارت میں
اب بکریاں باندھی جاتی ہیں۔
کارخانہ مزدوروں کے چبوتروں پر
چوہے اچھل کود مچاتے ہیں۔
نیتا مفت کے راشن بانٹتے ہیں۔
اور ہماری نوکریاں کھا جاتے ہیں۔

۲۔ زبان

نیتا انتخابی شطرنج کی بساط بچھاتے ہیں۔
وقت تیزی سے دوڑتا ہے۔
آخر میں ان کے پاس جیت کا ایک فارمولہ ہے:
زبان کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹو،
نفرت میں ڈبوؤ
پھر چمچماتی پلیٹ میں رکھ کر
ٹی وی ناظرین
اور وہاٹس پر چیٹنگ کرنے والوں کو پیش کرو۔

۳۔ دیوتاؤں کا نظام

ہمیں ووٹ دیجئے
ہم مندر بنائیں گے

میں دیوتاؤں کو جیتتے دیکھتی ہوں…
ایک خاص مذہب کے دیوتا
فرقہ پرست دیوتا
دیوتا، جو اپنے گھروں میں رہتے ہیں
دیوتا، جو ہمارے گھر نہیں آتے
ہماری سڑکوں پر نہیں بھٹکتے۔
دیوتا، جو بھوک نہیں جانتے
مہنگائی نہیں جانتے
اور نہیں جانتے
کہ بیٹیوں کو پڑھانے کا خواب دیکھنے کا کیا مطلب ہے۔

اب مذہب مخالف یا
دہریہ بتا کر
مجھے قصوروار مت ٹھہرانا۔
میں ہر نیتا کو دیوتاؤں کے بہانے
لڑتے دیکھتی ہوں -
عوام کو چھوڑ پجاریوں سے بات کرتے دیکھتی ہوں۔
وہ مندروں میں جاتے ہیں
جھگیوں پر ماتھا نہیں ٹیکتے۔

وہ دیوتاؤں کے نام پر لڑتے ہیں -
ان کے دیوتا بنام ہمارے دیوتا!
کل کو جیت بھی دیوتا کی ہوگی۔
ہائے مہنگائی، بھوک مری، غریبی!
ہائے ہائے جمہوریت!

مترجم: قمر صدیقی

Poem and Text : Moumita Alam

Moumita Alam is a poet from West Bengal. She has two published collections of poetry – The Musings of the Dark and Poems at Daybreak – to her credit. Her works have been translated in Telugu and Tamil as well.

Other stories by Moumita Alam
Illustration : Antara Raman

Antara Raman is an illustrator and website designer with an interest in social processes and mythological imagery. A graduate of the Srishti Institute of Art, Design and Technology, Bengaluru, she believes that the world of storytelling and illustration are symbiotic.

Other stories by Antara Raman
Editor : Pratishtha Pandya

Pratishtha Pandya is a Senior Editor at PARI where she leads PARI's creative writing section. She is also a member of the PARIBhasha team and translates and edits stories in Gujarati. Pratishtha is a published poet working in Gujarati and English.

Other stories by Pratishtha Pandya
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique