راجیشوری سی این کوئی معمولی ملٹی ٹاسکر (ایک ساتھ کئی کام کرنے والی) نہیں ہیں۔ وہ ہفتے میں چھ دن، صبح ۹ بجے سے شام ۴  بجے تک ۲۰ بچوں کو پڑھاتی ہیں، جن کی عمریں ۳ سے ۶  سال کے درمیان ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر بچے بلدیہ کے صفائی کرمچاریوں، یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں، قلیوں، پھیری والوں اور کارخانہ مزدوروں کے ہیں۔ کئی بچے ایسے بھی ہیں جن کا تعلق کرناٹک کے دوسرے حصوں، یا آندھرا پردیش اور تمل ناڈو سے ہجرت کر کے یہاں آنے والے کنبوں سے ہے۔

اس کے علاوہ وہ اپنے علاقے کی حاملہ اور دودھ پلانے والی ماؤں (جن کی تعداد کسی بھی وقت ۳ سے ۵ کے درمیان ہوتی ہے) کے لیے بھی دوپہر کے کھانے کا انتظام کرتی ہیں۔ ان کے ذمہ ایسے پریشان کن بچوں کی ذمہ داری ہوتی ہے، جنہیں کام پر جاتے ہوئے ان کے والدین مفت کھانے اور نگہداشت کے لیے چھوڑ جاتے ہیں۔ وہ اس امر کو بھی یقینی بناتی ہیں کہ ماؤں اور بچوں کی حفاظتی ٹیکہ کاری وقت پر ہو۔ وہ ان سب کا تفصیلی ریکارڈ رکھتی ہیں اور ان کی خبر گیری کے لیے روزانہ کم از کم ایک گھر میں جانے کے لیے وقت نکالتی ہیں۔

وہ بنگلورو کے مصروف سی جے روڈ پر واقع ویایام شالہ کالونی کے اپنے دائرہ اختیار میں ۳۵۵ کنبوں کی فلاح و بہبود کے لیے جاری سرکاری اسکیموں کو عملی جامہ پہنا سکتی ہیں، فارم بھر سکتی ہیں اور سرکاری اہلکاروں اور عوام کے درمیان رابطہ بن سکتی ہیں، جو ان کے مطابق بطور خاص تارکین وطن کنبوں کے لیے صحت کی خدمات فراہم کرنے اور سرکاری اسکیموں کے نفاذ میں مدد کرتی ہے۔

لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان سب کے باوجود اب بھی بہت سے لوگ انہیں گھریلو نوکرانی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ’’نجی اسکولوں کے اساتذہ یہ سوچتے ہیں کہ ہم صرف کھانا پکانے اور صفائی کا کام کرتے ہیں۔ ان کے مطابق مجھے پڑھانے کا ’تجربہ‘ نہیں ہے،‘‘ ۴۰ سالہ راجیشوری طنزیہ لہجے میں کہتی ہیں۔

PHOTO • Priti David
PHOTO • Vishaka George

طویل عرصے سے ہو رہی تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر کے خلاف آنگن واڑی کارکنان بنگلورو کے ٹاؤن ہال میں احتجاج کر رہی ہیں۔ پڑھائی کے علاوہ اے ڈبلیو ڈبلیو کے دیگر سرگرمیوں سے بھی ان علاقوں کے کنبے مسفید ہوتے ہیں

ریاست بھی انہیں آنگن واڑی کارکن (اے ڈبلیو ڈبلیو) کہہ کر مخاطب کرتی ہے، حالانکہ تعلیم دینا راجیشوری کا بنیادی کردار ہے۔ اے ڈبلیو ڈبلیو کے ساتھ منسلک بچے تین سالوں میں خواندگی کی بنیادی لیاقت حاصل کر لیتے ہیں، جو کسی بھی پرائمری اسکول میں داخلے کے لیے ایک شرط ہے۔

’’میں اپنے بچوں کو کہیں اور بھیجنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ وہ [آنگن واڑی میں] مفت انڈے اور دوپہر کا کھانا دیتے ہیں،‘‘ ویایام شالہ کالونی میں مالا بیچنے والی ۳۰ سالہ ہیماوتی، جن کے شوہر پھل فروش ہیں، کہتی ہیں۔ ’’میں آنگن واڑیوں کو پرائیویٹ کنڈرگارٹن پر ترجیح دیتی ہوں،‘‘ اسی کالونی میں مقیم ۲۶ سالہ گھریلو خاتون ایم سومتی مزید اضافہ کرتی ہیں۔ ’’یہاں کی ٹیچر میرے بچے کو پیدائش سے پہلے ہی جانتی ہیں!‘‘

بنگلورو میں ۳۶۴۹ اور پورے کرناٹک میں ۶۵۹۱۱ آنگن واڑی مراکز ہیں۔ ریاست کے صفر سے ۶ کی عمر کے ۷۰ لاکھ سے زیادہ بچوں میں سے ۵۷ فیصد (۳ سے ۶  سال کی عمر کے) اتوار کے علاوہ ہفتے کے ہر دن ان آنگن واڑی مراکز میں آتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار ۷ء۳۸ فیصد کے قومی اوسط سے کافی زیادہ ہیں۔ ان آنگن واڑیوں کو ہندوستان میں خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزارت کی انٹیگریٹڈ چائلڈ ڈیولپمنٹ سروسز (آئی سی ڈی ایس) کے تحت چلایا جاتا ہے۔

تمام اے ڈبلیو ڈبلیو خواتین ہوتی ہیں، جن کے لیے کم از کم ۱۰ویں کلاس پاس کرنا ضروری ہوتا ہے۔ انہیں ایک ماہ کی ابتدائی تربیت کے ساتھ ساتھ  ہر پانچ سال کے بعد ایک ہفتہ کی تربیت دی جاتی ہے۔

PHOTO • Vishaka George

اے ڈبلیو ڈبلیو کے تحت ملنے ولے قلیل محنتانے کے ساتھ ساتھ راجیشوری اپنے کنبے کے اخراجات پورے کرنے کے لیے مزید دو کام کرتی ہیں

لیکن ان تمام کاموں کے لیے ’ٹیچر‘ راجیشوری کا ’محنتانہ‘ محض ۸۱۵۰ روپے ماہانہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ  تین سال پہلے تک یہ رقم محض ۴۰۰۰ روپے تھی۔ لہٰذا، آنگن واڑی سے وہ بس لے کر چامراج پیٹ میں ایک پیشہ ورانہ تربیتی مرکز جاتی ہیں، جہاں وہ اسکول کا انتظام اور دستکاری سکھاتی ہیں، جس کے لیے انہیں مزید ۵۰۰۰ روپے ماہانہ ملتے ہیں۔ وہ رات ۱۰ بجے ہی گھر واپس آتی ہیں۔ ’’دن کافی لمبا ہو جاتا ہے، لیکن مجھے پیسوں کی ضرورت ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ راجیشوری کے شوہر ایک پیکیجنگ یونٹ میں ۵۰۰۰ روپے ماہانہ کی اجرت پر کام کرتے ہیں۔ اس کنبے کو اپنے دو زیر تعلیم بچوں (ایک بیٹا کالج میں اور ایک بیٹی ہائی اسکول میں) کے اخراجات اٹھانے کے ساتھ ساتھ ہر مہینے سخت مالی تنگی کا سامنا رہتا ہے۔

ٹریڈ یونین کوآرڈینیشن سنٹر (ٹی یو سی سی) کے جی ایس شیو شنکر کے مطابق ۱۸۰۰ دیگر آنگن واڑی کارکنان کے ساتھ راجیشوری کو بھی دسمبر ۲۰۱۷ سے اے ڈبلیو ڈبلیو کا معمولی محنتانہ نہیں ملا ہے، جس سے ان کی مالی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ خواتین اور بچوں کی ترقی کے ریاستی محکمہ (۲۰۱۸-۱۹ کے لیے کل ۵۳۷۱ کروڑ روپے کے صرفے (آؤٹ لے کے ساتھ) کا دعویٰ ہے کہ اے ڈبلیو ڈبلیو کی تنخواہوں کے ساتھ ساتھ آنگن واڑی مراکز کے لیے کھانے کی فراہمی اور دیگر اخراجات کا بجٹ منظور نہیں کیا گیا ہے۔ اگرچہ پہلے بھی ایسا ہو چکا ہے، لیکن اتنی لمبی تاخیر پہلی دفعہ ہوئی ہے۔

حکومت کی جانب سے اپنے واجبات جاری ہونے کے لیے کئی مہینوں کے انتظار کے بعد ۱۶ اگست کو ’آنگن واڑی کاریہ کرتے سہایکی مہا منڈلی‘ (ٹی یو سی سی سے منسلک آنگن واڑی ورکرز اور ہیلپرس ٹریڈ یونین) کے تقریباً ۲۳۰۰ ارکان نے اپنی مایوسی کا اظہار کرنے کے لیے بنگلورو کے ٹاؤن ہال کے باہر پرامن احتجاج کیا۔ خیال رہے کہ پوری ریاست میں یونین کے ۲۱۸۰۰ ممبران ہیں۔ اس کے علاوہ اپنی دیرینہ واجبات کا مطالبہ کرتے ہوئے کرناٹک کے دیگر حصوں میں بھی احتجاج کیا گیا۔ ان کے مطالبات کی فہرست میں اے ڈبلیو ڈبلیو کو ۶۵ کی بجائے ۶ٍ۰ سال کی عمر سے پنشن کے اہلیت دینا، پنشن کی رقم ۱۰۰۰ روپے سے بڑھا کر ۵۰۰۰ روپے کرنا اور کام کے گھنٹے میں تخفیف کرنا بھی شامل ہیں۔ ہراساں کیے جانے کے خوف سے بہت سی اے ڈبلیو ڈبلیو نے حوالہ دیے جانے، نام دینے یا تصویریں اتروانے سے منع کر دیا۔

اگلی صف سے جرأت مندی کے ساتھ احتجاج کی قیادت کرنے والی ۵۶ سالہ لِنگراجمّا ۳۰ سالوں سے اے ڈبلیو ڈبلیو ہیں، جو تنخواہ میں فراخ دلی کے ساتھ نظر ثانی کی امید کر رہی ہیں۔ ’’ہم اپنے اعزازیہ کو باضابطہ تنخواہ میں تبدیل کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں [جس سے پروویڈنٹ فنڈ جیسے اضافی فوائد حاصل ہوں گے] اور ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ اسے بڑھا کر ۲۰ ہزار روپے کر دیا جائے، کیونکہ ہم پڑھانے کے علاوہ ابھی بہت کچھ کرتے ہیں،‘‘ وہ مضبوطی سے اپنی بات رکھتی ہیں۔ بغیر ادائیگی کے لنگراجما نے ان مہینوں کو اپنے شوہر، جو ایک ریٹائرڈ بینک ملازم ہیں، کی پنشن پر گزارا ہے۔ ان کے بچے اپنی زندگیوں میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں: بیٹا آنکولوجی سرجن کی تعلیم حاصل کر رہا ہے اور بیٹی صحافی ہے۔

PHOTO • Priti David
PHOTO • Vishaka George

لنگراجمّا ۳۰ سالوں سے اے ڈبلیو ڈبلیو ہیں، اور اب بنگلورو میں آنگن واڑی کارکنوں کے احتجاج کی قیادت کر رہی ہیں

لیکن ایسی بہت سی اے ڈبلیو ڈبلیو ہیں جن کے پاس آمدنی کے ایسے ذرائع نہیں ہیں، اس لیے وہ اضافی ملازمتیں تلاش کرنے کو مجبور ہیں۔ ان میں سے کچھ نوکرانیوں کے طور پر کام کرتی ہیں، کچھ گھر میں تیار کردہ مصالحہ جات فروخت کرتی ہیں، کچھ ٹیلرنگ کی دکانوں میں کام کرتی  ہیں اور کچھ ٹیوشن دیتی ہیں۔

رادھیکا (ان کی گزارش پر تبدیل شدہ نام) ان میں سے ایک ہیں۔ وہ اپنی ۱۲ جمع ۱۰ فٹ کی آنگن واڑی مرکز میں ۱۵ ننھے بچوں، اپنے روتے ہوئے بچے کو تسلی دیتی ایک حاملہ ماں، دوپہر کے کھانے کے لیے سانبھر اور چاول پکانے والی ایک مددگار اور میزوں پر دال اور چاول کی بڑی بوریوں کے درمیان گھری ہوئی ہیں۔ جھولنے والے گھوڑوں، پلاسٹک کے کھلونوں، حروف تہجی کے پوسٹروں اور ہندسوں کے چارٹ کے درمیان، رادھیکا کی میز پر ان تمام ریکارڈوں کے لیے صاف ستھرے مجلد رجسٹروں کا انبار لگا ہوا ہے، جنہیں درست رکھنا ان کے لیے ضروری ہے۔

ہم دروازے پر کھڑے رادھیکا کو کنڑ میں ایک نظم پڑھتے سن رہے ہیں۔ یہ نظم بچوں کو انسانی جسم کے اعضاء کے نام سکھاتی ہے۔ وہ اپنے بازوؤں اور ٹانگوں کو ہلاتی ہیں، اور بچے ان کی مبالغہ آمیز اشاروں کی خوشی خوشی نقل کرتے ہیں۔ ایک سال قبل گردے کے کینسر کی ایک طویل بیماری کے بعد رادھیکا کے شوہر کی موت ہو گئی تھی۔ ان کے علاج کی غرض سے دوستوں اور رشتہ داروں سے لیے گئے ۲ لاکھ روپے کے قرضوں کی ادائیگی کے لیے اب وہ جد و جہد کر رہی ہیں۔ تنخواہ کی بے قاعدگی ان کی مالی مشکلات میں اضافہ کرتی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں [ہفتے میں چھ دن] ایک طرف کی دوری ۴۵ منٹ پیدل چل کر طے کرتی ہوں، کیونکہ میرے پاس بس کرایے کے پیسے نہیں ہیں۔ رادھیکا اپنے علاقے کے ۳۰ بچوں کو دو گھنٹے ٹیوشن دے کر مہینے کے ۳۰۰۰ روپے حاصل کرتی ہیں، لیکن اس رقم کا زیادہ تر حصہ ان کے قرضوں کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے۔

PHOTO • Priti David
PHOTO • Priti David

شہر کی اس غریب کالونی میں واقع یہ چھوٹا سا آنگن واڑی مرکز  ننھے بچوں، حاملہ ماؤں، باورچی، کھلونوں اور اناج کی بوریوں سے بھرا پڑا ہے

بہرحال، ملک میں کئی پالیسیاں ہیں جو ابتدائی تعلیم کے فوائد کی تعریف کرتے نہیں تھکتی ہیں۔ قومی پالیسی برائے اطفال، ۱۹۷۴ نے بچپن کے ابتدائی مراحل (صفر سے ۶ سال) کے دوران تعلیم اور صحت دونوں کے لیے جامع سہولیات کی بات کی ہے۔ آنگن واڑی کی تشکیل ۱۹۷۵ کے آس پاس خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزارت کے تحت کی گئی تھی، جب کہ پرائمری اور اس سے اوپر کی تعلیم کو انسانی وسائل کی ترقی کی وزارت سنبھالتی رہی۔ غذائیت اور تعلیم سے متعلق قومی پالیسیاں اور حال ہی میں ابتدائی بچپن کی نگہداشت اور تعلیم کی پالیسی، ۲۰۱۳، ’’ایک حفاظتی اور بااختیار ماحول میں نگہداشت، صحت، غذائیت، کھیل اور ابتدائی تعلیم ...‘‘ کا وعدہ کرتی ہیں، ’’[تاکہ] عدم مساوات کو دور کیا جا سکے اور طویل مدتی سماجی اور اقتصادی فوائد حاصل کیے جا سکیں۔‘‘

اس کے باوجود بہت سے آنگن واڑی مراکز بنیادی سہولیات تک سے محروم ہیں۔ انڈیا ریپڈ سروے آن چلڈرن ۲۰۱۳-۲۰۱۴ (خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزارت سے منسلک) نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ صرف ۵۲ فیصد آنگن واڑیوں کے پاس علیحدہ کچن ہیں اور صرف ۴۳ فیصد کے پاس بیت الخلا ہیں۔ ’’چھوٹے بچوں کے لیے اپنے حوائج ضروریہ کو اس وقت تک روکے رکھنا انتہائی دباؤ کا سبب بنتا ہے جب تک کہ ہم انہیں دوپہر کے کھانے کے بعد بیت الخلاء جانے کے لیے گھر نہیں بھیج دیتے۔ اور پھر بہت سے کنبوں میں دونوں والدین کام کے سلسلے میں گھر سے دور ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہم بالغوں کو بھی کسی نہ کسی طرح کام چلانا پڑتا ہے،‘‘ ایک اے ڈبلیو ڈبلیو اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس جانب اشارہ کرتی ہیں۔

’بجٹ نہ ہونے‘ کا مطلب آنگن واڑی مراکز چلانے کے لیے ضروری اشیاء خریدنے کے لیے فنڈز کا نہیں ہونا بھی ہے۔ والدین کے لیے بچوں کو ان مراکز میں بھیجنے کی ایک بڑی ترغیب کھانے سے ملتی ہے۔ کھانا بھی ٹیچر کی ہی ذمہ داری ہے۔  جن اے ڈبلیو ڈبلیو سے ہم نے بات کی انھوں نے ہمیں بتایا کہ وہ کس طرح انڈے، چاول اور سبزیاں خریدنے، اور یہاں تک کہ مرکز کے کرایہ کے لیے بھی قرض لیتی ہیں۔

PHOTO • Vishaka George
PHOTO • Vishaka George

آنگن واڑی کارکنان بعض اوقات والدین سے اپیل کرتی ہیں کہ وہ اپنے بچوں کے کھانے کو بہتر بنانے کے لیے اپنے گھروں سے سبزیاں بھیجیں

مالی طور پر غیر محفوظ اے ڈبلیو ڈبلیو کے لیے تمام بچوں کو روزانہ کھانا کھلانا ایک چیلنج کی طرح ہوتا ہے۔ راجیشوری کہتی ہیں، ’’میں بعض اوقات والدین سے کہتی ہوں کہ وہ ایک سبزی مثلاً ایک بیگن، مولی یا ایک آلو بھیجیں تاکہ دوپہر کے کھانے کے لیے سانبھر بن سکے۔‘‘

ہندوستان کے بہت سے غریب لوگ آنگن واڑی مراکز پر انحصار کرتے ہیں۔ درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کے ۷۰ فیصد کنبے اپنے بچوں کو ملک بھر کے ان مراکز میں بھیجتے ہیں۔

ہندوستان میں چھ سال سے کم عمر کے ۷ء۱۵۸ ملین بچے ہیں (مردم شماری ۲۰۱۱)، اور کئی ایسی پالیسیاں ہیں جو ان سب کو اسکول سے پہلے کی تعلیم، ہفتے میں کم از کم دو بار انڈے کے ساتھ کھانا اور غذائی سپلیمنٹس کی یقین دہانی کراتی ہیں۔ اس کے علاوہ ماؤں کے لیے قبل از پیدائش اور بعد از پیدائش کی جانچ، بچوں کی ٹیکہ کاری، اور متعدد دیگر خدمات فراہم کرنے کا وعدہ کرتی ہیں۔

ان پالیسیوں پر اے ڈبلیو ڈبلیو کے ذریعہ عمل درآمد ہوتا ہے، جس کے لیے انہیں ہر روز جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ لیکن آنگن واڑی کارکنان کا کہنا ہے کہ برادری سے ملنے والی عزت اور بچوں کی ہنسی انہیں اپنی خدمات جاری رکھنے کا حوصلہ دیتی ہیں۔ ’’جب میں اس علاقے میں داخل ہوتی ہوں، تو یہ بات پھیل جاتی ہے کہ میں آگئی ہوں اور میرے طالب علم ’نمستے مس‘ کے ساتھ میرا استقبال کرنے کے لیے دوڑتے ہوئے آتے ہیں،‘‘ ایک اے ڈبلیو ڈبلیو نے ہمیں بتایا۔ ’’اور جب وہ بڑے ہو جاتے ہیں اور پرائمری اسکول میں چلے جاتے ہیں، تو وہ میری طرف اشارہ کرتے ہیں اور اپنے دوستوں سے کہتے ہیں ’یہ میری مس ہیں‘۔‘‘

مترجم: شفیق عالم

Priti David

Priti David is the Executive Editor of PARI. She writes on forests, Adivasis and livelihoods. Priti also leads the Education section of PARI and works with schools and colleges to bring rural issues into the classroom and curriculum.

Other stories by Priti David
Vishaka George

Vishaka George is Senior Editor at PARI. She reports on livelihoods and environmental issues. Vishaka heads PARI's Social Media functions and works in the Education team to take PARI's stories into the classroom and get students to document issues around them.

Other stories by Vishaka George
Editor : Sharmila Joshi

Sharmila Joshi is former Executive Editor, People's Archive of Rural India, and a writer and occasional teacher.

Other stories by Sharmila Joshi
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam