مانسون کی پہلی بارش ثانیہ ملّانی کی پیدائش کے دن کی گئی پیشن گوئی کی یاد کو ہمیشہ تازہ کر دیتی ہے۔

ان کی پیدائش جولائی ۲۰۰۵ میں ہوئی تھی۔ اس سے ٹھیک ایک ہفتہ قبل مہاراشٹر میں آئے خوفناک سیلاب نے ۱۰۰۰ سے زیادہ لوگوں کو ہلاک کر دیا تھا جب کہ ۲۰ ملین لوگ اس سے متاثر ہوئے تھے۔ ایسے میں، جب ثانیہ پیدا ہوئیں تو لوگوں نے ان کے ماں باپ سے کہا تھا، ’’اس کی پیدائش سیلاب کے دوران ہوئی ہے؛ اس لیے یہ اپنا زیادہ تر وقت سیلاب میں ہی گزارے گی۔‘‘

لہٰذا، جولائی ۲۰۲۲ کے پہلے ہفتہ میں جب تیز بارش ہونے لگی تو ۱۷ سال کی ہو چکیں ثانیہ کو وہ بات پھر سے یاد آ گئی۔ مہاراشٹر کے کولہا پور ضلع کے ہاتکنگلے تعلقہ کے بھینڈ وَڈے گاؤں میں رہنے والی ثانیہ کہتی ہیں، ’’جب بھی میں یہ سنتی ہوں کہ پانی واڑھت چالّے [پانی کی سطح بڑھنے لگی ہے]، تو میں ڈر جاتی ہوں کہ سیلاب دوبارہ آنے والا ہے۔‘‘ یہ گاؤں اور اس میں رہنے والے ۴۶۸۶ لوگ سال ۲۰۱۹ سے اب تک دو تباہ کن سیلاب دیکھ چکے ہیں۔

ثانیہ یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں، ’’اگست ۲۰۱۹ میں آئے سیلاب کے دوران، محض ۲۴ گھنٹے کے اندر ہمارے گھر میں سات فٹ پانی بھر گیا تھا۔‘‘ اچھی بات یہ رہی کہ مُلّانی فیملی، گھر کے اندر پانی داخل ہونے سے پہلے ہی وہاں سے نکلنے میں کامیاب رہی، لیکن اس واقعہ کا ثانیہ کے ذہن پر بہت گہرا اثر پڑا۔

جولائی ۲۰۲۱ میں سیلاب نے ایک بار پھر اس گاؤں میں دستک دی۔ اس بار، ان کی فیملی کو گاؤں کے باہر بنے ایک سیلاب راحت کیمپ میں تین ہفتے تک پناہ لینی پڑی، اور جب گاؤں کے حکام کو یہ محسوس ہوا کہ اب کوئی خطرہ نہیں ہے تب جا کر یہ لوگ اپنے گھر لوٹے۔

ثانیہ ایک ٹائیکانڈو چمپئن ہیں، جو بلیک بیلٹ کے لیے ٹریننگ حاصل کرنا چاہتی تھیں، لیکن ۲۰۱۹ کے سیلاب نے ان کی اس ٹریننگ کو بری طرح متاثر کیا۔ گزشتہ تین سالوں سے وہ تھکن، بے چینی، چڑچڑاپن اور فکرمندی جیسے مسائل کا سامنا کر رہی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’میں اپنی ٹریننگ پر توجہ مرکوز نہیں کر پا رہی ہوں۔ میری ٹریننگ اب بارش پر منحصر ہے۔‘‘

Saniya Mullani (centre), 17, prepares for a Taekwondo training session in Kolhapur’s Bhendavade village
PHOTO • Sanket Jain
The floods of 2019 and 2021, which devastated her village and her home, have left her deeply traumatised and unable to focus on her training
PHOTO • Sanket Jain

بائیں: ۱۷ سالہ ثانیہ ملانی (درمیان میں)، کولہا پور کے بھینڈ وَڈے گاؤں میں ٹائیکانڈو کے ایک ٹریننگ سیشن کی تیاری کر رہی ہیں۔ دائیں: سال ۲۰۱۹ اور ۲۰۲۱ کے سیلاب، جس نے ان کے گاؤں اور گھر کو تباہ کردیا تھا، نے ان کے ذہن پر بہت گہرا اثر ڈالا تھا جس کی وجہ سے وہ اب اپنی ٹریننگ پر پوری توجہ مرکوز نہیں کر پا رہی ہیں

Young sportswomen from agrarian families are grappling with mental health issues linked to the various impacts of the climate crisis on their lives, including increased financial distress caused by crop loss, mounting debts, and lack of nutrition, among others
PHOTO • Sanket Jain

کاشتکار خاندانوں سے تعلق رکھنے والی نوجوان خواتین کھلاڑیوں کی دماغی صحت پر ماحولیاتی تبدیلی کا بہت گہرا اثر پڑا ہے، جو کہ فصلوں کی بربادی کے سبب مالی پریشانیوں میں اضافہ، بڑھتے قرض، اور غذائیت کی کمی وغیرہ کا نتیجہ ہے

جب یہ علامتیں ظاہر ہونے لگیں، تو ثانیہ کو لگا کہ وقت گزرنے کے ساتھ وہ ٹھیک ہو جائیں گی۔ لیکن جب ایسا نہیں ہوا، تو انہوں نے ایک پرائیویٹ ڈاکٹر کو دکھایا۔  اگست ۲۰۱۹ کے بعد، وہ ڈاکٹر کے پاس کم از کم ۲۰ بار جا چکی ہیں، پھر بھی سر چکرانا، تھکن، بدن میں درد، بار بار بخار آنا، کام میں دھیان نہیں لگنا، اور لگاتار ’’تناؤ اور دباؤ‘‘ محسوس کرنا، یہ تمام چیزیں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہیں۔

وہ کہتی ہیں، ’’اب تو حالت یہ ہو گئی ہے کہ ڈاکٹر کے پاس جانے کے خیال سے ہی ڈر لگنے لگتا ہے۔ پرائیویٹ ڈاکٹر ہر بار ۱۰۰ روپے لیتا ہے؛ اوپر سے دواؤں کا خرچ، کئی قسم کی جانچ اور اس کی بنیاد پر دیگر اخراجات۔ اگر نسوں میں ڈرپ لگانے کی ضرورت پیش آ جائے، تو ہر بوتل کے لیے ہمیں الگ سے ۵۰۰ روپے دینے پڑتے ہیں۔‘‘

جب ڈاکٹر کے صلاح و مشورے اور علاج کا کوئی اثر نہیں ہوا، تو ان کی ایک دوست نے ایک حل بتایا: ’’ گپّ ٹریننگ کرائیچا [صرف اپنی ٹریننگ پر دھیان دو، خاموشی سے]۔‘‘ لیکن اس سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ان کی پریشانی تب اور بڑھ گئی جب انہوں نے اپنی بگڑتی ہوئی صحت کے بارے میں ڈاکٹر سے بات کی، تو اس نے صرف اتنا کہا، ’’زیادہ سوچو مت۔‘‘ ثانیہ کے لیے اس مشورہ پر عمل کرنا شاید سب سے زیادہ مشکل تھا، کیوں کہ ان کے لیے یہ سوچنا فطری تھا کہ اگلی بارش نہ جانے کیسی ہوگی اور ان کی فیملی پر اس کا پتہ نہیں کیا اثر ہونے والا ہے۔

ثانیہ کے والد جاوید کے پاس ایک ایکڑ زمین ہے؛ سال ۲۰۱۹ اور ۲۰۲۱ کے سیلابوں کے دوران انہیں ۱۰۰۰۰۰ کلو گنّے کا نقصان ہوا تھا۔ سال ۲۰۲۲ میں بھی بھاری بارش اور ورنا ندی کے سیلاب سے ان کی زیادہ تر فصل برباد ہو چکی ہے۔

جاوید کہتے ہیں، ’’۲۰۱۹ میں آئے سیلاب کے بعد سے، اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ آپ نے جو کچھ بویا ہے اس کا پھل آپ کو ملے گا ہی۔ یہاں کے ہر کسان کو کم از کم دو بار بوائی کرنی پڑتی ہے۔‘‘ اس کی وجہ سے پیداوار کی لاگت ایک طرح سے دو گنی ہو جاتی ہے، جب کہ بعض دفعہ کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا، جو کاشتکاری کو ناپائیدار بنا رہا ہے۔

The floods of 2019 destroyed sugarcane fields (left) and harvested tomatoes (right) in Khochi, a village adjacent to Bhendavade in Kolhapur district
PHOTO • Sanket Jain
The floods of 2019 destroyed sugarcane fields (left) and harvested tomatoes (right) in Khochi, a village adjacent to Bhendavade in Kolhapur district
PHOTO • Sanket Jain

سال ۲۰۱۹ میں آئے سیلاب نے کولہا پور ضلع میں بھینڈ وَڈے سے ملحق ایک گاؤں، کھوچی کے گنّے کے کھیتوں (بائیں) اور ٹماٹر کی تیار فصل کو برباد کر دیا تھا

اس سے باہر نکلنے کا صرف ایک ہی راستہ بچتا ہے کہ بھاری بھرکم شرح سود پر نجی ساہوکاروں سے قرض لیا جائے، جو ذہنی تناؤ میں مزید اضافہ کرتا ہے۔ ثانیہ کہتی ہیں، ’’ہر مہینے پیسہ چکانے کی تاریخ جب قریب آتی ہے، تو ذہنی تناؤ کی وجہ سے آپ کئی لوگوں کو اسپتال کا چکر لگاتے ہوئے دیکھیں گے۔‘‘

بڑھتے قرض اور ایک اور سیلاب کے ڈر سے ثانیہ اکثر فکرمند رہتی ہیں۔

کولہاپور کے طبی ماہر نفسیات شلمالی رنمالے ککڑے بتاتے ہیں، ’’ہر قدرتی تباہی کے بعد عموماً ایسا ہوتا ہے کہ لوگ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے جتنی کوشش انہیں کرنی چاہیے اتنی نہیں کرتے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ایسا کرنا ہی نہیں چاہتے ہیں؛ بلکہ وہ ایسا کر نہیں پاتے ہیں۔ آہستہ آہستہ وہ خود کو بے سہارا، مجبور سمجھنے لگتے ہیں، اور کئی قسم کی اداسی میں مبتلا ہو جاتے ہیں، جس سے ان کے مزاج پر برا اثر پڑتا ہے اور وہ فکرمندی کے شکار ہو جاتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے موسمیاتی تبدیلی پر بین الحکومتی پینل (آئی پی سی سی) نے پہلی بار اس بات کو نمایاں کیا ہے کہ لوگوں کی دماغی صحت پر موسمیاتی تبدیلی کا بہت گہرا اثر پڑتا ہے : ’’تجزیہ کیے جانے والے تمام خطوں میں گلوبل وارمنگ کے مزید بڑھنے سے، خاص طور پر بچوں، بالغوں، بزرگوں، اور خراب صحت والوں میں دماغی صحت سے متعلق چیلنجز میں اضافہ ہونے کی امید ہے۔‘‘

*****

اٹھارہ سالہ ایشوریہ بیرجدار نے بھی ۲۰۲۱ کے سیلاب کے دوران اپنا خواب ٹوٹتے ہوئے دیکھا۔

بھینڈ وڈے سے تعلق رکھنے والی اسپرنٹر (تیز دوڑ) اور ٹائیکانڈو کی اس چمپئن کو سیلاب کا پانی کم ہونے کے بعد، اپنے گھر کو صاف کرنے میں ۱۵ دنوں تک ۱۰۰ گھنٹے سے زیادہ وقت لگانا پڑا۔ وہ بتاتی ہیں، ’’بدبو ختم ہی نہیں ہو رہی تھی؛ دیواروں کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ یہ کبھی بھی گر سکتی ہیں۔‘‘

زندگی کو دوبارہ معمول پر لانے میں تقریباً ۴۵ دن لگ گئے۔ وہ کہتی ہیں، ’’اگر ایک دن کی بھی ٹریننگ چھوٹ گئی، تو آپ کو اچھا نہیں لگتا ہے۔‘‘ پچھلے ۴۵ دنوں کی ٹریننگ چھوٹنے کا مطلب تھا کہ انہیں پھر سے کافی سخت محنت کرنی پڑے گی۔ [لیکن] میری قوت برداشت (اسٹیمنا) تیزی سے ختم ہو چکی تھی کیوں کہ ہم سے آدھا پیٹ کھا کر دو گنی ٹریننگ حاصل کرنے کی توقع کی جاتی ہے۔ یہ ناقابل برداشت ہے جس کی وجہ سے کافی تناؤ ہوتا ہے۔‘‘

Sprinter and Taekwondo champion Aishwarya Birajdar (seated behind in the first photo) started experiencing heightened anxiety after the floods of 2021. She often skips her training sessions to help her family with chores on the farm and frequently makes do with one meal a day as the family struggles to make ends meet
PHOTO • Sanket Jain
Sprinter and Taekwondo champion Aishwarya Birajdar (seated behind in the first photo) started experiencing heightened anxiety after the floods of 2021. She often skips her training sessions to help her family with chores on the farm and frequently makes do with one meal a day as the family struggles to make ends meet
PHOTO • Sanket Jain

اسپرنٹر اور ٹائیکانڈو چمپیئن ایشوریہ بیرجدار (پہلی تصویر میں پیچھے کی طرف بیٹھی ہوئیں) ۲۰۲۱ کے سیلاب کے بعد بہت زیادہ بے چینی محسوس کرنے لگیں۔ وہ اکثر اپنا ٹریننگ سیشن چھوڑ دیتی ہیں تاکہ کھیت کے کام میں اپنے گھر والوں کی مدد کر سکیں اور دن میں ایک بار ہی کھانا کھاتی ہیں کیوں کہ ان کی فیملی کو اپنی ضروریات پورا کرنے کے لیے کافی جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے

سیلاب کا پانی گھٹنے کے بعد، ثانیہ اور ایشوریہ کے والدین کو تین مہینے تک کوئی کام نہیں مل سکا کیوں کہ پورا گاؤں اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑا ہونے کے لیے جدوجہد کر رہا تھا۔ جاوید، جو اپنی گھٹتی ہوئی زرعی آمدنی کو پورا کرنے کے لیے راج مستری کا بھی کام کرتے ہیں، انہیں کوئی کام اس لیے نہیں مل پایا کیوں کہ اس علاقے میں تعمیراتی کام رک گیا تھا۔ ایشوریہ کے والدین کو بھی ایسے ہی تجربات کا سامنا کرنا پڑا، جو بٹائی دار کھیتی اور زرعی مزدوری کرتے ہیں، لیکن وہاں کے سارے کھیت اس وقت پانی میں ڈوبے ہوئے تھے۔

اس دوران قرض کے سود کی رقم لگاتار بڑھنے کی وجہ سے ان لوگوں نے اپنا پیٹ کاٹنا شروع کر دیا – ایشوریہ اور ثانیہ کو چار مہینے تک دن میں صرف ایک بار ہی کھانے پر اکتفا کرنا پڑا – اور کبھی کبھی انہوں نے خود کو بھوکا بھی رکھا اور ایک وقت کا بھی کھانا نہیں کھایا۔

ان نوجوان خواتین کھلاڑیوں کو تو یہ بھی یاد نہیں ہے کہ بنیادی ضروریات کو پورا کرنے میں اپنے والدین کی مدد کرنے کے لیے انہیں کتنے دن بھوکے پیٹ سونا پڑا۔ ان کی ٹریننگ اور کارکردگی پر ان تمام چیزوں کا اثر پڑنا لازمی تھا۔ ثانیہ کہتی ہیں، ’’میرا جسم اب سخت ورزش کو برداشت نہیں کر سکتا۔‘‘

ثانیہ اور ایشوریہ نے جب پہلی بار بے چینی محسوس کی، تو اسے انہوں نے سنجیدگی سے نہیں لیا – بعد میں انہیں پتہ چلا کہ دوسرے کھلاڑیوں میں تو یہ اور بھی عام ہے جس کا انہوں نے کبھی تصور نہیں کیا تھا۔ ایشوریہ بتاتی ہیں، ’’سیلاب سے متاثرہ ہمارے جتنے بھی کھلاڑی دوست ہیں وہ سبھی ایسی ہی [علامتوں کی] باتیں کرتے ہیں۔‘‘ ثانیہ کہتی ہیں، ’’میں ہمیشہ اداسی محسوس کرتی ہوں جس کی وجہ سے مجھے کافی تناؤ ہوتا ہے۔‘‘

ہاتکنگلے کے تعلقہ ہیلتھ آفیسر، ڈاکٹر پرساد دتر بتاتے ہیں، ’’۲۰۲۰ سے ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ پہلی بارش (جو بعض دفعہ جون میں ہوتی ہے) کے بعد لوگوں کے اوپر سیلاب کا خوف طاری ہو جاتا ہے۔ سیلاب کا کوئی علاج نہیں ہے، یہ سوچ کر ان کا خوف بڑھنے لگتا ہے اور آخر میں دائمی مرض کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے، جو لوگوں کی دماغی صحت کو متاثر کرتا ہے۔‘‘

سال ۲۰۲۱ سے پہلے، ایک دہائی تک شیرول تعلقہ کے ۵۴ گاؤوں کی نگرانی پر مامور رہ چکے ڈاکٹر پرساد، سیلابوں کے بعد اس علاقے میں حفظان صحت کی کارروائیوں کی قیادت کر چکے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’کئی معاملوں میں [سیلاب کے بعد]، تناؤ اتنا زیادہ بڑھ گیا کہ کئی لوگوں کو بعد میں ہائپر ٹینشن (خون کا غیر معمولی دباؤ یا ہائی بلڈ پریشر) یا دماغی مرض میں مبتلا پایا گیا۔‘‘

Shirol was one of the worst affected talukas in Kolhapur during the floods of 2019 and 2021
PHOTO • Sanket Jain

۲۰۱۹ اور ۲۰۲۱ میں آنے والے سیلاب کے دوران کولہاپور کے سب سے متاثرہ علاقوں میں شیرول تعلقہ بھی شامل تھا

Flood water in the village of Udgaon in Kolhapur’s Shirol taluka . Incessant and heavy rains mean that the fields remain submerged and inaccessible for several days, making it impossible to carry out any work
PHOTO • Sanket Jain

سیلاب کے پانی سے بھرا ہوا کولہاپور کے شیرول تعلقہ کا اُڈگاؤں۔ لگاتار ہونے والی تیز بارش سے کھیتوں میں پانی بھر جاتا ہے، جس کی وجہ سے کئی دنوں تک لوگوں کا وہاں تک پہنچنا اور کسی قسم کا کوئی کام کرنا ناممکن ہو جاتا ہے

نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کی تحقیق بتاتی ہے کہ سال ۲۰۱۵ سے ۲۰۲۰ کے درمیان کولہاپور ضلع کی (۱۵ سے ۴۹ سال کی) بالغ خواتین میں ۷۲ فیصد ہائپر ٹیشن کے معاملے بڑھے ہیں۔ کرناٹک کے کوڈگو ضلع میں سال ۲۰۱۸ کے سیلاب سے متاثرہ ۱۷۱ لوگوں کے جائزے پر مبنی ایک تحقیقی مطالعہ سے پتہ چلا کہ ۷ء۶۶ فیصد لوگوں میں ذہنی دباؤ، جسمانی خرابی، منشیات کی لت، نیند نہ آنا اور بے چینی جیسی علامتیں تھیں۔

ایک اور تحقیقی مقالہ سے پتہ چلا کہ تمل ناڈو کے چنئی اور کوڈالور میں دسمبر ۲۰۱۵ کے سیلاب سے متاثرہ ۲۹ء۴۵ فیصد لوگ نفسیاتی مرض میں مبتلا تھے؛ جن ۲۲۳ لوگوں کا سروے کیا گیا ان میں سے ۱۰۱ افراد ذہنی دباؤ کے شکار تھے۔

بھینڈ وڈے میں ۳۰ طلباء کو ٹائیکانڈو کی ٹریننگ دینے والے وشال چوہان بھی نوجوان کھلاڑیوں کی دماغی صحت پر اسی قسم کے اثرات کی تصدیق کرتے ہیں۔ ’’۲۰۱۹ کے بعد، کئی طلباء نے ان حالات کی وجہ سے کھیل کو چھوڑ دیا ہے۔‘‘ انہی سے ٹریننگ حاصل کرنے والی ایشوریہ بھی ایتھلیٹکس اور مارشل آرٹس میں اپنے کریئر کو جاری رکھنے پر دوبارہ غور کر رہی ہیں۔

سال ۲۰۱۹ کے سیلاب سے پہلے، ایشوریہ چار ایکڑ کھیت میں گنے کی کھیتی کرنے میں اپنی فیملی کی مدد کیا کرتی تھیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’۲۴ گھنٹے کے اندر، سیلاب کا پانی اُساچا مولیہ [گنے کے عرق والے حصے] تک پہنچ گیا اور فصل کو پوری طرح برباد کر دیا۔‘‘

ان کے والدین بٹائی دار کھیتی کرتے ہیں، جنہیں پیداوار کا ۷۵ فیصد زمین کے مالک کو دینا پڑتا ہے۔ ان کے والد راؤ صاحب (۴۷ سال) کہتے ہیں، ’’۲۰۱۹ اور ۲۰۲۱ کے سیلاب کے دوران حکومت نے کوئی معاوضہ نہیں دیا؛ اگر کوئی معاوضہ ملا بھی ہوگا تو وہ زمین کے مالک کو ہی ملا ہوگا۔‘‘

سال ۲۰۱۹ کے سیلاب میں ۲ء۷ لاکھ روپے کی قیمت کے ۲۴۰۰۰۰ کلو سے زیادہ گنّے کی فصل برباد ہو جانے کے بعد، راؤ صاحب اور ان کی بیوی، ۴۰ سالہ شاردا، دونوں کو ہی زرعی مزدوری کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ایشوریہ اکثر ان کی مدد کرتی ہیں اور دن میں دو بار فیملی کے ذریعے پالے گئے جانوروں کا دودھ نکالتی ہیں۔ شاردا کہتی ہیں، ’’سیلاب کے بعد کم از کم چار مہینے تک آپ کو کوئی کام نہیں ملے گا۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کیوں کہ کھیتوں میں جمع پانی تیزی سے نہیں نکل پاتا، اور مٹی کی زرخیزی بحال ہونے میں تھوڑا وقت لگتا ہے۔‘‘

Aishwarya, who has to help her tenant-farmer parents on the fields as they struggle to stay afloat, is now considering giving up her plan of pursuing a career in sports
PHOTO • Sanket Jain

ایشوریہ، جنہیں گھر کو کسی طرح چلانے میں اپنے بٹائی دار کسان ماں باپ کی مدد کرنی پڑتی ہے، اب کھیل میں اپنا کریئر بنانے کے خیال کو چھوڑنے کے بارے میں سوچ رہی ہیں

Along with training for Taekwondo and focussing on her academics, Aishwarya spends several hours in the fields to help her family
PHOTO • Sanket Jain
With the floods destroying over 240,000 kilos of sugarcane worth Rs 7.2 lakhs in 2019 alone, Aishwarya's parents Sharada and Raosaheb are forced to double up as agricultural labourers
PHOTO • Sanket Jain

بائیں: ٹائیکانڈو کی ٹریننگ اور اپنی تعلیم پر توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ ساتھ، ایشوریہ اپنی فیملی کی مدد کرنے کے لیے کئی گھنٹے کھیتوں میں بھی گزارتی ہیں۔ دائیں: سال ۲۰۱۹ کے سیلاب میں ۲ء۷ لاکھ روپے کی قیمت کے ۲۴۰۰۰۰ کلو سے زیادہ گنّے کی فصل برباد ہو جانے کے بعد، ایشوریہ کے والدین شاردا اور راؤ صاحب کو زرعی مزدوری کرنے پر مجبور ہونا پڑا

اسی طرح، ۲۰۲۱ کے سیلاب کے دوران، راؤ صاحب کو ۴۲۰۰۰ روپے کی قیمت کی ۶۰۰ کلو سے زیادہ سویابین کا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ اتنے بڑے پیمانے پر ہوئے نقصان کو دیکھتے ہوئے، ایشوریہ اب اسپورٹس میں اپنے کریئر کو لے کر بے یقینی کی شکار ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’اب میں پولیس کا امتحان دینے کے بارے میں سوچ رہی ہوں۔ کھیلوں پر منحصر رہنا تھوڑا خطرناک ہے، خاص کر اس بدلتی ہوئی ماحولیات میں۔‘‘

وہ مزید کہتی ہیں، ’’میری ٹریننگ براہ راست کاشتکاری سے جڑی ہوئی ہے۔‘‘ ماحولیاتی تبدیلی سے کھیتی – اور اس کے ساتھ ہی ان کی فیملی کے معاش اور بقا – کو درپیش بڑھتے ہوئے خطرات کو دیکھتے ہوئے، اسپورٹس میں کریئر بنانے سے متعلق ایشوریہ کا خدشہ سمجھ میں آتا ہے۔

کولہاپور کے اَجرا تعلقہ کے پیٹھے واڑی گاؤں سے تعلق رکھنے والے اسپورٹس کوچ پانڈو رنگ ٹیرسے کہتے ہیں، ’’کسی بھی [موسمیاتی] آفت کے دوران، خواتین ایتھلیٹ سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ ’’کئی کنبے مدد نہیں کرتے ہیں، اور جب ان کی بیٹیاں کچھ دنوں کے لیے اپنی ٹریننگ روک دیتی ہیں، تو گھر والے ان سے کھیل کو چھوڑ دینے اور پیسہ کمانے کے لیے کہتے ہیں، جس سے ان کی دماغی صحت پر برا اثر پڑتا ہے۔‘‘

یہ پوچھنے پر کہ ان نوجوانوں کی مدد کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے، طبی ماہر نفسیات ککڑے کہتے ہیں، ’’پہلا قدم تو وہ ہو سکتا ہے جو ہم ترتیب وار علاج یا صدمے سے متعلق کاؤنسلنگ میں کرتے ہیں – یعنی صرف ان کی باتوں کو سننا اور انہیں اپنے احساسات کے بارے میں بتانے دینا۔ اپنے مشکل جذبات کو شیئر کرنے کا پلیٹ فارم ملنے پر لوگ سکون محسوس کرتے ہیں، جس سے صحت بخش ہونے میں کافی مدد ملتی ہے۔‘‘ حالانکہ، حقیقت یہ ہے کہ حفظان صحت کے کمزور ڈھانچے اور مہنگے علاج کی وجہ سے کروڑوں ہندوستانیوں کے لیے دماغی صحت کی دیکھ بھال تک رسائی حاصل کرنا مشکل ہے ۔

*****

لمبی دوری تک دوڑ لگانے والی سونالی کامبلے کا خواب بھی ۲۰۱۹ کے سیلاب کے بعد چکنا چور ہو گیا۔ ان کے ماں باپ کے پاس کوئی زمین نہیں ہے اور دونوں ہی زرعی مزدوری کرتے ہیں؛ سیلاب کے بعد مالی تنگی کی وجہ سے انہیں اپنی فیملی کے گزارہ کے لیے سونالی کی مدد کی ضرورت پڑنے لگی۔

ان کے والد، راجندر کہتے ہیں، ’’ہم تینوں لوگ کام کرتے ہیں، پھر بھی ہماری ضروریات پوری نہیں ہو پا رہی ہیں۔‘‘ لگاتار ہونے والی تیز بارش کی وجہ سے کھیتوں میں پانی بھر جاتا ہے اور لمبے عرصے تک اس میں جانا ممکن نہیں ہو پاتا۔ اس کی وجہ سے کام کے دنوں کی تعداد تیزی سے گھٹنے لگتی ہے، جس کا زرعی مزدوری پر منحصر کنبوں کی آمدنی پر برا اثر پڑتا ہے۔

Athletes running 10 kilometres as part of their training in Maharashtra’s flood-affected Ghalwad village
PHOTO • Sanket Jain
An athlete carrying a 200-kilo tyre for her workout
PHOTO • Sanket Jain

بائیں: مہاراشٹر کے سیلاب سے متاثرہ گھلوَڑ گاؤں کی ایتھلیٹس اپنی ٹریننگ کے حصہ کے طور پر ۱۰ کلومیٹر تک دوڑ لگا رہی ہیں۔ دائیں: ایک ایتھلیٹ اپنی ورزش کے دوران ۲۰۰ کلو وزنی ٹائر لے جاتے ہوئے

Athletes in Kolhapur's Ghalwad village working out to build their strength and endurance. Several ASHA workers in the region confirm that a growing number of young sportspersons are suffering from stress and anxiety related to frequent floods and heavy rains
PHOTO • Sanket Jain
Athletes in Kolhapur's Ghalwad village working out to build their strength and endurance. Several ASHA workers in the region confirm that a growing number of young sportspersons are suffering from stress and anxiety related to frequent floods and heavy rains
PHOTO • Sanket Jain

اپنی طاقت اور قوت برداشت کو حاصل کرنے کے لیے کولہاپور کے گھلوَڑ گاؤں میں ورزش کر رہیں ایتھلیٹس۔ اس علاقے کی کئی آشا کارکنوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ بار بار کے سیلاب اور بھاری بارش کی وجہ سے ذہنی دباؤ اور بے چینی کی شکار نوجوان کھلاڑیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے

شیرول تعلقہ کے گھلوَڑ گاؤں میں، جہاں کامبلے فیملی رہتی ہے، سات گھنٹے تک کام کرنے کے عوض عورتوں کو تقریباً ۲۰۰ روپے ملتے ہیں، جب کہ مردوں کو ۲۵۰ روپے دیے جاتے ہیں۔ ۲۱ سالہ سونالی کہتی ہیں، ’’فیملی کو چلانے کے لیے اتنا پیسہ کافی نہیں ہے، اسپورٹس کے سامان خریدنے اور ٹریننگ کی فیس ادا کرنا تو دور کی بات رہی۔‘‘

سال ۲۰۲۱ کے سیلاب نے کامبلے فیملی کی پریشانیاں مزید بڑھا دیں اور سونالی کو گہرے ذہنی دباؤ میں مبتلا کر دیا۔ وہ یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں، ’’سال ۲۰۲۱ میں، ہمارا گھر ۲۴ گھنٹے کے اندر ہی پانی میں ڈوب گیا تھا۔ اس سال ہم لوگ سیلاب کے پانی میں ڈوبنے سے کسی طرح بچ گئے۔ لیکن اب میں جب بھی پانی کی سطح بڑھتے ہوئے دیکھتی ہوں، ڈر کی وجہ سے میرا بدن درد کرنے لگتا ہے کہ پھر سے سیلاب آ جائے گا۔‘‘

سونالی کی ماں، شوبھانگی بتاتی ہیں کہ جولائی ۲۰۲۲ میں جب بھاری بارش ہونے لگی تو گاؤں والے یہ سوچ کر کافی ڈر گئے تھے کہ کرشنا ندی میں سیلاب آنے والا ہے۔ سونالی نے اس وقت اپنی ۱۵۰ منٹ کی روزانہ کی ٹریننگ چھوڑ دی اور سیلاب سے بچنے کی تیاری کرنے لگیں۔ جلد ہی وہ خطرناک ذہنی دباؤ میں مبتلا ہو گئیں، جس کی وجہ سے انہیں ڈاکٹر کے پاس جانا پڑا۔

ڈاکٹر پرساد کہتے ہیں، ’’جب پانی کی سطح بڑھنے لگتی ہے، تو کئی لوگ اس تذبذب میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ گھر کو چھوڑ کر کہیں اور جائیں یا نہیں۔ حالات کا صحیح اندازہ لگانے میں ناکام اور کوئی فیصلہ نہ لے پانے کی وجہ سے وہ ذہنی دباؤ کے شکار ہو جاتے ہیں۔‘‘

کولہاپور کے گاؤوں کی کئی منظوری یافتہ سماجی صحت کارکن (آشا) اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ سیلاب کی وجہ سے نوجوان مقامی ایتھلیٹوں میں بے چینی کی شکایت بڑھ رہی ہے۔ گھلوَڑ کی آشا کارکن، کلپنا کملاکر کہتی ہیں، ’’وہ بے بسی اور مایوسی کا شکار ہیں، اور بارش کے بدلتے پیٹرن کی وجہ سے یہ مزید بدتر ہوتا جا رہا ہے۔‘‘

With the financial losses caused by the floods and her farmer father finding it difficult to find work, Saniya (left) often has no choice but to skip a meal or starve altogether. This has affected her fitness and performance as her body can no longer handle rigorous workouts
PHOTO • Sanket Jain
With the financial losses caused by the floods and her farmer father finding it difficult to find work, Saniya (left) often has no choice but to skip a meal or starve altogether. This has affected her fitness and performance as her body can no longer handle rigorous workouts
PHOTO • Sanket Jain

سیلاب سے ہونے والے مالی نقصان اور اپنے کاشتکار والد کو کام تلاش کرنے میں دشواری کی وجہ سے، ثانیہ (بائیں) کے پاس اکثر ایک وقت کا کھانا چھوڑنے یا سب کے ساتھ بھوکا رہنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا ہے۔ اس کی وجہ سے ان کی تندرستی اور کارکردگی پر برا اثر پڑ رہا ہے کیوں کہ ان کا جسم اب سخت ورزش کو برداشت نہیں کر پا رہا ہے

ایشوریہ، ثانیہ اور سونالی کا تعلق زرعی خاندانوں سے ہے، جن کا نصیب – یا بدنصیبی – پوری طرح بارش سے جڑا ہوا ہے۔ ان خاندانوں نے ۲۰۲۲ کے موسم گرما میں گنے کی کھیتی کی تھی۔

اس سال ہندوستان کے کئی حصوں میں مانسون تاخیر سے پہنچا۔ ایشوریہ کہتی ہیں، ’’مانسون میں تاخیر کے باوجود ہماری فصل بچ گئی۔‘‘ لیکن جولائی میں، جب مانسون کی بارش شروع ہوئی تو اس نے فصلوں کو پوری طرح برباد کر دیا، جس کی وجہ سے یہ کنبے بری طرح قرض میں ڈوب گئے۔ [یہ بھی پڑھیں: راحت کی بجائے مصیبت لے کر آئی بارش ]

سال ۱۹۵۳ سے ۲۰۲۰ کے درمیان، سیلاب کی وجہ سے ۲۲۰۰ ملین ہندوستانی متاثر ہوئے – یعنی امریکہ کی آبادی سے تقریباً ۵ء۶ گنا زیادہ – اور ۴۳۷۱۵۰ کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران، ہندوستان نے ہر سال اوسطاً ۱۷ سیلاب کے واقعات کا سامنا کیا، جو اسے دنیا میں چین کے بعد سیلاب سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک بناتا ہے۔

ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے، مہاراشٹر کے کئی حصوں میں، خاص کر کولہاپور ضلع میں بارش بے موسم ہو رہی ہے۔ صرف اسی سال اکتوبر میں، ریاست کے ۲۲ ضلعوں کے ۵ء۷ لاکھ ہیکٹیئر رقبہ کو قدرتی آفت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس میں زرعی فصلیں، پھل، اور سبزیاں شامل ہیں۔ ریاست کے محکمہ زراعت کے مطابق، ۲۰۲۲ میں، مہاراشٹر کے اندر ۲۸ اکتوبر تک ۱۲۸۸ ملی میٹر بارش ہوئی ہے – جو کہ اوسط بارش کا ۵ء۱۲۰ فیصد ہے۔ جب کہ جون سے اکتوبر کے درمیان یہاں ۱۰۶۸ ملی میٹر بارش ہوئی تھی۔

A villager watches rescue operations in Ghalwad village after the July 2021 floods
PHOTO • Sanket Jain

جولائی ۲۰۲۱ میں آئے سیلاب کے بعد گھلوَڑ گاؤں میں بچاؤ کی کارروائی کو دیکھتا ہوا ایک مقامی باشندہ

پونہ کے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹراپیکل میٹیرولوجی کے ماحولیاتی سائنسداں، اور آئی پی سی سی رپورٹ میں اپنا تعاون دینے والے راکسی کول کہتے ہیں، ’’مانسون کے دوران، ہم لمبے خشک دنوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں جب بیچ بیچ میں مختصر وقت کے لیے حد سے زیادہ بارش ہونے لگتی ہے۔ اس لیے، جب بارش ہوتی ہے تو مختصر وقت کے اندر ہی بہت ساری نمی چھوڑ جاتی ہے۔‘‘ اس کی وجہ سے بادل پھٹتے ہیں اور سیلاب آ تا ہے۔ ’’ہم لوگ چونکہ منطقہ حارہ (گرم علاقے) میں رہتے ہیں، اس لیے موسمیاتی واقعات اور بھی شدید ہوتے چلے جائیں گے۔ لہٰذا، ہمیں انتہائی محتاط رہنے اور تیزی سے حرکت کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ اس سے سب سے پہلے ہم ہی متاثر ہونے والے ہیں۔‘‘

تاہم، ایک بڑا فرق اب بھی ہے جسے ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے: یعنی مناسب حفظان صحت کے ڈیٹا کی کمی، جو ماحولیاتی تبدیلی کو اس خطہ کے بڑھتے ہوئے امراض سے جوڑتا ہے۔ نتیجتاً ایسے بے شمار لوگ موسمیاتی بحران سے متاثر ہو رہے ہیں، جنہیں سرکاری پالیسیوں میں نظر انداز کر دیا گیا ہے، جب کہ ان پالیسیوں کا مقصد سب سے کمزور لوگوں کو فائدہ پہنچانا ہے۔

سونالی کہتی ہیں، ’’میرا خواب ایک ایتھلیٹ بننے کا ہے، لیکن جب آپ غریب ہوں، تو آپ کے پاس محدود مواقع ہوتے ہیں، اور زندگی آپ کو ان میں سے کسی ایک کا انتخاب نہیں کرنے دیتی۔‘‘ دنیا چونکہ موسمیاتی بحران کی شکار ہوتی جا رہی ہے، اس لیے بارش کا پیٹرن بھی بدلتا رہے گا اور ثانیہ، ایشوریہ اور سونالی کو دستیاب مواقع بھی مشکل ہوتے چلے جائیں گے۔

ثانیہ کہتی ہیں، ’’میں سیلاب کے دوران پیدا ہوئی تھی۔ میں نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ مجھے پوری زندگی سیلاب میں ہی گزارنی پڑے گی۔‘‘

یہ اسٹوری انٹرنیوز ارتھ جرنلزم نیٹ ورک کے ذریعے امداد یافتہ سیریز کا ایک حصہ ہے، جس کے تحت رپورٹر کو آزادانہ صحافتی گرانٹ فراہم کیا گیا ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Sanket Jain

Sanket Jain is a journalist based in Kolhapur, Maharashtra. He is a 2022 PARI Senior Fellow and a 2019 PARI Fellow.

Other stories by Sanket Jain
Editor : Sangeeta Menon

Sangeeta Menon is a Mumbai-based writer, editor and communications consultant.

Other stories by Sangeeta Menon
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique