’’اگر تم سیفٹی سوٹ پہنوگے، تو ایک خلائی مسافر (ایسٹروناٹ) کی طرح دکھائی دوگے، ایک میونسپل افسر نے ایک بار مجھ سے کہا تھا،‘‘ کوئمبٹور میونسپل کارپوریشن کے ۶۰ سالہ حفظانِ صحت کے ورکر، منی بتاتے ہیں، جو بند ہو چکے نالوں (سیور) کو صاف کرنے کے لیے اس میں اترتے ہیں۔ ’’سر، میں نے ان سے نرمی سے کہا، پہلے آپ پہنیں، پھر میں بھی اس پر ضرور عمل کروں گا۔‘‘

منی (وہ اپنا صرف پہلا نام استعمال کرتے ہیں) آگے کہتے ہیں، ’’ہندوستان میں، اگر کوئی افسر ہمیں سیفٹی سوٹ اور آکسیجن ماسک پہننے کے بعد بڑے نالے یا سیور لائن میں اترنے کو کہتا ہے، تو یا تو وہ بے خبر ہے یا پھر صرف زبانی جمع خرچ کر رہا ہے، کیوں کہ اندر حرکت کرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ ہم صرف اپنی چڈی (انڈر پینٹ) میں اس کے اندر اتر سکتے ہیں۔ وہ ہمیں بیوقوف بنانا چاہتے ہیں۔ وہ پروا نہیں کرتے، کیوں کہ یہ ہمارے جسم ہیں جو گندگی میں ڈوبے ہوئے ہیں، اور وہ مانتے ہیں کہ ہماری ذات ہی اس کام کو کرنے کے لیے بنائی گئی ہے۔

پھر بھی، منی اپنی صلاحیتوں پر ناز کرتے ہیں، جو کئی برسوں کے تجربے کے بعد حاصل ہوئی ہے، اور وہ دوسرے کنزرویسنی ورکروں کو بتاتے ہیں کہ کسی بڑے نالے میں کیسے اترا جائے اور ہولناک گیسوں سے کیسے بچا جائے۔ ’’آج کل ہر آدمی ہمیں پڑھانا چاہتا ہے،‘‘ وہ  کہتے ہیں، ’’لیکن ہم مسائل کو کسی سے بھی بہتر جانتے ہیں۔ اموات کو اگر روکنا ہے، تو حکومت کو چاہیے کہ وہ سیویج لائنوں اور نالوں کی تجدیدکاری کرے۔ باقی تمام چیزیں فالتو ہیں۔‘‘

منی جب بچے تھے، تو ان کے والد سوبّن اور پونّی کویمبٹور کے سرکاری اسپتال میں صفائی ملازم کے طور پر کام کرتے تھے۔ ’’ہم اسپتال کے کیمپس میں رہتے تھے،‘‘ وہ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’اسکول کے بعد، میں سیدھے اسپتال جاتا اور وہاں ای سی جی، ایکس رے اور یہاں تک کہ پوسٹ مارٹم کرنے میں مدد کیا کرتا تھا۔ وہ لوگ ۱۹۶۰ کی دہائی میں مجھے ان کاموں کے بدلے ہر دن ۱۰۔۵ پیسے دیا کرتے تھے۔ میں نے ۸ویں کلاس تک تعلیم حاصل کی اور پھر مہتر (خاکروب) بن گیا۔‘‘

منی ایک دلت ہیں، ان کا تعلق چکّ لیئر ذات سے ہے۔ انھوں نے اسکول اس لیے چھوڑ دیا، کیوں کہ ان کے استاد اور ساتھی طلبہ تھوٹی کہہ کر بلایا کرتے تھے، جو کہ جنوبی ہندوستان میں مہتر کا کام کرنے والی ذات کے لیے ایک ذلت آمیز لفظ ہے، اور ان سے الگ بیٹھنے کے لیے کہتے۔ ’’وہ مجھے ذلیل کرتے، کیوں کہ میں لاشوں اور فضلوں کی صفائی کیا کرتا تھا۔ اساتذہ مجھ سے کلام روسم کے باہر بیٹھنے کے لیے کہتے،‘‘ منی بتاتے ہیں۔

منی کی بیوی نگمّا ضلع کے ابتدائی تعلیمی دفتر میں جھاڑو دینے والی کے طور پر کام کرتی ہیں، جہاں سے وہ ۱۵۰۰۰ روپے ماہانہ کماتی ہیں۔ ان کے والد نے سیّار اور والدہ کیروبا بھی حفظانِ صحت کا کام کرتے تھے، وہ بتاتی ہیں۔ ’’میں نے سینٹ میریز اسکول سے ۶ویں کلاس تک پڑھائی کی۔ یہ ایک مشنری اسکول تھا، اس لیے وہاں میرے ساتھ کوئی بھید بھاؤ نہیں ہوا، لیکن باہری دنیا کے لیے میں ایک اچھوت تھی۔ عیسائی ہونے کی وجہ سے، مجھے کوئی ریزرویشن نہیں ملا، اور اسی لیے میونسپل کارپوریشن میں کوئی نوکری بھی نہیں ملی۔ میری شادی کم عمری میں ہی ہو گئی اور ایم نگمّا بن گئی، اور چونکہ یہ ایک ہندو نام لگتا ہے، اس لیے مجھے یہ سرکاری نوکری (جھاڑو لگانے کے طور پر) مل گئی۔‘‘ جھاڑو لگانے والی کے طور پر نگمّا ۳۰ سال کام کر چکی ہیں اور ۲۰۲۰ میں ریٹائر ہو جائیں گی۔

منی اس کام کو تب سے کر رہے ہیں جب وہ ۲۷ سال کے تھے، اور اب وہ ۱۶۰۰۰ روپے ماہانہ کماتے ہیں؛ اس سے پہلے، وہ اسی کام کو ٹھیکہ مزدور کے طور پر کرتے تھے۔ ’’ان تمام برسوں میں،‘‘ وہ کہتے ہیں، ’’میرا جسم فضلوں کا عادی ہو چکا ہے۔ لیکن جب میں نے پہلی بار شروع کیا تھا، مجھے یاد ہے کہ اپنے تمام کپڑوں کو اتارکر صرف اپنے انڈرویئر میں نالوں کے اندر اترنا میرے لیے کتنا مشکل ہوتا تھا۔ کم از کم ایک سال تک مجھے اتنی شرمندگی محسوس ہوئی، گویا میں گلی میں ننگا کھڑا ہوں۔ لیکن، وقت اور حالات بہترین استاد ہوتے ہیں۔ ہماری ذات ہی ہماری قسمت ہے، جو ہماری پیشانی پر درج ہے۔ اگر آپ تھوٹی پیدا ہوئے ہیں، تو آپ کو زندگی بھر فضلوں میں ہی رہنا ہے۔ سماج آپ کو بھنگی (مہتر) بننے کے لیے مجبور کر دے گا۔ اس مقدر سے باہر نکلنے کے لیے آپ کو مضبوط قوت ارادی اور فیملی کا سپورٹ چاہیے۔ ہم اس سے باہر نہیں نکل سکے، لیکن ہم نے اپنے بچوں کے لیے باہر نکلنے کا راستہ بنا دیا ہے۔

نگمّا اور منی دونوں ہی چاہتے ہیں کہ ذات پر مبنی ان کا پیشہ انہی کے ساتھ ختم ہو جائے۔ انھیں اس بات کا یقین تھا کہ ان کے بچوں کو یہ بھید بھاؤ نہیں دیکھنا پڑے گا۔ ’’میرا صرف ایک خواب ہے ۔ کہ میرے بچے اس فضلہ سے، ان جان لیوا گیسوں سے بچیں،‘‘ منی کہتے ہیں۔ میری بیوی اور میں نے اس خواب کو پورا کرنے کے لیے کافی جدوجہد کی ہے۔‘‘ ان کی بیٹی تلسی شادی شدہ ہے اور کپڑے کی ایک کمپنی میں پروڈکٹ کنٹرول منیجر کے طور پر کام کرتی ہے، جب کہ ان کا بیٹا مورتھی ایک پرائیویٹ کمپنی میں کام کرتا ہے۔

ویڈیو دیکھیں: منی، اپنی بیوی نگمّا کے ساتھ، اپنے کام اور ذات کی رسوائی کے بارے میں بتا رہے ہیں

منی نے یہ دکھانے کا وعدہ کیا ہے کہ بلاکیج کو صاف کرنے کے لیے اندر گھسنے سے پہلے وہ نالے کے اندر کی حالت کو کیسے بھانپتے ہیں۔ اگلی صبح وہ مجھے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے آفس کے پاس بلاک ہو چکے سیور پر بلاتے ہیں۔ وہ ایک ٹرک کے پیچھے جاتے ہیں اور صرف اپنے انڈرویئر میں باہر آتے ہیں۔ وہ مسکراتے ہیں اور کہتے ہیں، ’’میں اس جہنم میں کئی دہائیوں سے جا رہا ہوں، لیکن ہر بار مجھے ایک ہی خطرہ رہتا ہے ۔ ہوسکتا ہے میں زندہ باہر نہ آؤں۔ اندر گھسنے سے پہلے، میں اپنی آنکھیں بند کرتا ہوں اور اپنی بیٹی کا چہرہ دیکھتا ہوں۔ اس کے بعد میں غوطہ لگاتا ہوں۔ وہ میرا لکی چارم ہے۔ نازک وقت میں، جب بلاکیج کو ہٹانا مشکل ہو جاتا ہے، میں اس کا نام لیتا ہوں اور باہر آنے کا فیصلہ کرتا ہوں۔ اس طرح، میری جان ہمیشہ بچ گئی۔‘‘

تاہم، اس سال ۱ جولائی سے ۱۰ جولائی تک، ہندوستان بھر میں نالو یا سیپٹک ٹینکوں میں ۳۹ صفائی ملازمین کی موت ہو چکی ہے، یہ تعداد صفائی کرمچاری آندولن نے ممبرانِ پارلیمنٹ کو بتائی ہے۔ صفائی کرمچاری آندولن، اس سماج پر مبنی تحریک ہے جس کے تحت پورے ملک میں ہاتھ سے میلا ڈھونے کی روایت کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

منی جب بڑے نالے میں اترنے کی تیاری کر رہے ہیں، اس وقت دوسرا صفائی ملازم اسے کھولتا ہے اور زیرہلی گیس کی موجودگی کو چیک کرنے کے لیے ماچس جلاتا ہے۔ وہ جب ہری جھنڈی دکھاتے ہیں، تب منی اندر گھستے ہیں اور نیچے کی طرف جاتے ہیں۔

اگر وہ زندہ نہیں آئے تو کیا ہوگا؟ دوسرے صفائی ملازمین خاموش ہیں۔ ان کے لیے، یہ ایک عام بات ہے۔ میں وہاں کھڑا ہوکر نگمّا کی اس بات کو یاد کرتا ہوں، ’’میں ہروز ڈری رہتی ہوں۔ اتنے زیادہ دباؤ میں نارمل زندگی گزارنا بہت مشکل ہے۔ منی تقریباً ہر دن پیتے ہیں۔ میں اس کے لیے ان سے لڑتی ہوں، لیکن میں جانتی ہوں کہ اس قسم کا نیچ، غیر انسانی کام نشہ کیے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ میں جب سیور اور سیپٹک ٹینکوں میں ہونے والی اموات کے بارے میں سنتی ہوں، تو مجھے کافی تکلیف ہوتی ہے۔ میں جانتی ہوں کہ ایک غوطہ خور کی بیوی ہونا کیسا لگتا ہے۔ کوئی بھی ہماری ذات کو انسانوں جیسا نہیں سمجھتا۔ ہم ذات کی اسی رسوائی کے ساتھ مر جائیں گے۔‘‘

کچھ دیر بعد، منی بڑے نالے سے باہر نکلتے ہیں۔ ان کا جسم کیچڑ، مٹی اور فضلہ سے بھرا ہوا ہے۔ وہ اپنے چہرے کو اپنے ہاتھ سے صاف کرتے ہیں، اور ان کی آنکھیں دکھائی دینے لگتی ہیں۔ ’’اس بار بھی میں خوش قسمت رہا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

تصویریں: بھاشا سنگھ

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Bhasha Singh

Bhasha Singh is an independent journalist and writer, and 2017 PARI Fellow. Her book on manual scavenging, ‘Adrishya Bharat’, (Hindi) was published in 2012 (‘Unseen’ in English, 2014) by Penguin. Her journalism has focused on agrarian distress in north India, the politics and ground realities of nuclear plants, and the Dalit, gender and minority rights.

Other stories by Bhasha Singh
Translator : Mohd. Qamar Tabrez

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez