وہ صبح کے ساڑھے چار بجے سے جگی ہوئی ہے۔ اور، ایک گھنٹہ بعد، چھتیس گڑھ کے سرگوجا جنگل میں تیندو کے پتے چُن رہی ہے۔ اس وقت اس کے جیسی ہزاروں آدیواسی عورتیں ریاست بھر میں یہی کام کر رہی ہیں۔ تمام کنبے پتیاں چننے کے لیے اکائیوں کے طور پر کام کرتے ہیں، ان پتیوں کا استعمال بیڈی بنانے میں ہوتا ہے۔
ایک اچھے دن، اس کی فیملی کے چھ ارکان ۹۰ روپے تک کما سکتے ہیں۔ وہ تیندو سیزن کے بہترین دو ہفتوں میں اس سے بھی زیادہ کما سکتے ہیں، جو وہ اگلے تین مہینوں میں کماتے ہیں۔ پتیاں جب تک موجود رہتی ہیں، یہ ان میں سے زیادہ تر کو چُن لیتے ہیں۔ چھ ہفتوں میں، انھیں زندہ رہنے کے لیے نئی حکمت عملی کی ضرورت پڑے گی۔ اس علاقہ کی تقریباً ہر فیملی اس وقت جنگل میں ہے۔ آدیواسی اقتصادیات کے لیے تیندو نہایت اہم ہے۔
ایسا ہی کچھ مہوا کے پھولوں کو چننے کا معاملہ ہے۔ یا پھر املی جمع کرنا۔ یا چرونجی اور سال۔ ملک کے بعض حصوں میں، آدیواسی گھروں کی آدھے سے زیادہ آمدنی بغیر ٹمبر والے جنگل کی پیداوار (این ٹی ایف پی) پر منحصر ہے۔ لیکن، اس میں سے انھیں پیداوار کا بہت قلیل حصہ ملتا ہے۔ صرف مدھیہ پردیش میں، اس قسم کی پیداوار کی قیمت سالانہ کم از کم ۲ ہزار کروڑ روپے ہے۔
حقیقی اعداد و شمار شاید ہی باہر آ پائیں، کیوں کہ ریاست نے جنگلات کو چاروں طرف سے گھیر دیا ہے۔ لیکن قومی سطح پر این ٹی ایف پی سے ہونے والی سالانہ آمدنی ۱۵ ہزار کروڑ روپے سے زیادہ ہے۔ یا تقریباً ۳ اعشاریہ ۰۹ ڈالر ہر سال۔
آدیواسی عورت اور اس کی فیملی کو اس میں سے بہت کم ملتا ہے۔ ان کے لیے اس کا مطلب ہے حیات۔ اور یہ شاید اس کے لیے بھی کافی نہ ہو۔ بچولیے، تاجر، ساہوکار اور دیگر افراد کو اصلی پیسہ ملتا ہے۔ لیکن این ٹی ایف پی کو کون جمع کرتا ہے، پروسیس کرتا ہے اور پھر انھیں بازار میں بھیجتا ہے؟ عام طور پر دیہی عورت یہ سب کرتی ہے۔ وہ جنگل کی ان چیزوں کو بھاری مقدار میں جمع کرتی ہے۔ اس میں ادویاتی جڑی بوٹیاں بھی شامل ہیں، جو کہ پہلے سے عالمی سطح پر کروڑوں ڈالر کا کاروبار ہے۔ یہ تجارت جہاں ایک طرف بڑے پیمانے پر پھل پھول رہی ہے، وہیں اس عورت اور اس کی فیملی کی حالت خراب سے خراب ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے لیے وہ نیٹ ورک ذمہ دار ہے، جو ان کی مزدوری کا استحصال کرتا ہے۔
جنگلاتی زمینوں کو جیسے جیسے برباد کیا جا رہا ہے، اس عورت کا کام بھی اتنا ہی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے ذریعے طے کی جانے والی دوری اور کام کے گھنٹے بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ آدیواسی برادریوں میں غریبی جیسے جیسے بڑھ رہی ہے، ویسے ویسے این ٹی ایف پی پر ان کا انحصار بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ اور اسی طرح، اس کی ذمہ داریاں بھی۔ اڈیشہ میں اس قسم کے کام کرنے والی عورتیں روزانہ تین سے چار گھنٹے تک پیدل چلتی ہیں۔ ان کے دن بھر کا کام ۱۵ گھنٹے یا اس سے بھی زیادہ وقت پر محیط ہوتا ہے۔ ملک کے لاکھوں غریب آدیواسی گھرانے اپنا گزر بسر ایسے ہی کرتے ہیں۔ اور اس کام میں، انھیں جنگل کے چوکیداروں، سوداگروں، پولس، ناراض ایڈمنسٹریٹر اور اکثر، نامناسب قوانین کی وجہ سے انھیں ہراساں ہونا پڑتا ہے۔
یہ عورتیں آندھرا پردیش کے وجیا نگرم کی ہیں، جو جھاڑو بنانے کے کام میں مصروف ہیں۔ اس ریاست میں زیادہ تر آدیواسی گھرانوں کی آدھی سے زیادہ آمدنی براہِ راست بغیر ٹمبر والے جنگل کی پیداوار کو فروخت کرنے سے ہوتی ہے۔ غیر آدیواسی غریبوں میں سے بھی بہت کو زندہ رہنے کے لیے این ٹی ایف پی کی ضرورت پڑتی ہے۔
مدھیہ پردیش کے بندیل کھنڈ کی یہ عورت ہر فن مولا ہے۔ وہ صرف پتیلے اور برتن ہی نہیں بناتی اور مرمت کرتی ہے۔ یہ تو اس کا فیملی بزنس ہے۔ وہ رسیاں بھی بانٹتی ہے، ٹوکریاں اور جھاڑو بھی بناتی ہے۔ وہ حیران کن طریقے سے جنگلاتی پیداوار بھی جمع کرتی ہے۔ وہ بھی اپنے علاقے کے ان مقامات سے، جہاں جنگلات تقریباً ختم ہو چکے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتی ہے کہ بعض مخصوص قسم کی گیلی مٹی کہاں ملے گی۔ اس کا کام اور کام کا بوجھ حیران کر دینے والا ہے؛ جب کہ اس کی فیملی کی حالت نہایت خستہ ہے۔