یہ اسٹوری پاری کی ماحولیاتی تبدیلی پر مبنی سیریز کا حصہ ہے، جس نے ماحولیات کی رپورٹنگ کے زمرہ میں سال ۲۰۱۹ کا رامناتھ گوئنکا ایوارڈ جیتا ہے

’’اگر میں یہ کہوں گا، تو لوگ مجھے پاگل کہیں گے،‘‘ ۵۳ سالہ گیانو کھرات، ایک دوپہر کو اپنے اینٹ سے بنے گھر کے کچے فرش پر بیٹھے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’لیکن ۳۰-۴۰ سال قبل، بارش کے موسم میں [قریب کے آبی چشمہ سے] مچھلیاں ہمارے کھیتوں میں بھر جاتی تھیں۔ میں انھیں اپنے ہاتھوں سے پکڑ لیا کرتا تھا۔‘‘

یہ وسط جون ہے اور ہمارے ان کے گھر پہنچنے سے تھوڑی دیر پہلے ہی، ۵۰۰۰ لیٹر پانی کے ساتھ ایک ٹینکر کھرات بستی میں داخل ہوا ہے۔ گیانو بھاؤ، ان کی بیوی پھُلا بائی اور ان کے ۱۲ ممبران پر مشتمل مشترکہ خاندان کے دیگر سبھی لوگ گھر میں موجود برتنوں، مٹی کے گھڑوں، ڈبوں اور ڈرموں میں پانی بھرنے میں مصروف ہیں۔ پانی کا یہ ٹینکر ایک ہفتہ بعد آیا ہے، یہاں پانی کی زبردست قلت ہے۔

’’آپ کو یقین نہیں ہوگا، ۵۰-۶۰ سال قبل یہاں اتنی بارش ہوتی تھی کہ لوگوں کے لیے اپنی آنکھیں تک کھلی رکھنا مشکل ہو جاتا تھا،‘‘ گوڈواڈی گاؤں میں ۷۵ سالہ گنگوبائی گولیگ، اپنے گھر کے پاس نیم کے ایک درخت کے سایہ میں بیٹھی ہمیں بتاتی ہیں۔ تقریباً ۳۲۰۰ کی آبادی والا ان کا گاؤں، گوڈواڈی، سانگولے تعلقہ کی کھرات بستی سے تقریباً پانچ کلومیٹر دور ہے۔ ’’یہاں آتے وقت آپ نے راستے میں ببول کے درختوں کو دیکھا؟ اُس پوری زمین پر شاندار قسم کی مٹکی [موٹھ کی دال] پیدا ہوتی تھی۔ مُروم [بیسالٹی چٹان] بارش کے پانی کو بچائے رکھتے تھے اور پانی کی لہریں ہمارے کھیتوں سے نکلتی تھیں۔ ایک ایکڑ میں باجرے کی صرف پانچ قطاروں سے ۴-۵ بوری اناج [۲-۳ کوئنٹل] مل جایا کرتے تھے۔ مٹی اتنی اچھی تھی۔‘‘

اور ہوسابائی الدر، جو ۸۰ کی دہائی میں ہیں، گوڈواڈی سے کچھ ہی دوری پر واقع الدر بستی میں، اپنے خاندان کے کھیت پر موجود دو کنوؤں کو یاد کرتی ہیں۔ ’’بارش کے موسم میں دونوں کنویں [تقریباً ۶۰ سال قبل] پانی سے لبالب بھرے ہوتے تھے۔ ہر ایک میں دو موٹے [بیلوں کے ذریعے کھینچی جانے والی پانی کی چرخی کا ایک نظام] ہوتے تھے اور چاروں ایک ساتھ چلا کرتے تھے۔ دن ہو یا رات، میرے سسر پانی نکالتے اور ضرورت مندوں کو دیا کرتے تھے۔ اب تو کوئی گھڑا بھرنے کے لیے بھی نہیں کہہ سکتا ہے۔ سب کچھ الٹا ہو چکا ہے۔‘‘

PHOTO • Sanket Jain

مشترکہ کھرات خاندان کے ساتھ، گیانو (سب سے دائیں جانب) اور پھُلابائی (دروازہ کے بائیں جانب): وہ اُن دنوں کو یاد کرتے ہیں جب مچھلیاں ان کے کھیتوں میں تیرتی تھیں

مہاراشٹر کے سولاپور ضلع کا سانگولے تعلقہ ایسی کہانیوں سے بھرا ہوا ہے، حالانکہ یہ ماندیش میں واقع ہے، جو کہ ایک ’رین شیڈو‘ علاقہ ہے (جہاں کوہستانی سلسلوں سے بارش والی ہوائیں چلتی ہیں)۔ اس علاقے میں سولاپور ضلع کے سانگولے (جسے عام طور پر سانگولا بھی کہا جاتا ہے) اور مالشیرس تعلقہ؛ سانگلی ضلع کے جت، آٹپاڈی اور کوٹھے مہانکال تعلقہ؛ اور ستارا ضلع کے مان اور کھٹاو تعلقہ شامل ہیں۔

اچھی بارش اور خشکی کا چکر یہاں طویل عرصے سے چلا آ رہا ہے، اور لوگوں کے ذہن میں پانی کی بہتات کی یادیں اسی طرح بسی ہوئی ہیں جیسے کہ پانی کی کمی کی یادیں۔ لیکن اب اِن گاؤوں سے اس قسم کی بہت سی خبریں آ رہی ہیں کہ کیسے ’’سب کچھ اُلٹا ہو چکا ہے،‘‘ کیسے بہتات اب پرانے زمانے کی بات ہو چکی ہے، کیسے پرانا چکر والا پیٹرن ٹوٹ چکا ہے۔ یہی نہیں، گوڈواڈی کی نیورِتّی شینڈگے کہتی ہیں، ’’بارش نے اب ہمارے خوابوں میں بھی آنا بند کر دیا ہے۔‘‘

’’یہ زمین، جہاں اس وقت مویشی کیمپ لگایا گیا ہے، کسی زمانے میں اپنے باجرا کے لیے مشہور ہوا کرتی تھی۔ ماضی میں، میں نے بھی اس پر کھیتی کی ہے...‘‘ گوڈواڈی کے ایک مویشی کیمپ میں، مئی کی ایک تپتی دوپہر کو اپنے لیے پان بناتے ہوئے، ۸۳ سالہ وِٹھوبا سوما گولیگ کہتے ہیں، جنہیں پیار سے لوگ تاتیا کہتے ہیں۔ ’’اب سب کچھ بدل گیا ہے،‘‘ وہ فکرمندی سے کہتے ہیں۔ ’’بارش ہمارے گاؤں سے روٹھ گئی ہے۔‘‘

تاتیا ، جو دلت ہولار برادری سے ہیں، نے اپنی ساری زندگی گوڈواڈی میں گزاری ہے، جیسا کہ ان سے پہلے ان کے خاندان کی ۵-۶ نسلوں نے۔ یہ ایک مشکل زندگی رہی ہے۔ وہ اور ان کی بیوی، گنگوبائی ۶۰ سال پہلے گنّے کاٹنے کے لیے سانگلی اور کولہاپور آ گئے تھے، جہاں انھوں نے لوگوں کے کھیتوں پر مزدوری کی اور اپنے گاؤں کے ارد گرد ریاست کے ذریعے چلائی جا رہی سائٹوں پر کام کیا۔ ’’ہم نے اپنی چار ایکڑ زمین صرف ۱۰-۱۲ سال پہلے خریدی تھی۔ تب، ہمیں بہت زیادہ محنت کرنی پڑتی تھی،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

PHOTO • Sanket Jain

مئی میں گوڈواڈی گاؤں کے پاس ایک مویشی کیمپ میں، وٹھوبا گولیگ یا ’تاتیا‘ کہتے ہیں، ’بارش ہمارے گاؤں سے روٹھ گئی ہے‘

حالانکہ، تاتیا اب ماندیش میں لگاتار خشک سالی سے فکرمند ہیں۔ ۱۹۷۲ سے، خشک سالی کے بعد اچھی بارش کا قدرتی چکر کبھی معمول پر نہیں آیا، وہ کہتے ہیں۔ ’’یہ ہر سال کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے۔ ہمیں نہ تو [بھرپور] ولیو [مانسون سے پہلے] کی بارش ملتی ہے اور نہ ہی واپس لوٹتے مانسون کی۔ اور گرمی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ حالانکہ پچھلے سال [۲۰۱۸ میں] ہمیں کم از کم ولیو کی اچھی بارش ضرور ملی تھی، لیکن اس سال... ابھی تک سوکھا پڑا ہے۔ زمین آخر ٹھنڈی کیسے ہوگی؟‘‘

گوڈواڈی کے کئی دیگر بزرگ ۱۹۷۲ کے قحط کو اپنے گاؤں میں بارش اور خشکی کے دائرہ کے ایک اہم موڑ کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ اُس سال، سولاپور ضلع میں صرف ۳۲۱ ملی میٹر بارش ہوئی تھی (ہندوستانی محکمہ موسمیات کے اعداد و شمار کا استعمال کرتے ہوئے انڈیا واٹر پورٹل دکھاتا ہے) – جو ۱۹۰۱ کے بعد سب سے کم تھی۔

گنگوبائی کے لیے، ۱۹۷۲ کے قحط کی یادیں کڑی محنت – ان کی عام محنت سے بھی مشکل – اور بھوک کی یاد دلاتی ہیں۔ ’’ہم نے [قحط کے دوران مزدوری کے لیے] سڑکوں کی تعمیر کی، کنویں کھودے، پتھر توڑے۔ جسم میں طاقت تھی اور پیٹ میں بھوک۔ میں نے ۱۲ آنہ [۷۵ پیسے] میں ۱۰۰ کوئنٹل گیہوں پیسنے کا کام کیا ہے۔ اُس [سال] کے بعد حالات بہت زیادہ خراب ہو گئے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔

PHOTO • Sanket Jain
PHOTO • Medha Kale

۲۰۱۸ میں، سانگولے میں ۲۰ سال میں سب سے کم بارش ہوئی اور تعلقہ کے گاؤوں میں زیر زمین پانی کی سطح ایک میٹر سے بھی زیادہ نیچے چلی گئی

’’قحط اتنا زبردست تھا کہ میں اپنے ۱۲ مویشیوں کے ساتھ ۱۰ دنوں تک پیدل چلتا رہا اور تنہا کولہاپور پہنچا،‘‘ مویشی کیمپ میں چائے کی دکان پر بیٹھے ۸۵ سالہ دادا گڈدے کہتے ہیں۔ ’’میرج روڈ پر نیم کے سبھی درخت جھڑ چکے تھے۔ ان کی سبھی پتیاں اور تنے مویشیوں اور بھیڑوں نے کھا لیے تھے۔ وہ میری زندگی کے سب سے برے دن تھے۔ اس کے بعد کچھ بھی پٹری پر نہیں لوٹا۔‘‘

لمبے وقت تک خشکی کی وجہ سے، ۲۰۰۵ میں یہاں کے لوگوں نے الگ ماندیش ضلع کا مطالبہ کرنا بھی شروع کر دیا تھا، جس میں تین ضلعے – سولاپور، سانگلی اور ستارا – سے کاٹ کر نکالے گئے سبھی قحط سالی سے متاثر بلاک شامل ہوں۔ (لیکن یہ مہم آخرکار تب ختم ہو گئی جب اس کے کچھ لیڈر یہاں کی آبپاشی اسکیموں جیسے ایشوز پر توجہ دینے لگے)۔

حالانکہ یہ ۱۹۷۲ کا قحط ہے، جسے گوڈواڈی کے کئی لوگ سنگ میل کے طور پر یاد کرتے ہیں، سولاپور کی سرکاری ویب سائٹ کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ضلع میں ۲۰۰۳ میں اس سے بھی کم (۲۷۸ء۷ ملی میٹر) اور ۲۰۱۵ میں (۲۵۱ء۱۸ ملی میٹر) بارش ہوئی تھی۔

اور ۲۰۱۸ میں، سانگولے میں صرف ۲۴۱ء۶ ملی میٹر بارش ہوئی، جو کہ ۲۰ برسوں میں سب سے کم ہے جب صرف ۲۴ دنوں تک بارش ہوئی، یہ کہنا ہے کہ مہاراشٹر کے محکمہ زراعت کے Rainfall Recording and Analysis پورٹل کا۔ محکمہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس بلاک میں ’عام‘ بارش تقریباً ۵۳۷ ملی میٹر ہوگی۔

اس لیے پانی کی کثرت کی مدت کم یا ختم ہوتی نظر آ رہی ہے، جب کہ خشکی کے دن، گرمی اور پانی کی کمی کے مہینوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔

PHOTO • Medha Kale

فصل کا نقصان اور بڑھتی گرمی کے سبب مٹی تیزی سے خشک ہو رہی ہے

اس سال مئی میں، گوڈواڈی کے مویشی کیمپ میں درجہ حرارت ۴۶ ڈگری تک پہنچ گیا تھا۔ حد سے زیادہ گرمی کی وجہ سے ہوا اور مٹی خشک ہونے لگی ہے۔ نیویارک ٹائمز کے آب و ہوا اور گلوبل وارمنگ پر ایک انٹریکٹو پورٹل کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ۱۹۶۰ میں، جب تاتیا ۲۴ سال کے تھے، تو سانگولے میں ۱۴۴ دن ایسے ہوئے، جب درجہ حرارت ۳۲ ڈگری سیلسیس تک پہنچ جایا کرتا تھا۔ آج یہ تعداد بڑھ کر ۱۷۷ ہو گئی ہے، اور اگر وہ ۱۰۰ برسوں تک زندہ رہے، تو سال ۲۰۳۶ تک یہ ۱۹۳ دنوں تک پہنچ جائے گی۔

مویشی کیمپ میں بیٹھ کر تاتیا یاد کرتے ہیں، ’’پہلے، سب کچھ وقت پر ہوتا تھا۔‘‘ مرِگ کی بارش [ مرِگ نکشتر کی آمد کے ساتھ] ہمیشہ ۷ جون کو آتی تھی اور اتنی اچھی بارش ہوتی تھی کہ بھیوگھاٹ [چشمہ] کا پانی پوش [جنوری] تک رہتا تھا۔ ’’آپ جب روہنی [نکشتر، مئی کے آخر میں] اور مرگ کی بارش میں روپائی کرتے ہیں، تو آسمان سے فصل کی حفاظت ہوتی رہتی ہے۔ اناج غذائی عناصر سے بھرپور ہوتا ہے اور جو اس قسم کے اناج کو کھاتا ہے، وہ صحت مند رہتا ہے۔ لیکن اب، موسم پہلے جیسے نہیں رہے۔‘‘

مویشی کیمپ میں ان کے ساتھ بیٹھے دیگر کسان اس سے متفق ہیں۔ بارش کی بڑھتی غیر یقینی صورتحال سے سبھی فکرمند ہیں۔ ’’پچھلے سال، پنچانگ [چاند کے کیلنڈر پر مبنی ہندو پنچانگ] نے کہا ’گھاویل تو پاویل‘ – ’جو وقت پر بوئے گا، وہی اچھی فصل کاٹے گا‘۔ لیکن بارش اب کبھی کبھار ہوتی ہے، اس لیے یہ سبھی کھیتوں کا احاطہ نہیں کرے گی،‘‘ تاتیا بتاتے ہیں۔

سڑک کے اُس پار، کیمپ میں اپنے ٹینٹ میں بیٹھی کھرات بستی کی ۵۰ سالہ پھُلا بائی کھرات بھی – وہ دھنگر برادری (خانہ بدوش ذات کے طور پر فہرست بند) سے تعلق رکھتی ہیں، اور تین بھینسیں اپنے ساتھ لائی ہیں – ’’سبھی نکشتروں میں وقت پر بارش‘‘ کی یاد دلاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’صرف دھونڈیاچا مہینہ [ہندو کیلنڈر میں ہر تین سال پر ایک اضافی مہینہ] آنے پر ہی بارش خاموشی سے چلی جاتی تھی۔ اگلے دو سال ہمیں اچھی بارش ملتی تھی۔ لیکن گزشتہ کئی برسوں سے، ایسا نہیں ہو رہا ہے۔‘‘

ان تبدیلیوں کے موافق ہونے کے لیے، کئی کسانوں نے اپنی کھیتی کی مدت میں تبدیلی کی ہے۔ سانگولے کے کسان کہتے ہیں کہ یہاں پر خریف کے موسم میں عام طور پر مٹکی (موٹھ کی دال)، ہولگے (کالا چنا)، باجرا اور ارہر کی کھیتی ہوتی تھی؛ اور ربیع کے موسم میں گیہوں، مٹر اور جوار۔ مکئی اور جوار کی گرمی کی قسموں کی کھیتی خاص طور سے چارے کی فصل کے طور پر کی جاتی ہے۔

PHOTO • Sanket Jain
PHOTO • Sanket Jain

بائیں: پھُلابائی کھرات کہتی ہیں، ’’لیکن گزشتہ کئی برسوں سے بارش خاموش ہے...‘۔ دائیں: گنگوبائی گولیگ کہتی ہیں، ’۱۹۷۲ کے بعد حالات بدتر ہوتے چلے گئے‘

’’گزشتہ ۲۰ برسوں میں، مجھے اس گاؤں میں ایسا ایک بھی شخص نہیں ملا، جو [دیسی] مٹکی کی بوائی کر رہا ہو۔ باجرا اور ارہر کی دیسی قسموں کا بھی یہی حال ہے۔ گیہوں کی کھپلی قسم اب نہیں بوئی جاتی ہے، اور نہ ہی ہُلگے یا تِل،‘‘ الدر بستی کی ہوسابائی کہتی ہیں۔

مانسون دیر سے آتا ہے – جون کے آخر میں یا جولائی کے آغاز میں، اور جلدی چلا جاتا ہے۔ ستمبر میں اب مشکل سے بارش ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے یہاں کے کسان فصلوں کی قلیل مدتی ہائبرڈ قسموں کی طرف رخ کر رہے ہیں۔ ان کی بوائی سے لے کر کٹائی تک میں تقریباً ڈھائی مہینے کا وقت لگتا ہے۔ ’’پانچ مہینے کی طویل مدت میں تیار ہونے والی باجرا، مٹکی ، جوار اور ارہر کی قسمیں غائب ہونے کے قریب ہیں، کیوں کہ مٹی میں وافر نمی نہیں ہے،‘‘ نوناتھ مالی کہتے ہیں۔ وہ، گوڈواڈی کے ۲۰ دیگر کسانوں کے ساتھ، کولہاپور کے ایمیکس ایگرو گروپ کے رکن ہیں، جو ایس ایم ایس کے ذریعے فیس لے کر موسم کی پیشن گوئی فراہم کرتا ہے۔

دیگر فصلوں میں اپنی قسمت آزمانے کے لیے، کچھ کسان یہاں تقریباً ۲۰ سال پہلے انار کی کھیتی کرنے آئے تھے۔ ریاست کے ذریعے دی گئی سبسڈی نے ان کی مدد کی۔ وقت گزرنے کے ساتھ، وہ دیسی قسموں کو چھوڑ ہائبرڈ، غیر دیسی قسمیں اُگانے لگے۔ ’’ہم نے شروعات میں [۱۲ سال پہلے] فی ایکڑ تقریباً ۲-۳ لاکھ روپے کمائے۔ لیکن گزشتہ ۸-۱۰ برسوں سے، باغوں پر تیلیا [بیکٹیریا سے مُرجھانا] لگنے لگا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ بدلتے موسم کی وجہ سے ہے۔ پچھلے سال، ہمیں اپنا پھل ۲۵-۳۰ روپے فی کلو بیچنا پڑا تھا۔ ہم قدرت کی مرضی کا کیا کر سکتے ہیں؟‘‘ مالی پوچھتے ہیں۔

مانسون سے پہلے اور مانسون کے بعد ہونے والی بارش نے بھی فصلوں کے پیٹرن کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔ سانگلوے میں مانسون کے بعد کی بارش – اکتوبر سے دسمبر تک – میں واضح طور پر کمی آئی ہے۔ محکمہ زراعت کے اعداد و شمار کے مطابق، ۲۰۱۸ میں اس بلاک میں مانسون کے بعد صرف ۳۷ء۵ ملی میٹر بارش ہوئی، جب کہ گزشتہ دو دہائی میں – ۱۹۹۸ سے ۲۰۱۸ کے درمیان – یہاں اوسطاً ۹۳ء۱۱ ملی میٹر بارش ہوئی تھی۔

’’پورے ماندیش علاقہ کے لیے سب سے تشویش ناک صورتحال مانسون سے پہلے اور بعد کی بارش کا غائب ہونا ہے،‘‘ ماندیشی فاؤنڈیشن کی بانی، چیتنا سنہا کا کہنا ہے۔ یہ فاؤنڈیشن دیہی خواتین کے ساتھ کھیتی، قرض اور صنعت جیسے امور پر کام کرتا ہے۔ (فاؤنڈیشن نے اس سال ۱ جنوری کو ریاست میں پہلا مویشی کیمپ، ستارا ضلع کے مان بلاک کے مہسوڈ میں شروع کیا، جس میں ۸۰۰۰ سے زیادہ مویشی رکھے گئے تھے)۔ ’’لوٹتا ہوا مانسون ہماری لائف لائن رہا ہے، کیوں کہ ہم غذائی اجناس اور مویشیوں کے چارے کے لیے ربیع کی فصلوں پر منحصر رہتے ہیں۔ لوٹتے مانسون کی ۱۰ یا اس سے زیادہ برسوں سے عدم موجودگی کا ماندیش کی دیہی اور دیگر برادریوں پر دور رس اثر پڑا ہے۔‘‘

PHOTO • Sanket Jain
PHOTO • Sanket Jain

چارے کی کمی کے سبب سانگولے میں، خشکی کے مہینوں میں مویشی کیمپوں کی تعداد بڑھی ہے

لیکن یہاں کھیتی کے طور طریقوں میں شاید سب سے بڑی تبدیلی گنّے کا پھیلاؤ ہے۔ مہاراشٹر سرکار کے مالیاتی اور شماریاتی ڈائریکٹوریٹ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ۲۰۱۶-۱۷ میں، سولاپور ضلع میں ۱۰۰۵۰۵ ہیکٹیئر زمین پر ۶۳۳۰۰۰ ٹن گنّے کی کھیتی ہوئی۔ کچھ اخباری رپورٹوں کے مطابق، اس سال جنوری تک، سولاپور اکتوبر میں شروع ہوئی گنّا پیرائی کی مدت کے دوران سرفہرست تھا، جب ضلع کی ۳۳ رجسٹرڈ چینی ملوں (چینی کمشنری کے اعداد و شمار) کے ذریعے ۱۰ ملین ٹن سے زیادہ گنّے کی پیرائی ہوئی۔

سولاپور کے ایک صحافی اور آبی تحفظ کے کارکن، رجنیش جوشی کہتے ہیں کہ صرف ایک ٹن گنّے کو پیرنے کے لیے تقریباً ۱۵۰۰ لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ گنّا پیرائی کی پچھلی مدت میں – اکتوبر ۲۰۱۸ سے جنوری ۲۰۱۹ تک – اکیلے سولاپور ضلع میں گنّے کے لیے ۱۵ ملین کیوبک میٹر سے زیادہ پانی کا استعمال کیا گیا تھا۔

صرف ایک نقدی فصل پر پانی کے اتنے زیادہ استعمال سے، دیگر فصلوں کے لیے دستیاب پانی کی سطح پہلے سے ہی کم بارش اور سینچائی کی کمی کا سامنا کر رہے اس علاقہ میں اور بھی نیچے چلا جاتا ہے۔ نوناتھ مالی کا اندازہ ہے کہ ۱۳۶۱ ہیکٹیئر میں واقع گاؤں، گوڈواڈی (مردم شماری ۲۰۱۱)، جس کی زیادہ تر زمین پر کھیتی ہو رہی ہے، صرف ۳۰۰ ہیکٹیئر میں ہی سینچائی کا انتظام ہے – باقی زمین پانی کے لیے بارش پر منحصر ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، سولاپور ضلع میں، ۷۷۴۳۱۵ ہیکٹیئر کی کل سینچائی استعداد میں سے ۲۰۱۵ میں صرف ۳۹ء۴۶ فیصد پر ہی سینچائی ہوئی تھی۔

کسانوں کا کہنا ہے کہ فصل کے نقصان (کم بارش سے نمٹنے کے لیے قلیل مدتی فصلوں کی طرف رخ کرنا) کے ساتھ ساتھ بڑھتی گرمی نے مٹی کو مزید خشک کر دیا ہے۔ اب مٹی میں نمی ’’چھ انچ گہری بھی نہیں ہے،‘‘ ہوسابائی کہتی ہیں۔

PHOTO • Medha Kale

نوناتھ مالی کا اندازہ ہے کہ صرف گوڈواڈی میں، ۱۵۰ نجی بورویل ہیں، جن میں سے کم از کم ۱۳۰ خشک ہو چکے ہیں

زیر زمین پانی کی سطح بھی گھٹ رہی ہے۔ زیر زمین پانی کا سروے اور ترقیاتی ایجنسی کی ممکنہ پانی کی کمی والی رپورٹ بتاتی ہے کہ ۲۰۱۸ میں، سانگولے کے تمام ۱۰۲ گاؤوں میں زیر زمین پانی ایک میٹر سے بھی زیادہ نیچے چلا گیا۔ ’’میں نے بورویل کھودنے کی کوشش کی، لیکن ۷۵۰ فٹ کی گہرائی میں بھی پانی نہیں ہے۔ زمین پوری طرح سے خشک ہو چکی ہے،’’ جوتی رام کھنڈاگلے کہتے ہیں، جن کے پاس تقریباً چار ایکڑ زمین ہے اور وہ گوڈواڈی میں بال کاٹنے کی ایک دکان بھی چلاتے ہیں۔ ’’گزشتہ چند برسوں سے خریف اور ربیع، دونوں ہی سیزن میں اچھی پیداوار کی کوئی گارنٹی نہیں ہے،‘‘ وہ آگے کہتے ہیں۔ مالی کا اندازہ ہے کہ صرف گوڈواڈی میں، ۱۵۰ نجی بورویل ہیں، جن میں سے کم از کم ۱۳۰ خشک ہو چکے ہیں – اور لوگ پانی تک پہنچنے کے لیے ۱۰۰۰ فٹ تک کھدائی کر رہے ہیں۔

بڑے پیمانے پر گنّے کی طرف جھکاؤ نے بھی کسانوں کو غذائی فصلوں سے دور کر دیا ہے۔ محکمہ زراعت کے مطابق، ۲۰۱۸-۱۹ کے ربیع سیزن میں، سولاپور ضلع میں صرف ۴۱ فیصد جوار اور ۴۶ فیصد مکئی کی کھیتی ہوئی۔ ریاست کے ۲۰۱۸-۱۹ کے اقتصادی سروے میں کہا گیا ہے کہ پورے مہاراشٹر میں، جتنے رقبے میں جوار کی کھیتی کی جاتی تھی، اس میں اب ۵۷ فیصد کی کمی آئی ہے اور مکئی میں ۶۵ فیصد کی کمی درج کی گئی ہے۔ اور دونوں فصلوں کی پیداوار میں تقریباً ۷۰ فیصد کی کمی آئی ہے۔

دونوں فصلیں انسانوں کے ساتھ ساتھ مویشیوں کے لیے بھی چارے کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ چارے کی کمی نے سرکار (اور دیگر) کو سانگولے میں خشک مہینوں میں مویشی کیمپ لگانے پر مجبور کیا ہے – ۲۰۱۹ میں اب تک ۵۰ ہزار مویشیوں کے ساتھ ۱۰۵ کیمپوں کی شکل میں، پوپٹ گڈدے کا اندازہ ہے۔ وہ ایک دودھ کوآپریٹو کے ڈائرکٹر اور گوڈواڈی میں مویشی کیمپ شروع کرنے والے شخص ہیں۔ اور ان کیمپوں میں مویشی کھاتے کیا ہیں؟ وہی گنّا، جو (ایک اندازہ کے مطابق) فی ہیکیٹر ۲۹ء۷ ملین لیٹر پانی جذب کر لیتا ہے۔

اس طرح سے، سانگولے میں باہم مربوط کئی تبدیلیاں چل رہی ہیں، جو ’قدرت‘ کا حصہ ہیں، لیکن اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ یہ انسانوں کے ذریعے پیدا کی گئی ہیں۔ ان میں شامل ہیں کم ہوتی جا رہی بارش، بارش کے کم ہوتے دن، بڑھتا درجہ حرارت، شدید گرمی کے زیادہ دن، مانسون سے پہلے اور بعد میں بارش کا ایک طرح سے غائب ہوتے جانا، اور مٹی میں نمی کی کمی۔ ساتھ ہی ساتھ فصل کے پیٹرن میں تبدیلی – قلیل مدتی زیادہ قسمیں اور اس کے نتیجہ میں فصل کے رقبے میں کمی، کم دیسی قسمیں، جوار جیسی کم غذائی فصلوں اور گنّے جیسی زیادہ نقدی فصلوں کی کھیتی – ساتھ میں خراب سینچائی، زیر زمین پانی کی کم ہوتی سطح – اور بھی بہت کچھ۔

گوڈواڈی کے مویشی کیمپ میں بیٹھے تاتیا سے جب یہ پوچھا گیا کہ ان سبھی تبدیلیوں کے پیچھے اسباب کیا ہیں، تو وہ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں، ’’کاش ہم بارش کے دیوتا کا دماغ پڑھ سکتے! آدمی جب لالچی ہو گیا ہے، تو بارش کیسے ہوگی؟ انسانوں نے جب اپنے طور طریقے بدل لیے ہیں، تو قدرت اپنے طور طریقوں پر کیسے قائم رہ پائے گی؟‘‘

PHOTO • Sanket Jain

سانگولے شہر کے ٹھیک باہر خشک ہو چکی مان ندی پر بنا پرانا بیراج

اپنا وقت اور قیمتی معلومات فراہم کرنے کے لیے مضمون نگار شہاجی گڈہِرے اور دتہ گولیگ کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہیں

کور فوٹو: سنکیت جین

موسمیاتی تبدیلی پر پاری کی ملک گیر رپورٹنگ، عام لوگوں کی آوازوں اور زندگی کے تجربہ کے توسط سے اس واقعہ کو ریکارڈ کرنے کے لیے یو این ڈی پی سے امداد شدہ پہل کا ایک حصہ ہے۔

اس مضمون کو شائع کرنا چاہتے ہیں؟ براہِ کرم [email protected] کو لکھیں اور اس کی ایک کاپی [email protected] کو بھیج دیں۔

(مترجم: ڈاکٹر محمر قمر تبریز)

Reporter : Medha Kale

Medha Kale is based in Pune and has worked in the field of women and health. She is the Translations Editor, Marathi, at the People’s Archive of Rural India.

Other stories by Medha Kale
Editor : Sharmila Joshi

Sharmila Joshi is former Executive Editor, People's Archive of Rural India, and a writer and occasional teacher.

Other stories by Sharmila Joshi

P. Sainath is Founder Editor, People's Archive of Rural India. He has been a rural reporter for decades and is the author of 'Everybody Loves a Good Drought' and 'The Last Heroes: Foot Soldiers of Indian Freedom'.

Other stories by P. Sainath
Series Editors : Sharmila Joshi

Sharmila Joshi is former Executive Editor, People's Archive of Rural India, and a writer and occasional teacher.

Other stories by Sharmila Joshi
Translator : Mohd. Qamar Tabrez

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez