گووِندمّا: جنہوں نے پوری زندگی پانی میں گزار دی
گووندمّا جب چھوٹی تھیں، تبھی سے چنئی کے قریب واقع کوسس تلیار ندی سے جھینگا مچھلی پکڑنے کا کام کر رہی ہیں۔ اب وہ ۷۰ سال سے زیادہ کی ہو چکی ہیں، اور زخمی اور آنکھوں کی روشنی کمزور ہو جانے کے باوجود وہ اپنی فیملی کی کفالت کرنے کے لیے آج بھی یہ کام کر رہی ہیں
۱۴ جولائی، ۲۰۲۲ | ایم پلانی کمار
مچھلیوں کے کاروبار میں تاریخ رقم کرنے والی، وینی کی کہانی
تمل ناڈو کے کڈلور بندرگاہ پر مچھلیوں کی فروخت سے لے کر نیلامی کا کام کرنے والی خواتین کی یومیہ جدوجہد کے درمیان، ماہی گیر وینی، کامیابی کی داستان رقم کرتے ہوئے اپنا ایک الگ مقام بناتی ہیں۔ یہ فلمیں ان ماہی گیر خواتین کی کہانیوں پر مبنی ہیں
۸ مارچ، ۲۰۲۲ | نتیا راؤ اور الیسینڈرا سلور
لاک ڈاؤن کا بوجھ اٹھاتیں ماہی گیر خواتین
تمل ناڈو کے ایک ساحلی گاؤں وناگیری میں رہنے والی، خاتون مچھلی فروش اس فلم میں بتاتی ہیں کہ کووڈ۔۱۹ کے سبب ان کی آمدنی کم ہو گئی اور ان پر قرض کا بوجھ بڑھتا چلا گیا
۷ مارچ، ۲۰۲۲ | نتیا راؤ اور الیسینڈرا سلور
مچھلیوں کی باقیات پر گزارہ کرنے والی ’پُلی‘
تمل ناڈو کی کڈلور بندرگاہ پر ۷۵ سالہ کے بانو متی عرف ’پُلی‘ مچھلی کے بچے ہوئے حصوں کو فروخت کرکے اپنا گزارہ کرتی ہیں۔ وہ، اور کئی دوسری عورتیں یہاں برسوں سے مزدوری کر رہی ہیں، لیکن انہیں آج بھی محنت کشوں کا درجہ حاصل نہیں ہو پایا ہے
۴ مارچ، ۲۰۲۲ | متن: نتیا راؤ | تصویریں: الیسینڈرا سلور
گہرا سمندر، جان کا خطرہ، فائدہ کچھ نہیں
تمل ناڈو کے رام ناد ضلع میں ماہی گیروں کے ساتھ سمندر میں دو رات گزارنے کے بعد، انہی کی زبانی پتہ چلا کہ وہ ’کسی اور کو کروڑ پتی بنانے کے لیے‘ اپنی جان کو خطرے میں ڈالتے ہیں
۲۶ اکتوبر، ۲۰۲۱ | پی سائی ناتھ
ستپتی: ’جب مچھلیاں ہی نہیں ہیں، تو بیچوں کیا؟‘
دیہی خواتین کے عالمی دن کے موقع پر، مہاراشٹر کے ستپتی گاؤں سے آئی یہ اسٹوری ہمیں بتاتی ہے کہ مچھلیاں پکڑنے کے کاروبار میں آئی کمی اور کشتیوں کی عدم دستیابی کے سبب کس طرح وہاں کی ماہی گیر عورتیں مشکلوں کا سامنا کر رہی ہیں اور دوسرے شعبوں میں کام کی تلاش میں ہیں
۱۵ اکتوبر، ۲۰۲۱ | اشیتاپاٹل اور نتیا راؤ
کتنے طوفانوں کا سامنا کریں ممبئی کے ماہی گیر
حالیہ برسوں میں جنوبی ممبئی کی سسون بندرگاہ کے ماہی گیروں نے سمندری طوفان، مچھلیوں کی تعداد میں کمی، کم ہوتی فروخت جیسے مسائل کا سامنا کیا ہے، لیکن مارچ ۲۰۲۰ میں لگائے گئے لاک ڈاؤن کا اثر ان کے لیے سب سے زیادہ مشکلیں لانے والا ثابت ہوا
۱۳ اگست، ۲۰۲۱ | شردھا اگروال
ماہی گیر کولی خواتین: بے مثال دوستی، روزمرہ کی جدوجہد
لاک ڈاؤن میں ہوئے نقصان، بڑے آپریشن، بے روزگار شوہر اور دیگر کئی قسم کی جدوجہد کا وندنا کولی اور گایتری پاٹل پر تباہ کن اثر پڑا ہے۔ وہ ممبئی کے کولابا مارکیٹ میں مچھلی فروخت کرتی ہیں۔ لیکن تمام عروج و زوال کے درمیان ان کی سالوں پرانی دوستی سے ہی انہیں سکون کے کچھ لمحے نصیب ہوتے ہیں
۱۱ اگست، ۲۰۲۱ | شردھا اگروال
ہُک، لائن اور سِنکر: مالوَن کی ماہی گیر عورتیں
مہاراشٹر کے مالوَن تعلقہ میں – پورے ہندوستان کی طرح ہی – مچھلی خریدنے، خشک کرنے، ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے اور ذخیرہ کرنے سے لیکر اسے کاٹنے اور فروخت کرنے تک، عورتیں مچھلیوں کے کاروبار میں اہم رول ادا کرتی ہیں، لیکن انہیں ماہی گیر مردوں جتنی سبسڈی نہیں ملتی ہے
۲۷ اکتوبر ۲۰۲۰ | تریشا گپتا اور ماننی بنسل
لاک ڈاؤن اور گہرے سمندر کے درمیان پھنسے آندھرا کے ماہی گیر
لاک ڈاؤن اور گہرے سمندر کے درمیان پھنسے آندھرا کے ماہی گیر
۲۶ اپریل، ۲۰۲۰ | امرتا کوسورو
’کشتیوں کو بھی اپنے ملاحوں کی یاد آ رہی ہوگی‘
کووِڈ- ۱۹ لاک ڈاؤن کے سبب مدھیہ پردیش کے چترکوٹ میں رہنے والے نشاد کشتی بانوں کا معاش بھی متاثر ہوا ہے۔ اس برادری کے بہت سے لوگوں کے پاس راشن کارڈ تک نہیں ہے۔ سشما دیوی، ایک حاملہ ماں اور بیوہ، بھی انہیں میں سے ایک ہیں
۲۰ اپریل، ۲۰۲۰ | جگیاسا مشرا
’آج ہم اُن مچھلیوں کو ڈِسکوری چینل پر تلاش کر رہے ہیں‘
تمل ناڈو کے رام ناتھ پورم ضلع کے پامبن جزیرہ پر ماہی گیروں کے ذریعے اور ماہی گیروں کے لیے چلایا جانے والا کمیونٹی ریڈیو، کڈل اوسئی، اس ہفتہ تین سال کا ہو گیا۔ اب اس کا جدید ترین نشریہ موسمیاتی تبدیلی پر مرکوز ہے
۱۲ اگست، ۲۰۱۹ | کویتا مرلی دھرن
خلیج بنگال میں ماہی گیروں کا خطرہ
ماہی گیر، جو موسمی مچھلی پکڑنے کے لیے خلیج بنگال کے غیر آباد جزیروں پر اقامت اختیار کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ مچھلی کی کمی، پانی کے ناکارہ ہونے اور بڑے ٹرالروں کے آنے کی وجہ سے انھیں یہاں سے بھاگنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے
۲۹ مئی، ۲۰۱۹ | نیہا سملئی
چِراڈپاڑہ میں خوشحالی سے بدحالی
تھانے ضلع کے چِراڈپاڑہ گاؤں کے باہر دہائیوں سے رہ رہے چار کاتکری آدیواسی کنبے جلد ہی اپنی جھونپڑیاں اور ذریعہ معاش کھو سکتے ہیں، جب ممبئی-ناگپور سمردھی شاہراہ کا ایک پُل ان کی بستی سے ہو کر گزرے گا
۲۷ مارچ، ۲۰۱۹ | جیوتی شنولی
روٹی چھیننے والا ’فوڈ پارک‘
آندھرا پردیش کے مغربی گوداوری ضلع میں لوگ، ایک بڑے ایکوا فوڈ پارک سے روزانہ گونٹیرو نالے میں ۵۰ ہزار لیٹر آلودہ پانی ڈالنے کی تجویز کے خلاف لڑائی لڑ رہے ہیں، ان کی یہ لڑائی ریاست سے بھی ہے
۱۷ جنوری، ۲۰۱۸ | ساہتھ ایم
دھنُش کوڑی کے بھلا دیے گئے لوگ
تمل ناڈو کے دھنُش کوڑی کو نصف صدی قبل ایک زبردست سمندری طوفان نے ویران کر دیا تھا، لیکن مچھلیوں کا کام کرنے والے ۴۰۰ خاندان آج بھی وہاں رہتے ہیں۔ اتنے دنوں تک کسی نے بھی ان کو نہیں پوچھا، لیکن اب انھیں سیاحت کے فروغ میں روڑہ سمجھا جا رہا ہے
۱۰ جنوری، ۲۰۱۸ | دیپتی استھانا
اوکھی میں لاپتہ ماہی گیروں کے منتظر رشتہ دار
کیرالہ میں ۳۰ نومبر کو سمندر میں آنے والے اوکھی طوفان کی وجہ سے جو ماہی گیر لاپتہ ہیں، ان کے گھر والوں کو اب بھی یہ امید ہے کہ پہلی کرسمس – اور اب نیا سال – ان کے لیے معجزہ لے کر آئے گا
یکم جنوری، ۲۰۱۸ | جیشا ایلیزابیتھ
گھر سے جال کی بُنائی
یکم جولائی، ۲۰۱۷ | سمیُکتا شاستری
فورٹ کوچی میں جال ڈالنا
کیرل کے فورٹ کوچی میں رائج سہارے سے اٹھائے جانے والے جال، یا ’مچھلی پکڑنے کا چینی جال‘، ماہی گیروں کے لیے اب مشکل سے ہی ذریعہ معاش رہ گئے ہیں
۳ مارچ، ۲۰۱۷ | وی ششی کمار
ڈونگر پاڑہ کے مہاجر ماہی گیر
شمالی مہاراشٹر کے ماڑھ میں ماہی گیروں کی بستی میں کولی خاندان، سمندر سے پکڑی گئی مچھلیوں کو لانے، ان کی چھنٹائی کرنے، انھیں سُکھانے اور جالوں کی سلائی کرنے جیسے متعدد کاموں کے لیے اترپردیش، آندھرا پردیش، مہاراشٹر اور دیگر ریاستوں کے گاؤوں سے آنے والے مزدوروں کو نوکری پر رکھتے ہیں
۲۴ فروری، ۲۰۱۷ | شریا کاتیائینی
ندی سے پلیٹ تک: سندر بن کے ٹائیگر جھینگوں کا سفر
سندر بن کے گاؤں کی عورتوں کے لیے، ٹائیگر جھینگے کے بچوں کو پکڑنا مفت کا کام ہے جس سے انھیں کوئی فائدہ نہیں ملتا، حالانکہ یہ جب دوسروں کے پلیٹوں تک سپلائی ہوتا ہے، تو اس کی اونچی قیمت ملتی ہے
۱۱ جنوری، ۲۰۱۷ | اُروَشی سرکار
شہد کی مکھیوں کا ڈنک اور چیتوں کا خوف
سُندربن کے ’مَولی‘ یا شہد جمع کرنے والے گھنے اور خطرناک جنگلوں میں بغیر کسی بچاؤ کے کام کرتے ہیں اور مگرمچھوں، چیتوں کا سامنے کرنے کے ساتھ ساتھ محکمہ جنگلات کے فرمان کو بھی جھیلتے ہیں
۲۳ ستمبر، ۲۰۱۶ | اُروَشی سرکار
مچھلی پکڑنے کا حق، جینے کی لڑائی
’’ہماری کشتیاں کیوں ضبط کی جاتی ہیں اور ہمیں پیٹ پر کیوں مارا جاتا ہے؟‘‘
۱۲ مارچ، ۲۰۱۵ | اُروَشی سرکار