پیر کی صبح ۷ بجے کے آس پاس حبس بھری گرمی میں وندنا کولی اور گایتری پاٹل مضطرب ذہن کے ساتھ ممبئی کی سسون بندرگاہ کے پاس جیٹی پر مچھلی لیکر آنے والی کشتی کا انتظار کر رہی ہیں۔

وہ اُس صبح کولابا کے کولی واڑہ علاقے میں واقع اپنے گھر سے تقریباً ۲ کلومیٹر پیدل چل کر بندرگاہ پر مچھلیاں لینے کے لیے آئی ہیں۔ ہفتہ میں ۵ دنوں کے لیے یہی ان کا معمول ہے – تازہ مچھلیاں خریدنا اور اسے پڑوس کے بازار میں بیچنا (ان کا کہنا ہے کہ منگل اور جمعرات کو زیادہ تر لوگ مچھلی نہیں کھاتے، اس لیے ان دنوں میں فروخت کم ہوتی ہے)۔

۵۳ سالہ وندنا بتاتی ہیں، ’’اتوار کے دن سودا سب سے زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے، لیکن کل اتنا منافع نہیں ہوا۔ مجھے کسی طرح اس نقصان کی تلافی کرنی ہوگی ورنہ اس ہفتہ کا راشن لے پانے میں ہمیں مشکلوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘ وہ اور ۵۱ سالہ گایتری، دونوں کا تعلق کولی برادری (مہاراشٹر میں پس ماندہ طبقہ میں درج) سے ہے اور گزشتہ ۲۸ سالوں سے دونوں قریبی دوست ہیں۔

جیٹی پر کشتیوں کے آنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور وہاں انتظار کر رہی تقریباً ۴۰-۵۰ عورتیں مچھلیوں کی بولی لگانے والوں، بچولیے جو کہ کشتی کے مالکوں یا ماہی گیروں کے لیے مچھلی بیچنے کا کام کرتے ہیں، کے پاس جمع ہونے لگی ہیں۔ وندنا کہتی ہیں، ’’ چل، آتا دے ۲۰۰ مدھے [چلو، ۲۰۰ روپے میں دے دو]۔‘‘ وہ تھوڑے سے جھینگے کے بدلے ۲۴۰ روپے دیتی ہیں۔ ۹ بجے کے آس پاس تک، زور شور سے مول تول کرنے کے بعد انہوں نے اور گایتری نے جھینگے، شرمپ اور بومبل مچھلیوں کو اکٹھا کر لیا ہے۔ خریداری کے دن کی قیمت کی بنیاد پر، وہ ۷ سے ۱۰ کلو مچھلیاں ہر بار خریدتی ہیں۔

وندنا گایتری کو اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’ گھیتلا، نگھویا (لے لیا، چلو چلتے ہیں)۔‘‘

ویڈیو دیکھیں: ’بھگوان سے فریاد کرنے کو من کرتا ہے کہ – ہمارے نصیب میں بھی ایک خوشحال دن لکھ دو‘

’یہاں کی عورتیں چیک اَپ کے لیے نہیں جاتیں، دقت ہونے پر بس درد کی دوا کھا لیتی ہیں۔ اسپتال کا بل بھرنے کے لیے ان کے پاس پیسے نہیں ہیں، اور کووڈ کی وجہ سے انہیں ڈاکٹروں کے پاس بھی جانے میں ڈر لگتا ہے...‘

مچھلیوں سے بھرا ہوا نیلے رنگ کا ٹب سیتا سیلکے کے سر پر رکھواتے ہوئے وندنا کہتی ہیں، ’’ہم نے تھوڑی اور خریداری کی ہوتی، لیکن کووڈ کی وجہ سے ہمارا کاروبار تھوڑا ٹھپ پڑ گیا ہے۔ لوگ ہم سے پہلے جتنا نہیں خریدتے۔‘‘ سسون بندرگاہ پر سیتا اور ان کے جیسے دیگر قلی کولوبا واقع مچھلی بازار تک مچھلیوں سے بھرا ٹب اور ٹوکری پہنچانے کے لیے تقریباً ۴۰-۵۰ روپے لیتے ہیں۔ اس دن گایتری نے اپنی ٹوکری بازار سے ہی گزر رہے ایک پڑوسی کی دوپہیہ گاڑی پر رکھواکر بھیجا تھا۔

وندنا کہتی ہیں، ’’پہلے کا وقت ہوتا تو میں خود اسے اپنے سر پر ڈھوکر لے جاتی، لیکن جب سے میرا دل کا آپریشن ہوا ہے، میں زیادہ وزن نہیں اٹھا سکتی۔‘‘ جب سیتا اپنے سر پر ٹب رکھ کر توازن بنا لیتی ہیں، تب تینوں عورتیں دو کلومیٹر دور واقع بازار کی جانب چل پڑتی ہیں۔ راستے میں وہ صرف ایک جگہ ایک کولڈ اسٹوریج شاپ کے سامنے رکتی ہیں، جہاں وندنا ۱۰ روپے کے دو نوٹ دیکر ایک ٹوکری برف کا چورا لیتی ہیں۔

دسمبر ۲۰۱۸ میں وندنا کی اینجیو پلاسٹی ہوئی تھی۔ ایک رات سینے میں درد کی شکایت کے بعد ان کے شوہر انہیں جنوبی ممبئی کے ناگپاڑہ علاقے میں واقع ریاست کے ایک سرکاری اسپتال، جے جے ہاسپیٹل لے گئے تھے۔ وہاں فیملی کو یہ بتایا گیا کہ وندنا کو دل کا دورہ پڑا تھا۔ وہ بتاتی ہیں، ’’آپریشن کے بعد مجھ سے پانی کا ایک لیٹر کا بوتل بھی نہیں اٹھتا۔ جھکنے یا کسی بھی طرح کی بھاگ دوڑ کرنے میں کافی مشکل ہوتی ہے۔ بھلے ہی میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے، لیکن مجھے اپنی فیملی کے لیے کام کرنا ہی ہے۔‘‘

گایتری کی جانب دیکھتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’وہ ہر روز ڈبہ [ٹفن] لیکر اسپتال آیا کرتی تھی۔ جب میں اسپتال میں داخل تھی، وہ میرے شوہر اور میرے بیٹے کے لیے بھی کھانا بھیجتی تھی۔ یہ بات مجھے راحت دینے والی تھی کہ وہ میری فیملی کا خیال رکھ لے گی، جیسا کہ جب وہ مشکل دور سے گزر رہی تھی تب میں نے کیا تھا۔ اور چونکہ ہم دونوں کی مالی حالت ٹھیک نہیں ہے، اس لیے ہم پیسے سے ایک دوسرے کی مدد نہیں کر سکتے، لیکن ہم ہمیشہ گہرے دوست رہے ہیں۔‘‘

Vandana Koli and Gayatri Patil waiting for the boats to come in at Sassoon Dock. Once they arrive, they will begin determined rounds of bargaining
PHOTO • Shraddha Agarwal
Vandana Koli and Gayatri Patil waiting for the boats to come in at Sassoon Dock. Once they arrive, they will begin determined rounds of bargaining
PHOTO • Shraddha Agarwal

وندنا کولی اور گایتری پاٹل سسون بندرگاہ پر کشتیوں کے آنے کا انتظار کر رہی ہیں۔ جیسے ہی کشتیاں بندرگاہ پر پہنچتی ہیں، ویسے ہی زور شور سے مول تول کرتے ہوئے ان کی آواز سنائی پڑنے لگتی ہے

گایتری اپنی ساڑی کا دامن نیچے کرتے ہوئے کڈنی ٹرانس پلانٹ کے دوران ہوئی سرجری کا نشان دکھاتی ہیں۔ پھر وہ بتاتی ہیں، ’’میری بیٹی کو کڈنی کی ضرورت تھی اور بھگوان کی کرپا سے میری کڈنی اس کے لیے صحیح تھی۔ لیکن اسے کافی تکلیف ہوئی۔ وہ درد کی وجہ سے رونے لگتی تھی۔‘‘

مئی ۲۰۱۵ میں، گایتری کی ۲۵ سالہ بیٹی شروتیکا کی طبیعت اکثر خراب رہنے لگی۔ ان کی فیملی انہیں تمام مقامی کلینک پر لے گئی، لیکن بخار بار بار آتا رہتا تھا۔ ان کا چہرہ سیاہ پڑ گیا تھا اور پیروں میں سوجن ہو گئی تھی۔ پھر فیملی والے انہیں جنوبی ممبئی میں واقع ایک سرکاری اسپتال لے گئے۔ لیکن وہاں بھی ٹھیک علاج نہیں ہو سکا، شروتیکا بتاتی ہیں۔ وہ آگے کہتی ہیں، ’’میں پہلے سے ہی کافی بیمار تھی اس لیے بابا نے اور جوکھم نہ لینے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد ہم بامبے ہاسپیٹل [ایک پرائیویٹ اسپتال] گئے۔‘‘ وہاں شروتیکا اور ان کے ماں باپ کو بتایا گیا کہ ان کی دونوں کڈنیاں فیل ہو گئی ہیں اور کڈنی ٹرانس پلانٹ کرنا بے حد ضروری ہو گیا ہے۔

اسپتال میں ۱۰ دنوں تک رکنے اور ۳ مہینے تک انفیکشن کے خطرے کو کم کرنے کے لیے کولی واڑہ میں کرایہ کے ایک کمرے میں آئیسولیشن میں رہنے کے بعد، فیملی کو تقریباً ۱۰ لاکھ روپے کا بل ادا کرنا تھا۔ شروتیکا بتاتی ہیں، ’’ممی اور بابا کو جان پہچان کے ہر شخص سے قرض لینا پڑا۔ میں ڈائلیسس پر تھی۔ ہمارے رشتہ داروں نے مدد کی اور بابا نے اپنے آجروں میں سے ایک سے [۳ لاکھ روپے کا] قرض لیا۔ فیملی کو ایک این جی او سے بھی تھوڑی مالی مدد ملی تھی۔ وہ آگے کہتی ہیں، ’’وہ ابھی بھی قرض کی بقایا رقم ادا کر رہے ہیں۔‘‘

سرجری کے بعد شروتیکا اور گایتری دونوں ہی کو ڈاکٹروں نے بھاری سامان نہ اٹھانے کی صلاح دی ہے۔ گایتری کہتی ہیں، ’’سامان اٹھائے بغیر کوئی کام میں کیسے کر پاؤں گی؟ مجھے ابھی بھی ہر مہینے اپنی بیٹی کی دواؤں کے لیے پیسے دینے ہیں۔‘‘ دواؤں کا خرچ ۵۰۰۰ روپے تک آتا ہے۔ ’’وہ گولی لینا بند بھی نہیں کر سکتی۔ یہ سب اس کے لیے بہت تکلیف دہ ہے۔ ایک ایک روپے جوڑ کر بچت کرنی پڑتی ہے۔ کسی کسی دن میری پیٹھ اور پیروں میں بہت درد رہتا ہے، لیکن ایسا صرف میرے ساتھ ہی نہیں ہے۔ زیادہ تر عورتیں درد کو برداشت کرتے ہوئے کام کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ وندنا کا بھی ایک آپریشن ہوا تھا۔‘‘

Left: Colaba Koliwada (left) is home to 800 families. Middle: Vandana at home in a lighter moment. Right: Gayatri gets emotional while talking about her daughter
PHOTO • Shraddha Agarwal
Left: Colaba Koliwada (left) is home to 800 families. Middle: Vandana at home in a lighter moment. Right: Gayatri gets emotional while talking about her daughter
PHOTO • Shraddha Agarwal
Left: Colaba Koliwada (left) is home to 800 families. Middle: Vandana at home in a lighter moment. Right: Gayatri gets emotional while talking about her daughter
PHOTO • Shraddha Agarwal

بائیں: کولابا کے کولی واڑہ میں تقریباً ۸۰۰ کنبے رہتے ہیں۔ درمیان میں: وندنا اپنے گھر پر خوشگوار لمحے میں۔ دائیں: گایتری اپنی بیٹی کے بارے میں بات کرتے ہوئے جذباتی ہو جاتی ہیں

گایتری آگے بتاتی ہیں، ’’یہاں [کولی واڑہ میں] عورتیں چیک اَپ کے لیے نہیں جاتیں، دقت ہونے پر صرف درد کی دوا کھا لیتی ہیں۔ اسپتال کا بل بھرنے کے لیے ان کے پاس پیسے نہیں ہیں اور کووڈ کی وجہ سے انہیں ڈاکٹروں کے پاس جانے میں ڈر لگتا ہے۔ کولی واڑہ میں صرف ایک چھوٹا سا [پرائیویٹ] کلینک ہے، جو ہمیشہ بھرا رہتا ہے۔ اور پچھلے سال لاک ڈاؤن کے دوران تو وہ بھی بند پڑا ہوا تھا۔ ہمارے لوگوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ لوگوں کو ایسا لگتا ہے کہ کولی برادری کے پاس بہت پیسہ ہے۔ لیکن ہماری برادری میں بہت سارے لوگ ایسے بھی ہیں جو کافی غریب ہیں۔ لاک ڈاؤن میں ہم بھگوان سے یہی دعا کر رہے تھے کہ کم از کم ایک دن تو ایسا ہو کہ جب ہمیں سکون ملے۔ بندرگاہ بند پڑی تھی۔ ہمارے گھروں میں آلو پیاز تک نہیں تھے – ایسی تو ہماری حالت تھی۔ ہم دال کھا کر زندگی بسر کر رہے تھے۔‘‘

بیحد تنگ گلیوں اور گلی کے دونوں طرف ایک یا دو منزلہ عمارتوں والے ان کے علاقے میں ۸۰۰ کنبے اور تقریباً ۴۱۲۲ لوگ رہتے ہیں (سمندری ماہی گیری کی مردم شماری، ۲۰۱۰ کے مطابق)۔ پچھلے سال کچھ دنوں کے لیے کولابا کے کچھ حصوں کو ’کووڈ کینٹنمنٹ ژون‘ قرار دے دیا گیا تھا۔ مارچ ۲۰۲۰ میں لاک ڈاؤن لگنے کے بعد ابتدائی کچھ مہینوں کی تکلیفوں کو یاد کرتے ہوئے وندنا بتاتی ہیں، ’’لوگوں کے کولی واڑہ آنے جانے پر پوری طرح روک لگا دی گئی تھی۔ یہاں تک کہ جو لوگ ہم تک راشن پہنچانا چاہتے تھے، انہیں بھی اندر آنے کی اجازت نہیں تھی۔ وہ کافی خراب وقت تھا۔ ہمیں اپنی غذا تک کم کرنی پڑی تھی۔‘‘

وہ آگے بتاتی ہیں کہ مارکیٹ کھلنے کے بعد بھی وہاں بہت سے کنبے سبزیاں نہیں خرید پائے، کیوں کہ ان کے پاس نہ تو کام تھا نہ ہی پیسے۔ لاک ڈاؤن سے پہلے وندنا اور گایتری کی ایک دن میں ۵۰۰ روپے کی آمدنی ہو جاتی تھی۔ تھوڑا وقت ایسا بھی رہا، جب کوئی آمدنی نہیں ہوئی کیوں کہ ہر سال ۲۱ مئی سے ۱ اگست تک قانون و ضابطہ کے مطابق مچھلی پکڑنے اور فروخت کرنے سے متعلق کاروبار پر روک لگا دی جاتی ہے۔ اس کے بعد، پچھلے سال ستمبر سے ہفتہ میں ۵ دن کے کام کے لیے روزانہ ۳۰۰ روپے کے حساب سے ان کی کمائی ہوتی آ رہی ہے۔

At Sassoon Dock, Sita Shelke (left) and other porters charge Rs. 40-50 to carry baskets to the fish market in Colaba. That day, Gayatri (right) had sent her basket on the two-wheeler of a neighbour
PHOTO • Shraddha Agarwal
At Sassoon Dock, Sita Shelke (left) and other porters charge Rs. 40-50 to carry baskets to the fish market in Colaba. That day, Gayatri (right) had sent her basket on the two-wheeler of a neighbour
PHOTO • Shraddha Agarwal

سسون بندرگاہ پر سیتا شیلکے (بائیں) اور دیگر قلی کولابا واقع مچھلی بازار تک ٹوکری پہنچانے کے بدلے ۴۰-۵۰ روپے لیتے ہیں۔ اس دن، گایتری (دائیں) نے اپنی ٹوکری ایک پڑوسی کے دوپہیہ پر رکھ کر بھیج دی تھی

ہم نے صبح ساڑھے دس بجے مارکیٹ کی طرف چلنا جاری رکھا۔ جیسے ہی ہم اس جگہ کے قریب پہنچے جہاں دونوں سہیلیاں اپنا اسٹال لگاتی ہیں، ان کی ملاقات گایتری کے پچھلے آجر سے ہو گئی۔ انہوں نے ان سے گھریلو کام کاج کی دستیابی کے بارے میں پوچھا اور پھر روزانہ کے خرچوں کے بارے میں بات کرنے لگیں۔ وندنا کہتی ہیں، ’’ہر مہینے ۶۰۰۰ روپے گھر کے کرایہ کے طور پر دینے کے علاوہ، ہمیں ہر دن کے ۲۰۰ روپے اس جگہ کے لیے بھی دینا پڑتا ہے، جہاں ہم اسٹال لگاتے ہیں اور مچھلی فروخت کرتے ہیں۔ ہمارے شوہروں اور بچوں کے پاس بھی کوئی کام نہیں ہے۔‘‘

ان کے شوہر، ۵۹ سالہ یشونت کولی اور گایتری کے شوہر، ۴۹ سالہ منوج پاٹل، دونوں سسون بندرگاہ پر مچھلی پکڑنے والے جال کی مرمت کا کام کرتے تھے اور مارچ ۲۰۲۰ میں لاک ڈاؤن لگنے سے پہلے ایک دن میں ۲۰۰-۳۰۰ روپے کما لیتے تھے۔ وندنا بتاتی ہیں کہ اب ان کے شوہر شراب پی کر پڑے رہتے ہیں اور کام پر واپس نہیں جاتے۔ پچھلے سال جنوری میں گایتری کے شوہر کا بایاں ہاتھ زخمی ہو گیا تھا اور اس کے بعد وہ وہ جال کی ٹھیک سے مرمت نہیں کر پاتے ہیں۔

وندنا اور گایتری کے بیٹے، ۳۴ سالہ کنال اور ۲۶ سالہ ہتیش ایک فوڈ ڈیلیوری کمپنی کے لیے ڈیلیوری کرنے کا کام کرتے تھے اور اس سے ایک مہینہ میں ۳-۴ ہزار روپے تک کماتے تھے۔ لیکن لاک ڈاؤن کے دوران ان کام چھن گیا اور تبھی سے وہ بے روزگار ہیں۔ اس سال جون میں شروتیکا کو کولابا میں ایک جوتے کے اسٹور میں کام ملا اور اب انہیں اس سے ہر مہینے ۵۰۰۰ روپے مل رہے ہیں۔

It’s nearly 11 a.m. by the time they start calling out to customers: 'Ghe ga tai', 'Tai, ithe ye', "Ghe re, maaushi'
PHOTO • Shraddha Agarwal

صبح ۱۱ بجے کے آس پاس وہ گاہکوں کو آواز لگانا شروع کرتی ہیں: ’گھے گا تائی‘، ’تائی، ایتھے یے‘، ’گھے رے، ماؤشی

جب ہم مارکیٹ پہنچے، تو وندنا نے سیتا کو مچھلی ڈھوکر پہنچانے کے کام کا محنتانہ دیا اور پاس سے گزر رہے ایک آدمی کی مدد سے اس کے سر سے ٹوکری کو نیچے اتروایا۔ وہ تھرماکول کا ایک پرانا اور بڑا سا باکس زمین پر رکھتی ہیں اور اسے لکڑی کی ایک تختی سے ڈھانپ دیتی ہیں، جس پر وہ مچھلی پھیلا کر رکھ دیتی ہیں۔ تقریباً ۱۱ بجے کے آس پاس وہ گاہکوں کو آواز لگانا شروع کرتی ہیں: ’’ گھے گا تائی‘‘، ’’تائی ایتھے یے‘‘، ’’گھے رے، ماؤشی۔‘‘

گایتری بھی اپنا اسٹال لگاتی ہیں اور خریداروں کی راہ دیکھنے لگتی ہیں۔ ایک بجے کے آس پاس انہیں کولابا کے ایک اپارٹمنٹ میں گھریلو کام کرنے کے لیے جانا ہے۔ مچھلی بیچنے سے کم آمدنی ہونے کی وجہ سے، ستمبر ۲۰۲۰ سے انہوں نے کچھ گھروں میں کھانا بنانے اور صاف صفائی کرنے کا کام شروع کیا ہے، جس سے ۵ گھنٹے کے کام کے بدلے انہیں ہر مہینے تقریباً ۴۰۰۰ روپے مزید مل جاتے ہیں۔ ’’لاک ڈاؤن کے دوران ایک میڈم نے مجھے ایک روپیہ بھی نہیں دیا۔ میں عارضی طور پر کام کرنے والی ہوں۔ پریشانی میں ہونے کے سبب مجھے یہ کام کرنا پڑتا ہے،‘‘ وندنا کو اپنے اسٹال پر نظر رکھنے کو کہتے ہوئے وہ بتاتی ہیں۔ ’’وہ انہیں فروخت بھی کر دے گی۔ ہم اسی طرح ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ اگر اس کے گھر میں چاول نہیں ہوگا، تو میں اسے دے دیتی ہوں اور اگر میرے یہاں دال نہیں ہے، تو وہ مجھے دال دے دیتی ہے۔‘‘

وندنا اور گایتری، دونوں تقریباً چار دہائیوں سے مچھلی فروخت کرنے کا کام کرتی آ رہی ہیں۔ گایتری سنٹرل ممبئی کے کولی واڑہ واقع مجھگاؤں میں پلی بڑھی ہیں اور ۲۸ سال پہلے اپنی شادی کے بعد کولابا چلی گئیں، جب کہ وندنا ہمیشہ سے کولابا کے کولی واڑہ میں ہی رہتی آئی ہیں۔

وندنا کہتی ہیں کہ بڑی بڑی عمارتوں کے بن جانے کے علاوہ، ان کے آس پاس کچھ زیادہ کچھ نہیں بدلا ہے۔ وہ بتاتی ہیں، ’’میں انہی تنگ گلیوں میں پلی بڑھی ہوں۔ میرے ماں باپ بھی مچھلی کا ہی کاروبار کرتے تھے۔ میں نے اپنی پوری زندگی بس جی توڑ محنت کی ہے، لیکن میں نہیں چاہتی کہ میرے بیٹے یا ہماری کولی برادری کے کسی بھی بچے کی تقدیر میں بھی یہی ہو۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Shraddha Agarwal

شردھا اگروال پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کی رپورٹر اور کانٹینٹ ایڈیٹر ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Shraddha Agarwal
Translator : Qamar Siddique

قمر صدیقی، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے ٹرانسلیشنز ایڈیٹر، اردو، ہیں۔ وہ دہلی میں مقیم ایک صحافی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Qamar Siddique