پڑھنے یا لکھنے کے نام پر وہ صرف اپنا نام لکھنا جانتی ہیں۔ جب وہ سنبھل سنبھل کر دیوناگری (ہندی) میں اپنا نام لکھتی ہیں، تو ان کے چہرے پر خوشی کے اظہار کو آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔ گو- پو- لی۔ پھر وہ بے ساختہ ہنسنے لگتی ہیں۔ خود اعتمادی سے بھری ہوئی ہنسی۔

چار بچوں کی ماں، ۳۸ سالہ گوپلی گومتی کہتی ہیں کہ عورتیں وہ سارے کام کر سکتی ہیں جنہیں کرنے کا وہ اپنے من میں ٹھان لیں۔

اُدے پور ضلع کے گوگُندا بلاک میں واقع کردا گاؤں کے مضافات میں بمشکل ۳۰ گھروں والی اس چھوٹی سی بستی میں گوپلی نے اپنے سبھی بچوں کو گھر میں ہی جنم دیا ہے۔ ان کی مدد کے لیے صرف ان کی برادری کی دوسری عورتیں موجود ہوتی تھیں۔ پہلی بار وہ اس وقت اسپتال گئیں، جب ان کی چوتھی اولاد، یعنی تیسری بیٹی کی پیدائش ہو چکی تھی۔ اسپتال میں وہ اپنا ٹیوبل لِگیشن کا آپریشن یا نس بندی کرانے کے ارادے سے گئی تھیں۔

وہ کہتی ہیں، ’’اس بات کو تسلیم کرنے کا وقت آ چکا تھا کہ ہماری فیملی پوری ہو چکی ہے۔‘‘ گوگُندا کمیونٹی ہیلتھ سنٹر (سی ایچ سی) کی ایک ہیلتھ ورکر حمل کو روکنے کے لیے انہیں اس ’آپریشن‘ کے بارے میں بتا چکی تھی۔ یہ ایک مفت حل تھا۔ انہیں سی ایچ سی تک پہنچنے کے سوا اور کچھ نہیں کرنا تھا، یہ ان کے گھر سے تقریباً ۳۰ کلومیٹر دور واقع اور حکومت کے ذریعے چلائے جا رہے ایک دیہی اسپتال کے طور پر کام کر رہا تھا اور چار پرائمری ہیلتھ سنٹر (پی ایچ سی) کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے مقصد سے بنایا گیا تھا۔

حالانکہ، اس بارے میں انہوں نے اپنے گھر میں کئی بار ذکر بھی کیا، لیکن ان کے شوہر نے اس بات پر کوئی توجہ نہیں دی۔ جب ان کا سب سے چھوٹا بچہ ان کے ہی دودھ پر منحصر تھا، تو انہوں نے اپنے اس فیصلہ کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے میں کافی وقت لگایا۔

Gameti women in Karda village, in Udaipur district’s Gogunda block. Settled on the outskirts of the village, their families belong to a single clan.
PHOTO • Kavitha Iyer
Gopli Gameti (wearing the orange head covering) decided to stop having children after her fourth child was born
PHOTO • Kavitha Iyer

بائیں: اُدے پور ضلع کے گوگندا بلاک کے کردا گاؤں کی گمیتی خواتین۔ گاؤں کے باہری علاقے میں آباد ان کی فیملی ایک ہی قبیلہ سے تعلق رکھتی ہے۔ دائیں: گوپلی گمیتی (نارنجی رنگ کے دوپٹے سے اپنا سر ڈھانپے ہوئے) نے اپنے چوتھے بچے کی پیدائش کے بعد مزید بچے پیدا نہ کرنے کا فیصلہ کیا

پرانی بات کو یاد کرتے ہوئی وہ مسکراتی ہیں، ’’اور ایک دن میں یہ کہتے ہوئے گھر سے نکل پڑی کہ میں اپنی نس بندی کرانے دواخانہ (طبی مرکز) جا رہی ہوں۔‘‘ وہ ٹوٹی پھوٹی ہندی بولتی ہیں، جس میں بھیلی بھی ملی ہوئی ہے۔ ’’میرے شوہر اور میری ساس بھی میرے پیچھے دوڑتے دوڑتے نکل پڑے۔‘‘ باہر سڑک پر ان تینوں کے بیچ معمولی سی بحث بھی ہوئی، لیکن وہ جلد ہی سمجھ گئے کہ گوپلی کو سمجھا پانا ممکن نہیں ہے۔ اس کے بعد تینوں ایک ہی بس پر سوار ہو کر گوگندا کے سی ایچ سی پہنچے، جہاں گوپلی کا آپریشن ہونا تھا۔

سی ایچ سی میں بہت سی دوسری عورتیں بھی موجود تھیں، جو وہاں نس بندی (ٹیوبل لگیشن) کرانے کے مقصد سے آئی تھیں۔ گوپلی بتاتی ہیں کہ انہیں اس کا کوئی اندازہ نہیں تھا کہ وہ ایک نس بندی کیمپ ہے، نہ ہی ان کو اس روز سی ایچ سی میں نس بندی کرانے آئیں کل عورتوں کی تعداد کا صحیح علم تھا۔ پاس پڑوس کے گاؤوں کو نس بندی کی سہولت فراہم کرنے کے ارادے سے چھوٹے شہروں اور قصبوں میں لگائے جانے والے اس قسم کے نس بندی کیمپوں کا بنیادی مقصد دیہی علاقوں کے غیر سہولتی اور وسائل سے عاری طبی مراکز سے وابستہ مشکلوں کو دور کرنا ہے۔ اکثر ان میں سے زیادہ تر طبی مراکز میں ملازمین کی تعداد بھی کافی کم ہوتی ہے۔ صاف صفائی کی بری حالت اور آپریشن کا ہدف پورا کرنے کے دباؤ کی وجہ سے بھی ان اسکیموں کو گزشتہ کئی سالوں سے سخت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

ٹیوبل لگیشن یا نس بندی کا عمل ۳۰ منٹ تک چلنے والا ایک آپریشن ہے، جس کے ذریعے کسی عورت کی فلوپیئن ٹیوبوں کو بند کرکے حاملہ بننے کے اس کے امکانات کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جاتا ہے۔ سال ۲۰۱۵ کی اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق، عورتوں کی نس بندی دنیا میں مانع حمل کا سب سے مقبول طریقہ ہے، جسے دنیا کی تقریباً ۱۰ فیصد شادی شدہ یا مردوں کی صحبت میں زندگی گزارنے والی عورتیں متبادل کے طور پر منتخب کرتی ہیں۔

ہندوستان میں نیشنل فیملی ہیلتھ سروے ۔ ۵ (۲۱-۲۰۱۹) کے مطابق، ۱۵ سے ۴۹ سال کی عمر والی ۹ء۳۷ فیصد شادی شدہ عورتیں مانع حمل کے لیے نس بندی کا ہی انتخاب کرتی ہیں۔

نارنجی رنگ کے گھونگھٹ سے آنکھوں تک اپنا چہرہ ڈھانپے گوپلی کے لیے یہ ایک باغیانہ قدم اٹھانے جیسا تھا۔ اچھی صحت ہونے کے باوجود بھی چوتھے بچے کو جنم دینے کے بعد وہ اب تھک چکی تھیں۔ نس بندی کا فیصلہ لینے کے پیچھے ایک وجہ ان کی مالی حالت بھی تھی، جو کہ بہت اچھی نہیں تھی۔

ان کے شوہر سوہن رام، سورت میں ایک مہاجر مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں اور سال کے زیادہ تر وقت گھر سے باہر ہی رہتے ہیں۔ صرف ہولی اور دیوالی جیسے تہواروں کے موقع پر وہ ایک ایک مہینے کے لیے اپنے گھر لوٹتے ہیں۔ اپنے چوتھے بچے کی پیدائش کے کچھ مہینے بعد جب وہ گھر لوٹے تھے، تب گوپلی اس بارے میں ایک ٹھوس نتیجہ پر پہنچ چکی تھیں۔ انہوں نے طے کر لیا تھا کہ اب وہ مستقبل میں حاملہ نہیں ہوں گی۔

Seated on the cool floor of her brick home, Gopli is checking the corn (maize) kernels spread out to dry.
PHOTO • Kavitha Iyer
Gopli with Pushpa Gameti. Like most of the men of their village, Gopli's husband, Sohanram, is a migrant worker. Pushpa's husband, Naturam, is the only male of working age in Karda currently
PHOTO • Kavitha Iyer

بائیں: اینٹ سے بنے اپنے گھر کے ٹھنڈے فرش پر بیٹھیں گوپلی، سوکھنے کے لیے پھیلائے گئے مکئی کے دانوں کو چیک کر رہی ہیں۔ دائیں: پشپا گمیتی کے ساتھ بیٹھیں گوپلی۔ گاؤں کے اکثر مردوں کی طرح، گوپلی کے شوہر سوہن رام بھی ایک مہاجر مزدور ہیں۔ پشپا کے شوہر ناتورام فی الحال کردا میں رہائش پذیر کام کرنے کی عمر والے واحد مرد ہیں

پھوس کی چھت والے اپنے اینٹ سے بنے گھر کے ٹھنڈے فرش پر بیٹھیں گوپلی کہتی ہیں، ’’بچوں کی پرورش کے وقت ہماری مدد کرنے کے لیے مرد کبھی بھی موجود نہیں رہتے۔‘‘ فرش کے ایک طرف مکئی کے دانوں کی ایک چھوٹی سی ڈھیر سوکھنے کے لیے پھیلی ہوئی ہے۔ گوپلی جب جب ماں بننے والی تھیں، تب تب سوہن رام ان کے پاس موجود نہیں تھے۔ کوکھ میں پورا بچہ لیے ہوئے گوپلی کو اپنے آدھا بیگھہ (صفر اعشاریہ تین ایکڑ کے قریب) کھیت کے علاوہ دوسروں کے کھیتوں پر بھی کام کرنا ہوتا تھا، اور ساتھ ساتھ اپنا گھر بھی سنبھالنا ہوتا تھا۔ ’’کئی بار تو ہمارے پاس بچوں کو بھی کھلانے لائق پیسے نہیں ہوتے تھے۔ ایسے میں مزید بچے پیدا کرنے کا کیا مطلب؟‘‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انہوں نے مانع حمل کے لیے کوئی دوسرا طریقہ بھی آزمایا تھا، تو وہ شرمندگی کے ساتھ مسکرانے لگتی ہیں۔ انہیں خود اپنے ہی شوہر کے بارے میں بات کرنے میں بہت شرمندگی محسوس ہو رہی ہے، پھر بھی وہ بتاتی ہیں کہ برادری کی تمام عورتوں کے لیے اپنے اپنے شوہر کو کسی بھی طرح کے مانع حمل کا استعمال کرنے کے لیے راضی کرنے کی کوشش کرنا بیکار ہے۔

*****

کردا گاؤں، جو کہ روئیڈا پنچایت کا ایک حصہ ہے، اراولی پہاڑیوں کے دامن میں بسا ہے، اور پاس کے راجسمند ضلع میں سیاحوں کی توجہ کے مخصوص مرکز کے طور پر مشہور کمبھل گڑھ کے تاریخی قلعہ سے صرف ۳۵ کلومیٹر کے فاصلہ پر آباد ہے۔ کردا کے گمیتی ۲۰-۱۵ کنبوں کا ایک بڑا خاندان ہے، جس کا تعلق بھیل- گمیتی کی درجہ فہرست قبائلی برادری سے ہے۔ گاؤں کے باہری علاقے میں آباد اس برادری میں ایک فیملی کے پاس ایک سے بھی کم بیگھہ قابل کاشت زمین ہے۔ برادری کی تقریباً سبھی عورتوں میں ایک نے بھی اسکول کی پڑھائی مکمل نہیں کی ہے۔ مردوں کی حالت بھی کچھ خاص بہتر نہیں ہے۔

جون کے آخری دنوں اور ستمبر کے درمیان کے بارش کے مہینوں کو چھوڑ کر اس برادری کے مرد بمشکل مہینہ بھر کے لیے ہی اپنے گھر پر رہتے ہیں۔ بارش کے دنوں میں گیہوں کی پیداوار کے لیے ان پر اپنے کھیت جوتنے کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ خاص طور پر کووڈ۔۱۹ لاک ڈاؤن کے مشکل دنوں میں برادری کے زیادہ تر مرد دور افتادہ سورت کے کپڑا ملوں میں بطور غیر ہنرمند کارکن اپنا معاش کما رہے تھے۔ ان کا کام لمبے کپڑے کی تھان سے چھ چھ میٹر کی ساڑیوں کو کاٹ کر الگ کرنا تھا، تاکہ بازار میں بھیجے جانے سے پہلے ان پر باندھنی اور کشیدہ کاری کا کام کیا جا سکے۔ اس کام کے عوض انہیں یومیہ ۳۵۰ سے ۴۰۰ روپے تک کی دہاڑی ملتی ہے۔

گوپلی کے شوہر سوہن رام اور گمیتی برادری کے دوسرے مرد اُن لاکھوں مزدوروں میں شامل ہیں، جو معاش حاصل کرنے کے لیے دسیوں سال سے جنوبی راجستھان سے سورت، احمد آباد، ممبئی، جے پور اور نئی دہلی جیسے شہروں میں مہاجرت کر چکے ہیں۔ ان کے پیچھے گاؤوں میں چھوٹ چکے ان کے اہل خانہ میں زیادہ تر عورتیں ہی بچی رہ جاتی ہیں۔

ان کی غیر موجودگی میں تقریباً پوری طرح ناخواندہ یا حالیہ برسوں میں صرف ابتدائی حروف سے متعارف دو چار عورتوں نے اپنی صحت اور زندگی سے متعلق پیچیدگیوں کے بارے میں خود ہی فیصلہ کرنا سیکھ لیا ہے۔

Pushpa’s teenage son was brought back from Surat by anti-child-labour activists before the pandemic.
PHOTO • Kavitha Iyer
Karda is located in the foothills of the Aravalli mountain range, a lush green part of Udaipur district in southern Rajasthan
PHOTO • Kavitha Iyer

پشپا کے نوعمر بیٹے کو وبائی مرض پھیلنے سے عین قبل، بچہ مزدوری مخالف قانون کی حمایت میں کام کرنے والے کارکنوں کے ذریعے سورت سے واپس ان کے گاؤں پہنچایا گیا تھا۔ دائیں: کردا، جنوبی راجستھان میں ادے پور ضلع کے سرسبز علاقے، اراولی کی پہاڑیوں کے دامن میں آباد ہے

تین بچوں کی ماں اور تقریباً ۳۰ سال کی پشپا گمیتی واضح الفاظ میں کہتی ہیں کہ عورتوں کو وقت کے حساب سے خود کو ڈھالنا ہوتا ہے، وبائی مرض سے عین قبل ان کے ایک نوعمر بیٹے کو بچہ مزدوری مخالف قانون کی حمایت میں کام کرنے والے کارکنوں کے ذریعے سورت سے واپس ان کے گاؤں پہنچایا گیا تھا۔

ماضی میں صحت سے متعلق کسی بھی ناگہانی حالت میں عورتیں عموماً گھبرا جاتی تھیں۔ پرانے تجربات کو یاد کرتی ہوئی وہ بتاتی ہیں کہ کیسے ہفتوں کی بچے کا بخار نہیں اترنے کی حالت میں یا کھیتی کرتے ہوئے زخمی ہو جانے کے بعد خون کا بہنا بند نہیں ہونے کی وجہ سے عورتیں کسی انہونی کے ڈر سے خوفزدہ ہو جاتی تھیں۔ پشپا کہتی ہیں، ’’گھر پر مردوں کے موجود نہیں رہنے کی وجہ سے ہمارے پاس علاج کے لیے نقد پیسے نہیں ہوتے تھے، اور ہم یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ دواخانہ تک جانے کے لیے ہم سواری گاڑیوں کا انتظام کیسے کریں۔ آہستہ آہستہ ہم نے یہ سب کرنا سیکھ لیا۔‘‘

پشپا کا بڑا بیٹا، کشن اب دوبارہ کام کرنے لگا ہے۔ ابھی وہ پڑوس کے ایک گاؤں میں مٹی کی کھدائی کرنے والی ایک مشین گاڑی کے ڈرائیور کا معاون ہے۔ اپنے بقیہ دونوں چھوٹے بچوں – ۵ سال کی منجو اور ۶ سال کے منوہر کے لیے پشپا، روئیڈا گاؤں کے آنگن واڑی مرکز میں جاتی ہیں، جو وہاں سے تقریباً ۵ کلومیٹر دور ہے۔

وہ بتاتی ہیں، ’’ہمارے بڑے ہو چکے بچوں کے لیے ہمیں آنگن واڑی سے کچھ بھی نہیں ملتا ہے۔‘‘ لیکن گزشتہ چند برسوں سے کردا کی نوجوان مائیں گھماؤدار ہائی وے کا مشکل سفر طے کرکے روئیڈا پہنچتی ہیں، جہاں ان کو اور ان کے چھوٹے بچوں کو آنگن واڑی کے ذریعے گرم اور مقوی غذا مہیا کرائی جاتی ہے۔ وہ اپنی کمر پر بیٹھا کر منجو کو بھی اپنے ساتھ لے جاتی ہیں۔ کبھی کبھی انہیں راستے میں کوئی گاڑی بھی مل جاتی ہے، جو انہیں منزل تک مفت میں چھوڑ دیتی ہے۔

پشپا بتاتی ہیں، ’’یہ کورونا سے پہلے کی بات ہے۔‘‘ لاک ڈاؤن کے بعد سال ۲۰۲۱ کے مئی مہینے تک عورتوں کو آنگن واڑی کے کام کاج کے دوبارہ شروع ہونے کی کوئی اطلاع نہیں ملی ہے۔

جب کشن نے پانچویں کلاس کی پڑھائی ادھوری چھوڑ کر اچانک اپنے ایک دوست کے ساتھ کام کرنے کے لیے سورت جانے کا فیصلہ کیا تھا، تب پشپا کو اس کا احساس ہوا کہ خاندانی فیصلوں اور نوعمر بچے کو قابو کرنے کا معاملہ ان کے ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’لیکن، میں اپنے چھوٹے بچوں سے متعلق فیصلے اپنے ہی ہاتھ میں رکھنے کی کوشش کر رہی ہوں۔‘‘

Gopli and Pushpa. ‘The men are never around for any assistance with child rearing.
PHOTO • Kavitha Iyer
Gopli with two of her four children and her mother-in-law
PHOTO • Kavitha Iyer

بائیں: گوپلی اور پشپا۔ ’بچوں کی پرورش کے وقت ہماری مدد کرنے کے لیے مرد کبھی بھی موجود نہیں رہتے۔‘ دائیں: اپنے دو بچوں اور اپنی ساس کے ساتھ گوپلی

ان کے شوہر ناتورام فی الحال کردا میں رہائش پذیر کام کرنے کی عمر والے واحد مرد ہیں۔ ۲۰۲۰ کی گرمیوں میں لاک ڈاؤن کے دوران سورت پولیس کے ساتھ ناراض مہاجر مزدوروں کی پرتشدد جھڑپ سے گھبرائے ناتورام نے کردا میں رہ کر ہی آس پاس کے علاقوں میں کام تلاش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حالانکہ ابھی تک قسمت نے ان کا زیادہ ساتھ نہیں دیا ہے۔

گوپلی نے پشپا کو نس بندی کے فوائد کے بارے میں بتایا ہے۔ آپریشن کے بعد مکمل احتیاط یا رکھ رکھاؤ میں کمی کی وجہ سے بھی عورتوں کو کئی قسم کے طبی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ایسا انہوں نے کبھی سنا نہیں ہے۔ مانع حمل کے اس طریقے میں آپریشن کے ناکام ہونے، بچہ دانی اور آنتوں کو کسی قسم کا نقصان پہنچنے، نلیوں میں کوئی رکاوٹ پیدا ہونے اور زخم میں کسی قسم کا انفیکشن یا سیپسس ہونے کے معاملے سامنے نہیں آئے ہیں۔ گوپلی یہ بھی نہیں مانتی ہیں کہ نس بندی سے متعلق سرجری کا مقصد صرف مقررہ ہدف کو حاصل کرکے آبادی پر قابو پانا ہے۔ وہ مطمئن لہجے میں کہتی ہیں، ’’یہ طریقہ آپ کو ہر ایک فکرمندی سے پوری طرح آزاد کر دیتا ہے۔‘‘

پشپا کے بھی تینوں بچے گھر پر ہی پیدا ہوئے تھے۔ رشتے کی کوئی جیٹھانی یا گمیتی برادری کی کسی بزرگ عورت نے نوزائیدہ بچوں کی نال کو کاٹ کر عام طور پر ہندوؤں کی کلائی پر لپیٹے جانے والے موٹے ’لچھے دھاگوں‘ سے ان کے سِروں کو باندھنے کا کام کیا تھا۔

گوپلی کا ماننا ہے کہ آج کی کم عمر گمیتی عورتیں گھر پر بچے کو جنم دینے کا خطرہ نہیں اٹھانا چاہتی ہیں۔ ان کی اکلوتی بہو ابھی حاملہ ہیں۔ ’’ہم اس کی یا اپنے ہونے والے پوتے یا پوتی کی جان اور صحت کو لے کر کوئی خطرہ مول نہیں لے سکتے ہیں۔‘‘

اور ہونے والی ماں، جو ابھی ۱۸ سال کی ہے، فی الحال اپنے میکے میں ہے جو اراولی کے ایک اونچے بسے گاؤں میں ہے اور ایمرجنسی کی حالت میں وہاں سے باہر جا پانا مشکل کام ہے۔ ’’درد زہ سے پہلے ہم اسے یہاں لے آئیں گے اور جب وہ دواخانہ جائے گی، تب اس کے ساتھ ٹیمپو پر دو تین دیگر عورتیں بھی جائیں گی۔‘‘ ٹیمپو سے گوپلی کی مراد مقامی سواری گاڑی کے طور پر استعمال ہونے والی بڑی تین پہیے والی گاڑیاں ہیں۔

گوپلی اپنے آس پڑوس سے آئی ہوئی عورتوں کو دیکھتے ہوئے ہنستی ہیں، ’’آج کی لڑکیاں درد برداشت کرنا نہیں جانتیں۔‘‘ سبھی عورتیں ہنستی ہوئی گوپلی کی ہاں میں ہاں ملاتی ہیں۔

Bamribai Kalusingh, from the Rajput caste, lives in Karda. ‘The women from Karda go in groups, sometimes as far as Gogunda CHC’
PHOTO • Kavitha Iyer

راجپوت برادری سے تعلق رکھنے والی بھمری بائی کالو سنگھ، کردا میں رہتی ہیں۔ ’کردا کی عورتیں ایک ساتھ گروپ بنا کر جاتی ہیں۔ کئی بار تو وہ گوگُندا سی ایچ سی تک بھی چلی جاتی ہیں‘

اس چھوٹے سے ٹولہ کی دو تین دوسری عورتوں نے بھی نس بندی کا آپریشن کرایا ہوا ہے، لیکن وہ عورتیں اس کے بارے میں شرم کی وجہ سے بات چیت نہیں کرنا چاہتی ہیں۔ برادری میں عموماً کسی دوسرے جدید مانع حمل کا استعمال نہیں کیا جاتا ہے، لیکن گوپلی کے مطابق، ’اب نوجوان عورتیں کہیں زیادہ تیز طرار ہیں‘

آس پاس کے علاقے میں سب سے نزدیکی پرائمری ہیلتھ سنٹر (پی ایچ سی) تقریباً ۱۰ کلومیٹر دور ناندیشما میں ہے۔ کردا کی نوجوان عورتیں اپنے حاملہ ہونے کی تصدیق کے بعد اسی پی ایچ سی میں رجسٹرڈ کی جاتی ہیں۔ وہ اپنی معمول کی جانچ کے لیے وہیں جاتی ہیں۔ انہیں اپنے علاقے میں آنے والی طبی کارکنان کے ذریعے غذائیت کے لیے کیلشیم اور آئرن کی دوائیں دی جاتی ہیں۔

بھمری بائی کالو سنگھ کہتی ہیں، ’’کردا کی عورتیں وہاں ایک ساتھ گروپ بنا کر جاتی ہیں۔ کئی بار تو وہ گوگُندا سی ایچ سی تک بھی چلی جاتی ہیں۔‘‘ بھمری بائی کا تعلق راجپوت ذات سے ہے اور وہ اسی گاؤں میں رہتی ہیں۔ اپنی صحت کو لے کر آزادانہ فیصلے لینے کی ہمت نے گمیتی عورتوں کی زندگی پوری طرح بدل دی ہے۔ پہلے وہ کسی مرد کو ساتھ لیے بغیر گاؤں سے باہر قدم تک نہیں رکھتی تھیں۔ بھمری بائی یہ بتانا نہیں بھولتیں۔

کلپنا جوشی، جو کہ گمیتی مردوں سمیت دوسرے مہاجر مزدوروں کے لیے کام کرنے والے ’آجیویکا بیورو‘ کی ادے پور اکائی میں ایک کمیونٹی آرگنائزر ہیں، کہتی ہیں کہ مہاجر مزدوروں کی فیملی کی ’گھر میں رہ گئیں‘ دیہی خواتین اپنے فیصلے خود لینے کے معاملے میں آہستہ آہستہ خود کفیل ہوئی ہیں۔  وہ بتاتی ہیں، ’’وہ جانتی ہیں کہ میڈیکل ایمرجنسی کی حالت میں فون کرکے ایمبولنس کو کیسے بلایا جاتا ہے۔ زیادہ تر عورتیں اکیلے نہ صرف اسپتال جاتی ہیں، بلکہ وہ طبی ملازمین اور رضاکار تنظیموں کے نمائندوں سے واضح گفتگو بھی کرتی ہیں۔ صرف دس سال پہلے تک حالات بالکل الگ تھے۔‘‘ پہلے سبھی طبی ضروریات کو مردوں کے سورت سے لوٹ کر آنے تک ملتوی کر دیا جاتا تھا۔

اس چھوٹے سے ٹولے کی دو تین دیگر عورتوں نے بھی نس بندی کا آپریشن کرایا ہوا ہے، لیکن شرم سے وہ اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتی ہیں۔ برادری میں عموماً کسی دوسرے جدید مانع حمل کا استعمال نہیں کیا جاتا ہے، لیکن گوپلی کے مطابق، ’’اب نوجوان عورتیں کہیں زیادہ تیز طرار ہیں۔‘‘ ان کی بہو بھی شادی کے تقریباً سال بھر بعد حاملہ ہوئی۔

*****

کردا سے ۱۵ کلومیٹر سے بھی کم دوری پر آباد ایک گاؤں کی پاروَتی میگھوال (بدلا ہوا نام) ایک مہاجر مزدور کی بیوی ہونے کی پریشانیوں کے بارے میں ہمیں بتاتی ہیں۔ ان کے شوہر گجرات کے مہسانہ میں زیرے کے پیکٹ تیار کرنے والی ایک صنعتی اکائی میں کام کرتے ہیں۔ کچھ وقت تک پاروَتی نے بھی مہسانہ میں اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کی کوشش کی۔ انہوں نے وہاں چائے کی ایک چھوٹی سی دکان بھی کھول لی، لیکن اپنے تین بچوں کی پڑھائی کی وجہ سے انہیں واپس اُدے پور لوٹ جانا پڑا۔

انہوں نے بتایا کہ ۲۰۱۸ میں، جب ان کے شوہر گھر سے باہر تھے، تب وہ ایک خطرناک سڑک حادثہ کی شکار ہو گئیں، اور زمین پر گرنے سے ان کی پیشانی پر ایک کیل دھنس گئی۔ زخم کے ٹھیک ہونے کے بعد جب انہیں اسپتال سے چھٹی ملی، تو اس کے بعد وہ دو سالوں تک ایک انجان نفسیاتی مرض کی گرفت میں آ گئیں۔

Parvati Meghwal (name changed) has struggled with poor mental health. She stopped her husband from migrating for work and now runs a little store in her village. ‘I don’t want to remain the left-behind wife of a migrant labourer’
PHOTO • Kavitha Iyer
Parvati Meghwal (name changed) has struggled with poor mental health. She stopped her husband from migrating for work and now runs a little store in her village. ‘I don’t want to remain the left-behind wife of a migrant labourer’
PHOTO • Kavitha Iyer

پاروَتی میگھوال (بدلا ہوا نام) نفسیاتی صحت کی پریشانیوں میں مبتلا رہی ہیں۔ انہوں نے اپنے شوہر کو کام کے لیے مہاجرت کرنے سے روک دیا اور اب اپنے گاؤں میں ایک چھوٹی سی دکان چلاتی ہیں۔ ’میں ایک مہاجر مزدور کی گھر میں رہ گئی بیوی کے طور پر نہیں رہنا چاہتی‘

وہ کہتی ہیں، ’’مجھے ہمیشہ اپنے شوہر، اپنے بچوں اور روپے پیسوں کی فکر لگتی رہتی تھی، اور تبھی میرے ساتھ یہ حادثہ ہو گیا۔‘‘ انہیں نفسیاتی دورے پڑنے لگے اور وہ ہمیشہ لمبے وقت کے لیے اداسی کی حالت میں چلی جاتی تھیں۔ ’’ہر کوئی میرے چیخنے چلانے اور سامان پھینکنے کی عادتوں سے پریشان اور خوفزدہ رہتا تھا۔ پورے گاؤں کا ایک بھی آدمی میرے پاس نہیں پھٹکتا تھا۔ میں نے اپنی جانچ کی تمام رپورٹیں اور رسیدیں، نقدی نوٹ اور اپنے کپڑے تک پھاڑ ڈالے…‘‘ انہیں یہ سب بعد میں پتہ چلا کہ اُس دوران انہوں نے کیا کیا کیا تھا، بلکہ اب ان کے اندر اپنی بیماری کو لے کر ایک شرمندگی بھی ہے۔

وہ بتاتی ہیں، ’’پھر لاک ڈاؤن شروع ہو گیا اور سب کچھ دوبارہ منتشر ہو گیا۔ میں ایک بار پھر سے نفسیاتی طور پر ٹوٹتے ٹوٹتے بچی۔‘‘ ان کے شوہر کو مہسانہ سے پیدل گاؤں لوٹنا پڑا، جو کہ ۲۷۵ کلومیٹر کا ایک لمبا اور مشکل سفر تھا۔ ذہنی تناؤ نے پاروتی کی حالت کو قابل رحم بنا دیا تھا۔ ان کا سب سے چھوٹا بیٹا بھی گھر سے دور اُدے پور میں تھا، جہاں وہ ایک ریستوراں میں روٹی بنانے کا کام کرتا تھا۔

میگھوال دلت برادری سے تعلق رکھتے ہیں، اور پاروتی کی اگر مانیں تو، دلت مہاجر مزدوروں کے گھر کی عورتوں کو گاؤں میں روزی روٹی کمانے کے لیے بڑی جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ ’’آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ذہنی مرض میں مبتلا یا ماضی میں اس کا شکار رہ چکی ایک دلت عورت کے لیے یہ کتنی مشکلوں سے بھرا وقت رہا ہوگا؟‘‘

پاروتی ایک آنگن واڑی کارکن اور ایک سرکاری دفتر کی چپراسی کے طور پر کام کر چکی تھیں۔ لیکن حادثہ اور پھر خراب ذہنی حالت کی وجہ سے ان کے لیے اپنا کام جاری رکھنا مشکل تھا۔

سال ۲۰۲۰ میں جب لاک ڈاؤن ہٹا لیا گیا، تب انہوں نے اپنے شوہر سے واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ اب وہ انہیں دوبارہ کام کرنے کے لیے باہر نہیں جانے دیں گی۔ انہوں نے اپنے رشتہ داروں اور ایک کوآپریٹو سوسائٹی سے قرض لیا اور گاؤں میں کیرانے کی ایک چھوٹی سی دکان کھول لی۔ ان کے شوہر بھی گاؤں یا آس پاس کے علاقے میں اپنے لیے دہاڑی پر کام تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ’’میں ایک مہاجر مزدور کی گھر میں رہ گئی بیوی کے طور پر نہیں رہنا چاہتی۔ سبھی ذہنی تشویشوں اور مشکلوں کی یہی جڑ ہے۔‘‘

ادھر کردا کی عورتوں میں یہ سوچ پختہ ہوتی جا رہی ہے کہ مردوں کے تعاون کے بغیر اپنے لیے روزی روٹی کما پانا تقریباً ناممکن ہے۔ گمیتی عورتوں کے لیے روزگار کا واحد موقع مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار گارنٹی قانون (منریگا) کے تحت دستیاب ہے، اور کردا کے باہری علاقوں میں رہنے والی عورتوں نے ۲۰۲۱ کی آمد تک اپنے اپنے حصے کے کاموں کے ۱۰۰ دن پورے کر لیے ہیں۔

گوپلی کہتی ہیں، ’’ہمیں ہر سال کم از کم ۲۰۰ دنوں کے کام کی ضرورت ہے۔‘‘ وہ بتاتی ہیں کہ فی الحال عورتیں سبزیاں اُگانے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہیں، جنہیں وہ نزدیک کے بازاروں میں فروخت کر سکیں۔ یہ ایک اور فیصلہ ہے، جو انہوں نے مردوں سے پوچھے بغیر لیا ہے۔ ’’بہرحال، ہمیں اپنے کھانے میں تھوڑی مقوی غذائیں مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ہے کہ نہیں؟‘‘

پاری اور کاؤنٹر میڈیا ٹرسٹ کی جانب سے دیہی ہندوستان کی بلوغت حاصل کر چکی لڑکیوں اور نوجوان عورتوں پر ملگ گیر رپورٹنگ کا پروجیکٹ پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کے مالی تعاون سے ایک پہل کا حصہ ہے، تاکہ عام لوگوں کی آوازوں اور ان کی زندگی کے تجربات کے توسط سے ان اہم لیکن حاشیہ پر پڑے گروہوں کی حالت کا پتہ لگایا جا سکے۔

اس مضمون کو شائع کرنا چاہتے ہیں؟ براہِ کرم [email protected] کو لکھیں اور اس کی ایک کاپی [email protected] کو بھیج دیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Kavitha Iyer

کویتا ایئر گزشتہ ۲۰ سالوں سے صحافت کر رہی ہیں۔ انہوں نے ’لینڈ اسکیپ آف لاس: دی اسٹوری آف این انڈین‘ نامی کتاب بھی لکھی ہے، جو ’ہارپر کولنس‘ پبلی کیشن سے سال ۲۰۲۱ میں شائع ہوئی ہے۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Kavitha Iyer
Illustration : Antara Raman

انترا رمن سماجی عمل اور اساطیری خیال آرائی میں دلچسپی رکھنے والی ایک خاکہ نگار اور ویب سائٹ ڈیزائنر ہیں۔ انہوں نے سرشٹی انسٹی ٹیوٹ آف آرٹ، ڈیزائن اینڈ ٹکنالوجی، بنگلورو سے گریجویشن کیا ہے اور ان کا ماننا ہے کہ کہانی اور خاکہ نگاری ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Antara Raman
Translator : Qamar Siddique

قمر صدیقی، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے ٹرانسلیشنز ایڈیٹر، اردو، ہیں۔ وہ دہلی میں مقیم ایک صحافی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Qamar Siddique