مایا تھامی نے دن کی اپنی پہلی ڈیلیوری مکمل کر لی ہے۔ اس کے لیے انہیں ۳۰ کلو کا گیس سیلنڈر اپنی پیٹھ پر اٹھا کر تین کلومیٹر تک چلنا پڑا اور پھر ۲۰۰ سیڑھیاں چڑھ کر انہوں نے سیلنڈر کو گاہک تک پہنچایا۔

اپنی سانسوں پر قابو پاتے ہوئے ۳۲ سالہ مایا دور کے ایک مقام کی طرف اشارہ کرتی ہیں، ’’ابھی مجھے وہاں ایک اور سیلنڈر پہنچانا ہے۔‘‘ اپنا ۸۰ روپے کا محنتانہ لینے کے بعد، وہ اگلی ڈیلیوری کے لیے نکل پڑتی ہیں۔ اگلے چھ گھنٹوں تک وہ ایل پی جی سیلنڈر لیے اپنے پیروں پر کھڑی رہیں گی۔

مایا کہتی ہیں، ’’جب سامان زیادہ وزنی ہو، تو مرد قلیوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اور لوگ اکثر ہمارے ساتھ پیسوں کے لیے مول تول کرتے ہیں، کیوں کہ ہم مرد نہیں ہیں۔‘‘ یکساں فاصلہ تک سامان ڈھونے کے لیے جہاں عورتوں کو ۸۰ روپے ملتے ہیں، وہیں مردوں کو ۱۰۰ روپے دیے جاتے ہیں۔

مغربی بنگال کا یہ مشہور شہر دارجلنگ، مشرقی ہمالیہ میں ۲۰۴۲ میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ پہاڑی علاقہ ہونے کے سبب، سڑک کے ذریعے آمد و رفت میں پریشانی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کو سبزیاں، پانی، سیلنڈر جیسی روزمرہ کی اشیاء اور یہاں تک کہ فرنیچر [جنہیں ایک بار خریدا جاتا ہے] کو بھی لے جانے کے لیے قلیوں پر منحصر رہنا پڑتا ہے۔ پہاڑی ڈھلانوں پر گاڑیاں نہیں چل سکتیں، اس لیے یا تو آدمی خود سامان لے جا سکتا ہے یا پھر گیس ایجنسی یا دکان والے قلی کے ذریعے بھیجتے ہیں۔

Maya Thami climbs 200 stairs to deliver the day's first gas cylinder. Like other porters, she migrated from Nepal to work in Darjeeling, West Bengal
PHOTO • Rhea Chhetri
Maya Thami climbs 200 stairs to deliver the day's first gas cylinder. Like other porters, she migrated from Nepal to work in Darjeeling, West Bengal
PHOTO • Rhea Chhetri

مایا تھامی نے ۲۰۰ سیڑھیاں چڑھ کر دن کا پہلا گیس سیلنڈر گاہک تک پہنچایا ہے۔ دیگر قلیوں کی طرح وہ بھی نیپال کی تھامی برادری سے ہیں

Left: Maya Thami rests after delivering a cylinder.
PHOTO • Rhea Chhetri
Right: Lakshmi Thami (left) and Rebika Thami (right)  each carrying a sack of potatoes weighing 60 kilos
PHOTO • Rhea Chhetri

بائیں: پہلا سیلنڈر پہنچانے کے بعد مایا تھامی تھوڑا آرام کر رہی ہیں۔ دائیں: لکشمی تھامی (بائیں) اور ریبکا تھامی (دائیں) سبزی ڈھونے کا کام کرتی ہیں۔ دونوں کی پیٹھ پر ۶۰-۶۰ کلو کی آلو کی بوریاں ہیں، جسے گاہک تک پہنچانا ہے

نیپال کی مایا تھامی ۱۲ سال سے دارجلنگ میں قلی کا کام کر رہی ہیں۔ ان کی طرح، شہر کے دیگر قلی بھی بڑے پیمانے پر نیپال کی خواتین مہاجر ہیں اور تھامی برادری (مغربی بنگال میں دیگر پس ماندہ طبقہ کے طور پر درج) سے ہیں۔ وہ ناملو نامی ایک پٹّے کا استعمال کر کے، باندھے گئے ڈوکو (بانس کی ٹوکری) میں سبزیاں، سیلنڈر اور پانی کے ڈبے ڈال کر لے جاتی ہیں۔

مایا یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں، ’’شادی کے بعد ذمہ داریاں بڑھ گئیں، اس لیے میں مُگلان [ہندوستان] چلی آئی۔‘‘ نیپال میں، وہ اور ان کے شوہر بودھے ۲ کٹھا (۰۶ء۰ ایکڑ) زمین پر چاول، باجرہ اور آلو اُگاتے تھے۔ اس کے علاوہ، انہوں نے چھوٹی چھوٹی دکانوں میں یومیہ مزدوری بھی کی ہے۔ سال ۲۰۲۱ میں دونوں، نیپال سرحد سے سڑک کے راستے کچھ گھنٹے کی دوری پر واقع دارجلنگ چلے آئے۔

مایا گیس ایجنسیوں سے لوگوں کے گھروں تک سیلنڈر پہنچاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں عام طور پر صبح ۷ بجے تک کام پر چلی جاتی ہوں اور پھر وہاں ڈھلائی کرنے والے اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔‘‘ وہ عام طور پر ایک دن میں چار یا پانچ ڈیلیوری کرتی ہیں، جس سے ان کے دن کی کمائی قریب قریب ۵۰۰ روپے تک ہو جاتی ہے۔ مایا کہتی ہیں، ’’ ناملو کا استعمال کر کے سر پر بھاری سیلنڈر اٹھانے کی وجہ سے میرے کافی بال جھڑ گئے ہیں اور بدن میں درد بھی ہوتا ہے۔‘‘ مایا کا بلڈ پریشر بھی گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔

ویڈیو دیکھیں: دارجلنگ کی خواتین قلی

مایا تھامی لوگوں کے گھروں تک سیلنڈر پہنچاتی ہیں۔ ان کے دن کی شروعات صبح ۷ بجے ہوتی ہے اور وہ عام طور پر ایک دن میں چار یا پانچ ڈیلیوری کرتی ہیں، اور اس کڑی محنت کے عوض وہ روزانہ ۵۰۰ روپے کماتی ہیں

سبزی ڈھونے والے قلی اور سیلنڈر ڈھونے والے قلی الگ ہوتے ہیں۔ وہ رات کے آٹھ بجے تک چوک بازار پر کام کے انتظار میں رہتے ہیں، بس جمعہ کے دن بازار بند رہتا ہے۔ بہار سے تعلق رکھنے والے ایک دکاندار منوج گپتا کہتے ہیں، ’’گاہکوں کو اپنی سبزیاں بیچنے کے بعد، ہم پاس میں کھڑے قلی کو بلاتے ہیں، اور اس کے بعد کا سودا گاہک اور قلی کے درمیان ہوتا ہے۔‘‘

سبزی ڈھونے والی ۴۱ سالہ من کماری تھامی کہتی ہیں، ’’نسکیم بوکچو بھندا بھندا ۷۰ کے جی کو بھاری بوکنی بانی بھئی سکیو [میں ۷۰ کلو تک سامان اٹھانے کی عادی ہوں]۔‘‘ ابھی وہ ۷۰ کلو سبزیاں ایک ہوٹل تک پہنچانے جا رہی ہیں۔ وہ مزید کہتی ہیں، ’’اگر میں اتنا وزن اٹھانے سے منع کر دوں گی، تو یہ کام کسی اور کو مل جائے گا اور مجھے ۸۰ روپے کا نقصان ہو جائے گا۔‘‘

سبزیاں ڈھونے والی ایک اور قلی دھن کماری تھامی کہتی ہیں، ’’چونکہ تقریباً سارے ہوٹل چوک بازار کے اوپر ہیں، تو ہمیں ۱۵ سے ۲۰ منٹ کی پہاڑی چڑھائی کرنی پڑتی ہے۔ تقریباً ۱۰ منٹ کے فاصلہ پر واقع ہوٹلوں کے لیے، ہمیں ۶۰ سے ۸۰ روپے ملتے ہیں، اور وہیں دور کے ہوٹلوں کے لیے ۱۰۰ سے ۱۵۰ روپے تک مل جاتے ہیں۔‘‘

دھن کماری تھامی اس بات سے پوری طرح اتفاق کرتی ہیں کہ عورتوں کے ساتھ تفریق کی جاتی ہے: ’’کیتا لے متئی سکچا ایستو کام تا ہئینا رئیسو بئینی۔ کھئی ایتا تا بیسی لیڈیز ہرو نئی چ بھاری بوکنی [لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ کام صرف مرد ہی کر سکتے ہیں، لیکن ایسا بالکل نہیں ہے دیدی۔ یہاں زیادہ تر قلی خواتین ہیں]۔‘‘ شراب کی بری عادت لگ جانے کی وجہ سے ۱۵ سال قبل اپنے شوہر کو کھونے کے بعد، انہوں نے یہ کام شروع کیا تھا۔

Left: Dhankumari Thami (blue jacket), Manbahadur Thami and Manmaya Thami (red sweater) rest in Chowk Bazaar between deliveries.
PHOTO • Rhea Chhetri
Right: Asti Thami filling water in cans that she will later deliver to customers
PHOTO • Rhea Chhetri

بائیں: دھن کماری تھامی (نیلی جیکٹ میں)، من بہادر تھامی اور من مایا تھامی (لال سوئیٹر میں) سامان پہنچانے کے بعد، چوک بازار میں آرام کر رہی ہیں۔ دائیں: استی تھامی ڈبوں میں پانی بھر رہی ہیں، جس کی ڈیلیوری انہیں کرنی ہے

Asti Thami (left) and Jungey Thami (right) carrying water cans for delivery
PHOTO • Rhea Chhetri
Asti Thami (left) and Jungey Thami (right) carrying water cans for delivery
PHOTO • Rhea Chhetri

استی تھامی (بائیں) اور جُنگے تھامی (دائیں) ڈیلیوری کے لیے پانی کے ڈبے لے کر جا رہے ہیں

گھروں میں پانی کے ڈبے پہنچانے والے پاندام چائے کے باغات کے میاں بیوی استی تھامی اور جُنگے تھامی کا کہنا ہے کہ پانی کی ڈیلیوری کافی مشقت بھرا کام ہے۔ دارجلنگ کے کچھ علاقوں میں پانی کی کمی کے سبب انہیں روزانہ یہ کام کرنا ہوتا ہے۔

استی کہتی ہیں، ’’میں اور میرے شوہر روزانہ صبح ۶ بجے پاندام سے پانی لینے جاتے ہیں۔ ہم کنٹینر میں پانی بھرتے ہیں اور مانگ کے مطابق گاہکوں کے گھروں تک پہنچاتے ہیں۔‘‘ پاندام میں واقع ان کا کرایے کا کمرہ اُس جگہ سے تقریباً ۲ کلومیٹر دور ہے۔

جُنگے نے بتایا کہ انہوں نے ایک بار گوشت بیچنے کے کام میں بھی ہاتھ آزمایا تھا، لیکن کووڈ کے سبب انہیں نقصان ہو گیا۔ اور مجبوراً دونوں کو قلی کا کام شروع کرنا پڑا۔

*****

'Until [my children] Bhawana and Bhawin finish studying, I will carry cylinders,' says Maya Thami
PHOTO • Rhea Chhetri

مایا تھامی کہتی ہیں، ’جب تک میرے بچے بھاونا اور بھوین اپنی تعلیم مکمل نہیں کر لیتے، میں سیلنڈر اٹھاتی رہوں گی‘

مایا تھامی کے شوہر، بودھے تھامی دوسری نسل کے مہاجر ہیں۔ ان کے والدین نے بھی قلی کا کام کیا تھا اور دارجلنگ کے ہوٹلوں میں سبزیاں پہنچائی ہیں۔ مایا اور بودھے نے اپنے کام کی جگہ چوک بازار سے تقریباً ۵۰ منٹ کی دوری پر واقع گئوشالہ کے پاس ۲۵۰۰ روپے مہینے پر ایک کمرہ کرایے پر لیا ہے۔

بہت سے قلی اپنے اہل خانہ کے ساتھ اس علاقے میں کرایے پر کمرہ لے کر رہتے ہیں، کیوں کہ یہاں کرایہ بہت کم ہے۔

مایا اور بودھے کے بچے، بھاونا اور بھوین ابھی اسکول میں ہیں؛ ان کی تعلیم ہی مایا کی ترجیح ہے: ’’بھاونا را بھوین پرنجل مو میرو ناملو لے سیلنڈر بوکچو [جب تک بھاونا اور بھوین کی تعلیم مکمل نہیں ہو جاتی، میں اپنے ناملو کے ساتھ سیلنڈر ڈیلیور کرتی رہوں گی]۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Student Reporter : Rhea Chhetri

ରିୟା ଛେତ୍ରୀ ନିକଟରେ ନୋଏଡ଼ାର ଆମିଟି ବିଶ୍ୱବିଦ୍ୟାଳୟରୁ ଗଣଯୋଗାଯୋଗ ଓ ସାମ୍ବାଦିକତାରେ ସ୍ନାତକୋତ୍ତର ଡିଗ୍ରୀ ହାସଲ କରିଛନ୍ତି । ସେ ଦାର୍ଜିଲିଂର ବାସିନ୍ଦା ହୋଇଥିବା ବେଳେ ୨୦୨୩ରେ ପରୀ ପାଇଁ ଇଣ୍ଟର୍ନସିପ୍‌ କରିବା ସମୟରେ ଏହି କାହାଣୀ ପ୍ରସ୍ତୁତ କରିଥିଲେ।

ଏହାଙ୍କ ଲିଖିତ ଅନ୍ୟ ବିଷୟଗୁଡିକ Rhea Chhetri
Editor : Sanviti Iyer

ସନ୍ୱିତୀ ଆୟାର ପିପୁଲ୍ସ ଆର୍କାଇଭ ଅଫ୍‌ ରୁରାଲ ଇଣ୍ଡିଆରେ ଜଣେ ବିଷୟବସ୍ତୁ ସଂଯୋଜିକା ଭାବେ କାର୍ଯ୍ୟ କରୁଛନ୍ତି। ଗ୍ରାମୀଣ ଭାରତର ପ୍ରସଙ୍ଗ ଉପରେ ଦସ୍ତାବିଜ ସଂଗ୍ରହ କରିବା ଏବଂ ରିପୋର୍ଟ ପ୍ରସ୍ତୁତ କରିବାରେ ସହାୟତା ଲାଗି ସେ ମଧ୍ୟ ଛାତ୍ରଛାତ୍ରୀଙ୍କ ସହ କାମ କରିଥାନ୍ତି।

ଏହାଙ୍କ ଲିଖିତ ଅନ୍ୟ ବିଷୟଗୁଡିକ Sanviti Iyer
Translator : Qamar Siddique

କମର ସିଦ୍ଦିକି ପିପୁଲ୍ସ ଆରକାଇଭ ଅଫ୍ ରୁରାଲ ଇଣ୍ଡିଆର ଅନୁବାଦ ସମ୍ପାଦକ l ସେ ଦିଲ୍ଲୀ ରେ ରହୁଥିବା ଜଣେ ସାମ୍ବାଦିକ l

ଏହାଙ୍କ ଲିଖିତ ଅନ୍ୟ ବିଷୟଗୁଡିକ Qamar Siddique