سندیپان والوے کے لیے یہ کوئی انوکھی درخواست نہیں تھی۔ ’’چتا کو آگ کے حوالے کرنے سے پہلے اسے جسم پر ڈال دیں،‘‘ متوفی خاتون کے رشتہ داروں نے ان سے کہا، اور ایک چمکدار سبز ساڑی انہیں پکڑا دی۔ انہوں نے ویسا ہی کیا جیسا ان سے کہا گیا تھا۔
مہاراشٹر کے عثمان آباد شہر میں، شمشان گھاٹ پر ۱۵ لاشیں قطار میں رکھی ہوئی ہیں۔ والوے ان میں سے ایک کے پاس پہنچ جاتے ہیں، جہاں ان سے جانے کے لیے کہا گیا تھا۔ اپنا پی پی ای کٹ پہنے، انہوں نے سفید رنگ کے ہوا بند بیگ میں پیک کی ہوئی لاش کے اوپر اپنے دستانے والے ہاتھ سے اُس ساڑی کو انتہائی قرینے سے رکھ دیا۔ ’’ان کے رشتہ دار ڈرے ہوئے تھے کہ کہیں وہ بھی وائرس سے نہ متاثر ہو جائیں،‘‘ انہوں نے کہا۔
عثمان آباد کی میونسپل کونسل میں کام کرنے والے ۴۵ سالہ والوے مارچ ۲۰۲۰ میں جب ہندوستان میں وبائی مرض شروع ہوا تھا، تبھی سے کووڈ۔۱۹ کے سبب ہلاک ہونے والوں کی آخری رسومات ادا کر رہے ہیں۔ وہ اب تک ۱۰۰ لوگوں کی آخری رسومات ادا کر چکے ہیں۔ پہلی لہر کے مقابلے اس وبائی مرض کی دوسری لہر نے دیہی علاقوں کو کافی متاثر کیا ہے۔ والوے بتاتے ہیں کہ اس سال اپریل کے آغاز سے ہی شمشان میں روزانہ تقریباً ۱۵-۲۰ لاشیں لائی جا رہی ہیں۔ اس کی وجہ سے والوے اور ان کے ساتھی کارکنان کے اوپر دباؤ پڑتا ہے، اور لوگوں میں تیزی سے دہشت پھیل رہی ہے۔
’’وائرس کا خوف کچھ لوگوں کو اس بات کے لیے مجبور کر رہا ہے کہ وہ اپنے اہل خانہ کی آخری رسومات ادا کرنے سے دور رہیں،‘‘ والوے کہتے ہیں۔ ’’اس لیے وہ ہم سے چتا کو آگ لگانے سے پہلے ان کی بنیادی رسومات ادا کرنے کے لیے کہتے ہیں۔ یہ دیکھنا کافی تکلیف دہ ہے کہ لاش کو آگ کے حوالے کرتے وقت وہاں متوفی شخص کا کوئی بھی رشتہ دار موجود نہیں ہوتا۔ لیکن یہ سوچ کر تھوڑی تسلی ملتی ہے کہ دنیا سے جانے والے اپنی آخری رسومات سے انجان ہوتے ہیں۔‘‘
ڈر کے علاوہ، پابندیوں کے سبب بھی رشتہ دار دور رہتے ہیں۔ کووڈ۔۱۹ کی دوسری لہر میں چونکہ ہلاکتوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، اس لیے شمشان کے اندر عام طور سے صرف ایک رشتہ دار کو ہی داخل ہونے کی اجازت دی جاتی ہے۔ بقیہ افراد کو اس سے پہلے ہی اپنے عزیز کو آخری بار الوداع کہنا پڑتا ہے۔ انہیں اب جسمانی دوری برقرار رکھتے ہوئے ایک دوسرے کو تسلی دینے کے نئے طریقے دریافت کرنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ کئی لوگوں کو اپنے عزیزوں کی آخری رسومات عزت کے ساتھ ادا کرنے کو یقینی بنانے میں دقتیں پیش آئیں۔
سنیل بڈورکر جب اپنے والد کی لاش کی شناخت کرنے مردہ گھر گئے تو، وہاں پہلے سے ہی حالت خراب تھی۔ ’’وہاں کی بدبو ناقابل برداشت تھی،‘‘ ۵۸ سالہ بڈورکر کہتے ہیں، جو عثمان آباد کے ضلع پریشد اہلکار کے طور پر ریٹائر ہو چکے ہیں۔ ’’میرے والد کی لاش وہاں دیگر لاشوں کے درمیان پڑی ہوئی تھی، جن میں سے کئی لاشیں خراب ہونے لگی تھیں۔‘‘
سنیل کے والد، ۸۱ سالہ منوہر کو ٹیسٹ میں پازیٹو آنے کے بعد ۱۲ اپریل کو اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ وہاں ایک دن بعد ان کا انتقال ہو گیا۔ ’’اس دن شہر میں کئی لوگوں کی موت ہوئی تھیں،‘‘ سنیل یاد کرتے ہیں۔ ’’ان کا جب انتقال ہوا تو، سسٹم پر اتنا دباؤ تھا کہ ہم ۲۴ گھنٹے بعد ان کی آخری رسومات کی تیاری شروع کر سکے۔ پرائیویٹ اسپتال میں جب کسی کووڈ کے مریض کی موت ہوتی ہے، جیسا کہ میرے والد کی ہوئی، تو لاش کو عثمان آباد کے ضلع سول اسپتال کے مردہ گھر لے جایا جاتا ہے، جہاں جاکر ہمیں اس کی شناخت کرنی پڑتی ہے۔ وہاں سے، لاشوں کو ایمبولینس کے ذریعے شمشان بھیجا جاتا ہے۔
شمشان میں، چتا پہلے سے تیار رہتی ہے۔ کارکنان لاشوں کو قطار میں لگا دیتے ہیں، لائن سے لگی ہوئی ۱۵-۲۰ چتاؤں میں سے ہر ایک پر ایک لاش۔ اس کے بعد سبھی کو ایک ساتھ آگ کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ ’’یہ کوئی عزت والی موت نہیں ہے،‘‘ بڈورکر کہتے ہیں۔
مہاراشٹر حکومت کے اندازہ کے مطابق، عثمان آباد میں مارچ ۲۰۲۰ سے اب تک کووڈ۔۱۹ کی وجہ سے ۱۲۵۰ لوگوں کی موت ہوئی ہے اور ۵۶ ہزار سے زیادہ لوگ پازیٹو پائے گئے ہیں۔ مہاراشٹر کے مراٹھواڑہ علاقے کا یہ ضلع گزشتہ کئی برسوں سے دیہی تباہی، پانی کی کمی اور کسانوں کی خودکشی جیسے واقعات کا بھی سامنا کرتا رہا ہے۔ بڑے پیمانے پر کاشت کاری والے اس علاقہ میں وبائی مرض کی خطرناک دوسری لہر نے اُن لوگوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے جو پہلے سے ہی قرض میں ڈوبے ہوئے ہیں، اور جن کے پاس اپنا علاج کرانے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔
اسپتال کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ بعض دفعہ فیملی کے اراکین لاش لینے بھی نہیں آتے ہیں کیوں کہ اکثر انہیں اس بات کا ڈر رہتا ہے کہ وہ بھی اس وائرس سے متاثر ہو جائیں گے، اور مزید قرض میں ڈوب جائیں گے۔
حالانکہ، کچھ لوگ مدد کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ عثمان آباد میں مسلم کارکنوں کا ایک گروپ اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہا ہے کہ لاوارث لاشوں کی بداحترامی نہ ہو۔ اس گروپ میں ۸-۱۰ رضاکار ہیں، جن میں سے ایک، ۳۴ سالہ بلال تمبولی کہتے ہیں، ’’دوسری لہر میں ہم نے ۴۰ سے زیادہ لوگوں کی آخری رسومات ادا کی ہیں۔‘‘ اور وبائی مرض کی شروعات سے اب تک وہ ۱۰۰ لوگوں کی آخری رسومات ادا کر چکے ہیں۔ ’’اسپتال ہمیں اس کے بارے میں اطلاع دیتا ہے اور پھر ہم آگے کی کارروائی کرتے ہیں۔ اگر کسی مسلمان کی موت ہوئی ہے، تو ہم مسلمانوں کے طریقے سے اس کی آخری رسومات ادا کرتے ہیں۔ اگر وہ ہندو ہے، تو ہم ہندوؤں کے طریقے سے رسومات ادا کرتے ہیں۔ یہ موت کے وقت انسان کو پوری عزت بخشنے جیسا ہے۔‘‘
بلال چاہتے ہیں کہ ان کا گروپ جو کام کر رہا ہے، اس کی تشہیر نہ کی جائے۔ ان کا ماننا ہے کہ ایسا کرنا غلط ہوگا۔ اور ان کے اس رضاکارانہ طور پر کام کرنے میں جو خطرہ ہے، وہ اس سے واقف ہیں۔ ’’میں اپنی فیملی کو لیکر زیادہ فکرمند رہتا ہوں،‘‘ بلال کہتے ہیں، جو ابھی غیر شادی شدہ ہیں۔ ’’اگر میں وائرس سے متاثر ہو گیا، تو جو بھی ہو جائے، مجھے اس کی کوئی پشیمانی نہیں ہوگی۔ لیکن میں اپنے والدین، بھائی اور بہن کے ساتھ رہتا ہوں۔ میرے گھر میں اتنی جگہ نہیں ہے کہ جسمانی دوری بناکر رکھی جائے۔ میں ہر ممکن احتیاط برتتا ہوں – اور آخری رسومات ادا کرنے سے پہلے ہر بار متوفی کے لیے خاموشی سے دعا کرتا ہوں۔‘‘
کووڈ کے اس دور میں آخری رسومات ادا کرنے کی نوعیت ایسی ہو گئی ہے کہ کنبوں کے لیے یہ ماننا مشکل ہو گیا ہے کہ اب سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔ ’’فیملی میں کسی کی موت دکھ کی بات ہے،‘‘ ۳۶ سالہ دیپالی یادو کہتی ہیں، جو ایک کسان ہیں اور عثمان آباد شہر کے باہری علاقے میں رہتی ہیں۔ ’’آپ فیملی کے طور پر ایک ساتھ غم مناتے ہیں، اور فیملی کے طور پر ہی اس غم سے باہر نکلتے ہیں۔ لوگ آتے ہیں اور اظہار تعزیت کرتے ہیں۔ آپ کو ایک دوسرے سے تقویت حاصل ہوتی ہے۔ لیکن اب یہ چیزیں نہیں رہیں۔‘‘
اپریل کے تیسرے ہفتے میں، ۲۴ گھنٹے کے اندر دیپالی کے ساس سسر دونوں کا انتقال ہوگیا تھا۔ اس کے بعد پوری فیملی کووڈ۔۱۹ میں مبتلا ہو گئی۔ ’’میرے شوہر اسپتال میں تھے،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’میرے تین بچے گھر پر آئیسولیشن (علیحدگی) میں تھے۔ اور مجھے دوسرے کمرے میں الگ کر دیا گیا۔ عجیب معاملہ تھا۔ ایک طرف، میں اتنے کم وقت میں فیملی کے دو لوگوں کے جدا ہو جانے کے غم سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہی تھی۔ دوسری طرف، مجھے اپنے شوہر کی فکر ہو رہی تھی۔ اُس کمرے میں اکیلے بیٹھے بیٹھے میرا دماغ پاگل ہو رہا تھا۔‘‘
ان کے شوہر، اروند بھی کسان ہیں، جنہیں اس بات کا افسوس ہے کہ وہ آخری دنوں میں اپنے والدین کی دیکھ بھال نہیں کر سکے۔ ’’اگرچہ میں اسپتال میں داخل تھا، لیکن میں نے پی پی ای کٹ پہنی اور ششمان جاکر ان کی لاش کو جلتے ہوئے دیکھا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’میں کم از کم اتنا ہی کر سکا۔‘‘
۴۵ سالہ اروند ابھی اس سوچ سے باہر نہیں نکل پائے ہیں کہ ان کی فیملی کو ان کے والدین کے اس دنیا سے چلے جانے پر غمزدہ ہونے کا وقت نہیں ملا۔ ’’بات دراصل لاشوں کو حاصل کرنے، ان کی شناخت کرنے، انہیں صحیح طریقے سے شمشان پہنچانے، پھر آخری رسومات ادا کرتے وقت پروٹوکال پر عمل کرنے کی ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
’’آخری رسومات کو سازوسامان (لاجسٹکس) تک محدود کر دیا گیا ہے۔ آپ کے پاس ماتم کرنے کا وقت نہیں ہے۔ آپ کے پاس اظہار غم کا وقت نہیں ہے۔ آپ کے رشتہ دار کی لاشیں جیسے ہی جلنے لگتی ہیں، آپ کو ششمان خالی کرنے کے لیے کہہ دیا جاتا ہے کیوں کہ اس کے بعد دوسری لاشوں کی باری ہے۔‘‘
اروند کی والدہ، ۶۷ سالہ آشا کا انتقال ۱۶ اپریل کو ہوا تھا۔ اگلے دن اُن کے والد، ۸۰ سالہ وسنت کا انتقال ہو گیا۔ ہمدردانہ بات یہ رہی کہ شمشان میں کام کرنے والے ملازمین نے ان کے لیے دو چتاؤں کو ایک جگہ کر دیا تھا۔ ’’مجھے اس دن صرف یہی تسلی حاصل ہوئی تھی،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’میرے والدین نے ایک ساتھ زندگی گزاری اور آخری وقت میں انہیں ایک ساتھ لیٹایا گیا۔ ان کی آتما کو شانتی ملی ہوگی۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز