’’یاک کی آبادی گھٹتی جا رہی ہے،‘‘ پدما تھومو بتاتی ہیں۔ گزشتہ ۳۰ برسوں سے یاک (پہاڑی بیل) کی گلہ بانی کرنے والی پدما مزید کہتی ہیں، ’’نچلے پہاڑی علاقوں [تقریباً ۳۰۰۰ میٹر] میں آج کل آپ کو بہت کم یاک دیکھنے کو ملیں گے۔‘‘

پدما کا تعلق زانسکر بلاک کے ابران گاؤں سے ہے۔ وہ ہر سال اپنے ۱۲۰ مویشیوں کے ساتھ لداخ کے اونچے اور سرد پہاڑوں کا سفر کرتی ہیں، جہاں کا درجہ حرارت گر کر منفی ۱۵ ڈگری سیلسیس کے آس پاس پہنچ جاتا ہے۔

یاک ( بوس گروننینس) سرد علاقوں میں رہنے کے عادی ہیں، لیکن درجہ حرارت ۱۳ ڈگری سیلسیس سے زیادہ ہونے پر ان کے لیے زندہ رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔

مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ گزشتہ کچھ دہائیوں میں زانسکر کی وادی کے نچلے علاقوں میں گرمیوں کے دوران اوسط درجہ حرارت ۲۵ ڈگری سے زیادہ ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ ۳۲ ڈگری سیلسیس تک پہنچ جاتا ہے۔ ’’سردیوں اور گرمیوں کے موسم میں یہاں کے درجہ حرارت میں کافی اتار چڑھاؤ دیکھا گیا ہے،‘‘ وادی کے ایک ڈرائیور تینزن این بتاتے ہیں۔

یاک کی آبادی پر اس غیر معمولی گرمی کا گہرا اثر پڑا ہے۔ اس کی وجہ سے جموں و کشمیر میں ۲۰۱۲ سے ۲۰۱۹ کے درمیان، یاک کی آبادی گھٹ کر آدھی رہ گئی ہے ( مویشیوں کی ۲۰ویں گنتی

Padma Thumo has been a yak herder for more than 30 years in Abran village in Kargil district of Ladakh
PHOTO • Ritayan Mukherjee

لداخ کے کرگل ضلع میں واقع ابران گاؤں کی رہنے والی پدما تھومو گزشتہ ۳۰ برسوں سے یاک کی گلہ بانی کرتی آ رہی ہیں

چانگ تھانگ سطح مرتفع کے برعکس جہاں یاک کے چرواہوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، زانسکر کی وادی میں ایسے چرواہے بہت کم ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ زانسکرپا کے نام سے معروف ان چرواہوں کی تعداد بھی گھٹتی جا رہی ہے۔ لداخ کے کرگل ضلع میں اب صرف ابران، آکشو اور چاہ گاؤوں کے کچھ کنبے ہی یاک پالنے کا کام کرتے ہیں۔

نورفل بھی پہلے مویشی چرایا کرتے تھے، لیکن ۲۰۱۷ میں انہوں نے اپنے سارے یاک بیچ دیے اور ابران گاؤں میں ایک موسمی دکان کھول لی۔ ان کی دکان مئی سے اکتوبر تک کھلتی ہے، جہاں وہ چائے، بسکٹ، ڈبہ بند کھانے، کیروسین، برتن، مسالے، خوردنی تیل، خشک گوشت وغیرہ بچیتے ہیں۔ وہ اپنے پرانے کام کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مویشی پالنا محنت طلب کام ہے اور اس میں کوئی منافع بھی نہیں ہے۔ ’’میرے پاس بھی یاک ہوا کرتے تھے، لیکن اب میں گائے پالتا ہوں۔ میری زیادہ تر کمائی موسمی دکان سے ہوتی ہے۔ کبھی کبھی میں ایک مہینہ میں ۳ سے ۴ ہزار روپے تک کما لیتا ہوں، جو کہ یاک کی گلہ بانی سے ہونے والی کمائی سے قدرے بہتر ہے۔‘‘

سونم موتُپ اور تسیرنگ آنگمو بھی ابران گاؤں کے ہی رہنے والے ہیں، جو کچھ دہائیوں سے یاک کی گلہ بانی کر رہے ہیں اور ان کے پاس تقریباً ۱۲۰ یاک ہیں۔ ’’ہم لوگ ہر سال گرمیوں کے موسم میں [مئی سے اکتوبر تک] وادی سے اوپر کی طرف [جہاں موسم سرد ہوتا ہے] جاتے ہیں اور چار پانچ مہینے دوکسا میں رہتے ہیں،‘‘ تسیرنگ بتاتی ہیں۔

دوکسا اُس بستی کو کہتے ہیں جہاں گرمیوں کے دوران نقل مکانی کرنے والے کنبوں کی رہائش کے لیے کئی کمرے اور بعض دفعہ ایک باورچی خانہ بھی بنا ہوتا ہے۔ آس پاس دستیاب گیلی مٹی اور پتھروں سے بنے ان گھروں کو گوٹھ اور مانی بھی کہا جاتا ہے۔ ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والے چرواہے دوکسا میں عموماً ساتھ ہی رہتے ہیں اور ان کے اہل خانہ باری باری سے مویشی چرانے جاتے ہیں۔ ’’میں مویشیوں کو چراتا ہوں اور ان کا خیال رکھتا ہوں۔ یہاں پر زندگی کافی مصروف ہے،‘‘ سونم کہتے ہیں۔

ان مہینوں میں سونم اور تسیرنگ کے دن کی شروعات علی الصبح ۳ بجے ہوتی ہے، جب وہ چُرپی (مقامی پنیر) بناتے ہیں، جسے وہ بیچتے ہیں۔ ’’طلوع آفتاب کے بعد، ہم ریوڑ کو چرانے لے جاتے ہیں اور دوپہر کو آرام کرتے ہیں،‘‘ ۶۹ سالہ سونم بتاتے ہیں۔

Sonam Motup knitting with yak wool in his doksa (settlement) during some free time in the afternoon.
PHOTO • Ritayan Mukherjee
Sonam and Tsering have been married for more than 40 years
PHOTO • Ritayan Mukherjee

بائیں: سونم موتُپ دوپہر میں خالی وقت کے دوران اپنے دوکسا میں یاک کے اون سے بُنائی کر رہے ہیں۔ دائیں: سونم اور تسیرنگ کی شادی کو ۴۰ سال سے زیادہ ہو چکے ہیں

Tsering Angmo in her kitchen.
PHOTO • Ritayan Mukherjee
Tsering Angmo's husband, Sonam cooking the milk he collected the day before
PHOTO • Ritayan Mukherjee

تسیرنگ آنگمو (بائیں) دوکسا کے باورچی خانہ میں بیٹھی ہیں، جب کہ ان کے شوہر سونم پچھلے دن جمع کیا گیا دودھ پکا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ تھکا دینے والا کام ہے

’’یہاں [زانسکر کی وادی] کے زیادہ تر چرواہے مادہ دزومو پر منحصر ہیں،‘‘ تسیرنگ کہتی ہیں۔ نر دزو اور مادہ دزومو یاک اور کوٹ کے درمیان کراس بریڈنگ (افزائش نسل کے لیے نر اور مادہ جانور کا آپس میں میل) سے پیدا ہونے والی نسل ہے۔ دزو تمام قسم کے جراثیم سے پاک ہوتے ہیں۔ ’’ہم نر یاک کو یہاں صرف افزائش نسل کے لیے رکھتے ہیں۔ دزومو سے ہمیں دودھ ملتا ہے، جس سے ہم گھی اور چُرپی بناتے ہیں،‘‘ ۶۵ سالہ تسیرنگ بتاتی ہیں۔

میاں بیوی کا کہنا ہے کہ اس کام سے دس سال پہلے اُن کی جتنی آمدنی ہوتی تھی، اب وہ گھٹ کر صرف ایک تہائی رہ گئی ہے۔ ان کے جیسے دوسرے گلہ بانوں کو بھی اس کام کو جاری رکھنے میں دقتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اگست ۲۰۲۳ میں جب پاری نے ان سے ملاقات کی تھی، تو وہ سردی کے مہینوں میں مویشیوں کے لیے مناسب مقدار میں چارے کی دستیابی کو لے کر فکرمند تھے۔ چارے کا انحصار پانی کی فراہمی پر ہے، لیکن برفباری اب بہت کم ہوتی ہے اور کئی گلیشیئر بھی پگھل چکے ہیں – جو کہ اس اونچے علاقے میں پانی کا واحد ذریعہ ہیں۔ اس کی وجہ سے لداخ میں کاشتکاری پر بہت برا اثر پڑا ہے۔

حالانکہ، ابران گاؤں پر ابھی تک زیادہ اثر نہیں پڑا ہے، پھر بھی سونم کافی فکرمند ہیں – ’’میں ہمیشہ یہی سوچتا رہتا ہوں کہ اگر موسم ایسے ہی بدلتا رہا اور پینے کے لیے زیادہ پانی اور میرے مویشیوں کے کھانے کے لیے گھاس نہیں بچی، تب کیا ہوگا۔‘‘

سونم اور تسیرنگ کے پانچ بچے ہیں – جن کی عمر ۲۰ سے ۳۰ سال کے درمیان ہے – لیکن ان میں سے کسی نے بھی اپنے آبائی پیشہ کو نہیں اپنایا ہے، بلکہ سبھی دہاڑی مزدوری کرتے ہیں۔

’’نوجوان نسل روایتی پیشہ کو جاری رکھنے کی بجائے شہروں کی طرف بھاگ رہی ہے؛ ان میں سے زیادہ تر نوجوان بارڈر روڈز آرگنائزیشن کے لیے بطور ڈرائیور اور مزدور کام کرنا چاہتے ہیں،‘‘ سونم کہتے ہیں۔

پدما تھومو بھی ان کی اس بات سے اتفاق کرتی ہیں۔ ’’یہ کام [یاک کی گلہ بانی] اب پائیدار نہیں رہ گیا ہے۔‘‘

Unlike Changthang plateau where there are a large number of yak pastoralists, there are relatively few of them in the Zanskar valley
PHOTO • Ritayan Mukherjee

چانگ تھانگ سطح مرتفع کے برعکس جہاں یاک کے چرواہوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، زانسکر کی وادی میں ایسے چرواہے بہت کم ہیں


The pastoralists stay in a doksa when they migrate up the valley in summers. Also, known as goth and mani , they are built using mud and stones found around
PHOTO • Ritayan Mukherjee

گرمیوں کے دوران اونچے پہاڑی علاقوں میں نقل مکانی کرنے والے چرواہے دوکسا میں رہتے ہیں۔ ارد گرد آسانی سے دستیاب گیلی مٹی اور پتھروں سے بنے ان گھروں کو گوٹھ اور مانی بھی کہا جاتا ہے


The 69-year-old Sonam Motup from Abran village has been tending to approximately 120 yaks for a few decades now
PHOTO • Ritayan Mukherjee

ابران گاؤں کے رہنے والے ۶۹ سالہ سونم موتُپ گزشتہ چند دہائیوں سے تقریباً ۱۲۰ یاک پال رہے ہیں


Sonam Motup taking his herd of animals through a steep climb in search of grazing ground
PHOTO • Ritayan Mukherjee

چراگاہ کی تلاش میں اپنے مویشیوں کو ایک کھڑی چڑھائی کی طرف لے جاتے ہوئے سونم موتُپ


Yaks and dzomo calves grazing at a high altitude grassland
PHOTO • Ritayan Mukherjee

اونچے پہاڑی علاقے کی ایک چراگاہ میں گھاس چرتے ہوئے یاک اور دزومو کے بچھڑے


Locals say that there is a large variation in temperatures, with unusually hot summers. This has affected the yak population which has halved in the last ten years
PHOTO • Ritayan Mukherjee

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں کے درجہ حرارت میں کافی اتار چڑھاؤ دیکھنے کو مل رہا ہے، اور گرمیوں کے موسم میں کافی تپش ہوتی ہے۔ یاک کی آبادی پر اس کا بہت گہرا اثر پڑا ہے، جن کی تعداد گھٹ کر اب صرف آدھی رہ گئی ہے


Tashi Dolma, a yak herder with her son and niece, who study in the Chumathang in Leh district
PHOTO • Ritayan Mukherjee

یاک کی گلہ بان تاشی ڈولما اپنے بیٹے اور بھتیجے کے ساتھ، جو لیہہ ضلع کے چوما تھانگ میں پڑھتے ہیں


Tashi Dolma surrounded by a flock of sheep which belong to her family
PHOTO • Ritayan Mukherjee

اپنی فیملی کی بھیڑوں سے گھری ہوئیں تاشی ڈولما


Yak dung is a significant source of fuel for people in Zanskar. It is used as cooking fuel during the winter months
PHOTO • Ritayan Mukherjee

یاک کا گوبر زانسکر کے لوگوں کے لیے ایندھن کا ایک بڑا ذریعہ ہے، جس کی مدد سے وہ سردیوں کے مہینوں میں کھانا پکاتے ہیں

Tsering Angmo returning from collecting yak dung
PHOTO • Ritayan Mukherjee

یاک کا گوبر اکٹھا کرنے کے بعد اپنے گھر کی طرف لوٹ رہیں تسیرنگ آنگمو


Pastoralists here are mostly dependent on dzomos, a female cross between yak and kots. A dzomo gets milked twice a day- morning and evening. The milk is used to make ghee and churpi (a local cheese)
PHOTO • Ritayan Mukherjee

یہاں کے زیادہ تر چرواہے مادہ دزومو پر منحصر ہیں، جو یاک اور کوٹ کے درمیان کراس بریڈنگ سے پیدا ہونے والی نسل ہے۔ دزومو کا دودھ دن میں دو بار – صبح اور شام کو نکالا جاتا ہے۔ اس دودھ کا استعمال گھی اور چُرپی (مقامی پنیر) بنانے میں کیا جاتا ہے


Pastoralists take a short break in the afternoon before they go to milk the yaks and dzomos
PHOTO • Ritayan Mukherjee

چرواہے یاک اور دزومو کا دودھ نکالنے سے پہلے دوپہر کو تھوڑی دیر آرام کرتے ہیں


Fresh milk being boiled to make churpi , a local cheese made out of fermented yak milk
PHOTO • Ritayan Mukherjee

چُرپی بنانے کے لیے دودھ کو اُبالا جا رہا ہے۔ یہ ایک مقامی پنیر ہے، جو یاک کے خمیر شدہ دودھ سے بنتا ہے


Women churn the milk to make ghee and churpi , which they then sell
PHOTO • Ritayan Mukherjee

عورتیں دودھ بلوتی ہیں، اور اس سے گھی اور پنیر بنا کر اسے بیچتی ہیں


The pastoralists migrate back to their villages with their animals during winters. The family load the mini truck with dry yak dung to take back and use during winter
PHOTO • Ritayan Mukherjee

سردیوں کے دوران یہ چرواہے اپنے مویشیوں کے ساتھ گاؤں لوٹ جاتے ہیں۔ فیملی کے لوگ یاک کا سوکھا ہوا گوبر چھوٹے ٹرک پر لاد کر اپنے گھر لے جاتے ہیں اور سردیوں میں اسے استعمال کرتے ہیں


Padma Thumo says the population of yaks in the Zanskar valley is decreasing: 'very few yaks can be seen in the lower plateau [around 3,000 metres] nowadays'
PHOTO • Ritayan Mukherjee

پدما تھوما بتاتی ہیں کہ زانسکر کی وادی میں یاک کی آبادی گھٹتی جا رہی ہے: ’نچلے پہاڑی علاقوں [تقریباً ۳۰۰۰ میٹر] میں آج کل آپ کو بہت کم یاک دیکھنے کو ملیں گے‘


مترجم: محمد قمر تبریز

Ritayan Mukherjee

Ritayan Mukherjee is a Kolkata-based photographer and a PARI Senior Fellow. He is working on a long-term project that documents the lives of pastoral and nomadic communities in India.

Other stories by Ritayan Mukherjee
Editor : Sanviti Iyer

Sanviti Iyer is Assistant Editor at the People's Archive of Rural India. She also works with students to help them document and report issues on rural India.

Other stories by Sanviti Iyer
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique