’’یہ پورا کام ایک دھاگے سے شروع ہو کر ایک ہی دھاگے سے ختم ہوتا ہے،‘‘ ایک پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ ریکھا بین واگھیلا کہتی ہیں۔ وہ گجرات کے موٹا ٹمبلا گاؤں کے اپنے گھر میں ہتھ کرگھے (ہینڈ لوم) پر بیٹھیں اکہرے اِکت والا پٹولو بُننے میں مصروف ہیں۔ ’’شروع میں ہم اٹیرن میں دھاگہ لپیٹتے ہیں اور آخر میں رنگے گئے دھاگے کو اٹیرن پر منتقل کرتے ہیں،‘‘ اٹیرن پر بھرنی کے لیے دھاگہ کو لپیٹنے سے پہلے پٹولا بُننے کی دوسری تیاریوں کے بارے میں سمجھاتی ہوئی ریکھا بین کہتی ہیں۔ اس درمیان کرگھے پر تانا کے دھاگے تیار کر دیے گئے ہیں۔

سریندر نگر کے اس گاؤں کے اس ونکر واس میں، جس میں وہ رہتی ہیں، زیادہ تر لوگ کسی نہ کسی ایسے کام سے جڑے ہیں جس کا تعلق ریشم کی ان مشہور ساڑیوں سے ہے، جسے ہم پٹولا کے نام سے جانتے ہیں۔ لیکن چالیس کے آس پاس کی ریکھا بین لِمبڈی تعلقہ کی ایسی واحد دلت خاتون ہیں جو اکہرے اور دوہرے اِکت کا پٹولا بناتی ہیں۔ (پڑھیں: ریکھا بین کی زندگی کا تانا بانا )

سریندر نگر میں بُنا گیا پٹولا ’جھالا واڑی‘ پٹولا کے نام سے جانا جاتا ہے، جو عموماً پاٹن میں بنے پٹولے سے سستا ہوتا ہے۔ بنیادی طور پر اکہرے اِکت والا پٹولا بُننے کے لیے مشہور جھالاواڑ کے یہ وَنکر (بُنکر) اب دوہرے اِکت والا پٹولا بھی بناتے ہیں۔ ’’اکہرے اِکت میں ڈیزائن صرف بھرنی [بانا] پر بنا ہوتا ہے۔ دوہرے اِکت میں ڈیزائن تانا اور بھرنی دونوں میں ہوتا ہے،‘‘ ریکھا بین پٹولا کی دونوں قسموں کا فرق سمجھاتی ہوئی بتاتی ہیں۔

ڈیزائن سے ہی پورا عمل پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ ریکھا بین اس بات کو ایک بار مزید واضح کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ’’اکہرے اِکت والے پٹولو میں تانا کے ۳۵۰۰ اور بھرنی کے ۱۳۷۵۰ دھاگے ہوتے ہیں، جب کہ دوہرے اکت والے پٹولو میں تانا کے ۲۲۲۰ اور بھرنی کے ۹۸۷۰ دھاگے ہوتے ہیں،‘‘ وہ شٹل میں تانا لپٹے اٹیرن کو سرکاتی ہوئی کہتی ہیں۔

'It all begins with a single thread and ends with a single thread,' says Rekha Ben Vaghela, the only Dalit woman patola maker in Limbdi taluka of Gujarat. She is explaining the process that begins with the hank of silk yarn and finishes with the last thread going into the 252- inch long patola saree. Work involving over six months of labour
PHOTO • Umesh Solanki

’یہ پورا کام ایک دھاگے سے شروع ہو کر ایک ہی دھاگے سے ختم ہوتا ہے،‘ ریکھا بین واگھیلا کہتی ہیں۔ وہ گجرات کے لمبڈی تعلقہ میں پٹولا بنانے والی واحد دلت خاتون ہیں۔ وہ پورے عمل کے بارے میں سمجھا رہی ہیں جو ریشم کے دھاگے کو اٹیرنے سے شروع ہوتا ہے اور ۲۵۲ انچ لمبی پٹولا ساڑی میں آخری دھاگہ کو ڈالنے کے ساتھ ختم ہوتا ہے۔ ایک پٹولا ساڑی بُننے میں چھ مہینے سے زیادہ کا وقت لگتا ہے

اٹیرن پر نگاہ پڑنے پر میری آنکھوں کے سامنے ۵۵ سالہ گنگا بین پرمار کی تصویر گھومنے لگتی ہے۔ ’’ہم پہلے لکڑی کی بنی ایک بڑی پھرکی پر دھاگے کو اٹیرتے ہیں، پھر وہاں سے دھاگے کو اسپننگ وہیل کی مدد سے اٹیرن پر لے جایا جاتا ہے۔ آپ اٹیرن کو چرخی کے بغیر نہیں لپیٹ سکتے ہیں،‘‘ لمبڈی کے گھاگھریٹیا گاؤں میں واقع اپنے گھر میں ایک چرخی پر کام کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا۔

’’آپ کہاں کھو گئے؟‘‘ ریکھا بین کی آواز سن کر میں واپس پٹولا کے دھاگوں کی پیچیدہ بات چیت پر لوٹ آتا ہوں، جسے وہ مجھے اُس دن پہلے بھی کئی بار سمجھا چکی ہیں۔ ’’لکھئے،‘‘ میری نوٹ بک پر اپنی نظر گڑائے وہ مجھے ہدایت دیتی ہیں۔ کچھ لمحہ کے لیے وہ بُنائی بند کر دیتی ہیں۔ شاید وہ مطمئن ہونا چاہتی ہیں کہ میں پورے عمل کو ٹھیک طریقے سے سمجھ رہا ہوں کہ نہیں۔

میں پورے عمل کو سلسلہ وار لکھتا جاتا ہوں۔ یہ باریک کاریگری کا کام ہے جس میں ایک درجن سے بھی زیادہ قسم کے طریقے شامل ہوتے ہیں، اور پورے عمل کو مکمل ہونے میں ایک ہفتہ سے زیادہ کا وقت لگ جاتا ہے۔ اسے بُننے میں مرکزی بُنکر کے علاوہ کئی دوسرے بُنکر بھی مدد کرتے ہیں۔ پورے عمل کی شروعات ریشم کے دھاگے کو اٹیرنے سے ہوتی ہے اور اس کا خاتمہ ۲۵۲ انچ لمبی پٹولا ساڑی میں آخری دھاگہ ڈالنے کے ساتھ ہوتا ہے۔ اسے تیار کرنے میں چھ مہینے کی محنت لگ سکتی ہے۔

’’کسی بھی مرحلہ میں ہوئی ایک غلطی پورے پٹولو کو خراب کر دینے کے لیے کافی ہے،‘‘ وہ پختہ لہجے میں بتاتی ہیں۔

Fifty-five-year-old Gangaben Parmar of Ghaghretia village takes the silk thread from the hank onto a big wooden spool, and from there with the help of a spinning wheel she carries the thread onto a bobbin. 'I have been working for thirty years. I have some difficulty in vision these days. But if I sit here all day long I can wind 20 or 25 bobbins in a day'
PHOTO • Umesh Solanki

گھاگھریٹیا گاؤں کی ۵۵ سالہ گنگا بین پرمار اٹیرن سے ریشم کے دھاگوں کو لکڑی کی ایک بڑی پھرکی پر لے جاتی ہیں، اور وہاں سے ایک چرخی کی مدد سے وہ دھاگے کو اٹیرن تک لے جاتی ہیں۔ ’میں تیس سالوں سے اس کام میں ہوں، میری نظریں بھی اب تھوڑی کمزور ہونے لگی ہیں۔ اس کے بعد بھی میں دن بھر یہیں بیٹھی رہتی ہوں۔ میں ایک دن میں ۲۰ سے ۲۵ اٹیرن میں دھاگے لپیٹ سکتی ہوں‘

Gautam Bhai Vaghela of Mota Timbla stretches the yarn threads from the bobbins on the big wooden frame with pegs known as aada as a way to prepare the paati (the cluster of threads) for the next step
PHOTO • Umesh Solanki

موٹا ٹمبلا کے گوتم بھائی واگھیلا اٹیرن سے دھاگے کو کھونٹے (جسے آڈا بھی کہا جاتا ہے) کی مدد سے لکڑی کے بڑے فریم تک پھیلاتے ہیں، تاکہ آگے کے کام کے لیے پاٹی (دھاگوں کا لچھا) تیار کیا جا سکے

PHOTO • Umesh Solanki

ڈیزائن بنانے سے پہلے ریشم کے دھاگوں کا لچھا بنانے کے لیے انہیں آڈا کے آر پار پھیلایا جاتا ہے

PHOTO • Umesh Solanki

نانا ٹمبلا گاؤں کے اشوک پرمار (۳۰) الگ کیے گئے دھاگوں کے لچھوں کو دوسرے فریم پر منتقل کرتے ہوئے، جہاں ان پر پہلے چارکول سے نشان لگایا جائے گا اور پھر بنیادی طور پر کاغذ پر بنائے گئے ایک ڈیزائن کے مطابق باندھا جائے گا

PHOTO • Umesh Solanki

کٹاریا گاؤں کے کشور منجی بھائی گوہل (۳۶) فریم پر پھیلائے گئے دھاگوں پر گانٹھ باندھ رہے ہیں۔ اس عمل میں ریشم کے دھاگوں کے لچھوں کو ایک سوتی رسی سے باندھ دیا جاتا ہے۔ اسے ریزسٹ ڈائنگ (مزاحمتی رنگائی) تکنیک کہتے ہیں، جو پٹولا بنانے میں استعمال ہوتی ہے۔ گانٹھیں یہ یقینی بناتی ہیں کہ رنگائی کے عمل کے دوران رنگ دھاگے کے بندھے ہوئے حصہ کے اندر نہ پہنچنے پائے اور سوکھنے کے بعد ڈیزائن کے طور پر دکھائی دے

PHOTO • Umesh Solanki

پہلے سے رنگے جا چکے دھاگے کے بندھے ہوئے لچھوں کو دوسری بار رنگائی کے لیے لے جاتے ہوئے مہندر واگھیلا (۲۵)۔ پٹولا کی بُنائی کے دوران دھاگوں کی رنگائی، بندھائی اور خشک کرنے کا یہ عمل کئی بار دہرایا جاتا ہے۔ پورا عمل ڈیزائن اور پٹولو میں استعمال کیے گئے رنگوں پر منحصر ہوتا ہے

PHOTO • Umesh Solanki

مہندر واگھیلا پہلے سے بندھے اور رنگے دھاگے کو ہائیڈرو ملا کر ابالے گئے پانی میں دوبارہ بھگوتے ہیں۔ ’جب پہلے سے رنگے جا چکے دھاگے پر ایک نیا رنگ چڑھانا ہوتا ہے، تو آپ کو پچھلے رنگ کو ہٹانا یا پھیکا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے لیے دھاگے کے لچھوں کو ہائیڈرو [سوڈیم ہائیڈرو سلفائٹ] ملا کر ابالے گئے پانی میں بھگونا پڑتا ہے،‘ ریکھا بین بتاتی ہیں

PHOTO • Umesh Solanki

’رنگنے کے وقت آپ کو اتنا احتیاط برتنا پڑتا ہے کہ رنگ گانٹھوں کے اندر داخل نہ ہونے پائے،‘ بھاپ اٹھتی ہوئی بالٹی میں رنگ کی دوسری پرت چڑھانے کے لیے دھاگے کو ڈبوتے ہوئے مہندر واگھیلا کہتے ہیں۔ ’ایک کاریگر اپنے تجربات سے یہ خود ہی سمجھنے لگتا ہے کہ رنگ کب گانٹھ کے اندر داخل ہو سکتا ہے، کب اسے محلول کو ملانا ہے اور دھاگے کو اس بنیاد پر کتنی دیر تک پانی میں ڈبو کر رکھنا ہے،‘ وہ کہتے ہیں

PHOTO • Umesh Solanki

مہندر رنگے گئے دھاگوں کو ٹھنڈے پانی میں ڈبو کر دھوتے ہیں۔ ’پٹولو کے ایک ریشم کے دھاگے میں کئی رنگ ہو سکتے ہیں اور انہیں رنگوں کی مجموعی چمک کے سبب ہی ڈیزائن خوبصورت دکھائی دیتے ہیں۔ رنگوں کا میل صحیح ہونا ضروری ہے۔ اسے دلکش ہونا چاہیے،‘ ’بٰنکر وکرم بھائی پرمار کہتے ہیں

PHOTO • Umesh Solanki

رنگین دھاگوں کو دوبارہ رنگے جانے کے بعد اسے نچوڑا اور خشک کیا جاتا ہے۔ کٹاریا گاؤں کے جگدیش رگھو بھائی گوہل رنگے ہوئے دھاگوں کو ایک لکڑی کے چھوٹے سے فریم پر پھر سے لے جاتے ہیں اور سوتی رسی کو ہٹانے کے بعد گانٹھوں کو کھول دیتے ہیں

PHOTO • Umesh Solanki

موٹا ٹمبلا گاؤں کی ۷۵ سالہ والی بین واگھیلا ایک چھوٹی سوئی کی مدد سے گانٹھوں کو کھول رہی ہیں۔ ایک پٹولو تیار کرنے میں بندھائی، رنگائی، سُکھائی اور گانٹھوں کو کھولنے کا کام کتنی بار دہرایا جائے گا، یہ ڈیزائن کی باریکی پر منحصر ہے

PHOTO • Umesh Solanki

جسو بین واگھیلا ڈیزائن تیار ہونے کے بعد بھرنی کے دھاگوں کو لکڑی کی بڑی چرخی میں لپیٹ رہی ہیں

PHOTO • Umesh Solanki

کٹاریا گاؤں کی ۵۸ سالہ شانتو بین رگھو بھائی گوہل تیار بھرنی کے دھاگوں کو لکڑی کی ایک بڑی چرخی میں لپیٹ رہی ہیں

PHOTO • Umesh Solanki

کٹاریا کی ہیرا بین گوہل (۵۶) پھرکی سے رنگے دھاگوں کو ہٹا کر اٹیرن میں لپیٹ رہی ہیں۔ تیار اٹیرن کو پٹولا بُننے کے وقت ایک شٹل میں فٹ کر دیا جائے گا

PHOTO • Umesh Solanki

موٹا ٹمبلا کے بُنکر رنگے جانے کے بعد دھاگوں کو پھیلا رہے ہیں۔ دوہرے اِکت والے پٹولا میں تانا اور بھرنی دونوں رنگا ہوتا ہے، اور ڈیزائن بنے ہوتے ہیں۔ اس لیے، جب دھاگے ڈیزائن کے ساتھ تیار کیے جاتے ہیں، تو انہیں گلی کے اُس پار گڑے دو کھمبوں میں لپیٹ کر سُکھایا جاتا ہے

PHOTO • Umesh Solanki

موٹا ٹمبلا کے بُنکر دھاگوں کو مضبوطی دینے کے لیے لپیٹنے کے بعد اُن پر اسٹارچ ڈالتے ہوئے

PHOTO • Umesh Solanki

موٹا ٹمبلا کے وسرام بھائی سولنکی اسٹارچ ڈالے گئے نئے دھاگوں کے سروں کو کرگھے کے تار سے گزرتے پرانے دھاگوں سے جوڑتے ہیں۔ ’ریشم کے دھاگوں کو جوڑنے کے لیے راکھ کا استعمال کیا جاتا ہے،‘ وہ بتاتے ہیں

PHOTO • Umesh Solanki

پونجا بھائی واگھیلا تانا کے دھاگوں سے کرگھے کو صاف کر کے بڑے بیم میں لپٹے رنگین دھاگوں کو کرگھے میں لگا رہے ہیں

PHOTO • Umesh Solanki

کٹاریا گاؤں کے پروین بھائی گوہل (۵۰) اور پریملا بین گوہل (۴۵) اکہرا پٹولا بُنتے ہوئے۔ ساگوان کے بنے ایک کرگھے کی قیمت ۳۵ سے ۴۰ ہزار تک ہو سکتی ہے اور زیادہ تر بُنکر اسے خریدنے کا خرچ برداشت نہیں کر پاتے ہیں

PHOTO • Umesh Solanki

دانا بھائی دُلیرا اُن ابتدائی بُنکروں میں سے ہیں جو پٹولا بُننے کے ہنر کو کٹاریا کی دلت برادری کے درمیان لے کر آئے

PHOTO • Umesh Solanki

اکہرے اِکت والا پٹولو بُنتے اشوک واگھیلا

PHOTO • Umesh Solanki

موٹا ٹمبلا کے رہائشی بھاویش کمار سولنکی دوہرے اکت والی پٹولا ساڑی تیار کر رہے ہیں

PHOTO • Umesh Solanki

دوہرے اِکت میں تانا اور بھرنی – دونوں میں ڈیزائن بنا ہوتا ہے، جب کہ اکہرے اکت والے پٹولا میں صرف بھرنی کے دھاگوں میں ڈیزائن ہوتا ہے

PHOTO • Umesh Solanki

پٹولا ہاتھ سے بُنا ریشم کا کپڑا (عموماً ساڑی) ہوتا ہے، اور اپنی باریک اور دوہرے اکت والی خوبصورت بُنائی کے لیے جانا جاتا ہے۔ پٹولا پوری دنیا میں مشہور ہے

مترجم: قمر صدیقی

Umesh Solanki

Umesh Solanki is an Ahmedabad-based photographer, reporter, documentary filmmaker, novelist and poet. He has three published collections of poetry, one novel-in-verse, a novel and a collection of creative non-fiction to his credit.

Other stories by Umesh Solanki
Editor : Pratishtha Pandya

Pratishtha Pandya is a Senior Editor at PARI where she leads PARI's creative writing section. She is also a member of the PARIBhasha team and translates and edits stories in Gujarati. Pratishtha is a published poet working in Gujarati and English.

Other stories by Pratishtha Pandya
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique