’’وہ رہا غورال!‘‘ اروناچل پردیش کے مغربی کمینگ ضلع کے ایک قصبہ سِنگچِنگ کی پیچ دار سڑکوں پر خاموشی کے ساتھ ڈرائیو کرتے ہوئے ڈاکٹر امیش سری نواسن اچانک چیخ پڑتے ہیں۔

کچھ فاصلہ پر ایک چھوٹا لیکن فربہ اور بھورے رنگ کا بکرے جیسا جانور قلانچیں مارتا ہوا سڑک عبور کرکے پہاڑی کے نیچے، مشرقی ہمالیہ کے جنگلوں میں داخل ہو جاتا ہے۔

’’آپ نے پہلے کبھی اسے نہیں دیکھا ہو گا،‘‘ مغربی کمینگ کے جنگلات میں ۱۳ سالوں سے کام کر رہے جنگلی حیات کے ماہر حیاتیات حیرت زدہ ہو کر کہتے ہیں۔

بھورا غورال (نیمورہیڈس غورال) بھوٹان، چین، شمالی ہندوستان، نیپال اور پاکستان کے ہمالیائی خطے میں پائی جانے والی ایک بووِڈ (جُگالی کرنے والی) نوع ہے۔ لیکن ۲۰۰۸ تک بین الاقوامی اتحاد برائے تحفظ فطرت (آئی یو سی این) نے مسکن کے نقصان اور شکار کی وجہ سے اسے ’’خطرے کے نزدیک‘‘ کے طور پر درج کیا تھا۔

’’وہ ہمیشہ جنگلوں میں کافی اندر رہتے تھے اور باہر آنے سے ڈرتے تھے،‘‘ اُمیش اس نوع کے بارے میں بات کرتے ہیں جو خاص طور پر زیریں ہمالیہ اور شمال مشرقی ہندوستان میں پائے جاتے ہیں اور جہاں انسانوں کی زیادہ موجودگی کی وجہ سے خطرے میں ہیں۔

غورال دیکھنے کے فوراً بعد سنگچنگ کے ایک کسان نیما تسیرنگ مونپا نے ہمیں چائے پیش کی اور ایک اور جانور کے نظارے سے متعلق کچھ معلومات فراہم کیں، ’’چند ہفتے قبل میں نے کھیتوں میں ایک سرخ پانڈا (ٓایلورس فلگینز) دیکھا تھا، جو یہاں سے بہت دور نہیں تھا۔‘‘ سرخ پانڈا ایک زیر خطر نوع ہے جو چین، میانمار، بھوٹان، نیپال اور ہندوستان میں پایا جاتا ہے اور پچھلی تین نسلوں کے دوران اس کی آبادی میں ۵۰ فیصد کی کمی آئی ہے اور آئی یو سی این نے خبردار کیا ہے کہ آئندہ دو دہائیوں میں حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔

Inside the Singchung Bugun Village Community Reserve(SBVCR) in West Kameng, Arunachal Pradesh.
PHOTO • Binaifer Bharucha
Gorals are listed as Near Threatened by the IUCN due to habitat loss and hunting
PHOTO • A. J. T. Johnsingh

بائیں: مغربی کمینگ، اروناچل پردیش میں سنگچنگ بوگون ولیج کمیونٹی ریزرو (ایس ی وی سی آر) کے اندر۔ دائیں: مسکن کے نقصان اور شکار کی وجہ سے آئی یو سی این نے غورالوں کو خطرے کے نزدیک نوع کے طور پر درج کیا ہے

Singchung is a town in West Kameng district of Arunachal Pradesh, home to the Bugun tribe.
PHOTO • Vishaka George
The critically endangered Bugun Liocichla bird inhabits the 17 sq. km SBVCR forest reserve adjacent to Singchung town
PHOTO • Binaifer Bharucha

سنگچنگ (بائیں) اروناچل پردیش کے مغربی کمینگ ضلع کا ایک قصبہ ہے، جو بوگون قبیلے کا مسکن ہے۔ دائیں: سنگین خطرے سے دوچار بوگون لیوچیکلا پرندہ سنگچنگ قصبے سے ملحقہ ۱۷ مربع کلومیٹر میں پھیلے ایس بی وی سی آر فاریسٹ ریزرو میں پایا جاتا ہے

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ سنگچنگ کے قریب جنگلی جانوروں کا دکھائی دینا محض اتفاق نہیں ہے۔ ان کا خیال ہے کہ یہ تحفظ کی ایک پائیدار کوشش کا نتیجہ ہے، جو ۲۰۱۷ میں شروع ہوئی تھی جب اروناچل کے محکمہ جنگلات نے یہاں کی بوگون قبائلی برادری کے ساتھ اشتراک کیا تھا، تاکہ پہلے غیر درجہ بند کمیونٹی جنگلات کو جوڑ کر سنگچنگ بوگون ولیج کمیونٹی ریزرو (ایس بی وی سی آر) بنایا جا سکے۔

اس کمیونٹی فاریسٹ ریزرو کی کہانی دنیا میں سب سے زیادہ بقا کے خطرے سے دوچار پرندوں میں سے ایک بوگون (لیوچیکلا بوگونورم) کی دریافت کے ساتھ شروع ہوتی ہے؛ یہ پرندہ سنگچنگ کے آس پاس کے جنگلات کے ایک چھوٹے سے دائرے میں ہی پایا جاتا ہے۔

شاذ و نادر ہی نظر آنے والے اس زیتونی سبز رنگ کے پرندے کا سر سیاہ ہوتا ہے، بھنویں چمکدار پیلے رنگ کی ہوتی ہیں اور پر سرخ نوک دار ہوتے ہیں۔ سال ۲۰۰۶ میں ایک باضابطہ نوع کے طور پر درج کیے گئے اس پرندے کا نام اس بوگون قبائلی برادری کے نام پر رکھا گیا تھا، جن کے ساتھ یہ جنگلات میں رہتے ہیں۔

ٹراپیکی کوہی جنگلات کی فریم شدہ تصاویر سے گھری سنگچنگ میں اپنے کمرے میں بیٹھی شلینا پھنیا کہتی ہیں، ’’پوری دنیا کے لوگ اس پرندے کے بارے میں جانتے تھے۔‘‘

پھنیا کہتی ہیں کہ پانچ سال پہلےانہیں بوگون لیوچیکلا کے وجود کا کوئی علم نہیں تھا، لیکن آج یہ ۲۴ سالہ خاتون سنگچنگ بوگون ولیج کمیونٹی ریزرو (ایس بی وی سی آر) میں پہلی خاتون گشتی افسر اور فلم ساز ہیں جو مشرقی ہمالیہ کی ان جنگلات کی دستاویز سازی کرتی ہیں۔

بوگون لیوچیکلا کے نایاب نظارے کی یہ ویڈیو دیکھیں

نایاب نوع کے پرندوں کو دیکھے جانے میں اضافہ تحفظ کی مسلسل کوششوں کا نتیجہ ہے، جس کا آغاز ۲۰۱۷ میں سنگچنگ بوگون ولیج کمیونٹی ریزرو کے قیام کے ساتھ ہوا تھا

اپنی کمیونٹی کو اس پرندے کے ساتھ اپنے تعلق کا احساس دلاتے ہوئے ۱۹۹۶ میں پہلی مرتبہ اسے دیکھنے والے رمنا اتریئا کہتے ہیں، ’’ایس بی وی سی آر کا مقصد اپنی حیاتیاتی تنوع کو محفوظ کرنا ہے۔ ساتھ ہی کمیونٹی اس علاقے کا استعمال کر کے جس طرح کی زندگی چاہتی ہے اسے فروغ دینے میں مدد کرنا ہے۔‘‘

انہوں نے اصرار کیا کہ اس کا نام یہاں آباد بوگونوں کے نام پر رکھا جائے، تاکہ تحفظ کی کوششوں میں کمیونٹی کی شمولیت ہو، اور مقامی لوگ اس چھوٹے پروں والی مخلوق اور اس کی رہائش گاہ (جو اب ایک محفوظ ریزرو ہے) کے ساتھ اپنے تعلق کا احساس کرسکیں۔

اروناچل پردیش کے مغربی کمینگ ضلع میں ایگل نیسٹ وائلڈ لائف سینکچُری کے نشیب میں واقع، ایس بی وی سی آر کو ہندوستان کے وائلڈ لائف پروٹیکشن ایکٹ، ۱۹۷۲ کے تحت قائم کیا گیا ہے۔ اپنے پانچ سالہ وجود میں، ۱۷ مربع کلومیٹر میں پھیلے اس کمیونٹی فاریسٹ ریزرو نے کمیونٹی تحفظ کے نئے معیارات قائم کیے ہیں۔

بوگون برادری سے تعلق رکھنے والی پھنیا جیسے مقامی لوگ ان جنگلات اور ان میں قیام پذیر جنگلی حیات کے تحفظ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کا کام ۱۰ دیگر فاریسٹ افسران کے ساتھ علاقے میں گشت کرنا اور شکاریوں کو دور رکھنا ہے۔

لیکی نوربو بھی ایس بی وی سی آر کے ایک گشتی افسر ہیں، وہ درختوں کی کٹائی، شکار اور جال بچھانے جیسی غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف جنگل کی نگرانی کرتے ہیں۔ ’’پیڑ کاٹنے کا جرمانہ ایک لاکھ روپے  اور شکار کا جرمانہ اس سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے،‘‘ ۳۳ سالہ بوگون قبائلی کہتے ہیں۔

Shaleena Phinya, the first woman patrolling officer at the SBVCR, in her living room in Singchung.
PHOTO • Binaifer Bharucha
Leki Norbu and his family outside his home in Singchung. Behind them are paintings of the Bugun Liochicla (left) and another passerine, the Sultan Tit (right)
PHOTO • Binaifer Bharucha

بائیں: ایس بی وی سی آر کی پہلی خاتون گشتی افسر شلینا پھنیا سنگچنگ میں اپنے کمرے میں۔ دائیں: لیکی نوربو اور ان کا کنبہ سنگچنگ میں اپنے گھر کے باہر۔ ان کی پشت پر بوگون لیوچیکلا (بائیں) اور ایک اور پرندہ سلطان ٹِٹ (دائیں) کی پینٹنگز آویزاں ہیں

Patrolling officers seen here with District Forest Officer Milo Tasser (centre) who played a crucial role in establishing the community forest reserve.
PHOTO • Courtesy: SBVCR
Ramana Athreya, the man who discovered the Bugun Liocichla and named it after the community with whom it shares these forests
PHOTO • Courtesy: Ramana Athreya

بائیں: گشتی افسران یہاں ڈسٹرکٹ فاریسٹ آفیسر میلو تیسر (درمیان میں) کے ساتھ نظر آ رہے ہیں۔ میلو نے کمیونٹی فاریسٹ ریزرو کے قیام میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ دائیں: رمنا اتریئا، وہ شخص ہیں جنہوں نے بوگون لیوچکلا کو دریافت کیا تھا اور اس کا نام اس کمیونٹی کے نام پر رکھا، جس کے ساتھ یہ جنگلات میں رہتے ہیں

کوئی انسانی سرگرمی نہ ہونے کی وجہ سے جانور اندرونی جنگل سے نکل کر چارہ کی تلاش میں ایس بی وی سی آر میں آ جاتے ہیں۔ گور بائیسن (جنگلی بھینس) کو زیر خطر نوع کے طور پر درج کیا گیا ہے، لیکن ایس بی وی سی آر میں، ’’ان کی تعداد بڑھی ہوئی لگتی ہے۔ وہ پہلے بھی آتے تھے، لیکن زیادہ تعداد میں نہیں آتے تھے۔ تنہا ہی آتے تھے،‘‘ لیکی کہتے ہیں۔

دوسرے جانور بھی اپنے جھنڈ میں ہی نظر آتے ہیں۔ سنگچنگ کے رہائشی اور بوگون برادری سے تعلق رکھنے والے ایس بی وی سی آر کمیٹی کے چیئرمین کھانڈو گلو کہتے ہیں، ’’پچھلے ۴-۳ سالوں میں ایس بی وی سی آر میں ڈھولے – یعنی جنگلی کتوں [ کوؤن ایلپینس] – کی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔‘‘

یہ ریزرو سنگچنگ ٹاؤن اور ایگل نیسٹ وائلڈ لائف سینکچُری کے درمیان ایک بفر کا کام کرتا ہے، جو کلاؤڈیڈ تیندوے (جلد پر بادلوں کے پیٹرن والا تیندوا)، مرمریں بلیوں، ایشیائی سنہری بلیوں اور چیتوں سمیت کئی دیگر جنگلی جانوروں سے بھرا ہوا ہے۔ ان جنگلات کو بقا کے خطرے سے دوچار ٹوپی دار لنگور، غورال، سرخ پانڈا، ایشیائی کالا ریچھ اور اروناچل کا زیر خطر مکاک (بندر) اور گور کا بھی مسکن کہا جاتا ہے۔ ایگل نیسٹ بھی کرہ ارض کی واحد جگہوں میں سے ایک ہے جہاں ۳۲۵۰ میٹر کی اونچائی پر ہاتھی پائے جاتے ہیں۔

لیکن یہاں کے پرندے دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ ایگل نیسٹ پرندوں کی ۶۰۰ سے زیادہ انواع کا مسکن ہے، جن میں کچھ نایاب ہیں جیسے ( معدومیت کے خطرے سے دوچار ) سرخ رنگ کے پیٹ والے وارڈ ٹروگن، زیر خطر تیتر نما بلائتھ ٹریگوپَن اور ( زیر خطر ) ریشمی نیلے سرمئی خوبصورت نٹہیچ شامل ہیں۔

اب ایگل نیسٹ کے ساتھ ساتھ سنگچنگ بھی پرندوں میں دلچسپی رکھنے والوں کا ایک مقبول مقام بن گیا ہے۔ معدومیت کے شدید خطرے سے دوچار بوگون لیوچیکلا کی سیٹی جیسی دلکش آواز سننے کے لیے سیاح اس علاقے میں آتے ہیں۔ افزائش نسل کے قابل باقی ماندہ محض ۲۰-۱۴ بالغ  پرندوں کی ایک جھلک دیکھ کر پرندوں میں دلچسپی رکھنے والے لوگ خود کو خوش قسمت محسوس کرتے ہیں۔

The scarlet-bellied Ward's trogon found in Eaglenest, a wildlife sanctuary in the eastern Himalayas
PHOTO • Micah Rai
The large pheasant-like Blyth's Tragopan found in Eaglenest, a wildlife sanctuary in the eastern Himalayas
PHOTO • Micah Rai

سرخ رنگ کے پیٹ والے وارڈ  ٹروگن (بائیں) اور بڑے تیتر نما بلائتھ ٹریگوپَن (دائیں) مشرقی ہمالیہ میں جنگلی حیات کی پناہ گاہ ایگل نیسٹ میں پائے جاتے ہیں

Only between 14-20 breeding Bugun Liocichla adults are estimated to be alive in these forests
PHOTO • Micah Rai
Birders at the SBVCR hoping to catch a glimpse of the bird
PHOTO • Binaifer Bharucha

ان جنگلات (بائیں) میں افزائش نسل کے قابل صرف ۲۰-۱۴ بالغ بوگون لیوچیکلاؤں کے زندہ ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے: ایس بی وی سی آر میں پرندہ دیکھنے والے (دائیں) اس پرندے کی ایک جھلک دیکھنے کی امید میں

بوگون لیوچیکلا عام طور پر جوڑوں یا چھوٹے گروپوں میں پائے جاتے ہیں۔ مشرقی ہمالیہ کے نچلے درجے کے گھنے جنگلات (سطح سمندر سے ۲۳۴۰-۲۰۶۰ میٹر کی بلندی پر واقع) ان کا واحد مسکن ہیں۔

’’ایگل نیسٹ، نمڈافا نیشنل پارک (اروناچل پردیش اور آسام ) میں بہت سے پرندے ہیں، لیکن لیوچیکلا صرف سنگچنگ میں پایا جاتا ہے۔ اگر یہ پرندہ یہاں نہ ہوتا تو لوگ نہ آتے،‘‘ ایک ماحول دوست کیمپنگ سائٹ لاما کیمپ چلانے والے انڈی گلو کہتے ہیں۔ ’’اگر یہ نظر نہ آئیں تو لوگ کئی راتوں تک یہاں ٹھہرتے ہیں،‘‘ گلو مزید کہتے ہیں۔

یہاں آنے والے سیکڑوں سیاحوں کی وجہ سے مقامی کمیونٹی مستفید ہوتی ہے۔ آج، گلو کہتے ہیں، ’’سنگچنگ میں ہر سال ۳۰۰ سے ۴۰۰ کے درمیان سیاح آتے ہیں اور اس تعداد میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔‘‘ سب سے زیادہ سیاح اپریل سے جون کے درمیان، مانسون سے پہلے آتے ہیں۔

اتریئا پیسہ خرچ کرنے والے مہمانوں کی آمد کو کارآمد تصور کرتے ہوئے تنقید کو خارج کرتے ہیں، ’’یہاں پیسے کی ضرورت ہے۔ صرف تنخواہ کا حصہ [تحفظ کی کوششوں کے لیے] ۱۵ لاکھ روپے سالانہ ہے۔ پیشہ کے لحاظ سے ریڈیو فلکیات دان اتریئا اروناچل پردیش میں تحفظ کی کوششوں میں مضبوطی سے شامل ہیں اور اس بات کے متعرف ہیں کہ کیسے، ’’بوگونوں نے اس کام کو اختیار کیا اور اسے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ اس کام میں ہماری امیدوں سے بھی آگے بڑھ چکے ہیں۔‘‘

آج یہ کمیونٹی علاقے کے اسکولوں میں ماحولیاتی سیاحت کے کیمپ لگاتی ہے، باقاعدہ گشت کرتی ہے اور بیداری مہم کا اہتمام بھی کرتی ہے۔ بوگونوں کو درج فہرست قبیلہ (ایس ٹی) کے طور پر درج کیا گیا ہے اور ۲۰۱۳ کی اس رپورٹ کے مطابق، ان کی آبادی ۱۴۳۲ ہے، لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان کی آبادی اس تعداد سے کم از کم دو گنی ہے۔

Indie Glow runs Lama Camp, an eco-friendly site for birders seeking the elusive Bugun Liocichla and other wildlife .
PHOTO • Binaifer Bharucha
The walls of Lama Camp adorned with posters of the famed bird
PHOTO • Binaifer Bharucha

بائیں: اِنڈی گلو لاما کیمپ چلاتے ہیں۔ یہ نایاب بوگون لیوچیکلا اور دیگر جنگلی حیات کی تلاش میں آنے والے پرندوں کے شوقین لوگوں کے لیے ایک ماحول دوست مقام ہے۔ دائیں: لاما کیمپ کی دیواریں مشہور پرندے کے پوسٹروں سے مزین ہیں

The view of the SBVCR from Lama camp. The Bugun Liocichla is found only within a 2 sq km radius within this 17 sq km protected reserve
PHOTO • Binaifer Bharucha

لاما کیمپ سے ایس بی وی سی آر کا منظر۔ بوگون لیوچیکلا اس ۱۷ مربع کلومیٹر کے محفوظ جنگل کے صرف ۲ مربع کلومیٹر کے دائرے میں پایا جاتا ہے

پھنیا جیسے مقامی لوگ ’وائلڈ لائف ویک‘ میں حصہ لیتے ہیں تاکہ مغربی کمینگ کے اسکولوں میں طلباء کو جنگلات کی اہمیت اور ان کے حیاتیاتی تنوع سے آگاہ کیا جا سکے۔ انہوں نے اپنے بچپن میں جو کچھ دیکھا تھا اس لحاظ سے بھی یہ اہم ہے، ’’میں اپنے دوستوں کو جنگل میں جاتے، چھوٹے پرندوں کو مارتے اور کھاتے دیکھتی تھی، تو مجھے تکلیف ہوتی تھی۔ میں ان سے پوچھتی تھی، ’جب تم مرغیاں کھا سکتے ہو، جنہیں کھانے کے لیے پالا جاتا ہے، تو جنگل کو کیوں نقصان پہنچا رہے ہو؟‘‘‘

ان کے ساتھی نوربو مزید کہتے ہیں: ’’ہم پڑھائی میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ ہم میں سے کچھ لوگ جنگل میں جاتے تھے اور کبھی کبھی اپنے شکار (بھونکنے والے ہرن، کلیج تیتر، جنگلی سؤر) کے ساتھ واپس آ جاتے تھے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ یہ ایسا وقت تھا جب شکار ایک شوق تھا اور پڑھائی کو ترجیح نہیں دی جاتی تھی۔

’’یہ شکار کبھی کھانے کے لیے کیا جاتا تھا؛ اور کبھی محض شوقیہ طور پر یوں ہی،‘‘ نوربو کہتے ہیں۔ وہ جنگلاتی حیات کو خطرہ پہنچانے والی یہاں کی غیرقانونی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

ریزرو کے قیام کے ایک اہم محرک میلو تیسر بھی تھے، جو آٹھ سال تک ضلع ویسٹ کمینگ کے ڈسٹرکٹ فاریسٹ آفیسر (ڈی ایف او) تھے۔ ’’ایس بی وی سی آر ایسا نہ ہوتا اگر ہم نے مقامی کمیونٹی کو ساتھ میں نہ لیا ہوتا،‘‘ تیسَر کہتے ہیں، جو اب زیرو ویلی کے ڈی ایف او ہیں۔ ’’ایس بی وی سی آر نے بالواسطہ اور بالواسطہ طور پر روزگار کے مواقع پیدا کیے ہیں لیکن یہ ایسا نہ ہوتا اگر ہم نے کمیونٹی کو ساتھ میں نہیں لیا ہوتا،‘‘ وہ زور دے کر کہتے ہیں۔

یہاں کے کئی کنبوں کے کم از کم ایک رکن کو باورچی، جنگلاتی عملہ، ڈرائیور اور دیگر سروس اسٹاف کے طور پر ملازمت ملی ہوئی ہے۔ فرنٹ لائن عملے کو ریاستی گرانٹس سے ملنے والی تنخواہیں اکثر تاخیر سے ملتی ہیں، اسی لیے سیاحت سے ہونے والی آمدنی کی یہاں اشد ضرورت ہے۔

بہرحال، بوگون اپنے قصبے کی کایا کلپ کا سہرا اس چھوٹے پرندے کے سر باندھتے ہیں، ’’اگر لیوچیکلا نہ ہوتا، تو سنگچنگ اس طرح تبدیل نہ ہوتا،‘‘ گلو مزید کہتے ہیں۔

The entry point of the SBVCR. The fee to enter this reserve is Rs. 300
PHOTO • Binaifer Bharucha
The entry point of the SBVCR. The fee to enter this reserve is Rs. 300
PHOTO • Binaifer Bharucha

ایس بی وی سی آر میں داخل ہونے کا مقام۔ اس ریزرو میں داخل ہونے کی فیس ۳۰۰ روپے ہے

*****

اس پرندے کے نام کا آدھا حصہ یہاں کی کمیونٹی سے منسلک ہے، جبکہ ’’باقی کے آدھے نام، لیوچیکلا، کا ترجمہ رومانس زبانوں (لاطینی یا نیو لاطینی زبانوں) میں عمومی طور پر چکنے پرندے کے ہوتا ہے،‘‘ ایس بی وی سی آر کے گرد چہل قدمی کے دوران امیش واضح کرتے ہیں؛ گہری سبز رنگ کی پہاڑیوں اور وادیوں کی خاموشی کا وقفہ مختلف پرندوں کی آوازوں کے ذریعہ ٹوٹتا ہے۔

ہمیں معلوم ہوا کہ اس جنت میں کچھ پریشانیاں بھی ہیں۔

ایگل نیسٹ وائلڈ لائف سینکچُری میں ماہر طیور سری نواسن کی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ درجہ حرارت میں اضافے کے سبب گرمی سے تحفظ کے لیے سفید پونچھ والے رابن اور کامن گرین میگپی جیسے چھوٹے پرندے زیادہ اونچائی کی طرف جا رہے ہیں۔

یہ مشہور پرندہ ’’[اب] سطح سمندر سے ۲۳۰۰-۲۰۰۰ میٹر کی اونچائی کے درمیان صرف ۲ مربع کلومیٹر کے دائرے میں پایا جاتا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’لیکن لیوچیکلا کو حرکت کرنا ہی ہوگا، اور جب یہ حرکت کرے گا، تو یہ اونچائی کی طرف ہی جائے گا۔‘‘ اسی حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے کمیونٹی ریزرو کو ایک بڑی اونچائی والی ڈھلان پر بنایا گیا تھا۔ سری نواسن کہتے ہیں، ’’ایس بی وی سی آر کی اونچائی ۱۳۰۰ سے ۳۳۰۰ میٹر کے درمیان ہے، جو اس پرندے کے اونچائی پر جانے کی آخری حد  ہے۔‘‘ اروناچل کے پرندے گرمی کو شکست دینے کے لیے کس طرح اوپر کی طرف بڑھ رہے ہیں اس کے بارے میں مزید پڑھیں: خطرے کو بھانپ کر مسکن بدلتے اروناچل کے پرندے

Srinivasan in Eaglenest measuring the tarsus of a bird. The scientist's work indicates birds in this hotspot are moving their ranges higher to beat the heat.
PHOTO • Binaifer Bharucha
Sang Norbu Sarai was one of the Singchung residents who opposed the SBVCR initially, fearing the Buguns would lose touch with the forest
PHOTO • Binaifer Bharucha

ایگل نیسٹ میں سری نواسن (بائیں) پرندے کے ٹخنے کی پیمائش کرتے ہوئے۔ اس سائنسدان کا کام اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس ہاٹ اسپاٹ میں پرندے گرمی کو شکست دینے کے لیے اپنی حدود کو اونچا کر رہے ہیں۔ سانگ نوربو سرائے (دائیں) سنگچنگ کے رہائشیوں میں سے ایک تھے جنہوں نے شروع میں ایس بی وی سی آر کی مخالفت کی تھی، اس خوف سے کہ بوگونوں کا جنگل سے تعلق ختم ہو جائے گا

The SBVCR is regularly patrolled by forest officers who watch out for hunters, poaching and logging activities
PHOTO • Binaifer Bharucha

ایس بی وی سی آر میں جنگلات کے افسران باقاعدگی سے گشت کرتے ہیں، جو شکاریوں، غیر قانونی شکار اور جنگل کی کٹائی کی سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہیں

لیکن سی ایف آر کا قیام تنقید سے مبرا نہیں رہ سکا۔

’’ہم اپنی زمین سے رابطہ کھو دیتے اور یہی وجہ ہے کہ میں ان لوگوں میں سے ایک تھا جنہوں نے اس کمیونٹی ریزرو کے قیام پر اعتراض کیا تھا،‘‘ مقامی ٹھیکیدار سانگ نوربو سرائے کہتے ہیں۔ ’’محکمہ جنگلات زمین لیتا ہے، لیکن بدلے میں لوگوں کو کچھ نہیں ملتا،‘‘ سنگچنگ کے رہائشی اور بوگون لوگ کہتے ہیں۔

تاہم، ایس بی وی سی آر میں پانی کا ذریعہ (واٹرشیڈ) ان کے لیے اور دوسرے مخالفین کی سوچ میں تبدیلی کا ایک اہم موڑ تھا۔ ’’سنگچنگ میں پانی کا ذریعہ نیچے کی طرف ہے جہاں سے شہر کو پانی کی فراہمی ہوتی ہے۔ اگر ہم اپنے آبی ذخائر کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں معلوم ہے کہ جنگل کی حفاظت کرنی ہوگی، اور درختوں اور جنگلات کی کٹائی کو روکنا ہوگا،‘‘ ریٹائرڈ مقامی ٹھیکیدار سرائے کہتے ہیں۔ ’’ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے تھے کہ ہماری آنے والی نسلوں کو پانی ملے اور ان کا تحفظ ہو۔‘‘ ایس بی وی سی آر اس سمت میں ایک قدم ہے۔

آسام کے تیز پور سے لے کر اروناچل پردیش کے ایگل نیسٹ تک کے علاقے میں ہر جگہ بوگون لیوچیکلا کی تصویریں آویزاں ہیں۔ اس کی مقبولیت بوگون لوگوں کی کوششوں کا ثبوت ہے۔ ’’آج دنیا میں ہمارا نام ہے، شہرت ہے،‘‘ سرائے کہتے ہیں۔ ’’ہمیں اور کیا چاہیے؟‘‘

مترجم: شفیق عالم

Vishaka George

Vishaka George is Senior Editor at PARI. She reports on livelihoods and environmental issues. Vishaka heads PARI's Social Media functions and works in the Education team to take PARI's stories into the classroom and get students to document issues around them.

Other stories by Vishaka George
Photographs : Binaifer Bharucha

Binaifer Bharucha is a freelance photographer based in Mumbai, and Photo Editor at the People's Archive of Rural India.

Other stories by Binaifer Bharucha
Editor : Priti David

Priti David is the Executive Editor of PARI. She writes on forests, Adivasis and livelihoods. Priti also leads the Education section of PARI and works with schools and colleges to bring rural issues into the classroom and curriculum.

Other stories by Priti David
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam