’’مجھے نہیں لگتا ہے کہ میں پینٹر ہوں۔ میرے اندر پینٹر کی خوبیاں نہیں ہیں۔ لیکن میرے پاس کچھ کہانیاں ہیں۔ میں اپنے برش کے ذریعہ ان کہانیوں کو لکھنے کا کام کرتی ہوں۔ گزشتہ دو تین سالوں سے میں مختلف پینٹروں کے بارے میں پڑھ کر ان کے کاموں کو سمجھنے کی کوشش کر رہی ہوں، ورنہ مجھے کوئی جانکاری نہیں تھی۔ میں نے اس لیے پینٹ کیا کہ مجھے کہانی بیان کرنی تھی۔ جب میں اپنی کہانی کو ٹھیک سے سنا پاتی ہوں، تب مجھے خوشی حاصل ہوتی ہے۔ میں اس طرح پینٹ کرتی ہوں گویا کوئی کہانی لکھ رہی ہوں۔‘‘
لابنی، دھبولیا کی آرٹسٹ اور پینٹر ہیں۔ یہ مغربی بنگال کے ندیا ضلع کا ایک دور افتادہ گاؤں ہے جہاں کبھی دوسری جنگ عظیم کے دوران ایئر فیلڈ کے ساتھ فوج کی چھاؤنی ہوا کرتی تھی۔ مسلم اکثریتی اس گاؤں کی قابل کاشت زیادہ تر زمینیں انگریزوں کے ذریعہ قائم کردہ اُس چھاؤنی کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ بعد میں جب بٹوارہ ہوا، تو ایک بڑی آبادی سرحد کے اُس پار چلی گئی۔ ’’لیکن ہم یہیں رہے،‘‘ لابنی بتاتی ہیں، ’’کیوں کہ ہمارے آباء و اجداد یہی چاہتے تھے۔ ہمارے اجداد بھی اسی مٹی میں دفن ہیں۔ ہم اسی زمین پر جینا اور مرنا چاہتے ہیں۔‘‘ زمین سے وابستگی اور اس کے نام سے جڑی چیزوں نے بچپن کے دنوں سے ہی اس آرٹسٹ کی حساسیت کو شکل فراہم کرنے کا کام کیا ہے۔
پینٹنگ کی طرف لابنی کو ان کے والد نے متوجہ کیا تھا، جو ان کو بچپن میں کچھ سالوں کے لیے ایک ٹیوٹر کے پاس لے گئے تھے۔ ان کے والد ۱۰ بھائی بہنوں کی فیملی میں پہلے شخص تھے، جنہوں نے پینٹنگ کو باقاعدگی کے ساتھ سیکھا تھا۔ وہ زمینی سطح پر کام کرنے والے ایک وکیل تھے جنہوں نے کسانوں اور مزدوروں کے لیے کوآپریٹو کی شروعات کی، لیکن زیادہ پیسہ نہیں کمایا۔ ’’وہ جتنا کماتے تھے اس سے میرے لیے ایک کتاب لاتے تھے،‘‘ لابنی کہتی ہیں۔ ’’اُن دنوں ہمارے گھر میں ماسکو پریس، رادوگا پبلشرز کی بنگالی میں ترجمہ کی ہوئی کتابیں بڑی تعداد میں آتی تھیں۔ مجھے ان کتابوں میں چھپی تصویریں بہت اچھی لگتی تھیں۔ تصویر بنانے کا پہلا سبق مجھے وہیں سے ملا تھا۔‘‘
والد نے ابتدائی سالوں میں جس پینٹنگ ٹریننگ سے متعارف کرایا تھا، وہ زیادہ دنوں تک جاری نہیں رہا۔ لیکن اس فن کے تئیں لابنی کی محبت کی واپسی ۲۰۱۶ میں پھر ہوئی، جب زبان ان کا ساتھ نہیں دے پا رہی تھی۔ ملک میں ماب لنچنگ کے واقعات تیزی سے بڑھنے لگے تھے اور حکومتیں اس پورے معاملے میں بے حس بنی رہیں۔ اقلیتوں کو منظم طریقے سے پریشان کیا گیا اور تشدد کا شکار بنایا گیا۔ بدقسمتی سے اس نفرت انگیز جرم کے خلاف اکثریتی آبادی خاموش تماشائی بنی رہی۔ لابنی جو اُن دنوں کولکاتا کی جادھو پور یونیورسٹی سے ایم فل کر رہی تھیں، ملک کے ان واقعات سے کافی متاثر ہوئیں، لیکن چاہ کر اس کے خلاف کچھ لکھ نہیں پا رہی تھیں۔
’’تناؤ اور بے چینی کی حالت تھی،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’اُس وقت تک مجھے لکھنا بہت عزیز تھا، اور بنگالی زبان میں میرے ذریعہ تحریر کردہ کچھ مضامین شائع ہو چکے تھے۔ لیکن اچانک مجھے اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے زبان کے ناکافی ہونے کا احساس ہوا۔ تب میں ہر ایک چیز سے دور بھاگ جانا چاہتی تھی۔ اسی زمانے کی بات رہی ہوگی، جب میں نے پینٹنگ شروع کی۔ میں نے سمندر کو اس کے تمام جذبات کے ساتھ پینٹ کیا…واٹر کلر میں…کاغذ کے چھوٹے سے چھوٹے ٹکڑوں پر۔ ایک کے بعد ایک، میں نے اُس وقت [۱۷-۲۰۱۶ کے درمیان] پینٹنگ بنائی۔ پینٹنگ کرنا اس تباہ کن دور میں میرے لیے امن کی راہ کی تلاش پر نکلنے جیسا تھا۔‘‘
لابنی نے خود سے یہ ہنر سیکھا ہے۔
معروف یو جی سی - مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ فار مائنارٹی اسٹوڈنٹس (۲۰-۲۰۱۹) فیلوشپ ملنے کے بعد ۲۰۱۷ میں ان کا داخلہ جادھوپور یونیورسٹی سے ملحقہ سنٹر فار اسٹڈیز ان سوشل سائنسز میں ایک ڈاکٹورل پروگرام میں ہو گیا۔ حالانکہ، انہوں نے مہاجر مزدوروں پر کام کرتے رہنا جاری رکھا، لیکن اس بار اپنے تحقیقی مقالہ ’دی لائیوز اینڈ ورلڈ آف بنگالی مائگرینٹ لیبر‘ کے تحت ان کو ان مہاجر مزدوروں کی زندگی کے حقائق کی گہری پڑتال کرنے کا موقع ملا تھا۔
لابنی نے اپنے گاؤں سے بہت سارے لوگوں کو کنسٹرکشن (عمارت کی تعمیر) کے شعبہ میں مزدوری کرنے کیرالہ یا ہوٹل میں کام کرنے کے لیے ممبئی جاتے ہوئے دیکھا تھا۔ ’’میرے والد کے بھائی اور ان کے خاندانوں کے ارکان آج بھی بنگال سے باہر مہاجر مزدوروں کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ان میں خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے میں کم ہے،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ اس لیے ان کے دل کے قریب ہونے کے بعد بھی اس موضوع پر تفصیلی فیلڈ ورک کرنے کی ضرورت تھی۔ ’’تقریباً اسی وقت وبائی مرض کا حملہ ہو گیا،‘‘ وہ یاد کرتی ہیں۔ ’’اس کی سب سے زیادہ مار مہاجر مزدوروں کو برداشت کرنی پڑی۔ میرے لیے بھی اپنی تحقیق پر کام کرنا مشکل ہو گیا۔ میں کیسے باہر نکل کر ان سے سوال پوچھ سکتی تھی جس کا تعلق میرے تعلیمی کام سے تھا، جب کہ وہ خود ہی اپنے گھر تک پہنچنے، طبی خدمات حاصل کرنے اور اپنے متوفی اہل خانہ کو جلانے اور دفنانے کے لیے جدوجہد کر رہے تھے؟ ان کے حالات کا فائدہ اٹھانا مجھے بھی ٹھیک نہیں لگا، اور میں وقت پر اپنا فیلڈ ورک پورا نہیں کر پائی۔ اس لیے میری پی ایچ ڈی لمبی کھنچ گئی۔‘‘
لابنی نے پھر سے اپنا برش پکڑا اور اس بار ان مہاجر مزدوروں کی زندگی کو پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا (پاری) کے صفحات پر درج کرنے لگیں۔ ’’سائی ناتھ کے کچھ مضامین بنگالی روزنامہ ْ گن شکتی‘ میں شائع ہوتے تھے۔ اس لیے، اسمیتا دی نے جب مجھ سے ایک مضمون اور اس کے بعد ایک نظم کے لیے تصویر بنانے کے لیے کہا، تب میں پی سائی ناتھ کے کاموں کے بارے میں پہلے سے ہی جانتی تھی۔‘‘ (اسمیتا کھٹور پاری میں چیف ٹرانسلیشنز ایڈیٹر ہیں)۔ سال ۲۰۲۰ میں، لابنی جنگی پاری کی فیلو رہیں اور انہوں نے اپنی پینٹنگ کے ذریعہ اپنے تحقیقی مقالہ کے موضوع کے ساتھ ساتھ وبائی مرض اور لاک ڈاؤن کی مار برداشت کر رہے کسانوں اور دیہی خواتین کی زندگی کو نمایاں کرنے کی کوشش کی۔
’’پاری میں میرا کام نظام میں موجود چنوتیوں اور دیہی زندگی کی مستقل توانائی – ان دونوں ہی موضوعات پر مرکوز ہے۔ ان دونوں موضوعات کو اپنے آرٹ کے ساتھ جوڑتے ہوئے میں ایک ایسے منظر کی تخلیق کرناچاہتی ہوں جو ان کی زندگی کی پیچیدگیوں کو پیش کر پائے۔ میری پینٹنگز وہ ذریعہ ہے جس کے توسط سے میں دیہی ہندوستان کے ثقافتی اور سماجی حقائق اور بیش قیمتی تنوع کو محفوظ رکھنے اور اشتراک کرنے میں اپنا تعاون پیش کر سکوں۔‘‘
لابنی کسی سیاسی پارٹی سے جڑی ہوئی نہیں ہیں، لیکن وہ اپنے ہنر کو سیاسی کام مانتی ہیں۔ ’’جادھوپور میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آنے کے بعد میں نے بہت سے پینٹروں اور سیاسی پوسٹروں کو دیکھا ہے، اور جس طرح کی تصویریں میں بناتی ہوں ان کا تعلق براہ راست میرے ارد گرد کے ماحول اور میری اپنی حساسیت سے ہے۔‘‘ ایک ایسے معاشرہ میں، جہاں منظم طریقے سے نفرت کو جگہ دی جا رہی ہے اور ریاست کی مدد سے برپا کیا جانے والا تشدد وقت کی تلخ حقیقت ہے، ایک مسلم خاتون کے طور پر زندگی بسر کرنا کتنا مشکل ہے!
’’دنیا ہمیں، ہماری صلاحیتوں کو، ہماری کڑی محنت کو قبول کرنا نہیں چاہتی ہے،‘‘ لابنی کہتی ہیں۔ ’’حذف کر دیے جانے کے اس ماحول میں ہماری پہچان ایک بڑا رول ادا کرتی ہے۔ یہ عمل آج بھی جاری ہے۔ زیادہ تر لوگوں کے لیے ہمارے، خاص کر ایک مسلم خاتون پینٹر کے کام کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔‘‘ بشرطیکہ خوش قسمتی سے انہیں کوئی صحیح محافظ یا راہنما نہ مل جائے۔ ’’کوئی ہمارے آرٹ کی پرواہ تک نہیں کرتا…ہماری تنقید کرنے کے لیے بھی نہیں، اسی لیے میں نے نظرانداز کیے جانے کے اس پورے عمل کے لیے ’حذف‘ لفظ استعمال کیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ عمل آرٹ، لٹریچر اور بہت سے دوسرے شعبوں میں نظر آتا ہے،‘‘ وہ مزید کہتی ہیں۔ لیکن لابنی نے پینٹنگ کے ذریعہ اپنا کام جاری رکھا ہے، اور وہ فیس بک اور انسٹاگرام جیسے ڈیجیٹل پلیٹ فارموں پر اپنا کام رکھتی رہی ہیں۔
اور فیس بک کے توسط سے ہی چٹوگرام کی چتربھاشا آرٹ گیلری نے ان سے رابطہ کیا اور انہیں دسمبر ۲۰۲۲ میں ان کی پہلی انفرادی نمائش ’ببیر درگاہ‘ کے لیے بنگلہ دیش بلایا۔
ببیر درگاہ کے طور پر نمائش کا اہتمام کرنے کا خیال ان کے ذہن میں ان کے بچپن اور بنگلہ دیش کی موجودہ حالت کو دیکھ کر آیا، جہاں ان کے کہنے کے مطابق، ان کو سخت گیر اسلام کے دوبارہ عروج کے امکانات نظر آ رہے ہیں۔ ببیر درگاہ سے مراد ان درگاہوں سے ہے جنہیں خواتین پیروں کی یاد میں بنایا گیا تھا۔ ’’میرے گاؤں میں خواتین کے لیے دو درگاہ بنی تھی۔ وہ میرے بچپن کے دن تھے۔ ہمارے اپنے رسم و رواج تھے، ہم منت کے نام پر اپنی کلائی میں دھاگہ باندھتے تھے اور جب ہماری کوئی مراد پوری ہو جاتی تھی، تب ہم ایک ساتھ کھانا پکاتے تھے اور مل جل کر کھاتے تھے۔ اس جگہ کے آس پاس ہم آہنگی پر مبنی روایتیں رائج تھیں۔
’’لیکن میں نے انہیں اپنی آنکھوں کے سامنے سے غائب ہوتے دیکھا تھا۔ بعد میں وہاں ایک مکتب بنا دیا گیا۔ اسلامی سخت گیروں کا مزار یا صوفی درگاہوں میں کوئی عقیدہ نہیں ہے، اس لیے ان کی یہی کوشش ہے کہ یا تو وہ انہیں زمیں دوز کر دیں یا اس کی جگہ کوئی مسجد بنوا دیں۔ اب دو چار درگاہیں بھی بچی رہ گئی ہیں، لیکن وہ سبھی مرد پیروں کی ہیں۔ اب ایک بھی ’ بی بی کی درگاہ‘ نہیں بچی ہے۔ ان کے نام تک ہماری ثقافتی یادداشتوں سے مٹا دیے گئے ہیں۔‘‘
لیکن جہاں ایک طرف ایسی تباہ کاریوں کا سلسلسہ جاری ہے، وہیں دوسری طرف متوازی نظریات بھی دکھائی دیتے ہیں، جن کی طرف لابنی اشارہ کرتی ہیں۔ ایسے نظریات جو ایسی سوچی سمجھی اور یادداشتوں کو خارج کرنے کی پر تشدد فطرت کے خلاف کھڑے ہیں۔ ’’جب بنگلہ دیش میں نمائش کا وقت آیا، تو ایک طرف میں نے مزاروں کے انہدام کے بارے میں سوچا اور دوسری طرف میرے ذہن میں ان عورتوں کا شجاعت انگیز حوصلہ تھا، جو اپنی زمین اور حقوق کے لیے آج بھی لڑ رہی ہیں۔ یہ احتجاج اور ہمت ان مزاروں کی طاقت کی بدولت ہے جو ان کے انہدام کے بعد بھی ختم ہونے سے بچی رہی ہے۔ اس انفرادی نمائش میں، میں نے یہی دکھانے کی کوشش کی ہے۔‘‘ اس نمائش کو ختم ہوئے ایک عرصہ گزر چکا ہے، لیکن لابنی آج بھی اسی موضوع پر کام کر رہی ہیں۔
لابنی کی تصویروں نے عام لوگوں کی آواز بلند کی ہے، اور کئی نظموں، مضامین اور کتابوں کو دوسری زندگی عطا کی ہے۔ ’’فنکار ہوں یا مصنف، ہم سبھی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ مجھے کیشو بھاؤ [ امبیڈکر سے متاثر: سالوے کا نغمۂ آزادی ] یاد ہیں، جنہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ کیسے میں نے شاہیر (شاعر) کو بالکل اسی طرح پینٹ کیا تھا، جیسا انہوں نے تصور کیا تھا۔ اور، یہ میرے لیے کوئی حیرت انگیز بات نہیں تھی، کیوں کہ ہمارا تصور ایک جیسا ہی تھا، ہماری یادداشتیں یکساں تھیں، اور ہماری کہانیاں ایک دوسرے سے ملتی تھیں، بھلے ہی انسان کے طور پر نہیں، بلکہ سماجی و ثقافتی نقطہ نظر سے بھی ہماری پہچان الگ تھی،‘‘ لابنی کہتی ہیں۔
لابنی کی پینٹنگز کے سرخ رنگ، ان کا مضبوط برش، اور انسانی زندگی کی فطری عکاسی ثقافتی یکسانیت کے خلاف احتجاج کی کہانیاں، اجتماعی یادداشتوں کی کہانیاں، ثقافتی تاریخ کی کہانیاں، اور بٹوارے میں اتحاد کی کہانیاں کہتے ہیں۔ ’’مجھے لگتا ہے کہ مجھے کوئی یوٹوپیا آمادہ کرتا ہے۔ ہم نفرت اور تشدد سے بھرے جس سماج میں رہتے ہیں اسے بدلنے کے لیے نیا عزم ضروری ہے،‘‘ لابنی کہتی ہیں۔ ’’ایسی دنیا جس میں سیاست تباہ کاری کا مترادف مانا جانے لگا ہے، اس میں میری پینٹنگز ایک آسان زبان میں اپنا احتجاج درج کرتی ہیں۔‘‘
یہ زبان انہوں نے اپنی نانی سے سیکھی تھی، جن کے ساتھ انہوں نے اپنی زندگی کے ابتدائی ۱۰ سال گزارے تھے۔ ’’میری ماں کے لیے ہم دونوں – میری اور میرے بھائی کی پرورش کرنا مشکل تھا،‘‘ لابنی کہتی ہیں۔ ’’ہمارا گھر بھی چھوٹا تھا۔ اس لیے انہوں نے مجھے میری نانی کے گھر بھیج دیا، جہاں انہوں نے اور میری خالہ نے دس سال تک میری دیکھ بھال کی۔ ان کے گھر کے پاس ایک تالاب ہوا کرتا تھا، جہاں ہم روزانہ دوپہر کو بیٹھ کر کانتھا [کشیدہ کاری] کا کام کرتے تھے۔‘‘ ان کی نانی رنگ برنگی کشیدہ کاری کے ذریعہ دلچسپ کہانیاں بنتی تھیں۔ مشکل کہانیوں کو برش کے جادوئی لمس سے پیش کرنے کا ہنر لابنی نے اپنی نانی سے ہی سیکھا ہوگا، لیکن امید و ناامیدی کے درمیان کی وہ جگہ جس میں وہ رہتی ہیں، ان کی ماں کا تخلیق کردہ ہے۔
’’جب میں چھوٹی تھی، تب میں اپنے امتحانات میں بہت ہی خراب کارکردگی کا مظاہرہ کرتی تھی۔ مجھے ریاضی میں صفر ملتا تھا اور کئی بار سائنس میں بھی ایسا ہی ہوتا تھا،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’لیکن ہر بار میری ماں نے مجھ پر ہمیشہ اعتماد کیا، جب کہ ابا کے من میں کچھ خدشات پیدا ہو جاتے تھے۔ وہ مجھے دلاسہ دیتیں کہ اگلی بار میں اچھا کروں گی۔ اس کے بغیر میں یہاں تک بالکل نہیں آ پاتی۔ ماں کبھی کالج نہیں جا سکیں، جب کہ ان کی بڑی خواہش تھی۔ ان کی شادی کر دی گئی تھی۔ اس لیے اپنی زندگی انہوں نے میرے ذریعہ جینے کی کوشش کی۔ جب میں کولکاتا سے لوٹتی ہوں، تو وہ میرے پاس آ کر میرے بغل میں بیٹھتی ہیں، اور گھر کے باہر کی کہانیاں بڑے جوش کے ساتھ سنتی ہیں۔ وہ اس دنیا کو میری آنکھوں سے دیکھتی ہیں۔‘‘
لیکن یہ دنیا ایک ڈراؤنی جگہ ہے، آرٹ کی دنیا کی بازار کاری کی یہ اندھی دوڑ بھی اتنی ہی خطرناک ہے۔ ’’مجھے اپنے جذباتی ساتھی کے کھونے کا ڈر ستاتا ہے۔ ایک بڑی آرٹسٹ بننے کی جدوجہد میں، میں جذباتی طور پر خشک نہیں ہونا چاہتی۔ میں اپنے لوگوں سے دور نہیں ہونا چاہتی ہوں اور نہ ان قدروں سے محروم ہونا چاہتی ہوں جس کے حق میں میرا آرٹ کھڑا ہے۔ میری جدوجہد جاری ہے…پیسے کی…وقت کی۔ لیکن میری سب سے بڑی لڑائی اس دنیا میں اپنی روح کا سودا کیے بغیر اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے ہے۔‘‘
کور فوٹو: جینتی بروڈا
مترجم: محمد قمر تبریز