’’بھوک کے علاوہ اور کئی دوسری چیزیں ہیں جنہیں شراب پینے کے بعد آسانی سے بھلایا جا سکتا ہے،‘‘ سنگدھوئی گاؤں کے ربیندر بھوئیاں کہتے ہیں۔

عمر کی پانچویں دہائی میں چل رہے بھوئیاں ایک سبر آدیواسی ہیں (جو مغربی بنگال میں ’سَوَر‘ کے طور پر درج ہے)۔ مُنڈا آدیواسی برادری سے تعلق رکھنے والے سبر، ہندوستان کے مشرقی علاقوں میں رہتے ہیں، جہاں انہیں ساؤڑا، سورا، شبر اور سوری کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ لودھا سبر زیادہ تر مغربی میدنی پور (غیر منقسم) میں رہتے ہیں، جب کہ کھریا سبر بنیادی طور پر پرولیا، بانکورہ اور مغربی میدنی پور (غیر منقسم) میں آباد ہیں۔

مہاشویتا دیوی نے اپنی کتاب ’دا بُک آف ہنٹر‘ (جو سب سے پہلے بنگلہ میں ’بیادھ کھنڈ‘ کے نام سے ۱۹۹۴ میں شائع ہوئی تھی) میں اس برادری کی شدید غربت اور کسمپرسی کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ اب کئی دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی ان کی حالت میں کوئی خاطرخواہ تبدیلی نہیں آئی ہے۔ سال ۲۰۲۰ کی ایک رپورٹ بعنوان لیونگ ورلڈ آف آدیواسیز آف ویسٹ بنگال (مغربی بنگال کے آدیواسیوں کی دنیا) میں کہا گیا ہے، ’’سروے کیے گئے ۶۷ فیصد گاؤوں بھکمری کے شکار پائے گئے۔‘‘

اس برادری پر ۱۸ویں صدی کے دوسرے نصف میں ’کرمنل ٹرائب‘ کا لیبل لگا دیا گیا تھا، لیکن آزادی کے بعد ۱۹۵۲ میں اسے ڈی نوٹیفائی کر دیا گیا۔ روایتی طور پر شکاری ہونے کے سبب یہ اپنے گزارہ کے لیے جنگل میں جانوروں کے شکار کے علاوہ پھل، پتوں اور قند جمع کرنے پر منحصر ہیں۔ آزادی کے بعد، حکومت نے ان میں سے کچھ لوگوں کو کھیتی کے لیے زمینیں بھی دیں، لیکن یہ زیادہ تر پتھریلی اور بنجر زمینیں تھیں۔ مجبوراً برادری کے زیادہ تر لوگ آج مہاجر مزدور کے طور پر زندگی بسر کرنے کو مجبور ہیں۔ ڈی نوٹیفکیشن کے بعد بھی ان پر لگا داغ مٹا نہیں ہے، اور وہ آج بھی ان کی نقل و حرکت پر پابندی لگانے والی مقامی پولیس اور فاریسٹ سروس کے رحم و کرم پر جی رہے ہیں۔

آمدنی کے گنے چنے مواقع کے سبب مغربی میدنی پور اور جھاڑ گرام ضلعوں کی سبر برادری کے لیے بھوک سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ بھوئیاں کی طرح کئی لوگ اپنی اپنی بھوک کو مارنے کے لیے شراب کا سہارا لیتے ہیں، یا ’’ہم دن میں تینوں وقت پانتا بھات [خمیر والا چاول] کھاتے ہیں۔ ہم اسی کو کھا کر زندہ ہیں،‘‘ تپو وَن گاؤں کے ۵۵ سالہ بنکم ملک کہتے ہیں۔ ملک کا اشارہ عوامی تقسیم کے نظام (پی ڈی ایس) کی طرف ہے، جہاں سے گھر کے ہر ایک ممبر کو ماہانہ پانچ کلو چاول ملتا ہے۔ ’’ہمارے لیے نمک یا تیل تو شاہی چیز بن گئی ہے۔‘‘ وہ اپنے خستہ حال گھر کے سامنے بیٹھ کر پانتا بھات کھا رہے ہیں۔

Rabindra Bhuiya (left) is a resident of Singdhui village, Jhargram district where many Sabar Adivasi families live
PHOTO • Ritayan Mukherjee
Rabindra Bhuiya (left) is a resident of Singdhui village, Jhargram district where many Sabar Adivasi families live
PHOTO • Ritayan Mukherjee

ربیندر بھوئیاں (بائیں) جھاڑ گرام ضلع کے سنگدھوئی گاؤں میں رہتے ہیں، جہاں سبر آدیواسیوں کے کئی خاندان آباد ہیں

A resident of Tapoban village, Bankim Mallick (left) is eating panta bhaat (fermented rice), a staple for many families who cannot afford to buy food. The fear of wild animals has made them wary of finding food in the forest.
PHOTO • Ritayan Mukherjee
A child (right) exhibiting symptoms of malnutrition
PHOTO • Ritayan Mukherjee

تپو وَن گاؤں کے بنکم ملک (بائیں) پانتا بھات کھا رہے ہیں، جو یہاں کے ان خاندانوں کا روز کا کھانا ہے جو کھانا خرید پانے کے قابل نہیں ہیں۔ جنگلی جانوروں کے ڈر سے ان کا جنگل میں غذائی اشیاء کی تلاش میں جانا مشکل ہو گیا ہے۔ سوء تغذیہ کا شکار نظر آتا ایک بچہ (دائیں)

اپنی معمولی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے سبر آدیواسی جنگل کے وسائل پر منحصر ہیں۔ گرمی کے مہینوں – ویشاکھ، جئیشٹ اور مانسون کے مہینے آشاڑھ – میں برادری کے لوگ جنگلی پھل اور قند اکٹھا کرتے ہیں اور چڑیا کے بچوں، سانپوں، گوساپ (بنگال مانیٹر چھپکلی)، مینڈک اور گھونگھے پکڑتے ہیں۔ وہ کھیتوں کے مینڈک، بڑے گھونگھے، چھوٹی مچھلیاں اور کیکڑے کا بھی شکار کرتے ہیں۔

بعد میں شراون، بھادر اور اشون کے مہینوں میں سبر لوگ ندیوں میں مچھلیاں پکڑتے ہیں۔ کارتک، اگہن اور پوش میں برادری کے لوگ اُن دھان کو زمین کھود کر نکالتے ہیں جسے چوہے اپنی بلوں میں جمع کیے رکھتے ہیں۔ اس سے پہلے، وہ کھیتوں میں ان چوہوں کو بھی پکڑتے ہیں۔ جاڑے کے مہینے ماگھ، اور وسنت کے مہینے پھالگن اور چیتر میں وہ چھوٹے جانوروں کا شکار کرتے ہیں، اور جنگلی پھل اور چاک (شہد کے چھتے) چنتے ہیں۔

حالانکہ، دوسری آدیواسی برادریوں کی طرح سبر آدیواسی بھی جنگلوں میں داخل ہونے سے پہلے اب تھوڑا ڈرنے لگے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اپنی خوراک کی تلاش میں نکلے بھوکے جنگلی جانور کافی حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں ان کے سامنے آنے سے ان کی زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

جوگا ملک (۵۲ سالہ) مذاقیہ لہجے میں کہتے ہیں، ’’اندھیرا ہونے کے بعد ہم گاؤں سے باہر نہیں نکلتے ہیں، کوئی بہت زیادہ بیمار ہو جائے تو بھی نہیں۔ راستہ دینے کی بات تو دور ہے، ہاتھیوں کے جھنڈ آپ کو دیکھ کر ہلتے تک نہیں ہیں، گویا ان کے پاس گاؤں کے لوگوں کو دکھانے کے لیے اپنا آدھار کارڈ ہے۔‘‘

تقریباً ۶۰ سال کی عمر کے شکرا نائک بھی تپو وَن گاؤں میں ہی رہتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہاں ہاتھیوں کی موجودگی ’’بیحد جوکھم بھری ہے۔ ہاتھی جنگل میں کہیں بھی نظر آ جاتے ہیں، اور اکثر وہ خطرناک طریقے سے حملہ آور بھی ہو جاتے ہیں۔ وہ نہ صرف لوگوں پر حملہ کر دیتے ہیں، بلکہ دھان کے کھیتوں، کیلے کے درختوں اور ہمارے گھروں کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔‘‘

ان کے پڑوسی اور بیناشولی گاؤں میں ہی رہنے والے جتن بھکتا فکرمند لہجے میں کہتے ہیں، ’’اگر ہم جنگل نہیں جائیں گے، تو کھائیں گے کیا؟ صرف پانتا بھات کھاتے کھاتے ہم ہفتوں گزار دیتے ہیں۔‘‘

Joga Mallick (left), a Sabar Adivasi from Tapoban village has many health-related issues including diabetes. ' If we do not go to the jungle, what are we going to eat? ' says Jatin Bhakta (right) from Benashuli
PHOTO • Ritayan Mukherjee
Joga Mallick (left), a Sabar Adivasi from Tapoban village has many health-related issues including diabetes. ' If we do not go to the jungle, what are we going to eat? ' says Jatin Bhakta (right) from Benashuli
PHOTO • Ritayan Mukherjee

تپو وَن گاؤں کے سبر آدیواسی جوگا ملک (بائیں) ذیابیطس سمیت صحت سے متعلق کئی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ بیناشولی کے جتن بھکتا (دائیں) کہتے ہیں، ’اگر ہم جنگل نہیں جائیں گے، تو کھائیں گے کیا؟‘

Sukra Nayak (left) from Benashuli says, 'I cannot sleep at night because elephants pass by. My house is at the end of the village. It's very risky.' The elephants often come to villages in search of food.
PHOTO • Ritayan Mukherjee
A banana garden (right) destroyed by elephants
PHOTO • Ritayan Mukherjee

بیناشولی کے شکرا نائک (بائیں) کہتے ہیں، ’میں رات میں سو نہیں پاتا، کیوں کہ یہاں سے ہاتھی گزرتے رہتے ہیں۔ میرا گھر گاؤں کے آخری سرے پر ہے۔ اس لیے بہت خطرہ رہتا ہے۔‘ ہاتھی اکثر کھانے کی تلاش میں گاؤں میں آ جاتے ہیں۔ ہاتھیوں کے ذریعے برباد کیا گیا کیلے کا باغ (دائیں)

ناکافی خوراک کے سبب سبر آدیواسی ٹی بی جیسی بیماریوں میں آسانی سے مبتلا ہو جاتے ہیں۔ سارتھی ملک ٹی بی کی مریض ہیں، جو علاج کرانے کے لیے طبی کیمپوں میں جاتی رہی ہیں۔ لیکن اب وہاں نہیں جانا چاہتی ہیں۔ وجہ بتاتے ہوئے بیناشولی گاؤں کی یہ خاتون کہتی ہیں: ’’میں اپنی فیملی میں اکیلی عورت ہوں۔ اگر مجھے اسپتال میں داخل کر لیا گیا تو میرے گھر کے کام کاج کون دیکھے گا؟ جنگل میں میرے شوہر کے ساتھ پتّے کون اکٹھا کرے گا؟‘‘ اور پھر، جانچ کے لیے اسپتال آنے جانے میں بہت پیسے خرچ ہو جاتے ہیں۔ ’’ایک طرف سے جانے یا لوٹنے میں ۵۰ سے ۸۰ روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔ ہمارے لیے یہ خرچ اٹھانا مشکل ہے۔‘‘

سبر کنبوں کی آمدنی کا سب سے بڑا حصہ شال (شوریا روبسٹا) درخت کے پتے اکٹھا کرنے اور انہیں بیچنے سے آتا ہے۔ یہ کافی محنت طلب کام ہے۔ شال کے درخت کی لکڑی بہت سخت اور مضبوط ہوتی ہے اور ہندوستان میں سب سے زیادہ استعمال میں لائی جاتی ہے۔ دلیپ موہنتی کہتے ہیں، ’’اس سال ان پتیوں کی سپلائی میں بہت کمی آئی ہے۔ سبر آدیواسی ہاتھیوں کے ڈر سے اب جنگلوں میں نہیں جانا چاہتے ہیں۔‘‘ دلیپ، اوڈیشہ کے خریدار ہیں اور ان پتیوں کے کاروبار کے سلسلے میں باقاعدگی سے منڈی جاتے ہیں۔

کوندا بھکتا، جو جتن کے پڑوسی ہیں، بھی اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ خطرے سے بھرا کام ہے۔ ’’عام طور پر ہم گروپوں میں جنگل جاتے ہیں۔ یہ بہت خطرناک کام ہے، اور جنگل سانپوں اور ہاتھیوں سے بھرا ہوا ہے۔ ہم صبح کو تقریباً ۶ بجے جنگل میں جاتے ہیں اور دوپہر تک لوٹ آتے ہیں۔‘‘

پتوں کو اکٹھا کیے جانے کے بعد انہیں سُکھایا جاتا ہے اور تب، ’’ہم اسے ایک سائیکل پر لاد کر نزدیکی ہاٹ میں لے جاتے ہیں، جو ہفتے میں ایک بار سنیچر کے دن لگتی ہے۔ ہاٹ میں اوڈیشہ سے ان پتوں کے خریدار آتے ہیں اور ہزار پتوں کے ایک بنڈل کا ہمیں ۶۰ روپے ادا کرتے ہیں۔ اگر میں ہفتے میں چار بنڈل بیچتا ہوں، تو میں ۲۴۰ روپے کما سکتا ہوں،‘‘ جتن بھکتا بتاتے ہیں۔ ’’یہاں کے زیادہ تر کنبوں کی یہی اوسط آمدنی ہے۔‘‘

Left: Sarathi Mallik of Benashuli was diagnosed with tuberculosis in November 2022. She is under medication and cannot work long hours.
PHOTO • Ritayan Mukherjee
Right: Sabar Mallick is a resident of Singdhui and in the advanced stages of leprosy. He says the state offered no treatment for it
PHOTO • Ritayan Mukherjee

بائیں: بیناشولی کی سارتھی ملک کو نومبر ۲۰۲۲ میں پتہ چلا کہ ان کو ٹی بی ہے۔ وہ بیماری کی دوا کھاتی رہی ہیں اور ان کے لیے دن میں گھنٹوں تک لگاتار کام کرنا ممکن نہیں ہے۔ دائیں: سبر ملک، سنگدھوئی کے رہائشی ہیں اور بیحد سنگین طور پر جذام میں مبتلا ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ریاست نے ان کے علاج کے لیے کوئی پیشکش نہیں کی

Left:  Champa Mallick of Benashuli with the sal leaves she has collected at her home, for sale in the local weekly market.
PHOTO • Ritayan Mukherjee
Right: Suben Bhakta from the same village brings the sal leaves to the market
PHOTO • Ritayan Mukherjee

بائیں: بیناشولی کی چمپا ملک شال کے پتوں کے ساتھ ہیں، جو انہوں نے مقامی ہفتہ واری بازار میں بیچنے کے لیے اپنے گھر پر جمع کیا ہے۔ دائیں: اسی گاؤں کے سبین بھکتا شال کے پتوں کو بازار میں لا رہے ہیں

ریاست نے پردھان منتری آواس یوجنا (پی ایم اے وائی) کے تحت برادری کے لوگوں کے لیے رہائشی اسکیم کی شروعات کی ہے۔ مگر ۴۰ سالہ سابتری ملک کہتی ہیں، ’’ہم یہاں نہیں رہ سکتے ہیں۔‘‘ اینٹ سیمنٹ اور ایسبسٹس کی چھت والے ان گھروں میں گرمی کے دنوں میں رہنا ناقابل برداشت ہو جاتا ہے، جب یہاں کا اوسط درجہ حرارت ۴۳ ڈگری سیلسیس کو چھونے لگتا ہے۔ ’’مارچ سے جون تک جب گرمی اپنے شباب پر ہوتی ہے، تب ہم یہاں کیسے زندہ رہ سکتے ہیں؟‘‘

بیناشولی اور تپو ون جیسے گاؤوں میں کچھ پرائیویٹ پرائمری اسکول ہیں، جنہیں کاجلا جن کلیان سمیتی (کے جے کے ایس) نام کی ایک غیر سرکاری تنظیم نے قائم کیا ہے۔ یہ غیر سرکاری تنظیم اس علاقے میں سبر برادری کے معیار زندگی کو بہتر کرنے کی سمت میں کام کر رہی ہے۔ یہاں شرح خواندگی ۴۰ فیصد ہے، جو ریاست اور ملک کی سطح سے بہت نیچے ہے۔ تقریباً ایک تہائی آدیواسی بچے سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری اسکولوں میں داخل نہیں ہوئے ہیں – سال ۲۰۲۰ کی ایک رپورٹ یہ بتاتی ہے۔ رپورٹ میں طلباء کے اسکول نہیں آنے کی وجوہات کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جن میں ذات پر مبنی تفریق، اسکول سے دوری، تعلیمی اخراجات کو برداشت نہیں کر پانا اور روزگار کی گارنٹی کی کمی جیسے اسباب اہم ہیں۔

’’جب برادری کے پاس آمدنی کے معقول ذرائع نہ ہوں، تب بچوں کو اسکول بھیجنا ایک آسائش ہے،‘‘ کے جے ایس کے سربراہ سوپن جانا کہتے ہیں۔

پلّوی سین گپتا کہتی ہیں کہ طبی سہولیات کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ جرمن ڈاکٹروں کے ساتھ کام کرنے والی سین گپتا بتاتی ہیں، ’’ان کے لیے اپنا ایکس رے کرانا بھی مشکل کام ہے، کیوں کہ قریب میں کوئی پرائمری ہیلتھ سنٹر نہیں ہے۔ مجبوراً ان کو روایتی طریقے سے علاج کرنے والوں کی پناہ میں جانا پڑتا ہے۔‘‘ یہ ایک فلاحی تنظیم ہے، جو اس علاقے کے آدیواسیوں کو طبی سہولیات فراہم کرنے کا کام کرتی ہے۔ اس پورے علاقے میں اور یہاں پر، سانپ کا کاٹنا بھی عام بات ہے اور ناکافی طبی سہولیات کے سبب روایتی طبیب یا جھولا چھاپ ڈاکٹر ہی گاؤں والوں کا علاج کرتے ہیں۔

A school in Tapoban village started by the Janakalyan Samiti for Sabar children.
PHOTO • Ritayan Mukherjee
Right: Behula Nayak is deficient in iodine and has developed goitre, a common occurance among Sabar women in Benashuli
PHOTO • Ritayan Mukherjee

تپو وَن گاؤں میں سبر بچوں کے لیے جن کلیان سمیتی کے ذریعے شروع کیا گیا ایک اسکول۔ دائیں: بیہولا نائک آیوڈین کی کمی کی شکار رہی ہیں اور انہیں گھینگا مرض ہو گیا ہے۔ یہ بیماری بینوشالی کی سبر خواتین میں کافی عام ہے

Kanak Kotal's hand (left) has become permanently deformed as she could not get medical help when she broke it. Her village, Singdhui, has little access to doctors and healthcare. Also true of Benashuli, where Kuni Bhakta (right) broke her leg, and now she is not sure when she will be able to walk again. Her husband Suben Bhakta says, they spent Rs. 8,000 on her treatment
PHOTO • Ritayan Mukherjee
Kanak Kotal's hand (left) has become permanently deformed as she could not get medical help when she broke it. Her village, Singdhui, has little access to doctors and healthcare. Also true of Benashuli, where Kuni Bhakta (right) broke her leg, and now she is not sure when she will be able to walk again. Her husband Suben Bhakta says, they spent Rs. 8,000 on her treatment
PHOTO • Ritayan Mukherjee

کنک کوٹال کا ہاتھ (بائیں) پوری طرح سے خراب ہو گیا ہے کیوں کہ اس کے ٹوٹنے کے بعد انہیں کسی بھی قسم کی طبی مدد نہیں مل پائی تھی۔ ان کے گاؤں سنگدھوئی میں ڈاکٹروں اور صحت کی دیکھ بھال سے متعلق سہولیات کی بیحد کمی ہے۔ بیناشولی کی حالت بھی الگ نہیں ہے، جہاں کُنی بھکتا (دائیں) کا پیر ٹوٹ گیا، اور اب یقین سے نہیں کہہ سکتیں کہ وہ دوبارہ کب چل پائیں گی۔ ان کے شوہر سُبین بھکتا بتاتے ہیں کہ ان کے علاج پر ۸ ہزار روپے خرچ ہو چکے ہیں

درج فہرست قبائل کی شماریاتی پروفائل ، ۲۰۱۳ کے اعداد و شمار کے مطابق، مغربی بنگال میں سبر آدیواسیوں کی تعداد ۴۰ ہزار سے کچھ زیادہ ہے۔ مگر بدقسمتی سے یہ برادری آج بھی بھکمری کی مار جھیل رہی ہے۔

سال ۲۰۰۴ میں میدنی پور ضلع، جو اب جھاڑ گرام ضلع کہلاتا ہے، میں سبر برادری کے گاؤں میں پانچ لوگوں کی موت ہو گئی۔ یہ سبھی مہینوں سے بھکمری کا سامنا کر رہے تھے۔ اس واقعہ نے ہندوستانی میڈیا میں ہنگامہ برپا کر دیا۔ بیس سال بعد آج بھی بہت کچھ نہیں بدلا ہے۔ آج بھی یہ برادری بھوک سے لڑ رہی ہے۔ آج بھی تعلیم اور طب کی سہولیات سے یہ کوسوں دور ہے۔ چونکہ، ان کی بسیتیاں گھنے جنگلوں میں آباد ہیں، لہٰذا آئے دن انسان اور جانوروں کے درمیان تصادم ہونا ایک عام بات ہے۔

حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے، جب یہاں کے لوگ شراب کو کھانے کا متبادل بتاتے ہوئے چٹکی لیتے ہیں، تو یہ کوئی مذاق میں کہی گئی بات نہیں لگنی چاہیے۔ ربیندر بھوئیاں اس رپورٹر سے پوچھتے ہیں، ’’اگر میرے منہ سے آپ کو شراب کی بو آئے، تو کیا آپ مجھے بھلا برا کہیں گے؟‘‘

Parameswar Besra and Maheswar Beshra from Singdhui are in wheelchairs. The brothers were born healthy but lost their ability to walk over time. They could not get the help they needed as healthcare facilities are far, and the family's precarious financial condition did not allow it
PHOTO • Ritayan Mukherjee

سنگدھوئی کے پرمیشور بیسرا اور مہیشور بیسرا وہیل چیئر پر ہیں۔ دونوں بھائی جب پیدا ہوئے تھے تب صحت مند تھے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ان کے چلنے کی طاقت نہیں بچی۔ انہیں وہ علاج نہیں مل سکا جس کی انہیں ضرورت تھی کیوں کہ سبھی اسپتال گھر سے کافی دور تھے اور خراب مالی حالت کا سامنا کرتی ان کی فیملی کے لیے اس کا خرچ اٹھانا ممکن نہیں تھا

Madan Bhakta of Tapoban village has a rare eye disease. A local unlicensed doctor treated him wrongly, and as a result Bhakta lost his vision
PHOTO • Ritayan Mukherjee

تپو وَن گاؤں کے مدن بھکتا آنکھوں کی ایک نایاب قسم کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ ایک جھولا چھاپ ڈاکٹر نے ان کا غلط علاج کیا، جس سے ان کی آنکھوں کی روشنی چلی گئی

Konda Bhakta from Tapoban shows his tumour. 'First it was a small tumour. I ignored it. Then it became big. I wanted to go to the hospital but could not as they are located very far in Jhargram town. I do not have that much money, so I never had a proper treatment'
PHOTO • Ritayan Mukherjee

تپو وَن کے کوندا بھکتا اپنا ٹیومر دکھا رہے ہیں۔ ’پہلے یہ چھوٹا تھا۔ میں نے اسے نظر انداز کیا۔ پھر یہ بڑا ہو گیا۔ میں اسپتال جانا چاہتا تھا، لیکن جا نہیں سکا کیوں کہ سبھی اسپتال کافی دور، جھاڑ گرام میں ہیں۔ میرے پاس اُتنے پیسے نہیں ہیں، اس لیے میں کبھی ٹھیک سے علاج نہیں کرا پایا‘

Karmu Nayak of Benashuli says he doesn't have the physical strength to go to the forest to gather leaves to sell and buy food
PHOTO • Ritayan Mukherjee

بیناشولی کے کرمو نائک کا کہنا ہے کہ ان کے جسم میں اتنی طاقت نہیں بچی کہ جنگل میں جا کر پتے اکٹھا کرکے انہیں بیچیں اور کھانا خرید سکیں

Most Sabar Adivasi villages are located deep inside forests of Jhargram, West Medinipur, Purulia and Bankura
PHOTO • Ritayan Mukherjee

زیادہ تر سبر آدیواسیوں کے گاؤں جھاڑ گرام، مغربی میدنی پور، پرولیا اور بانکورہ کے جنگلات کے کافی اندر ہیں

مترجم: محمد قمر تبریز

Ritayan Mukherjee

Ritayan Mukherjee is a Kolkata-based photographer and a PARI Senior Fellow. He is working on a long-term project that documents the lives of pastoral and nomadic communities in India.

Other stories by Ritayan Mukherjee
Editor : Priti David

Priti David is the Executive Editor of PARI. She writes on forests, Adivasis and livelihoods. Priti also leads the Education section of PARI and works with schools and colleges to bring rural issues into the classroom and curriculum.

Other stories by Priti David
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique