’’ہر سال گرمیوں میں ہم ایک مہینے کے لیے یہاں آتے ہیں، تاکہ کچھ پیسے کما سکیں،‘‘ شانتی کہتی ہیں، وہ اپنے رنگین دوپٹے کو اپنی پیشانی کے قریب کھینچ کر درست کرتی ہیں اور اپنے نو سالہ پوتے امرجیت کو راون ہاتھا بجانا جاری رکھنے کے لیے کہتی ہیں۔ ’’بجاؤ، بجاؤ،‘‘ وہ اس سے کہتی ہیں۔ وہ دھنُش (کمان) کو راون ہاتھا کے تاروں پر گھماتا ہے، لیکن بغیر کسی جوش کے۔

شانتی اور امرجیت (اوپر کور فوٹو میں) سے ہماری ملاقات پہاڑ کی ایک چوٹی پر جاتے وقت راستے میں ہوئی؛ وہ دونوں ہماچل پردیش کے مکلائڈ گنج سے تقریباً تین کلومیٹر دور، نڈی گاؤں میں سڑک کے کنارے ایک اونچی جگہ پر بیٹھے ہوئے ہیں، دھرم شالہ سے تھوڑا اوپر۔

شانتی تھوڑا شرماتے ہوئے ہم سے کہتی ہیں کہ ’’اس لڑکے کے [امرجیت کے] دادا راون ہاتھا بہت اچھا بجاتے ہیں، لیکن آج وہ بیمار ہیں، اس لیے نہیں آ سکے۔ ہم نے ہمیشہ اس آلہ موسیقی کو بجایا ہے اور گانے بھی گائے ہیں۔ لیکن میرا پوتا اسے [بجانا] پسند نہیں کرتا ہے۔ آج کل، وہ کہتے ہیں کہ بچوں کو پڑھائی کرنی چاہیے۔ اس لیے یہ اسکول جاتا ہے [ہمارے گاؤں میں]۔‘‘

تم کس کلاس میں ہو، میں امرجیت سے پوچھتی ہوں۔ ’’چوتھی میں،‘‘ وہ مسکراتے ہوئے جواب دیتا ہے۔

راون ہاتھا – لغوی معنی، ’راون کا ہاتھ‘ – دو تاروں والا ایک آلہ موسیقی ہے۔ اس کے ایک جانب کٹوری نما ناریل کا خول لگا ہے، جس پر بکری کی کھال چڑھی ہے۔ بجانے والا اسے درمیان سے، ناریل کے خول کے سرے کی طرف سے پکڑتا ہے اور بانس کی لمبی چھڑی کو باہر کی جانب نکال دیتا ہے۔ لمبائی کے ساتھ ایک تار دھات کا اور دوسرا جانوروں کے بالوں سے بنا ہوا ہے۔ موسیقی بجانے کے لیے کمان کو اس کے اوپر گھمایا جاتا ہے۔

اگر قسمت نے ان کا ساتھ دیا، تو تیز رفتار گاڑیوں سے جاتے ہوئے سیاح باہر نکل آئیں گے، یا جو لوگ پیدل چل رہے ہیں وہ تھوڑی دیر کے لیے رک کر سنیں گے، اور انھیں پیسے دے دیں گے

ویڈیو دیکھیں: راجستھان سے ہماچل تک، راون ہاتھا بجاتے ہوئے

اس آلہ موسیقی کا ذکر رامائن میں کیا گیا ہے۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ راون نے بھگوان شیو کو خوش کرنے کے لیے اپنے ۱۰ میں سے ایک سر، اپنی بازو اور اپنے کچھ بالوں سے راون ہاتھا بنایا تھا۔ ہنومان تب اسے لنکا سے بھارت لائے تھے۔ جغرافیہ اور وقت کے پہیہ کو جوڑتے ہوئے، سری لنکا کے ایک موسیقار اور سارنگی بجانے والے دِنیش سبا سنگھے، مبینہ طور سے اس آلہ موسیقی کو دوبارہ زندہ کر رہے ہیں، اور انھوں نے اپنے کئی نغموں میں اس کا استعمال کیا ہے۔

راجستھان میں، مقامی موسیقار، جن میں سے کئی خانہ بدوش قبائل کے ہیں، راون ہاتھا بجاتے ہیں۔ زرعی مزدوری کرنے والا شانتی کا کنبہ، ریاست کے مارواڑ علاقے کے ناگور ضلع کے منڈوا گاؤں میں رہتا ہے۔ اپنے بیٹے راجو، اپنے شوہر، اپنی بہو سُکلی، اور اپنے پوتے امرجیت کے ساتھ، وہ ہر سال وسط اپریل میں ہماچل پردیش آتی ہیں اور وسط مئی تک رہتی ہیں، جب ان کے گاؤں میں کھیتی کا زیادہ کام نہیں ہوتا۔ وہ بس سے جودھپور آتے ہیں، وہاں سے پنجاب کے بھٹنڈا کے لیے ٹرین پکڑتے ہیں اور پھر بس سے دھرم شالہ پہنچتے ہیں۔ ایک طرف کے اس سفر میں ان کا ۳۰۰ روپے فی کس خرچ آتا ہے۔

دھرم شالہ پہنچنے کے بعد وہ کہاں قیام کرتے ہیں؟ ’’ہم ۲۵۰۰ روپے ماہانہ کرایے پر ایک کمرہ لیتے ہیں۔ ہم پانچوں وہیں رہتے ہیں اور اپنا کھانا بھی وہیں پکاتے ہیں۔‘‘ ہندی فلم کے گانے کی دُھن بجا کر، یہ موسیقار کسی متعینہ دن میں، ۴۰۰ سے ۵۰۰ روپے تک کما سکتے ہیں۔ آج، وہ دو گروہوں میں تقسیم ہو گئے ہیں: شانتی اور امرجیت ایک مقام پر اور راجو اور ان کی بیوی سُکلی دوسرے مقام پر۔

دھولا دھر پہاڑی سلسلہ کے دلکش اور بودھ مٹھوں کے حسین نظاروں سے سیاحوں کی توجہ اپنی جانب متوجہ کرنا ان موسیقاروں کے لیے آسان کام نہیں ہے، جو سیاحتی مقامات کی سیر کے لیے کار، ٹیکسی یا موٹر سائیکل سے سنسناتے ہوئے انھیں پیچھے چھوڑ کر نکل جاتے ہیں۔ ہر دن، وہ ایک مقررہ مقام پر، عام طور پر کسی مشہور سیاحتی مقام تک جانے والے راستے میں یا اس مقام کے بالکل پاس، اپنا آلہ موسیقی بجاتے ہیں۔ اگر قسمت نے ان کا ساتھ دیا، تو تیز رفتار گاڑیوں سے جاتے ہوئے سیاح باہر نکل آئیں گے، یا جو لوگ پیدل چل رہے ہیں وہ تھوڑی دیر کے لیے رک کر سنیں گے، اور انھیں پیسے دے دیں گے۔

A man and his wife sitting on the side of the road in the moutains. the man is holding an instrument called ravanahatha in his hands
PHOTO • Namita Waikar

امرجیت، منجو اور ان کے دو سالہ بیٹے راجو سے ہماری ملاقات نامگیال مٹھ کی طرف جانے والے راستے میں ہوئی

راجستھانی مہاجروں کے ایک دوسرے کنبہ سے ہماری ملاقات نامگیال مٹھ کی طرف جانے والی سڑک پر تسُگلاگ کھانگ احاطہ میں ہوئی، جس کے اندر دلائی لامہ کا گھر ہے۔ اس کنبہ میں بھی ایک امرجیت ہے، لیکن وہ راون ہاتھا پر سریلی موسیقی بجاتا ہے۔ اس کی بیوی منجو اور ان کا دو سال کا بیٹا راجو، اس کے بغل میں ہرے رنگ کی پلاسٹک شیٹ پر بیٹھا ہوا ہے۔ ان کے سامنے رکھی اسٹیل کی پلیٹ میں ۱۰ روپے کے کچھ نوٹ اور کچھ سکے ہیں – جو وہاں سے گزرنے والے سیاحوں سے ہوئی اب تک کی ان کی کمائی ہے۔ ان کے پیچھے کچھ قدم کی دوری پر سڑک کا کنارہ، کانگڑہ وادی کی کھڑی ڈھلان میں گرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

امرجیت اور منجو بھی زرعی مزدور ہیں اور راجستھان کے شری گنگا نگر ضلع کی گوماباری بستی کے رہنے والے ہیں۔ اس سال انھوں نے، اپنے گھر سے دھرم شالہ تک کے واپسی کے سفر کے لیے تین لوگوں کے کرایے پر ۱۲۰۰ روپے خرچ کیے ہیں۔ یہاں پر ان کے کمرے کا ماہانہ کرایہ ۳۰۰۰ روپے ہے۔ ’’ہم کمرے میں بجلی کے ہیٹر پر کھانا پکاتے ہیں۔ ہم کھانے پینے کی چیزیں اپنے ساتھ لے کر آئے ہیں، اس لیے ہمیں یہاں زیادہ خرچ نہیں کرنا پڑے گا،‘‘ منجو کہتی ہیں۔ تقریباً ۵۰۰ روپے کی یومیہ آمدنی میں سے اپنے سفر اور رہائش پر ہوئے خرچوں کو کاٹنے کے بعد، وہ ایک مہینے میں تقریباً ۱۰ ہزار روپے کما لیتے ہیں۔

گنگا نگر واپس جانے کے بعد ہم وہاں کھیت مجوری کریں گے،‘‘ امرجیت تھوڑے جوش سے کہتے ہیں۔ جیسے ہی سیاح ارد گرد جمع ہونے لگتے ہیں، وہ بات کرنا بند کر دیتا ہے۔ پھر وہ اپنی کمان کو راون ہاتھا کے تاروں پر گھماتا ہے اور ہندی فلم کے ایک مشہور نغمہ کی دھن بجانے لگتا ہے۔

پردیسی، پردیسی، جانا نہیں

مجھے چھوڑ کے...

بے دلی سے، ہم وہاں سے چل پڑتے ہیں۔

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Namita Waikar is a writer, translator and Managing Editor at the People's Archive of Rural India. She is the author of the novel 'The Long March', published in 2018.

Other stories by Namita Waikar
Translator : Mohd. Qamar Tabrez

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez